طالب زدہ —-قسط ٤

pakistan-jihad-670

جب میرے میٹرک کا نتیجہ آیا تو میرے نمبر اتنے تھے کہ جس سے کسی اچھے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا جا سکتا تھا اور اوپر سے قبایلی علاقوں کی اپنی سیٹس بھی ہوتی ہیں تو مسلہ کوئی نہیں تھا لیکن جیسے میں پہلے کہ چکا ہوں گھر میں چلتی صرف دادا کی تھی تو اسلیے میرے، اور میرے والدین کے خواہش کے خلاف مجھے دار العلوم حقانیہ میں داخل کیا گیا علم کے لیے ، اور علم سے ہمارے ہاں عام مراد وہ آٹھ سالہ دور ہوتا ہے جس میں مولانا کا اعزاز پانے کے لیے آٹھ سال تک مختلف کتابیں پڑھنی ہوتی ہیں –

حقانیہ میں آنے سے چار پانچ سال پہلے تک میرا حفظ اور ”دور” ہوچکا تھا اور میں نے پانچ سال تک روزوں میں دوران تراویح قران مختلف جگہوں پر کی دفعہ پڑھ چکا تھا -حقانیہ میں گزرے وقت اور وہاں کے اندرونی حالات کا ذکر نہیں کرونگا کیونکہ یہاں بھی تقریباً اسی طرح کے حالات تھے جو پچھلی اقساط میں ذکر کر چکا ہوں لیکن یہاں کچھ چیزیں جو مختلف تھیں وہ یہ کہ ایک تو پڑھایی کی نوعیت یکسر مختلف تھی ، دوسرا اوقات اور تیسرا اور سب سے اہم یہ کہ گھر سے دور رہنا پڑھ رہا تھا جو کہ میں سوا ایک اعداد تبلیغی چلّہ کے کبھی نہیں رہا ، تو اسلیے بہت ہی مشکل ہورہا تھا ادھر وقت گزارنا -یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ اس ساری اکتاہٹ سے مراد یہ نہیں کہ میرے مذہبی لگاو یا جذبے میں کوئی کمی آی تھی, لیکن حقانیہ میں مجھے آٹھ مہینوں میں کبھی بھی سکون نہیں ملا ، کبھی ایک منٹ کو بھی وہاں دل نہیں لگا ، ٣ مہینے بعد گھر آتا تھا اور ماں کو بہت کہتا تھا کہ کچھ کرو لیکن وہ نہیں کر سکتیں تھیں کچھ ، اسلیے سوچا کہ خود ہی کچھ کرتا ہوں –

یہ 2003 کی بات ہے ، جہاد افغانستان شروع ہوچکا تھا اور متفقہ فتویٰ،دیو بند اور بنوریہ ٹاؤن سے آ چکا تھا کہ جہاد فرض ہوچکا ہے اور چونکہ ہمارے علاقے میں ویسے تو ہر جہادی تنظیم کے لوگ تھے لیکن جیش محمّد اور لشکر طیبہ بہت فعال تھی تو اس فتویٰ کے بعد پہلے سال کافی لوگ ہمارے علاقے کے گئے تھے جن میں کافی لوگ واپس نہ آے اور تنظیم والے آ کر انکی شہادت کی نوید دے کر فاتحہ پڑھ کے چلے جاتے تھے-میرے دو ماموؤں کے دو بیٹے جماعت اسلامی کے حزب المجاہدین کی طرف سے جا کر شہید ہوگے تھے- تو اسلیے میں نے بھی فیصلہ کیا کہ اس سائیڈ پہ جانا ٹھیک رہیگا ، ایک تو حقانیہ سے جان چھوٹ جایگی اور دوسرا جیسا کہ میں پہلی قسط میں ذکر کرچکا ہوں کہ عملی میدان میں کفر سے برسر پیکار ہونے کا کچھ نہ کچھ جذبہ پہلے سے موجود تھا اور ماحول بھی ایسا تھا کہ ایسے جذبات لازمی تھے –

میں چھٹی پہ آیا تھا اور دل میں تہیہ کیا تھا کہ اس دفعہ دادا سے بات کرونگا کہ مجھے ٹریننگ پے جانا ہے ، آیا ، بات کی ، کوئی نہیں مانا ، بہت سمجھانے کی کوشش کی دادا کو کہ حقانیہ میں وہ حقانیت مجھے نصیب نہیں ہورہی جسکی آپ مجھ سے توقع کیے بیٹھے ہیں لیکن وہ نہیں مانے -آخر خود ہی فیصلہ کیا کہ کسی سے بات کر کے چلا جاتا ہوں گھر والوں سے پوچھے بغیر –

بنوریہ ٹاؤن سے مفتی رشید احمد کی سر پرستی میں ایک ہفتہ وار اخبار شایع ہوتا تھا ضرب مومن ، میرے ماموں مجھے بھی کہتے تھے کہ اسے پڑھا کرو ، جوش ایمانی سے بھرپور خبریں اور کالم ہوتے تھے اس میں ، مجھے سب سے زیادہ یاسر محمّد خان کا کالم جو کہ فرنٹ پیج (پے چھپتا تھا، بہت پسند تھا ، (بعد میں پتہ چلا کہ وہ یاسر محمّد خان اپنے جاوید چودھری صاحب ہیں) ، اس اخبار نے بھی میرے اور میرے جیسے بہت سوں کے دینی جذبات کو جہادی سائیڈ پے مایل کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا –

میں نے اسی ماموں سے بات کی کہ مجھے ٹریننگ پے جانا ہے تو گھر والوں سے چپکے میرا کوئی بندوبست کرو ، اس نے کہا کہ اگر تم یہاں سے جاتے ہو تو تیرے گھر والوں کو یہی لگےگا کہ میں نے تجھے بھیجھا ہے تو ایسا کرو کہ مدرسہ جاؤ، وہاں سے میں ایک بندے کو کھ کر تجھے بھیج دونگا – اسی راضی نامہ پے میں واپس حقانیہ چلا گیا اور اس بندے کو مجھ سے ملنے میں دو مہینے کا وقت لگا ، ہمارے مدرسے میں ہی تھا پر وہ پانچویں درجے میں تھا اور میں پہلی میں ، وہ مجھ سے ملا اور بتایا کھ میرا ماموں اس کا بہت اچھا دوست ہے ، اسی نی ابتدایی ترغیب دی اور کہا کھ سب کے گھر والے پہلے ناراض ہوتے ہیں بعد میں ٹھیک ہوجاتے ہیں پر سختی سے تاکید کی کھ ٹریننگ سے بھاگنا مت ، میں نے کہا میں ادھر ساری زندگی گزار سکتا ہوں بس مجھے ایک دفعہ یہاں سے نکال دو ،پورے آٹھ مہینے حقانیہ میں گزارنے کے بعد میں وہاں سے بھاگ گیا اور سیدھا مظفر آباد لشکر طیبہ کے ٹریننگ کیمپ پہنچ گیا-،

نیا اور کم عمر ہونے کی وجہ سے میری شروعات ”دور عامہ” سے ہوئی، دور عامہ میں صرف عام ورزش اور دوعا یں سکھایی جاتی تھیں اور اس ماحول سے ایک قسم کی شناخت اور اس کا حصّہ بنانے کا عمل ہوتا تھا ، تھوڑا بہت چوٹی ہتھیاروں کی پہچان اور ان کے چلانے کے طریقے بتایے جاتے تھے ، میں چونکہ یں چیزوں کا پہلے ہی سے عادی تھا تو اسلیے ان میں تو مجھے کوئی دشواری یا خاص انوکھا پین نظر نہیں آیا لیکن اس ماحول کا حصّہ ہونے میں بہت مزہ آ رہا تھا ، دور عامہ اکیس دن تھا ، ختم ہونے پر گھر چلا گیا-

تب تک گھر میں بھی پتہ لگ گیا تھا ، گھر والے غصّہ تو بہت تھے لیکن ایک بات انکو بھی سمجھ آ گیی کھ مدرسہ میں واپس بھیجنا فضول تھا ، اور مزے کی بات یہ کہ جہاد کے حوالے سے بھی دادا ٹریننگ کی حد تک راضی تھے پر میدان میں جانے کے سخت خلاف تھے جس کی ظاہر وجہ یہی نظر آتی تھی کہ میرے کافی رشتہ دار شہید یا معذور ہوچکے تھے تو فطری بات ہے وہ مجھے اس حد تک لے جانے کے حق میں نہیں تھے ، تو لہٰذا والد صاحب کے اسرار پر یہ فیصلہ ہوا کہ مجھے پشاور یا کوہاٹ کے کسی کالج میں داخل کیا جائے لیکن چونکہ سال میرا ضایع ہوگیا تھا اور ابھی نیے داخلوں میں کچھ وقت تھا تو اسلیے ان کی اجازت سے میں دوبارہ ایک اور ٹریننگ کورس کرنے مظفر آباد چلا گیا ، اس کورس کو دورہ صفہ کہا جاتا ہے ، اٹھاییس دن کا کورس ہوتا ہے اور اس میں زیادہ توجہ تقریری مہارت اور دعوتی طریقوں پر دی جاتی ہے ، جہادی آیات ، احادیث بمعہ ترجمہ و تشریح سکھایی جاتی ہیں اور بہت سے مجمعہ کے سامنے تقریر کرا کے خود اعتمادی پیدا کی جاتی ہے –

اٹھاییس دن بعد جب میں گھر آیا تو دادا نے کسی سے کہ کے پشاور کے کسی کالج میں میرا داخلہ کروا دیا تھا ، کلاسز شروع ہونے میں ابھی بیس دن تھے -میرا شروع سے ہی دنیاوی تعلیم سے لگاو رہا ہے اور دسویں جماعت تک میں کافی اچھے نمبر لیتا رہا تھا- میرے مدرسوں کے اوقات یا میرے دینی جذبات نے کبھی بھی میرے دنیاوی تعلیم میں دلچسپی کو کبھی متاثر نہیں کیا لیکن جب سے میں نے لشکر طیبہ میں شمولیت کی تھی تب سے میرا اسکول اور کالج کی طرف سے دھیان بلکل ہی ہٹ گیا تھا ، دل بہت کررہا تھا کہ جہاد کرنے میدان جنگ جاؤں لیکن اس کے لیے کئی مجبوریاں تھیں ، ایک میری فیملی ، دوسری عمر اور تیسری تنظیم کی طرف سے بھی اجازت اس لیے نہیں تھی کیونکہ جہاد جانے کے لیے ایک اور تین سے چار مہینے کا کورس کرنا ہوتا ہے جسے دور خاصہ کہا جاتا ہے اور دوسرا میری عمر ہر جگہ آڑھے آرہی تھی تو یہی فیصلہ کیا کہ چلو کالج بھی دیکھ لیتے ہیں اور جیسے ہی چھٹیاں یا کوئی بھی فرصت ملے تو خاصہ کر کے میدان عمل میں کھود جاینگے ،

کالج ایک پرائیویٹ لیکن اچھا کالج تھا ، ہوسٹل میں رہنا ہوتا ، شہر کیسا لگا کیسا نہیں یہ ایک بلکل ہی الگ بحث ہے اور چونکہ کہانی کو  ختم کرنا ہے تو اسلیے اس بحث میں نہیں جاتے لیکن بحر حال کالج کے سات مہینے اچھے لگے ،جب کالج سے امتحانات کی تیاری کے لیے فراغت ملی تو یہ کافی لمبا وقفہ تھا جس میں میں دور خاصہ کر سکتا تھا، اسلیے فیصلہ کیا اور گھر والوں کو یہ اطمنان دلایا کہ کتابیں ساتھ لے جاؤنگا اور ادھر ہی تیاری جاری رکھونگا اور پرچے دینے کے لیے بہت پہلے آ چکا ہونگا ،گھر میں ٣ دن گزارنے کے بعد میں دوبارہ مظفر آباد گیا ، اور وہاں دور خاصہ شروع کیا جس میں تین مہینے اورتین روزہ  اختتامی اعزازی تقریب ملا کے سترہ دن لگے ،اس دوران پڑھایی تو کک نہیں کی لیکن ایسی سخت ٹریننگ کی جس کا صرف سوچا جا سکتا ہے ،

مجھے جو اس میں سب سے سخت چیز لگی وہ صبح صبح نماز سے پہلے ایک ندی کے تالاب نما پانی میں پھینکا جانا اور دوسری سخت چیز ایک ہفتہ تک کچھ کھاے پیۓ بغیر معمول کی ٹرینگ جاری رکھنا تھی ، صرف پانی پینے کی اجازت ہوا کرتی تھی ، مجھے تو چوتھے دن ہی دورہ پڑھا اور گر پڑھا تو چوتھے روز کی شام کو مجھے کھانا ملا -خیر ٹریننگ ختم ہوئی اور یہاں پر چند چوٹھی چوٹھی خامیوں کے علاوہ کوئی بری یا غیر اسلامی بات نظر نہیں آیی،ایک برایی یہاں یہ تھی کہ کھانے میں چیزیں تو کافی مزیدار ہوتی تھیں مطلب زیادہ تر چھوٹے جانور کا گوشت ہی ہوتا تھا پر چونکہ اکثریت لشکر طیبہ میں پنجابیوں کی تھی تو اس لیے مرچ بہت زیادہ ڈلتی جو مجھ سے بلکل نہیں کھانا ہوتا .

دوسری خرابی یہ تھی کہ پورے دن کی تھکن کے بعد جب عشاء کی نماز کے بعد سوجاتے تو پوری رات تک جو بندہ بھی ساتھ سے گزرتا تو بلند آواز سے سلام ڈال کر نیند کا ستیا ناس کرتا ، تیسری خرابی یہ تھی کہ جس جگہ ہم سوتے تھے وہ بہت ہی چوٹی تھی، چوٹی اس لحاظ سے کہ ایک بہت ہی بڑا تمبو لگا ہوتا تھا جس میں تقریباً دو سے لیکر تین سو تک لوگ سوتے تو بلکل ایک دوسرے کے اوپر ہی سونا پڑھتا ، اور چھوتی شکایت جو کے صرف مجھے تھی وہ یہ کہ اس دوران ایک چکوال کے لڑکے سے میری دوستی ہوگیی تھی تو اکثر نماز کے وقت ہم اکٹھے کھڑے ہوتے تھے اور جب نماز پڑھ رہے ہوتے تھے تو وہ رونے کی عجیب ایکٹنگ کرتا جس پے مجھے پہلے دنوں میں تو بہت ہنسی اور بعد میں بہت غصّہ آتا تھا ، کیونکہ آنکھ سے ایک آنسو نہیں ٹپکتا اور کٹ  کٹ ایسی لگایی ہوتی کہ دل کرتا اسی ٹائم اسے جنت رسید کردوں ی

باقی یہاں کے ماحول میں مجھے کوئی غیر اسلامی بات نظر نہیں آیی اور شاید اسی لیے میرے دینی جذبات میں نکھار آیا تھا ، ایک  عجیب بات یہاں یہ تھی کہ افغانستان میں امریکا کے خلاف جہاد زوروں پے تھی لیکن یہاں ہمیں ترغیب صرف کشمیر کے لیے دی جاتی ، ہر شام صرف  کشمیر و ہندوستان میں کاروآیی کرنے والے  مجاہدین کے قصے سناے جاتے-لیکن جب ٹریننگ ختم کر کے جا رہے تھے تو تب اطمنان ہوا جب حکم ملا کہ ہم لوگ اپنے علاقے میں جہاد افغانستان کی ترغیب دیں

اس پورے عرصے میں میری بہت خواہش رہی تھی کہ میں حافظ سید سے ملوں لیکن وہ اس عرصے میں ایک بار بھی نہیں آیا تھا لیکن جس دن اعزازی تقریب تھی اس دن یہ ارمان بھی پورا ہوگیا تھا ،

ٹریننگ کے بعد میرا کالج جانے کا  گھنٹہ ارادہ بھی نہیں تھا لیکن مجھے یہ بھی پتہ تھا کہ اگر یہاں سے گھر جاؤنگا تو وہ جانے نہیں دیںگے اسلیے میں نے اپنے استاد ابو جندل سے کہا کہ میرا کسی طرح افغانستان یا کشمیر بندوبست کر دو لیکن لشکر طیبہ ایک بہت ہی با اصول تنظیم ہونے کے ناطے کسی کم عمر اور والدین کی اجازت کے بغیر کسی کو نہیں بھیجھتی تو اسلیے مجھے گھر واپس جانا پڑھا لیکن ہر ممبر کی طرح مجھے بھی مقامی طور پر کچھ ذمہ داریاں دیں گیں،ان ذمہ داریوں کے تحت ہم دو بندے ہر عید پر مختلف علاقوں کی عید گاہوں میں تقریر اور چندہ اکٹھا کرنے جاتے اور بڑھی عید پر ہر ممبر کے ذمہ کم سے کم تین کھالیں اکٹھی کرنا ہوتیں ، کھالیں اکھٹی کرنا تو میرے لیے اتنا مشکل نہیں تھا لیکن اپنی عید قربان کر کے دوسرے علاقے جانا مجھے پہلے ہی دِن سے  بہت سخت گزرا تھا –

خیر کالج کے ساتھ ساتھ یہ چیزیں تین سال تک جاری رہیں لیکن فلحال جہاد میں جانے کی خواہش صرف خواہش ہی تھی ،

 پھر اس دوران تحریک طالبان پاکستان نے جنم لے لیا اور دو تین سالوں میں بہت کچھ بدل گیا ، اور حالات ایسے ہوگئے کہ میرا دل جہاد سے اچاٹ ہوگیا اور سب کچھ یکسر بدل گیا ، ایسے بدل گیا کہ میں جہاد تو دور ، اسلام کے نام کے خلاف ہوگیا ، کیوں اور کیسے ؟ یہ کوشش کرونگا کہ جلد سے جلد تحریر کروں ،

آخر میں آپ تمام احباب جنہوں نے کمنٹس اور ان باکس کے راستے ہمّت افزائی کی, کا  تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں

 

طالب زدہ -قسط ٣

https://lubpak.com/archives/257285

طالب زدہ -قسط ٢

https://lubpak.com/archives/257291

طالب زدہ – قسط ١

https://lubpak.com/archives/257297

Comments

comments

Latest Comments
  1. Rustam
    -
  2. Abdullah
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.