طالب زدہ -قسط ٢

taliban-441x295

 قسط شروع کرنے سے پہلے تو آپ سب کا شکریہ کس منہ سے ادا کروں؟ نہیں پتا-پچھلی قسط میں مختصر تعارف ہوا تھا اور علاقے کے خد و خال پی تھوڑی بہت بات ہوئی تھی، اب آتے ہیں ان واقعات کی طرف جس کے لیے میں نے یہ کاوش شروع کی ہے –

جب مجھے دینی مدرسہ میں داخل کیا گیا تو وہاں کا ماحول میرے لیے اتنا زیادہ اجنبی اسلیے نہیں تھا کیونکہ ایک تو وہاں پر میرے رشتہ دار اور دوست کافی  تھے اور دوسرا یہ کہ جس علاقے سے میرا تعلّق ہے تو وہاں پر ماحول ہی ایسا ہوتا ہے کہ جیسے جیسے آپ بڑھے ہوتے جاتے ہیں تو آپ کو پتا لگ رہا ہوتا ہے کہ آپ نے آگے کیا بننا یا کرنا ہے -مثال کے طور پر آپ کو پتہ ہوتا ہے کہ پہلے پانچ  سال کی عمر تک پہنچو ، اس کے بعد کچھ سال اسکول اور مدرسہ اکٹھے جاؤ اور سولہ سے بیس سال کی عمر میں شادی کر کے عرب ممالک کا ویزا تقریباً آیا ہوا چاہتا ہے -تو جب میں مدرسہ داخل ہوا تو کچھ دن اس ماحول میں خود کو ایڈجسٹ کرنے میں لگے -آھستہ آھستہ جب تھوڑا بہت اعتماد بحال ہوا تو اپنے ارد گرد کی چیزوں کا ماینا کرنے لگا کہ زیادہ سے زیادہ آسانی کیسے اور کہاں پیدا کی جا سکتی ہے؟

اس مدرسے میں چار قاری تھے ،دو لوکل تھے، ایک افغانستان کا اور ایک پشاور کا تھا پشاور اور افغانستان والا حفظ کرنے والے لڑکوں کو کنٹرول کرتے جبکہ باقی دو لوکل میں سے ایک ناظرہ اور دوسرا قاعدہ یعنی الف ب سے شروع کرنے والوں پر مامور تھے -یہاں یہ بھی بتانا مناسب خیال کرتا ہوں کہ اس مدرسہ کے اوقات اس میں پڑھنے والوں کے لیے مختلف تھے -حفظ اور ناظرہ  کرنے والوں کو صبح کی نماز با جماعت مدرسہ پہنچانی ہوتی تھی جبکہ قاعدہ والوں کو چوٹی عمر کی وجہ سے صبح آنے سے استثنا تھی تاہم جن کا گھر مدرسہ کے نزدیک تھا وہ آتے تھے ،جن میں میں بھی شامل تھا-جبکہ دو پھر کی نماز کے ایک گھنٹہ بعد سے لے کر عشاء کی نماز مدرسہ میں پڑھ کر چھٹی میں کسی کو کوئی رعایت نہیں تھی

-اب شروع کرتے ہیں احوال-

دینی مدارس میں قرا کی مار پیٹ کا آپ میں سے بہت سوں نے صرف سنا ہوگا کہ وہ کتنی وحشی طریقے سے مارتے ہیں، لیکن براہ راست دیکھنے پر آپ کے طبق روشن ہوجانے ہیں -اس ماحول میں رہ کر بھی اگر چہ اس مار پیٹ سے مجھے بہت نفرت رہی تھی لیکن آج اتنا عرصہ گزرنے کے بعد تھوڑا بہت کسی حد تک مہذب معاشرے میں رہ کر اس مار پٹائی کو یاد کرتا ہوں تو اپنی یادداشت پے شک ہونے لگتا ہے _

اس جنگلی پن کا پہلا مظاہرہ میں نے اپنے داخل ہونے کے تیسرے دن دیکھا_ ناظرہ اور حفظ والے باہر مدرسہ کے صحن اور بار آمدے میں بیٹھتھے تھے جبکہ حفظ والے اندر بڑے مین حال میں-

اندر سے یک دم ایک بہت ہی تیز اور تکلیف دہ چیخ آیی جس کے سنتے ہی پورا مدرسہ ایک لمحے کو چپ ہوگیا اور دو سیکنڈ کے وقفے کے بعد ایسے دوبارہ سبق پڑھنے لگے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، جبکہ مجھے تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا ،میرے دماغ میں وہ چیخ گونج رہی تھی کہ اچانک اسی طرح کی دوسری اور پھر تیسری چیخ آیی اور خلاف توقع اس دفع کسی نے کوئی کان نہیں دھرا اور سب اپنی خوش آوازیوں میں تلاوت کر رہے تھے –

مجھ سے ج ح خ نہیں پڑھا جا رہا تھا ڈر کی وجہ سے تو میں رو دیا- قاری صاحب میرے پاس آے اور پوچھا کیا ہے؟ میرے پاس جواب شاید اسلیے نہیں تھا کیونکہ ان چیخوں پر  باقی لڑکوں اور میرے تاثرات میں زمین آسمان کا فرق تھا تو میں روتا رہا -آخر اس نے میرے چچا کے بیٹے کو بلایا اور کہا کے اسے گھر لے جاؤ -وہ مجھے گھر لے آیا اور دو پھر کو میں نے ماں کو بہت کہا کہ میں نے نہیں جانا لیکن دادا  نے قاری صاحب کو پیغام بھیجھا کے یہ ابھی چھوٹا ہے تو اس کے ساتھ تھوڑا شفقت سے پیش آیں-

اس کے بعد میرے دادا کی سفارش پر میں اپنے کزن کے ساتھ بیٹھ تھا تھاجو کے حفظ کررہا تھا اور بڑے حال میں تھا جہاں پر عمر کے لحاظ سے نسبتاً لڑکے ہوتے تھے -میں نے جب کزن سے اس چیخ کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے، یہاں پر تقریباً ہر روز ایک دو لڑکوں کو ایسی مار ملتی ہے مختلف وجوہات پر -اور جس چیخ کا میں پوچھ رہا تھا اس کا اس نے ایک بمشکل چودہ سالہ لڑکے کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا کے یہ وہ لڑکا ہے جو کل صبح چیخ رہا تھا –

اس نے کہا کہ یہ بڑا مکار ہے کیونکہ ابھی اسکو صرف ساتواں سٹک ہی پڑھا تھا کے اس نے چیخنا شروع کیا اور وہ بھی لکڑی کی سٹک سے، کیونکہ قاری صاحب کا شلاغ(اردو میں پتہ نہیں کیا کہتے ہیں لیکن شلاغ بلکل وہی چیز ہے جس سے تانگے والا اپنا گھوڑا ہانکتا ہے ، لیکن اس شلاغ کے ساتھ ایک چوڑھا ربڑ بندھا ہوا تھا ) تو آج غایب ہے اسلیے اسکی قسمت اچھی تھی ورنہ جو لوگ دو دن غیر حاضر رھیں تو انکا حشر تم خود ہی کبھی دیکھ لو گے -یہ سن کر میں نے ڈائریکٹ اس لڑکے کی طرف دیکھا جس کو کل صبح دس سٹک مارا تھا اور وہ بلکل نارمل تھا –

اور ایک انکشاف یہ بھی ہوا کہ جس بندے کو لکڑی کے سٹک سے مارا جائے تو یہ اس کی خوش قسمتی ہوگی کیونکہ شلاغ سے جس کو مار پڑھتی ہے اور مار بھی ایسی وحشیانہ اور لگاتار مار کہ جیسے عربی حرف غلط پڑھ کر،یا کسی وجہ سے غیر حاضر ہوکر، یا مدرسہ میں دوران سبق کسی کے ساتھ بات کر کے اس نے کوئی قتل کیا ہو ،تو شلاغ سے مار کے بعد لڑکے کی حالت ایسی ہوتی تھی کہ تھوڑی دیر تک تو بیچارہ نہ اٹھ سکتا تھا، نہ چل اور نہ بیٹھ سکتا تھا اور آنکھوں سے آنسو بھی نہیں چھلکنے دینے ہوتے کہ پھر بےغیرتی اور مکاری کا الزام لگتا تھا –

تو دن گذرتے گئے ، میں قاعدہ سے ناظرہ اور آخر میں حفظ کرنے لگا ، اس دوران میں مدرسہ کے ہر قانون، سزا، اور اصولوں سے واقف ہوچکا تھا اور اس دوران وہ وہ سزایں دیتی دیکھیں کہ جسکا صرف سوچا جا سکتا ہے –

ایک سترہ سالہ لڑکے کے  ایک رکوع میں مسلسل چھوتی غلطی پر قاری صاحب نے اس کے سر پر ایک ڈسک نما سٹیل کی کی بنی چیز سر پے دے ماری جس سے ایک تو مسلسل خون کی دھاریں نکلنے لگیں اور لڑکا اچانک عجیب انداز میں بجلی کی تر اچھل کے زمین پے گر گیا -جسکو قریبی ڈاکٹر کے پاس ابتدایی امداد کے لیے لے جایا گیا اور بعد میں پٹی کر کے لوگوں کے کہنے کے مطابق قاری صاحب کی خصوصی دعا سے وہ ٹھیک ہوگیا -ایک لڑکے کو ایک سو چونسٹھ  سٹک اسلیے مارے گئے تھے کے وہ اپنے کزن کی شادی میں ناچا تھا ، اور ایک سو چونسٹھ  پر بس بھی اسلیے ہوا کہ اس کے ہاتھ نیلے ہوگئے تھے مار سے تو قاری صاحب کو یا تو خوف آیا یا رحم، سو چھوڑ دیا

،مجھے چھوٹی موٹی مار تو بہت پڑی تھی لیکن اصلی مارپانچ سال میں دو دفع ہی پڑھی تھی – ایک دفع اس وجہ سے کہ میں اپنے ایک مدرسہ والے دوسرے دوست جو کے شکل و صورت کے لحاظ سے خوبصورت تھے اور مدرسے کے بہت سے لڑکے اس پے مرتے تھے اور وہ قاری صاحب خود بھی (یہ واقعات اگلی قسط میں ذکر کرونگا ) کے بیٹھک گیا تھا اور وہاں اس کے ایک عاشق نے دیکھ کر خبر سیدھی قاری صاحب کو دی تھی – حالانکہ قاری صاحب کو اندازہ تھا کہ میں ان کرتوتوں والا بندہ نہیں اور نہ ہی میری عمر فلحال اتنی تھی  لیکن قاری صاحب کو چین تب ہی آیا جب مجھے شلاغ سے تئیس  دفع مارا ، تکلیف کا اندازہ آپ اس بات سے لگایے کہ وہ نشان آج بھی میری پیٹھ پر اسی طرح واضح ہیں جیسے سولہ  سال پہلے تھے

 لیکن جو میری نظر میں سب سے بڑا واقعہ تھا وہ میرے کزن کے ایک بہت ہی قریبی دوست کی موت کا تھا اس کو ایک بیماری تھی جس میں اسکو اچانک سانس لینے میں دشواری ہوجاتی تھی اور اس کے ہاتھ پیر ملنے پڑھتے اور اسکو اسکی دواییں دینی پڑھتی وہ حفظ میں تھا اور کمزور حافظہ کی وجہ سے چار سال میں اس نے صرف تیرہ پارے حفظ کے تھے اسکو اکثر ماراسی وجھ سے پڑھتی تھی کے ان تیرہ پاروں میں بھی منزل سناتے وقت اس سے کافی غلطیاں ہوتی تھیں –

ایک دن گیارہویں پارے کا پہلا نصف سناتے وقت سورہ توبہ کی آخری آیات جو کہ آسان سمجھی جاتیں ہیں یاد رکھنے کے لحاظ سے، میں بہت غلطیاں ہوئیں تو قاری صاحب نے اسکو مرغا بنایا اور کہا کہ اوپر رکھو ، جیسے ہی وہ تھوڑا نیچے ہوتا یہاں سے ٹا کر کے شلاغ سیدھا کمر رسید ہوجاتا ،

تقریباً دس منٹ بعد اسکو سانس لینے میں تکلیف ہونے لگی ، اس نے قاری صاحب سے پوچھا تو قاری صاحب آگ بھگولا ہوے اور کہا کہ بیماری کے یہ ڈرامہ میرے سامنے نہیں چلنا، اوپر کرو اور دو شلاغ اور مارے ، اسکی آنکھو سے آنسو بہتا دیکھ کر مجھے اسکی تکلیف کا اندازہ ہوا کیونکہ وہ کبھی بھی مار کھاتے نہیں رویا تھا ، اور جلد فرش پر گر کر اس نے چھاتی پکڑی ، میں اور میرا کزن لپک کر اس کے پاس گئے تب تک قاری صاحب کو بھی اندازہ ہوچکا تھا کہ بندہ سیریس ہے ،میرے کزن نے اس اسکا سر اٹا کے اپنے بازو پر اوپر کیا اور میں اسکے پاؤں رگڑتا رہا – اچانک اسکو جھٹکے آنا شروع ہوگئے اور ساتھ میں الٹیاں –

دوسرے لڑکے بھی اٹھ کے آ گئے اور ہم اسکو وضو کرنے والی جگہ لے گئے جہاں وہ مسلسل الٹیاں کرتا رہا جس میں خون بھی آ رہا تھا اچانک اس کا جسم بے دم ہوگیا، منہ سے خونزدہ الٹیاں تھوڑا تھوڑا کر کے بھ رہی تھیں ، لگ ایسے رہا تھا کہ الٹیاں ابھی باقی ہیں پر جسم میں دم نہیں رہا ، تین چار دفع وقفے وقفے سے تیز سانس والے جھٹکے لیے کہ وہ سانس لینا چاہتا تھا لیکن کچھ ہی دیر میں اسکی آنکھیں عجیب سی ہوگئیں، بدن بجھ گیا، ہم اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے اور اس نے کہا کہ اب کچھ باقی نہیں -دوسرے دن تدفین کے بعد اسی قاری صاحب نے اسکے منہ سے نکلے ھوے آخری آیات کا حوالہ دے کر کہا کہ اس نے خود اپنے آپ کو مرتے مرتے جنّت کی خوشخبری پہلے ہی دے دی تھی -اور خود کو بری الذمہ قرار دے کر اس کے والد کو نوید دی کہ آپ کا بیٹا شہید ہے اور الله نے اسے آپ سب کی مغفرت کا ذریعا  بنا دیا

 

طالب زدہ – قسط ١

https://lubpak.com/archives/257297

Comments

comments

Latest Comments
  1. Khan
    -
  2. Rustam
    -
  3. KAZ
    -