طالب زدہ – قسط ١
میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ میں کیا لکھوں ؟کہاں سے شروع کروں؟کیسے شروع کروں؟کیا،کہاں اور کیسے لکھوں؟ کیونکہ آج تک کسی بھی حوالے سے کوئی بھی چیز کسی طور بھی ذاتی حیثیت سے نہیں لکھی لیکن بہرحال آغاز کہیں سے کرنا ہے تو شروع میں میں جناب کشمیری صاحب کا مشکور ہوں جنہوں نے اس دلیری کے لیے میرے اندر سے کچھ نہ کچھ لکھنے کی خواہش کو ہوا دیمجھے مناسب خیال نہیں ہوتا ک اپنا تعارف کرانا یہاں مناسب ہوگا یا نہیں لیکن خیال کرتا ہوں کے شاید آپ کو بہتر سمجھا پاؤں،
اگر پہلی قسط میں زیادہ تر اسی پر اکتفا کیا جائے تو مناسب ہوگا مجھے یہ بھی اندازہ نہیں ہورہا کہ یہ تحریری سیریز سیاست کی طرف جاےگی یا میں اسکو صرف مذہبی حوالے تک محدود رکھ پاؤنگا جو کہ میرا مقصد ہے لیکن اس حوالے سے میں آپ سب سے پیشگی معذرت خواہ ہوں کیونکہ آپ کو میرے انداز سے لگ رہا ہوگا کہ میں کوئی پیشہ ور لکھاری نہیں کیونکہ ایک تو نابلد اور اوپر سے پٹھان – تو آگے جانے کے لیے مجھے آپ تمام احباب کی راے درکار ہوگی ایک چیز اور یہاں بتاتا چلوں کے یہ سیریز چند واقعات اور تھوڑا بہت مذہبی نظریات،عقاید اور ان کے اطلاق کا طریقہ کارعام لوگوں اور مذہبی لوگوں (طالبان،ملا وغیرہ پر )کیا تھا؟تو اسلیے یہ تحاریر میری طرف سے مختصر بھی ہونگی اور جلد ختم بھی ہوجاینگی لیکن جس چیز کا آپ کو تجسّس ہو تو وہ آپ مجھے ان باکس کر سکتے ہیں جس کا جواب میں اگلی قسط میں دینے کی کوشش کرونگا تو شروع کرلیتے ہیں
میرا نام آپ جو بھی رکھ لیں تعلّق ایک قبایلی علاقے سے ہے اور کم-و-بیش تمام قبایلی علاقوں کی طرح یہ بھی افغانستان کے ساتھ پاکستان کا جوڑا ہوا سرحد ہےیہاں پر چونکہ علاقے کے خد-و-خال بتانا زیادہ نہیں مقصود (جو کہ آپ کی بوریت کی وجہ بھی بنینگے تو لہذا سیدھا موضوع پہ آتے ہیں جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ پوری سیریز طالبان ،ان کے کردار، ان کے طور طریقے اور ان کے ساتھ گزارے اور گذرتے ان تمام واقعات سے متعلق ہے جو مجھ سمیت یہاں کے تمام لوگوں پر گزرے اور گزر رہے ہیں اور جس سے ہو سکتا ہے آپ میں بہت سے لوگ ناواقف ہوں اکثریتی پختون علاقوں کی طرح ہمارا علاقہ بھی ایک انتہایی مذہبی اور جنوں کی حد تک مذہبی دیوبندی مکتبہ-ا-فکر سے لگاو رکھنے والا علاقہ ہے –
مذہبی مدارس کی بہتات اور سکولوں کی کمیابی اس جنونیّت میں اور بھی اضافے کا سبب بنی مختصراً مجھے بھی ایک دینی مدرسے بھیجا گیا،5 سال ادھر پڑھتا رہا – قرآن حفظ کیا،اس پے عمل کروانے کے لیے تبلیغی سہ-روزے اور ایک عدد چلّہ لگوایا گیا جس کے بعد سارے تبلیغیوں کی طرح میرے دل-و-دماغ میں بھی دنیا اور اس سے جڑے ہوے ہر شے کی حیثیت مکھی کے پر کے برابر بھی نہ رہی
اس دوران عرض کرتا چلوں کے میری عمر صرف ٣٠ سال ہے تو جن دنوں میں میں جواں ہورہا تھا ان دنوں میں جہاد صرف کشمیر اور فلسطین تک محدود تھی اور افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی تو ان چند سالوں میں قبایلی علاقوں میں نسبتاً جہادی بخار کمزور تھا اسلیے توجہ صرف تبلیغ پر ہی زیادہ تر مرکوز تھی لیکن عربی اور ازبک حضرات کافی تعداد میں سوویت وار کے دنوں سے ہی ڈھیرے ڈالے ہوے تھے جن میں سے اکثر نے شادیاں کر رکھی تھیںان کے یہاں ہونے کے باوجود ہمارا علاقہ نسبتاً پر امن اسلیے تھا کہ انکا زیادہ تر رابطہ افغانستان سے ہوتا تھا اور اکثر ادھر ہی ہوتے تھے لیکن انھوں نے کبھی بھی ہماری معاشرتی زندگی پر زیادہ اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی-
اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کے شاید وہ تعداد میں کم تھے ، اوپر سے ہدایات نہیں تھیں یا شاید اس وقت قبایلیوں میں ان کو اس قدر دلچسپی نہیں تھی-دوسری طرف ہمیں بھی کبھی ان سے اتنی خاص تکلیف نہیں تھی کیونکہ وہ کم ہی نظر آتے،پیسا ان کے پاس بہت تھا تو اسلیے کسی فلاحی چیز میں مالی امداد کرنے میں بھی پیش پیش رہتے اور امن سے رہ رہے تھےقصّہ شروع ہوتا ہے
٢٠٠١ کے بعد،جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا اور اور ہمارے علاقے سے بھی سینکڑوں لوگ جہاد کرنے چلے گئے جہاد سے یہ میری پہلی شناسائی نہیں تھی کیونکہ ایک تو سوویت وار کے قصے بھی ابھی ہرے بھرے تھے اور دوسرا یہ کے مختلف جہادی تنظیمیں جیسے جیش محمّد،لشکر طیبہ،حرکت المجاہدین وغیرہ ہمارے علاقے میں چندہ یا نئی بھرتیوں کے لیے آتے رہتے تھے تو اسلیے میرے ذہن میں بھی یہ خیال تھا کے اسلام کی سربلندی کے لیے صرف زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلنے والا، عملی راستہ یہی ہے کے لا دین قوتوں سے بہ زور شمشیر دو دو ہاتھ ہوجایںخیر وہ خواہش تو کچھ عرصے تک خواہش ہی رہی کیونکہ ایک تو اس وقت خودکش حملوں کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا تو اسلیے کم عمر افراد کی جہاد میں جانے کی اتنی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی تھی دوسرا یہ کے میرے والد صاحب کے دل میں دنیاوی تعلیم کے لیے بھی ہمیشہ سے ایک طلب رہی ہے اور چونکہ وہ بیرون ملک مقیم ہیں تو اسلیے اس خواہش کی لاجک بھی سمجھ آتی ہے اسلیے بچپن میں ہی دینی مدرسہ کے ساتھ ساتھ میں ایک پرائیویٹ انگلش اسکول بھی جاتا تھا
جب میں نے میٹرک پاسس کیا تو دادا کا مشورہ یہ تھا کے مجھے دار العلوم حقانیہ میں داخل کرایا جائے جبکہ ابّو کے دل میں ایک دبی خواہش تھی کہ مجھے پشاور یا کوہاٹ کے کسی کالج میں داخلہ لینا چاہیے-تو حسب معمول ہوا وہی جو دادا کو منظور تھا مجھے دار العلوم حقانیہ میں سفارش کر کے داخل کیا گیا-سفارش اسلیے کیونکہ آپ میں سے بہت سے لوگ یہ جانتے ہونگے کہ دینی مدارس میں اس کا مقام ایسا ہی ہے جیسے دنیاوی تعلیمی اداروں میں اسلامیہ کالج وغیرہ کا –
لیکن خوش قسمتی سے آٹھ مہینے بعد میں وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا -کیوں فرار ہوا؟ اس کا ذکر آیندہ چل کے کرونگا اور ابھی خیال آیا کہ طالبان کے دور کا ذکر کرنے سے پہلے میں کچھ وہ واقعات بھی بیان کرلوں جو کہ میرے بچپن والےپانچ سالہ اور حقانیہ کے آٹھ مہینوں میں مجھ پہ یا میرے مشاہدے سے گزرے اگلی قسط سے سلسلہ شروع کرونگا- یہ صرف مختصر تعارف تھا -آپ کی انٹرسٹ کو دیکھ کے فیصلہ کرونگا کہ مجھے جاری رکھنا چاہیے یا نہیں شکریہ نوٹ: چونکہ میں دن کو کام کرتا ہوں تو اسلیے میرے پاس لکھنے کا ٹائم بہت محدود ہے، تو کوشش کرونگا کہ جتنا زیادہ ہوسکے ، لکھوں
Comments
Latest Comments
you should definitely write this series. the stories of people in taliban controlled areas especially waziristan side is strongly missing from our usual national discourse.
keep it up.
معذرت کے ساتھ بھائی
آپ جو کوئی بھی ہو،ایک فرضی نام یا حقیقت ، لیکن تم چونکہ حافظ سعید گروپ(لشکر طیبہ)والے ہو ، اور ان کو ہمارے عرف میں اہل حدیث یا غیر مقلد یعنی غیر کے مقلد کہتےہیں ، اسی لئے تم نے تمام دیوبندی مدارس کے خلاف اور ان تمام دینی جماعتوں کے بارے میں جن کا تقلق دیوبندی مکتب فکر سے ہیں کو بدنام کرنے کی ایک مذموم کوشش کی ہے۔