طالب زدہ …..قسط 8
جہاں تک میرا یقین ہے ، آئی ایس آئ دیو بندی خیالات سے متاثر یا دیوبندی سوچ رکھتا ہے ، جس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ دیوبندی مکتبہ فکر سے منسلک لوگوں میں جہادی سوچ زیادہ ہوتی ہے ، اور اگر نہ ہو تو آسانی اور جلدی پروان چڑھائی جا سکتی ہے ، اور اس کی ایک واضح مثال ١٩٩٧-١٩٩٨ء میں دارلعلوم بنوریہ سے جاری شدہ ایک فتویٰ ہے جس میں بریلویوں کو شیعوں سے بھی بڑا کافر قرار دیا گیا ہے- ( اور شیعہ کا تو آپ سب کو اندازہ ہوگا ہی کہ متفقہ طور پر یہ یہود و نصارا سے بڑا کافر اور واجب ال قتل ہے ) –
اور جہاد کی آئ ایس آئ کو کتنی ضرورت ہے وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ، اور اسی لیے انکا پہلا اور آسان ہدف اور انتخاب ہمیشہ سے قبایلی علاقہ جات رہے ہیں ، کیونکہ پیر سیف الرحمان کے مریدوں کے علاوہ تمام قبایلی علاقوں کے لوگ دیو بندی یا اہل حدیث ہیں ، ( یہاں صرف سنیوں کی بات ہورہی ہے کیونکہ پاڑہ چنار سمیت کرم ایجنسی میں شیعوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے )
طالبان اپنی پے درپے کامیابیوں سے علاقے میں اپنا رعب جمانے میں کامیاب ہوگئے ، اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ علاقائی حمایت انکو کافی حد تک پہلے سے ہی حاصل تھی اور اس حمایت کے حصول میں طالبان کے پاس ایک اور پلس پوائنٹ بھی تھا اور وہ تھا قبایلی علاقوں میں اینٹی شیعہ سینٹیمنٹ،
کرم کے شیعہ اور اورکزئی کے سنیوں کے درمیان ہمیشہ سے کسی نے کسی وجہ سے لڑائی ہوتی تھی جو کہ بعض اوقات کافی شدت اختیار کر جاتی ، لیکن پھر پولیٹیکل انتظامیہ اور جرگہ سے معاملہ ٹھنڈا پڑھ جاتا لیکن اس مسلے کا آج تک کوئی مستقل حل نہیں نکلا ،
طالبان نے عوام میں مقبولیت کے لیے اس اینٹی شیعہ جذبے کو خوب کیش کیا ، پہلے صرف تقاریر کے ذریعے اور کچھ عرصہ بعد عملی طور پر بھی ، یہاں میں یہ ہر گز نہیں کہہ رہا کہ شیعہ ہاتھ پے ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے لیکن طالبان کے آنے کے بعد کرم ایجنسی کے شیعوں کے ساتھ جو ظلم ہوے ہیں ..اس کی مثال نہیں ملتی ، جس کا ذکر آنے والی اقساط میں اپنے ٹائم پے کرونگا ، یہ قسط صرف طالبان کے جڑھ پکڑنے اور پروان چڑھانے والے عوامل کی نشاندہی کے بارے میں ہے ،
پاکستان میں دہشت گردی کی شروعات کی وجوہات میں سر فہرست وجہہ سمجھی جانے والی باجوڑ کے خودکش بمبار تیار کرنے والے مدرسہ پر پاکستانی طیاروں کی بمباری یا ممکنہ امریکی ڈرون حملے، اور لال مسجد آپریشن کو طالبان نے پاکستان کے خلاف لڑائی کو جایز قرار دینے اور عوامی راۓ و ہمدردی حاصل کرنے کے لیے خوب استمعال کیا ، اور یہاں سے انہوں نے یہ بات بھی شروع کی کہ چونکہ پاکستان امریکہ کا غیر اعلانیہ اتحادی ہے تو اسلیے جو جنگ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ہے وہ پاکستان کے خلاف بھی ہوگی –
اس سٹیج پر آ کر علاقے کے مشران کو احساس ہوا کے انھوں نے طالبان کی حمایت یا انکی حمایت نہ روک کر بہت بڑی غلطی کردی ہے ،
ادھر طالبان نے باقاعدہ پاکستانی فورسز کے خلاف اپنی کاروایوں کا آغاز کردیا ، کئی ایک کامیاب کاروائیاں کرنے اور فخریہ ماننے کے بعد پولیٹیکل انتظامیہ کی طرف سے علاقے کے مشران کو یہ ہدایات آئین کہ وہ حکومتی اہلکاروں کے خلاف اپنے علاقے سے ہونے والی کاروائیوں کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کریں ورنہ پھر حکومت کو کچھ کرنا پڑیگا ، اس وقت تک ہمارے مشران کو بھی یہ احساس ہوچکا تھا کہ پاکستان نہیں بلکہ ان کے اپنی بقاہ کے لیے بھی طالبان کا سد باب لازمی ہوگیا ہے ،
اس ضمن میں چند ایک ایسے مشران تھے جو کہ اپنی روشن خیالی کی وجہ سے کافی متحرک ہوگئے، اور قصّہ مختصر یہ کہ ایک ہفتے کے اندر تین بہت ہی اہم مشران کو ٹارگٹ کر کے قتل کیا گیا ، گو کہ ذمہ داری طالبان نے نہیں لی لیکن سب کو معلوم تھا کہ کس نے کیا ہے ، لہٰذا یہاں آ کر بہت سے لوگوں کو ہوش آیا کہ یہ غلط ہورہا ہے اور اس سے پہلے کے پانی سر سے گزرے ، کوئی بڑا بند باندھنا چاہیے
اور اسی مقصد کے لیے خفیہ اطلاعات دے کر پورے علاقے کا ایک بہت بڑا جرگہ بلا لیا گیا ، جس میں سارے علاقے کے چوٹی کے مشران اور بزرگ تھے ، اور سب کو یقین تھا کہ یہاں سے جو فیصلہ ہوگا وہ اس علاقے کی مشترکہ حکمت عملی مرتب کریگا ، اور قبائلی نظام میں ہوتا بھی ایسے ہے کہ لوگ الله کے فیصلے کی تو خلاف ورزی کرسکتے ہیں لیکن ایک مشترکہ جرگے کے متفقہ فیصلے کی کبھی نہیں ، اسلیے تمام لوگ اس جرگہ سے کافی امیدیں اور اپنی نظریں مرکوز کیے ہوے تھے ،
….میرے الفاظ اگر میرا ساتھ دیں یا پتہ نہیں میں کیسے آپ سب تک اپنے جذبات پہنچا سکوں جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں …..لیکن خیر …..اس جرگہ میں خودکش دھماکہ ہوگیا …دھماکہ نہیں ، قیامت آگئی، بہت سے لوگوں کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ میں کسی علاقہ کی بات کررہا ہوں ، خصوصاً ڈھونڈھنے والوں کو –
دھماکہ کھلے میدان میں ہوا تھا ، دو سو سے زیادہ بندے، اور وہ بندے جو کہ ہمارا سب کچھ تھے …سب کچھ مطلب سب کچھ …مر گئے ، سارے میدان میں انسانی جسم کے جلے ہوے چیتھڑے یا کالا قیمہ پڑھا ہوا تھا
میں وہاں نہیں تھا لیکن جب وہاں پہنچا تو ان میں کوئی ایسا نہیں تھا کہ جس کو ہسپتال بھی لے جایا جا سکے ، اور اگر ہوتا بھی تو کہاں لے جاتے ؟ سینکڑوں میل دور پشاور ؟
خیر صرف ایک زخمی تھا جس پے اپنی دکان کی چت گر گئی تھی اور اس کو اس کے گھر والے لے گئے تھے لیکن باقی بس ایسے تھے کہ جنکو لیجانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا ، بس آھستہ آہستہ خود مر رہے تھے تو اسلیے مدد کو آنے والوں کے پاس رونے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ تھا ،
مغرب کی نماز کے بعد ایف ایم پر طالبان نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کی اور کہا کہ یہ اسلامی انقلاب کے خلاف ایک سازش تھی اسلیے اس کو نشانہ بنایا گیا اور چونکہ اب انکو پتہ لگ گیا تھا کہ پورے علاقہ کی ہمّت اور طاقت ٹوٹ اور ختم ہوچکی ہے تو انھوں نے یہ تنبیہ بھی کی کہ اگر آیندہ کسی نے ایسی بات بھی کی تو اسے اس سے بھی کربناک سزا دی جائیگی ، اور کچھ دنوں میں ہی جو گنے چنے ایک دو لوگ رہ گئے تھے انکو بھی مار دیا گیا ، ایک کو ذبح کیا گیا اور دو کو شوٹ کیا گیا ، (طالبان کے مظالم کا تفصیلی ذکر میں نے آخری ایک دو اقساط کے لیے رکھا ہے تو اسلیے اب یہاں یہ بیان نہیں کرونگا کہ ان مشران یا ملکان کے خاندان والوں خصوصاً خواتین کے ساتھ طالبان نے کیسا اسلامی سلوک کیا )
تھوڑے ہی عرصے میں دیکھتے ہی دیکھتے ہماری زندگی ، علاقے کے خد و خال اور جینے کے اصول تبدیل کر دیے گئے ، افغانستان اور پوری دنیا میں اسلامی حکومت اور ریاست کی دعایں مانگ مانگ کر نہ تھکنے والوں کو اب اسلامی ماحول میں رہ کر موت پڑھ رہی تھی ، ذاتی زندگی میں کھلم کھلی مداخلت شروع ہوگئی ، داڑھیاں رکھنے اور پانچ وقت با جماعت نماز میں شرکت کی سختی سے ہدایت اور اعلانات کیے گئے ، اور کئی لوگوں کو خلاف ورزی پر کوڑھے لگاۓ گئے ، ہر گھر پر ١٠٠ روپے ماہانہ ٹیکس لگایا گیا لیکن جو سب سے اذیت ناک چیز مجھے لگی وہ وہاں کے صدیوں سے آباد سکھوں کو ایک نہایت ہی ناجایز ٹیکس یا علاقہ چھوڑنے کا کہا گیا جس پر وہاں کے سکھوں کے پاس علاقہ چھوڑنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا ،
میں وہ منظر نہیں بھول سکتا جب وہ جاتے وقت اپنے خوبصورت اور انتہائی جدید انداز سے بناۓ ہوے گھروں کے دروازوں سے لگ کر رو رہے تھے ، اور یہ سب کو معلوم تھا کہ اب وہ واپس کبھی نہیں آینگے کیونکہ اس دن سے لے کر آج تک حالات دن با دن خراب ہوتے جارہے ہیں ، میں ان سکھوں کے بارے میں اور بھی بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن وہی پرانی مجبوری…..موت
اس دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کے نشانہ بننے سے بچنے کے لیے بچے کچے اہم لوگ پشاور اپنے خاندان سمیت چلے گئے اور یوں یہ علاقہ پورا کا پورا طالبان کی بادشاہت کے زیر اثر آ گیا ،
خودکش ٹریننگ کیمپ بنے اور جہادی ٹریننگ کا کاکول جیسا محفوظ ٹھکانا بن گیا ، یوں ہمارے علاقے میں طالبان کو ایک بہت ہی زیادہ اور مضبوط و محفوظ مرکز مل گیا ، جہاں پر انکا خوف بھی تھا ، کوئی ان کے خلاف بول بھی نہیں سکتا تھا اور یہاں سے پاکستان کے تقریباً تمام اہم اور بڑے حملوں کی منصوبہ بندی بھی ہوتی گئی ،
فوج کو جب پریشانی ہوئی تو انھوں نے یہاں کے مقامی بھرتی خاصہ داروں کو کاروائی کا کہا لیکن انکو طالبان کی طرف سے ایک رات پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ اگر انھوں نے طالبان کے خلاف ایک گولی بھی چلائی تو انکے خاندان کے جانوروں تک کو کاٹ دیا جاےگا- تو اسلیے یہاں کے تمام خاصہ داروں نے اپنی پیٹیاں حکومت کو واپس کردیں
اور کچھ ہی عرصہ بعد فوج نے یہاں آپریشن کا اعلان کیا ، اس آپریشن سے علاقہ والے دل میں بہت ہی خوش تھے کیونکہ طالبان کے آنے کے بعد سب لوگ ذہنی مریض سے ہو گئے تھے ، یعنی معیشت کو چھوڑیں ، ہماری ثقافت اور علاقائی رنگ اور میلے ختم کردیے گئے تھے جس سے ہر بندہ متاثر تھا، تو اسلیے فوج کے آنے پر یہاں کی آبادی خوش تھی لیکن اظہار نہیں کر سکتی تھی ،
صرف ایک ڈر تھا اور وہ یہ کہ افغانستان کے طالبان ، کسی حد تک القاعدہ اور پاکستانی جہادی تنظیموں کے ساتھ فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے ملاپ کا تمام قبائلیوں کو اچھی طرح پتہ ہے جس کا میں پہلی اقساط میں ذکر کر چکا ہوں ، تو خوف تھا کہ کہیں طالبان اور فوج آپس میں مل کر ہماری وہ آخری امید بھی ختم نہ کر دیں – لیکن پھر سوچتے تھے کہ نہیں ، ایسا اسلیے نہیں ہوسکتا کہ آج تک کسی جہادی تنظیم ، افغانی جنگ میں لڑے مجاہدین یا کسی بھی مجاہد نے پاکستانی ریاست یا فورسز کے خلاف کاروائی کو جایز نہیں سمجھا ، جب کہ تحریک طالبان پاکستان کھلم کھلا پاکستانی ریاست و افواج کو اپنا دشمن کہہ رہی ہیں ، تو اسلیے یہ ڈرامہ نہیں ہو سکتا –
فوج نے اعلان کے کچھ دنوں بعد آپریشن شروع کیا اور کچھ علاقوں پر قبضہ کر کے وہاں چیک پوسٹس بنائیں ، اور اعلان کیا کہ جس بندے کے پاس طالبان کے بارے میں کسی طرح کی کوئی بھی معلومات ہوں تو وہ کسی بھی قریبی فوجی چوکی آ کر معلومات دیں ، نام نہایت ہی صیغہ راز میں رکھا جاےگا ، بذات خود اسلیے جانا پڑھتا کہ وہاں پر موبائل اور ٹیلی فون کا نظام ختم ہوچکا تھا ،
یہاں آ کر کچھ واقعات ایسے ہوے کہ علاقے کے لوگوں کی آخری امید پر بھی پانی پھر گیا ،
ہمارے علاقے کا ایک سٹوڈنٹ تھا جو پشاور یونیورسٹی میں پڑھتا تھا ، اس نے ایک فوجی چوکی جا کر ایک بہت ہی اہم طالبان کمانڈر کے بارے میں معلومات دیں، معلومات دے کر ابھی وہ گھر آتے ہوے راستے میں ہی تھا کہ طالبان نے اسے اٹا لیا اور شام کو کو اس کی لاش مقامی بازار کے قصائی کی دکان کے سلاخوں میں ٹکڑوں میں تقسیم شدہ پڑی تھی ،اس کا سر ایک سیخ میں ٹانکا ہوا تھا اور باقی بدن ٹکڑوں میں ، اور طالبان اس کی روداد سب کو بیان کررہے تھے کہ یہ ہماری مخبری دینے فوج کے پاس گیا تھا ، تو آپ سب بھی اسکو اپنے لیے ایک مثال جانو —
بہت ہی خوبصورت نوجوان ..
اس سے بہت سے لوگوں کو پتہ چل گیا کہ پاک فوج کیسا آپریشن کررہی ہے ،
میرے تین بہت ہی قریبی دوست طالبان میں تھے ، اس نے کہا تھا کہ ہیلی کاپٹرز کے آنے سے ١ گھنٹہ پہلے ہمیں اطلاع مل جاتی ہے کہ بمباری ہونی ہے ، اسلیے ہم محفوظ جگہ چلے جاتے ہیں ، اس کے مطابق تو یہ الله کی مدد اور مجاہدین کے ہمدردوں کی قربانی تھی لیکن بعد میں سمجھ آیا تھا کہ کس کی عنایات اور کس کے لیے یہ بمباری ہوتی تھی ،
یوں ہفتے میں ٣-٤ دن بمباری ہوتی جس سے پہاڑوں کے چٹان اور درخت زخمی و ہلاک ہوتے اور کل کے اخبار میں وہی پتھر و درخت انسان بن جاتے –
لیکن حد درجہ کی نا اہلی یہ ہوئی کہ ایک دن ہیلی کاپٹرز بمباری کر کے واپس جا رہے تھے ، کہ ایک ہیلی بہت ہی نیچے آ کر ایک بہت ہی بڑا سفید بنڈل ہمارے کرکٹ گراؤنڈ میں پھینک گیا ، خوف کے مارے سب گھروں کی طرف بھاگے کے پتہ نہی اس میں کیا ہے ، اور تقریباً ٤٥ منٹ بعد طالبان کی تین گاڑیاں آ یں اور اس پورے بنڈل کو کھول کر جس میں چاول ، آٹے سمیت مختلف قسم کی اور بوریاں تھیں لے گئے ، جس سے سو فیصد اندازہ ہو گیا کے من و سلوا کہاں اور کیسے آتا ہے
یہ چند قصّے یا مثالیں تھیں جو میں نے بیان کیں، حالانکہ اصلیت ظاہر کرنے کو اور بہت ہے لیکن اس سے صرف آپ کو ایک آئیڈیا دینا تھا کہ کیا ہوا تھا ، لیکن میری اپنی ناقص راۓ میں ایک سال ہوے حالات بدل گئے ہیں ، اور حالات کے بدلنے سے میری مراد پاک فوج اور طالبان کے رشتے ہیں ، کیونکہ میری ناقص معلومات کے مطابق دونوں کے درمیان دشمنی اب اصلی ہوگئی ہے ، لیکن بہرحال یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ یا خفیہ اداروں کی دوستی یا نیت پر حتمی راۓ الله بھی نہیں دے سکتا ، سو اسلیے میں اپنی راۓ اپنے آپ تک محدود رکھتا ہوں ،
طالب زدہ.قسط 7
https://lubpak.com/archives/257257
طالب زدہ-قسط 6
https://lubpak.com/archives/257265
طالب زدہ–قسط 5
https://lubpak.com/archives/257271
طالب زدہ-قسط 4
https://lubpak.com/archives/257277
طالب زدہ -قسط 3
https://lubpak.com/archives/257285
طالب زدہ -قسط 2
https://lubpak.com/archives/257291
1طالب زدہ – قسط
https://lubpak.com/archives/257297