طالب زدہ -قسط ٣
میں اگر دوبارہ سے یہ قسط آپ سب کا شکریہ ادا نہ کر کے شروع کروں تو بہت زیادتی ہوگی کیونکہ ان تین دنوں میں جتنی محبتیں آپ سے ملی ہیں ، پوری تیس سالہ زندگی میں اتنا اخلاص نہیں دیکھا ، اور اس کے ساتھ ساتھ اس شخص کا بھی جو کہ اپنا نام یہاں دیکھ کر کمینٹ نہیں کریگا اسلیے نام نہ لینے میں ہی سکون ہے ، کیونکہ وہ خود اور میں بھی بہت سے سمجھ گئے ہونگے کہ کون ہے ؟
پچھلی قسط میں ہم بات کررہے تھے اس وحشی پن کی جو میری آنکھوں نے دیکھا ، دل نے محسوس کیا اور اور کسی حد تک بدن نے برداشت کیا ،اور اسکو لکھتے وقت میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ لوگ اس پہ یقین کریںگے یا نہیں؟ لیکن آپ کے رسپانس کو دیکھ کر تو احساس ہوا کہ مٹی کا تیل تو پہلے سے ہی چھڑکا ہوا تھا، بس تیلی جلانے کی دیر تھی-اس قسط میں میں دین کی آڑ میں ہونے والے اس جبر کا تذکرہ کرنا چاہونگا جسکا جہاں تک مجھے پتا ہے آپ کو بھی
اندازہ ہے لیکن چونکہ میں ان سب حالات کا چشم دید گواہ ہوں تو اسلیے امید کرتا ہوں کہ آپ کو بہتر طریقے سے وضاحت کر پاونگا-
یہاں ایک وضاحت یہ بھی کرنا چاہونگا کہ ہم پٹھانوں کے بارے میں ہم جنس پرستی یا لڑکوں کے ساتھ زنا کی جو بات مشہور ہے وہ ہمیشہ سے ہی مجھے بہت بری لگی ہے لیکن اس میں حقیقت صرف اتنی ہی ہے کہ ہمارے ہاں خصوصاً قبایلی علاقوں میں عورتوں کا پردہ کرنا مذہب سے بھی پہلے آتا ہے اور اوپر سے جنوں کی حد تک مذہبی اقدار کی اطاعت اور وہ بھی دیو بندی والا تو یہ پابندیاں کسی حد تک اس شوق کو ہوا دیتی ہیں –
میں اپنے پٹھان ہونے پی فخر کرتا ہوں لیکن شاید میرے اس اقرار پر مجھ سے میرے پختون بھی ناراض ہوں کیونکہ مجھے یقین مانیے کہیں اور کا اتنا زیادہ نہیں پتہ لیکن میں جس مدرسہ میں پڑھتا تھا اس کے چاروں قاری اور ہر وہ لڑکا جو کہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ عمر بلوغت کو پہنچ گیا ہو کسی نہ کسی طور اس ہم جنسی میں شوق رکھتا تھا -اور کسی نہ کسی طور سے میری مراد ایسے چند زاویےہیں جو کہ شاید آپ کے لیے بھی نے نہ ہوں –
اس میں جو سب سے عام خصلت تھی وہ یہ تھی کہ اکثر دو لڑکے آپس میں ایک دوسرے کو پسند کر لیتے تھے اور انکی یاری چل رہی ہوتی تھی لیکن سیکس نہیں ہوتا تھا صرف کسسنگ اور رومانوی کہانیوں کی طرح کے پیار بھری باتوں اور ملاقاتوں سے دل بہل جاتا تھا –
دوسری قسم وہ تھی جو کہ آنکھوں ہی آنکھوں میں اپنا ہمنوا پہچان لیتے تھے اور با قا عدہ ایک دوسرے کی رضا مندی سے کسی طےشدہ خفیہ مقام پہ ایک دوسرے کی بجا کے مطمین واپس آتے تھے –
تیسری اور سب سے خونخوار قسم وہ تھی جس میں بڑے یا سینئرز اپنے جونیئرز کو کسی نہ کسی طرح پھنسا کر کافی عرصے تک انکا استحصال کرتے رہتے -اس زمرے میں وہ چاروں قاری سب سے پہلے آتے ہیں ، کیونکہ مدرسہ میں جو بھی خوبصورت لڑکا آتا تو اگر حفظ میں داخلہ ہوتا تو ادھر والے اور اگر ناظرہ ، قاعدہ میں داخلہ ہوتا تو اس طرف والے قاری کی چھریاں تیز ہونا شروع ہو جاتیں ،خوبصورت لڑکوں کو حتیٰ ال وست سب سے الگ بٹھایا جاتا جو کہ ان میں اور بھی غرور اور باقیوں میں مزیدطلب کو بڑھاوا دیتی تھی ، اور اسی لیے ان تک رسایی ہم جیسوں کا صرف خواب ہی رہا تھا –
پانچ چھ ہی تھے پر پھر بھی انکو خصوصی ہدایات تھیں کہ سارے معاملات وہ صرف مطلوبہ قاری صاحب تک ہی محدود رکھیں –
گرمیوں کی چھٹی میں ہمارے اوقات مدرسہ تھوڑے طویل ہوجاتے تھے ، ہمیں صبح کے ناشتہ گھر میں کرنے کے لیے ایک گھنٹہ کا ٹائم دیا جاتا اور اس کے بعد واپس آ کے دوبارہ مزید ٣ گھنٹے مدرسہ میں گزارنے ہوتے ، اس طوالت سے اکثر لڑکے بری الزمہ تھے مختلف وجوہات کی بنا پر لیکن پھر بھی اچھی خاصی تعداد آتی تھی ، اس دوران اکثر سبق کم اور مدرسہ اور مسجد کی صفایی زیادہ ہوتی تھی ، ہمارے حفظ کے افغانی قاری صاحب کا کمرہ مدرسہ سے منسلک چھوٹے سے مسجد میں تھا (حصّہ وہ بھی اسی مدرسے کا تھا لیکن اکثر مواقعوں پر اس چھوٹے حصّے میں عورتوں کے لیے تعلیم یا تقاریر کا اہتمام ہوتا تھا ) ، ایک دفع انھوں نے دو لڑکوں کو حسب معمول اپنے کمرے کی صفایی کے لیے بھیجا ، ان دنوں میں میری حفظ مکمّل ہو چکی تھی اور میں گردان کرتا تھا کیونکہ حفظ کے بعد ان کے کلیے کے مطابق اگر آپ 120 دفع لگاتار قران کی گردان ایک سال میں مکمّل کرلو تو عمر بھر قران نہیں بھولے گا ،
تو میں گردان کررہا تھا اور جب اس دن کی گردان ختم ہوئی تو قاری صاحب نے کہا کے جاؤ اور میرے کمرے سے (ایک خاص قسم کی ہومیوپتھک جو کہ وہ ہمیشہ کھاتے تھے ) گولیاں لے کے آو- جب آپ عمر کے اس حصّے اور اس ماحول میں ہوں جہاں میں تھا تو فطرتاً آپ کے ذہن میں بھی وہی خیال آنا تھا جو میرے ذہن میں آیا ، کہ جب قاری صاحب نے ان دونوں کو کمرے کی صفایی کے لیے بھیجھا تو کمرے کی صفایی کے لیے کمرے کے دروازے کے بند ہونے کا کیا منطق؟
تجسّس .اور جیسے ہی دھبے پاؤں جا کر زور سے دروازہ کھولا (نشے میں میں آنکھوں پی پٹی ایسی بندھی کہ دروازہ بھی نہیں بند کیا ہوا تھا یا شاید ہوشیاری کی ہو کے بند دروازے پر کسی کو شک نہ ہو ) تو صرف شلوار نیچے کر کے ہی ماحول بنا ہوا تھا ، اور قسمیں اور وعدے دے کر آج یہ قصّہ آپ کے سامنے بیان کررہا ہوں ورنہ آج تک اس وعدے کی لاج رکھے ہوے تھا –
ایک دفع ہم 4 لڑکے قاری صاحب کے ساتھ محفل شبینہ گئے ہوے تھے جس میں دو لڑکوں نے شروع کے پاروں میں دو دو پارے پڑھے اور سو گئے ، ایک کا نمبر بلکل آخر میں آنا تھا جو کہ صبح کے قریب تھا تو اسلیے وہ بھی سو گیا جبکہ مجھے بیچ والے پاروں میں سے دو پڑھنے تھے تو میں جاگ رہا تھا ، جس علاقے میں ہم گئے ھوے تھے وہ علاقہ کافی ٹھنڈا تھا اور سردی بھی زوروں پر تھی تو ہم چونکہ ایک طرح سے مہمانوں کے کھاتے میں بھی آتے تھے تو ہمارے لیے الگ الگ بسترے لگے ھوے تھے ،
مجھے سخت نیند آ رہی تھی لیکن جاگنا پڑھ رہا تھا تو کبھی گردان کرتا تھا ، کبھی چاے سے کام چلاتا اور کبھی ادھر ادھر ٹھل کر ، لیکن وہاں کے مہتمم کو احساس ہوا تو انھوں نے مجھے کہا کہ آپ بستر میں جاؤ جب آپ کا ٹائم نزدیک ہوگا تو میں آپ کو بلا لونگا ، غنیمت جان کر شکریہ ادا کرتے ھوے جس کمرے میں بسترا لگا ہوا تھا ادھر چل پڑھا تو آھستہ سے دروازہ کھول کر اپنے بسترے میں گھس گیا ،
تھوڑی دیر بعد میرے سرہانے والے بسترے سے ایک دوست نے میرے سر پر آھستہ سے تھپکی دی جسکی مجھے سمجھ نہیں آی، دو تین بار جب دی تو مجھے شک ہوا ، اتنے میں مجھے ساتھ والی چارپایی سے بہت ہی آھستہ اور سلو آواز محسسوس ہوئی کہ جیسے تکلیف سےکوئی کراہ رہا ہو لیکن کمال آھستہ سے ، شیطانی دماغ تو تھا ہی، تھوڑا سوچا اور تھوڑی توجہ دی تو لگا کے بستر میں کچھ کالا ہے، پر کون کون کالا ہے یہ معلوم کرنا تھا ، صبح پتہ چلا کہ قاری صاحب پہلے سنانے والوں میں سے ایک کی کلاس لے رہے تھے ،
مختصراً یہ کہ ایک دفع انہی قاری صاحب نے اس مخصوص تبلیغی سلیپنگ بیگ میں میرے ایک دوست کے ساتھ دو دو ہاتھ کیے تھے کاش اگر مجھے اپنی شناخت چھپانی مقصود نہ ہوتی تو میں آپ کو باقاعدہ مذکورہ ہر علاقے ، لڑکے ، قاری، مدرسہ اور تاریخ بتا دیتا لیکن پھر وہ قتل کردینگے مجھے ، کیونکہ ان میں سے اکثر آج کل فتویٰ دینے والے جب کہ باقی سارے گردن کاٹنے والے بن گئے ہیں ..سو اسلیے میں ڈرتا ہوں، بہت ڈرتا ہوں ،
نوٹ
یہاں آپ میں سے بہت سوں کو یہ لگ رہا ہوگا کہ ضرور یہ بھی یہ چیزیں کرتا ہوگا پر بتاتا نہیں، تو یقین مانیے آپ کوئی میرے گھر نہیں آنے والے نہ آپ سے کوئی ملاقات ہونی ہے تو مجھے آپ کو بتانے میں کوئی شرم یا جھجھک نہیں ہوتی لیکن مجھے شروع ہی سے عورتوں میں دلچسپی رہی ہے اور کافی کے ساتھ تعلقات پہلے بھی رہے ہیں اور اب بھی ہیں –
طالب زدہ -قسط ٢
https://lubpak.com/archives/257291
طالب زدہ – قسط ١
https://lubpak.com/archives/257297
Comments
Tags: Religious extremism & fundamentalism & radicalism, Sectarianism, Takfiri Deobandis & Wahhabi Salafis & Khawarij, Taliban & TTP, Terrorism
Latest Comments
Church has learnt its lessons and now trying to fix these issues or forced to at least appologise. May be in next fifty years people will start fixing these seminiries too.
Ye Raz Kisi Ko Nahin Mallom Kay Mullah
Qari Nazar Aata Hai Haqiqat Main Hai Shaitaan
Har Lehza Hai Qari Ki Nai Shaan Nai Aaan
Guftar Main Kirdar Main Shaitaan Hi Shaitaan
@Kafir
Baat to sahi hei laikan bari talk hei iss liaya munasib nahin.