ملٹری اسٹبلشمنٹ،تزویراتی گہرائی اور تکفیری خارجی عسکریت پسندی-آخری حصّہ

یہ سب محض اتفاقات نہیں ہیں بلکہ اگر ہم پاکستان اور سعودیہ عرب کے درمیان ان واقعات کو ذھن میں رکھتے ہوئے سٹریٹجک تعلقات کی ازسرنو استواری،پاکستان میں سعودی وزیر دفاع سے لیکر اہم ترین سعودی اعلی عہدے داروں کے پے در پے دورے اور سعودیہ عرب اور پاکستان کے درمیان مبینہ ایٹمی پروگرام کی ڈیل کی خبریں اور پاکستان کے اہم فوجی عہدے داروں کی جانب سے سعودی عرب کے حکام کا مڈل ایسٹ میں تعاون کے لیے رابطوں کی تصدیق اور پاکستان کا سعودیہ عرب کے مالی تعاون سے شام اور لبنان کے سریع الحرکت گوریلا فورس کی تیاریاں اور وہابی عسکریت پسند تںظیم جماعۃ الدعوۃ کی پاکستان میں نام نہاد جہادی ایمپائر کی تشکیل کی کوششیں اور پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی جماعۃ الدعوۃ کی پشت پناہی اور جماعۃ الدعوۃ کا بلوچستان،جنوبی پنجاب،بلوچستان  اور اندرون سندھ پھیلتا ہوا نیٹ ورک اور پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی جہادی پراکسی میں جماعۃ الدعوۃ اور اس کے عسکری ونگ لشکر طیبہ کا اہم ترین مقام کو بھی دیکھا جائے تو بات سمجھ میں آتی ہے

یہاں ایک اور مغالطہ جس کو پاکستان کا مین سٹریم میڈیا اور خاص طور پر فیک لبرل اور فیک سول سوسائٹی کے بعض نام نہاد دانشور اور عسکری اسٹبلشمنٹ کے ہم بستر صحافی زیادہ پھیلا رہے ہیں کو بھی دور کرنے کی ضرورت ہے اور یہ مغالطہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اور ملٹری طالبان سے نمٹنے میں الگ الگ خواہش رکھتی ہیں

مثال کے طور پر پیپلزپارٹی ،ایم کیو ایم اور اے این پی کے بھی کچھ لوگ ایسے ظاہر کرتے ہیں جیسے پاکستان آرمی تو پرائیوٹ لشکر سازی اور دیوبندی-وہابی خارجی تکفیری دھشت گردی کے خلاف بھرپور ایکشن کرنا چاہتی ہے لیکن نواز شریف ایسا نہیں چاہتے

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز سمیت دائيں بازو کی اکثریت اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے درمیان ان دیوبندی-وہابی خارجی تکفیری دھشت گردوں کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے جو ملٹری اسٹبلشمنٹ کی  جہادی پراکسی کے تابع ہیں اس لیے ملٹری اسٹبلشمنٹ ان کو پورا تحفظ فراہم کرتی ہے اور ان کو پاکستان میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے پر کسی پریشیانی کا سامنا نہیں ہے

جماعۃ الدعوۃ،اہل سنت والجماعت،ان کے عسکری ونگ لشکر طیبہ،لشکر جھنگوی (جو ملٹری کو نشانہ نہیں بناتے)،جیش محمد ،حزب المجاہدین ،البدر ،الرشید ٹرسٹ ،حقانی نیٹ ورک،گل بہادر و ملّا نذیر کے طالبانی گروپ ،افغان طالبان کے دھڑے اور ایسے کئی اور گروپ جن کو ملٹری اسٹبلشمنٹ کی چھتری حاصل ہے ،حافظ سعید،مولوی مسعود اظہر،لدھیانوی،فاروقی،کمانڈر فضل ارحمان خلیل اور درجنوں نام ہیں جن کو ملٹری اسٹبلشمنٹ اور آئی ایس آئی کی حمائت آج بھی حاصل ہے

اختلاف اگر کہیں ہے تو وہ ٹی ٹی پی کی قیادت سے ہے جس کو اپنے زیر کنٹرول لانے کا بھوت بری طرح سے ملٹری اسٹبلشمنٹ کے اعصاب پر سوار ہے اس میں بھی پہلے حکیم اللہ مسحود ٹف تھا اور اب ملّا فضل اللہ سامنے ہے یہ بے قابو عسکریت پسند ہیں جن کو قابو میں لانے کے گاجر اور ڈنڈے دونوں حربے استعمال کئے جارہے ہیں

بہت سے باوثوق زرایع یہ بھی کہتے ہیں کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ تکفیری-خارجی دیوبندی دھشت گردوں کے بے قابو نیٹ ورک کو قابو میں لانے کے لیے سنّی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت المسلمین کا ہوّا بڑا بناکر دکھارہی ہے جبکہ وہ خارجی وہابی فکر کے پھیلاؤ کے بارے میں پریشان ہرگز نہیں ہے

ملٹری اسٹبلشمنٹ سے وہابی اور دیوبندی دائیں بازو کی جماعتوں کا اختلاف صرف اتنا ہے ملٹری اسٹبلشمنٹ بے قابو مذھبی عسکریت پسندوں کے ساتھ بھی وہی کچھ کررہی جو یہ بلوچ،سندھی عسکریت پسندوں اور بلوچ آزادی پسند پرامن جدوجہد کررہی ہے یعنی یا تو جیٹ طیاروں سے بمباری یا پھر اغوا کرنا اور مارکر ویرانے میں پھینک دینا جبکہ دیوبندی اور وہابی جماعتیں ملٹری کو ان بے قابو عناصر کو ملک دشمن اور قرار دیکر مارنے یا غائب کردینے سے روک رہی ہیں اور ان کو بس زرا سا گمراہ یا بھٹکا ہوا کہہ کر راہ راست پر لانے کا کہہ رہی ہیں اور اس نکتہ نظر کی حمائت خود ملٹری کے اندر بھی موجود ہیں

لیکن بلوچوں کے معاملے میں یہ دونوں پھر ایک رائے کے حامل ہیں اور ملٹری وہاں جو کچھ کررہی ہے درپردہ اس کی حمائت کرتے ہیں

اس لیے اگر مستقبل قریب میں موجودہ بات چیت کی فضاء اگر ختم ہوتی ہے تو آپریشن کا مطلب صرف و صرف بے قابو عسکریت پسندوں کے خلاف ہوگا اور پاکستان میں دیوبندی-وہابی تکفیری خارجی آئیڈیالوجی اس آپریشن کے نتیجے میں ختم نہیں ہوگی

ہمارے خیال میں ملٹری اسٹبلشمنٹ افغانستان پر امریکی حملے سے قبل اپنی جہادی پراکسیز کو پوری طرح سے فعال دیکھنا چاہتی ہے اور ان کاسمیٹک تبدیلیوں کو بھی واپس لے گی اور شاید “جہاد کشمیر پروجیکٹ “اعلانیہ دوبارہ شروع ہوجائے

یار لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ مظفر آباد-سرینگر ٹریڈ روٹ پر ٹریڈ میں روکاوٹ جو بھارتی حکومت نے پیدا کی ہے اس کا ایک سبب “جہاد کشمیر”کو احیاء کرنے کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی مبینہ کوششیں ہيں اور اس میں جہادی پراکسی کے لیے درکار رقم کو پورا کرنے کے لیے منشیات کے ریکٹ کا کشمیر کے راستے انڈیا تک تعمیر ہے

دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ تزویراتی گہرائی اور ڈیپ سٹیٹ کنسٹرکشن کے لیے دیوبندی-وہابی تکفیری خارجی عسکریت پسند تحریک کو کس قدر رعایات دے سکتی ہے

اس ضمن میں اگر ہم پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی ماضی میں بے قابو ہونے والے تکفیری خارجی دیوبندی طالبان سے ہونے والی مبینہ ڈیلز کو دیکھیں تو صاف پتہ چلے گا کہ 2004ء میں وادی شکئی میں مولوی نیک محمد سے کی گئی ڈیل اور صوفی محمد اور خود فضل اللہ کے ساتھ کی گئی ڈیل میں خارجیت و تکفیریت کی فسطائیت کو “شریعت ” کہہ کر عوام پر مسلط کرنا منظور کرلیا گیا

خیبر ایجنسی میں اس حوالے سے پاکستان آرمی کی دیوبندی تکفیری خارجی مفتی منیر شاکر اور منگل باغ کو دی جانے والی رعایات ہیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے منگل باغ نے بریلوی پشتونوں اور شیعہ پشتونوں کا خیبر ایجنسی میں جینا حرام کرڈالا تھا اور خیبر ایجنسی میں موجود درجنوں مزارات کو بم سے اڑادیا گیا تھا

اسی طرح سے پاکستانی فوج اور ایجنسیوں نے باجوڑ،اورکزئی میں تکفیری خارجی برانڈ کی شریعت کے نفاز پر کوئی اعتراض وارد نہ کیا بلکہ کرم ایجنسی پارہ چنار میں اس نے شیعہ اور صوفی سنّی مسالک کے مقابلے میں دیوبندی خارجی تکفیری سپاہ صحابہ پاکستان /لشکر جھنگوی اورطالبان کو سپورٹ کیا

پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کو شیعہ،سنّی بریلوی آبادی کے خلاف فاٹا،پاٹا میں بالخصوص اور خیبرپختون خوا میں بالعموم تکفیری خارجی دیوبندی برانڈ شریعت کے ابھار جسے طالبانائزیشن بھی کہا جاتا ہے پھیلنے کا موقعہ فراہم کیا اور اس کی حمائت یافتہ ایم ایم اے کی حکومت حسبہ ایکٹ لیکر آئی

ملٹری اسٹبلشمنٹ نے افغانستان میں اعتدال پسند صوفی اسلام کے حامی پرانے جہادیوں اور شیعہ و ہزارہ نسلی اقلیتوں اور دری بولنے والے افغانوں کے مقابلے میں مہاجر کیمپوں یا دیوبندی وہابی مدرسوں میں جوان ہونے والے اور سعودی وہابی آئیڈیالوجی کے زیر اثر سخت فرقہ پرست عسکریت پسندوں کو برسراقتدار لانے کی منصوبہ بندی کی

اس ساری تفصیل کا مقصد یہ بتانا ہے کہ پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ اور وفاق میں برسراقتدار مسلم لیگ نواز کی حکومت کو نہ تو پاکستان کے اندر خاص قسم کی طالبانی شریعت کے نفاز سے کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی یہ اسے خلاف آئین و دستور خیال کرتی ہے اور اس طرح کی نام نہاد شریعت میں اگر شعیہ ،بریلوی ،عیسائی،ہندؤ اور احمدیوں کی مذھبی آزادیاں سلب ہوتی ہیں یا ان کی ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے یا کوئی ایسا شرعی آرڈیننس جاری  ہوتا ہے جس سے کالعدم سپاہ صحابہ کی نفرت انگیزی پر مبنی کوئی نعرہ قانون بن جاتا ہے تو ملٹری اسٹبلشمنٹ یا مسلم لیگ نواز کی حکومت کے لیے یہ کوئی ایشو نہیں ہے

آج جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں تو مذاکرات کے لیے ثالثی کمیٹی کے اعلان کے سامنے آنے تک ایک طرف تو ٹی ٹی پی کی جانب سے رینجر ہیڈکوارٹر پر خودکش حملہ کیا گیا ہے جبکہ کراچی میں آج بھی شیعہ شوہر اور بیوی پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں اصغر زیدی شہید اور ان کی بیوی شدید زخمی ہوئی ہیں اس سے پہلے بھی دو شیعہ مارے گئے تھے

گویا شیعہ ثارگٹ کلنگ جاری ہے اور ان پولیس افسروں اور رینجرز و فوج کے اہلکاروں پر بھی حملے جاری ہیں جنہوں نے  تکفیری دیوبندی خارجی دھشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کی سنجیدگی سے کوشش کی

شیعہ ٹارگٹ کلنگ،بریلویوں پر حملے،امام بارگاہوں،مزارات کی تباہی وغیرہ اگر اس طرح سے جاری رہتی ہے تو یہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کے نزدیک زیادہ بھاری قیمت نہیں ہے تزویراتی گہرائی کے لیے طالبان اور لشکر جھنگوی کے دھشت گردوں کا تعاون حاصل کرنے میں

ملٹری اسٹبلشمنٹ کی پالیسیوں اور روش پر نگاہ رکھنے والے ایک دفاعی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ چاہتی یہ ہے کہ عسکریت پسند اپنی کاروائیوں کا 85 فیصد فوکس انڈیا ،افغانستان،وسط ایشیا پر رکھیں اور وہ اس نام نہاد ریزرو فورس ایک پراکسی کے طور زیادہ مربوط طریقے سے بلوچستان اور سندھ میں آزادی پسندوں کے خلاف استعمال کرنے کی خواہش رکھتی ہے ہم فوج کی ڈاکٹرائن اور قومی سلامتی کی تازہ پالیسی کے پس پردہ اسی مقصد کو کارفرما دیکھتے ہیں

Comments

comments

Latest Comments
  1. Lover of PAKISTAN
    -
  2. farooq Usmani
    -