طالب زدہ ….قسط 7
یہ قسط شروع کرنے سے پہلے آپ تمام دوستوں سے معذرت خواہ ہوں کہ بہت لیٹ پوسٹ کی، جس کی ایک وجہ تو شروع کے ایک ہفتہ میں میرا اکاونٹ بلاک ہوگیا تھا اور دوسری مجبوری کام میں کچھ زیادہ ہی مصروفیت ، لیکن اس سے ،بھی بڑی وجہ آج کل کے ملکی حالات -کہ امن و سلامتی کہلانے والے مذہب کی سربلندی کے لیے آگ و خون کی جو ندیاں بہائیں جا رہی ہیں اس میں کسی بھی حساس بندے کے وہی جذبات ہوتے ہیں جو میرے ہیں ، کہ دل کرتا ہی نہیں کہ بندہ کچھ لکھے ، پڑھے، سمجھے ، آپ لاکھ چاہیں کہ اس وطن سے رشتہ ٹوٹے ، اس کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیں، لیکن آپ چاہتے ہوے بھی نہیں کرسکتے ، پتہ نہیں کیا ہے اس دھرتی میں جو ہمیں اتنا کھینچتی ہے ، رلاتی ہے ، جوڑھے رکھتی ہے ..قسم سے نہیں پتہ
سیدھا آتے ہیں روداد کی جانب
میں پچھلی قسط میں تھوڑی بہت وضاحت کرچکا ہوں کہ کس طرح میرا ذہن اس جنونی کیفیت سے آزاد ہورہا تھا لیکن وہ ایک چھوٹی وجہ تھی ،ہونی تو بہت بڑی چاہیے تھی لیکن چھوٹی اسلیے کہ جس ماحول سے میرا تعلّق اور رابطہ تھا اس ماحول میں عقلی اور مدلّل تبدیلی کا اچانک سے آنا نا ممکن تھا اور ہے ، کیونکہ جب بھی میں ہفتے سے زیادہ کی چھٹیوں پر گاوں جاتا تھا تو کم سے کم تبلیغی سہ روزہ تو لگانا پڑھتا تھا ، اور اب جبکہ میں نے شیو بھی کی تھی تو اسلیے اس غیر اسلامی حرکت کی مجھے کافی قیمت چکانی پڑھی تھی خصوصاً فیملی کی طرف سے ، مَثَلاً مجھے تبلیغ میں زیادہ سے زیادہ بھیجھا جاتا اور دادا کی زیر نگرانی حفظ شدہ قران کی زیادہ سے زیادہ گردان کرنی ہوتی مدرسہ جا کر ،اور میرے مدرسہ کے دوست اور کچھ غیر ضروری مذہبی رشتہ دار تو مجھے مرتد کہتے تھے
لیکن ایک اچھی تبدیلی دادا کے مزاج میں یہ آئی تھی کہ وہ میری دنیاوی تعلیم کے بارے میں بھی کافی سنجیدہ ہوگئے تھے جس کا فائدہ مجھے یہ ہوا کہ اگر میں کبھی چھٹیوں پر کسی بھی وجہ سے گاوں نہ بھی آتا تو ٹیوشن یا کسی اور تعلیمی سرگرمی کا بہانہ بنا لیتا تھا ،
جیسا کے میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ میں اپنے ”عشق” کی وجہ سے کچھ نہ کچھ باغیانہ حرکتیں کرچکا تھا جس کی وجہ سے میرے اندر کچھ تبدیلیاں آئیں تھیں جیسے موسیقی کا شوق ، لڑکیوں میں دلچسپی لینا ، سینما جانا وغیرہ وغیرہ ، لیکن یہ احساس ندامت بحرحال تھا کہ میں ایک غیر اسلامی کام کررہا ہوں لیکن انہی غیر اسلامی سرگرمیوں کی وجہ سے میرا دھیان کچھ نہ کچھ اس طرف چلا گیا کہ دنیا میں جہاد ، تبلیغ ، اور قاری صاحب کے علاوہ بھی اور بہت سی چیزیں ہیں جنکو کرنے اور جاننے میں مزہ ہے ،
طالبان کا ذکر شروع کرنے سے پہلے میں یہاں بتا دوں کہ جن دوستوں نے ان باکس میں واقعات ،علاقہ ، تواریخ یا میرے علاقہ کے مشران کے بارے میں پوچھا اور چیلنج کیا ہے تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اس روداد میں میں اپنی شناخت چھپانے کی غرض سے یہ غیر ضروری چیزیں خفیہ رکھ رہا ہوں ، لیکن اگر کسی بھی صورت کچھ ایسی انہونی ہوجاتی ہے تو میں نے اپنی شناخت اور اس قصّے سے متعلق تمام ٹھوس معلومات اپنی ایک ویڈیو میں محفوظ کر لی ہیں جو کہ میرے ایک قریبی دوست کے پاس ہے تو امید ہے میری شکل دیکھنے کے بعد آپ اس کہانی سے متعلق سواء مذکورہ تاریخ کے کسی چیز کو جھٹلا نہیں پاینگے ، لیکن فلحال پردے کے پیچھے ٹھیک ہوں ،
جیسا میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ امریکا کے افغانستان پر حملے کے بعد بھی پاکستانی طالبان کا کوئی خاص وجود ہمارے علاقے میں نہیں تھا ، اور وجود سے میری مراد انکا تنظیمی ڈھانچہ ، اور ان کی کار وائیاں ….یہ چیز شروع ہوتی ہے ٢٠٠٥ء کے وسط سے ، ہمارے علاقے میں جو عربی رہ رہے تھے وہ صرف افغانستان تک ہی محدود تھے ، وہ صرف یہاں رہتے تھے اور بس ،
ہمارے علاقے میں جہاد صرف تقریروں تک عام تھی ، یعنی ہر گھر سے تقریباً ایک بندہ کسی نہ کسی طور جہاد کر چکا تھا لیکن ہمارے علاقے میں کوئی ایسی کاروایی یا سرگرمی نہیں ہوئی تھی جس نے ہمارے رواج یا روزمرہ زندگی کے کسی شعبے کو متاثر کیا ہو ، لیکن اس دوران جہادی بخار بہت تیز ہوگیا اور کچھ لڑکے جو کہ تازہ تازہ افغانستان سے آیے تھے، نے ایک مہم شروع کی کہ ہماری علاقائی طور پر بھی ایک تنظیم ہونی چاہیے ، جو کہ علاقائی سطح پر دین کی ترویج اور غیر اسلامی رسم و رواج کے خاتمے کی کوشش کرے ،
اس کوشش کو بہت پزیرائی ملی اور لوگوں نے اس کو کھلے دل سے قبول کیا اور سراہا جس میں اہم کردار تبلیغی جماعت کا تھا (تبلیغی جماعت کے کردار اور انکی منافقت پر آنے والی قسط میں کچھ نہ کچھ لکھونگا) ، لوگوں نے دل کھول کے چندے دیے اور ہر وہ سہولت جو انکو چاہیے تھی مہیا کی ، اور تھوڑے ہی عرصے میں یہ اتنی پھیلی کہ قریبی علاقوں میں اسکی رہنمایی میں ذیلی تنظیمیں بننے لگیں ،
یہاں یہ بات نوٹ فرما لیں کہ یہ میں تحریک طالبان پاکستان کے وجود میں آنے کی بات نہیں کررہا جو نیک محمّد اور بیت الله محسود نے بنایی تھی ،وہ اس سے پہلے بن اور کافی حد تک منظّم بھی ہوچکی تھی ، گو کے ہمیں بعد میں پتہ -چلا کہ ہماری یہ والی تنظیم بھی تحریک طالبان کے اشارے پے ہی بنی تھی
پختون اور قبایلی رواج کا ایک خوبصورت اور اہم ستون جرگہ ہے ، اس کے فایدے اور نقصانات ایک الگ بحث ہے لیکن یہ ہمارے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے مسلے کا جایز اور نا جایز حل ہوتا ہے اور ہر بندہ اس کے کیے گئے فیصلے کا من و عن تسلیم کرنے کا پابند ہوتا ہے ، لیکن مجموعی طور پر جرگہ ہمارے اکھٹا ہونے کی طاقت ہوتا ہے ، اور اسی لیے اس تنظیم نے اپنا پہلا ہدف اسی کو بنایا ، اس کے غیر اسلامی ہونے اور ناجایز فیصلوں کو بنیاد بنا کر اس اس نظام کو ختم کرنے کی مہم شروع کی ، اور چونکہ یہ کافی مضبوط ہوچکے تھے تو اسلیے پورے علاقے میں اس کمپین کو کامیاب بنانے میں انکو کوئی مشکل پیش نہ آئ، اور ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی تبلیغیوں نے انکا بھرپور ساتھ دیا ،
قبایلی جرگہ میں جو مشران فیصلہ کرتے انکی شرایط اور فیس بہت زیادہ ہوتی ہے اور اسی وجہ سے اکثر فیصلے غریب بندے کے خلاف ہی جاتے ہیں ، تو اس تنظیم نے پہلا کام یہ کیا کہ قران و سنّت کے مطابق عام آدمی اور گراس روٹ لیول پر بغیر فیس اور ٹائم لیے فیصلے اور جرگہ کرنے شروع کیے جس کو بہت ہی زیادہ پذیرائی ملی اور مقامی ملکان اور مشران کو یہ مداخلت پسند نہیں آئ، ملکان نے ان کے خلاف ایک کمزور سی آواز اٹھائی لیکن جلدی دب گئی کیونکہ پورے علاقے میں اس نیے نظام کو زبردست حمایت حاصل ہوگئی تھی اور یوں اس تنظیم نے علاقائی سطح پر اپنے لیے بےشمار ہمدرد پیدا کیے، قریبی علاقوں میں اسکی ذیلی تنظیمیں بنیں اور مقامی امیر تعینات ہوے اور ان کا ہیڈ کوارٹر ہمارا علاقہ ٹہرا ،
اور یہاں سے پھر ایک مضبوط بنیاد ملنے کے بعد انہوں نے اپنی عملی جہادی سرگرمیوں کا آغاز کیا ، پہلے تو تحریک طالبان پاکستان کا حصّہ ہونے کے اقرار کا اعلان کیا جس پر اہل علاقہ کو کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ تب تک تحریک طالبان اس حد تک نہیں گئے تھے جتنا آج ہیں ، اور دوسرا اعلان کیا کہ ہم اس علاقے میں مقامی طور پر جہادی ٹریننگ کا آغاز کررہے ہیں جس میں وہ عرب بھی شامل ہوگئے جو ابھی تک کسی بھی طور ہمارے کسی علاقائی سرگرمی سے لا تعلق تھے
میں ایک ہفتہ کی چھٹی پہ گاوں آیا تھا ، صبح مسجد میں نماز پڑھنے آتے ہوۓ ہمارے ایک پڑوسی نے کہا کہ اس کے گھر کے ساتھ گزرتی سڑک سے کچھ فاصلے پر ایک کھیت میں لاش پڑھی ہے ، ہم سب چونک گئے کیونکہ یہ ایک انوکھا اور عجیب انکشاف تھا ، مولوی صاب نے کہا کہ پہلے نماز پڑھتے ہیں پھر جا کے دیکھتے ہیں ،
نماز کے بعد جب وہاں گئے تو دیکھا کہ ایک لاش پڑھی تھی جس کو ذبح کیا گیا تھا ، یہ ایک انتہائی دل خراش منظر تھا ، کیونکہ علاقے میں تو دور ، میں نے کبھی سنا بھی نہیں تھا کہ کبھی کسی نے کسی کو ذبح کیا ہو ، لیکن خیر اس دن ہم نے پورے علاقے کے مسجدوں میں اعلانات کرواۓ اس لاش کی شناخت کے لیے لیکن اسکا کوئی جاننے والا نہ ملا ، تو اسلیے رات کو ہم نے اسے دفن کیا ،
دوسرے دن نماز کے بعد ایک اور سنسنی یہ سننے کو ملی کے رات کو جس بندے کو دفن کیا تھا اس کی قبر کھود کے لاش کو نزدیک ایک درخت سے الٹا لٹکا دیا گیا ہے اور ساتھ میں یہ پرچی پڑھی ہے کہ ”یہ ایک امریکی جاسوس تھا جو کہ مجاہدین کے خلاف جاسوسی کرتا تھا ” اسلیے اسکو دفن کرنا زمین پر بوجھ ڈالنا ہے ، اسکو ایسا ہی رہنے دیا جائے ” اوپر لکھا تھا تحریک طالبان پاکستان ”
یہ پہلی کاروائی تھی طالبان کی ہمارے علاقے میں ..لیکن اس کی ذمّہ داری ہمارے مقامی تنظیم نے قبول نہیں کی جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ لوگوں کا رد عمل دیکھنا چاھتے تھے ،
اس واقعے سے ایک بحث چڑھ گی جس میں تقریباً ٨٠ فیصد لوگوں کی راۓ طالبان کی حمایت میں تھی ،
اور یوں ایک مہینہ کے اندر تحریک طالبان نے ہمارے علاقے میں اسی مقامی تنظیم کے ساتھ مل کر اپنا ایک باقاعدہ مرکز بنا لیا
پہلے چند مہینوں میں طالبان لوگوں کا اعتماد جیتنے میں مکمّل طور پر کامیاب رہے ، کیونکہ ہمارے علاقے میں چند ایک جگہیں ایسی تھیں جہاں جوا ہوتا اور پشاور اور گرد و نواح سے چوری ہوئیں گاڑیاں ادھر آتیں تھیں تو طالبان نے انکو پکڑ کر منہ کالا کر کے پورے علاقے کا چکر لگایا تھا –
طالبان اور ای ایس ای کے تعلق ، اور اس میں کسی اور ملک کی ممکنہ کردار پر آگے اگلی قسط میں بات کرونگا ، بات کیا بس ایک دو واقعات بیان کرونگا جس سے آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نہ صرف افغانی ، بلکہ پاکستانی طالبان کے روح رواں بھی ہماری اسٹیبلشمنٹ ہے ، یا شاید تھی ،-
ہمارے علاقے سے کچھ فاصلے پر ایک بہت ہی بدنام زمانہ چور/ڈاکو/لٹیرا تھا ، پاکستان کی تقریباً ہر بڑی ڈکیتی میں اسکا نام اور ہاتھ تھا ، طالبان نے اسکو پیغام بھیجھا کہ یہ سب ختم کرو ، چونکہ اس کے پاس افرادی قوت اور وسائل بھی بہت تھے اور دوسرا طالبان بھی کوئی اتنا بڑا نام نہیں تھا ابھی تو اس نے انکار کردیا ،
طالبان نے اس پر حملہ کردیا ، اور اس کو مار کر اس کے پاس جتنا سامان تھا ، مال غنیمت کے طور پر لے اے ، لیکن لوگ حیران تھے کہ اتنے تھوڑے بندوں کے ساتھ طالبان نے اتنی جلدی اتنی بڑی کاروائی کیسے کی ، ..کیونکہ جتنے بھی مین مورچے اور پہاڑ تھے وہ سارے اس ڈاکو کی ملکیت تھے اور افراد کے لحاظ سے بھی اس کی اپنی ہی بٹالین تھی …لیکن مجھ سمیت تقریباً بہت سے لوگ اور طالبان ببانگ دھل اسے جنگ بدر سے تشبیہ دے رہے تھے ..لیکن ٢٠٠٩ میں اسی علاقے کے ایک ایف سی کے بندے نے مجھے مکمّل یقین کروایا کہ وہ آپریشن ایف سی اور کمانڈو سنایپرز نے کیا تھا-
جس رات بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا تھا ، اس رات طالبان نے مقامی مساجد سے فتح کے اعلانات اور لوگوں کو شکرانے کے نوافل پڑھنے کو کہا تھا کہ آج اسلام کی ایک بہت بڑی دشمن جہنّم واصل ہوگئی ہے اور مجاہدین کو الله نے ایک اور بہت بڑی کامیابی دے دی ہے
پھر یهھھھھھھھھھھہ فائرنگ …فائرنگ …خوشی کی فائرنگ
طالب زدہ-قسط 6
https://lubpak.com/archives/257265
طالب زدہ–قسط 5
https://lubpak.com/archives/257271
طالب زدہ-قسط 4
https://lubpak.com/archives/257277
طالب زدہ -قسط 3
https://lubpak.com/archives/257285
طالب زدہ -قسط 2
https://lubpak.com/archives/257291
1طالب زدہ – قسط
Comments
Tags: Religious extremism & fundamentalism & radicalism, Sipah-e-Sahaba Pakistan (SSP) & Lashkar-e-Jhangvi (LeJ) & Ahle Sunnat Wal Jamaat (ASWJ), Takfiri Deobandis & Wahhabi Salafis & Khawarij, Taliban & TTP
Latest Comments
Excellent.. Keep writing.