ملٹری اسٹبلشمنٹ،تزویراتی گہرائی اور تکفیری خارجی عسکریت پسندی-پہلا حصّہ

4

پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی جانب سے افغانستان کو اپنی کالونی بنانے ،اںڈیا سے کشمیر کو حاصل کرنے ،انڈیا سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا بدلہ لینے اور پاکستان کو ہمسایہ ملکوں کے اندر ایک ڈیپ ریاست بنانے کے لیے تزویراتی گہرائی کی پالیسی تشکیل دئے جانے کی کہانی ہر کسی کے علم میں ہے اور تزویراتی گہرائی کے حصول کے لیے ملٹری اسٹبلشمنٹ کی جانب سے دیوبندی اور وہابی فرقوں کے نوجوانوں میں تکفیری خارجی آئیڈیالوجی کے تحت عسکریت پسندی کو ابھارنے اور اس سے اپنے رشتے مستحکم کرنے اور اس کو مستقل پراکسی کے طور پر استعمال کرنے کی کہانی بھی ہر کسی کے علم میں ہے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملٹری کی تزویراتی گہرائی کی پالیسی اور پاکستان کو ایک سیکورٹی سٹیٹ بنانے کی کوشش کے دوران اس کے تکفیری دیوبندی-وہابی خارجیت پر استوار عسکریت پسندی کو پروان چڑھانے کا عمل کیا آج کسی تعطل کا شکار ہوا ہے؟کیا ملٹری اسٹبلشمنٹ اور اس کی ماتحت ایجنسیوں میں یہ سوچ ختم ہوگئی ہے کہ یہ تکفیری خارجی وہابی دیوبندی عسکریت پسند ان کا ریزور اثاثہ ہیں؟

کیا واقعی پاکستان کی ملٹریاسٹبلشمنٹ اپنی فوجی ڈاکٹرائن اور پراکسیز میں ایسی تبدیلی لارہی ہے جس سے پاکستان کے اندر پروان چڑھنے والی عسکریت پسندی جڑ سے اکھاڑ دیا جائے گا؟

موجودہ حکومت نے برسراقتدار آنے کے بعد ریاست کی نئی قومی

سلامتی کی پالیسی بنانے کا اعلان کیا تھا اور اس سلسلے میں ایک مسودہ وفاقی کابینہ کے پاس زیر غور ہے

پاکستان کی آرمی نے بھی سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی زیر قیادت نئی فوجی ڈاکٹرائن کی منظوری دی تھی جس کا بنیادی تھیم یہ تھا کہ پاکستان کی سلامتی کو خارجی سے زیادہ داخلی عناصر سے خطرہ ہے

اس دوران موجودہ حکومت نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تین سال سے تعطل کا شکار سٹریٹجک ڈائیلاگ کو پھر سے شروع کیا ہے اور اس حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان یہ ڈائیلاگ چند روز پہلے مکمل ہوا ہے

امریکی صدر باراک اوبامہ نے سٹیٹ آف یونین خطاب کے دوران امریکہ کی دھشت گردی کے خلاف جنگ بارے ترجیحات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2014ء کے آخر تک امریکی افواج کے افغانستان میں آپریشنز ختم ہوجائیں گے اور باراک اوبامہ نے ڈرونز کے استعمال میں بھی خاصی حد تک کمی لانے کا عندیہ دیا ہے

اگر دیکھا جائے تو بات بہت واضح ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی دونوں قیادت کے پیش نظر اس وقت افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کے انخلاء سے پیدا ہونے والی صورت حال ہے

پاکستان کی ملٹری میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو امریکی و نیٹو کے افغانستان سے انخلاء کا بہت بے صبری سے انتظار کررہے تھے اور ان کی کوشش تھی کہ افغانستان میں 9/11 کے بعد جو رجیم برسراقتدار آیا اس کے مقابلے میں طالبان اور دوسرے فریقین (جن میں حزب اسلامی ایک اہم فریق ہے)پر پاکستانی اثر رسوخ بہت حد تک واضح ہونا چاہئیے تاکہ پاکستان افغانستان میں ریاست کی گہرائی کو پاسکے

پاکستان کی ملٹری قیادت نے اگرچہ امریکہ کے ساتھ دھشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کے طور پر کام کیا لیکن اس نے کبھی طالبان کو ایک مکمل دھشت گرد اور پاکستان مخالف تنظیم قرار نہیں دیا بلکہ ملٹری قیادت کی جانب سے طالبان اور القائدہ کے درمیان فرق اور امتیاز پر اصرار کیا جاتا رہا

دھشت گردی کے خلاف جب امریکہ نے جنگ کرنے کا اعلان کیا اور اس حوالے سے پاکستان کی ملٹری اور سیاسی قیادت پر دباؤ بڑھایا کہ وہ “عسکریت پسندی” کو بطور ایک پراکسی کے استعمال کرنا بند کرے تو پاکستان کے اس وقت کے آمر حکمران نے بہت سی جہادی تنظیموں پر پابندی عائد کرڈالی

لیکن یہ پابندی کاسمیٹک تھی-پاکستان کی ملٹری اور سول انتظامیہ نے سنجیدگی کے ساتھ یہ قدم نہیں اٹھایا تھا

جن تنظیموں پر دھشت گردی کا الزام عائد کرکے پابندی عائد کی گئی تھی وہ جند ہفتوں میں ہی نئے ناموں سے کام کرنے لگی تھیں

پاکستان کی منتخب اور غیر منتخب مقتدر طاقتوں نے اصل میں 80ء کی دھائی میں دیوبندی-وہابی تکفیری خارجی آئیڈیالوجی کے پرچم تلے جس عسکریت پسندی کو تزویراتی گہرائی کو پانے کے لیے فروغ دیا تھا اس کے باب کو کبھی جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی ہی نہیں گئی

پاکستان کی ریاست کی ملٹری اور انٹیلی جنس ایجنسیوں میں ایسے عناصر موجود تھے جنہوں نے نہ صرف افغانستان،پاکستان ،کشمیر و ہندوستان کے اندر سے مقامی مذھبی عسکریت پسند تںطیموں کو مضبوط کیا بلکہ انہوں نے “تکفیری خارجی وہابی آئیڈیالوجی ” کے جھنڈے تلے “عالمی جہاد “اور “عالمی خلافت اسلامیہ “کے نعروں تلے وجود میں آنے والی تنظیم القائدہ کی مرکزی لیڈر شپ سے بھی تعلقات پیدا کئے اور یہی ملٹری اسٹبلشمنٹ تھی جس نے القائدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کو بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے نواز شریف کو پیسے فراہم کئے تھے

پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کے بارے میں اب یہ بات بہت وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اس نے پاکستان،افغانستان،کشمیر اور انڈیا میں سرگرم تکفیری خارجی دیوبندی وہابی عسکریت پسندوں کے تعلقات القائدہ کے لوگوں سے قائم کرنے میں عمل انگیز کا کام کیا تھا

افغانستان اور انڈیا میں اپنی تزویراتی گہرائی کو مستحکم بنانے کے لیے پاکستان کی عسکری مقتدرہ نے پاکستان کے اندر تکفیری-خارجی آئیڈیالوجی کو قدم جمانے کا پورا موقعہ فراہم کیا اور اس ضمن میں سعودی عرب کے مالیاتی تعاون سے اس آئیڈیالوجی کے مصالحے سے پاکستان میں ایک ایمپائر تعمیر کرنے کی سہولت بھی فراہم کیا

یہ ایمپائر پاکستان کے اعتدال پسند عوام کے مذھبی تشخص،ان کے کلچرل ورثہ اور ان کی مذھبی آزادیوں کو کیسے سلب کررہی تھی اس کی پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کو کوئی پرواہ نہیں تھی

پاکستان کی اکثریت مذھبی برادری بریلوی سنّی اور شیعہ کو اس ایمپائر کے کرتا دھرتا کیسے مارجلنلائز کررہے تھے اور کیسے اس ملک کے احمدیوں،ہندؤ اور عیسائیوں پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے اس کی بھی ملٹری اسٹبلشمنٹ اور اسٹبلشمنٹ نواز دائیں بازو کو کوئی پرواہ نہیں تھی

پاکستان کی ریاست نے سرکاری طور پر کبھی یہ تسلیم ہی نہیں کیا تھا اور نہ یہ اب کرتی ہے کہ پاکستان میں ایک مخصوص فکر کا حامل فاشسٹ گروہ موجود ہے جو شیعہ کی نسل کشی کررہا ہے ،بریلوی سنّی مسلک کی اکثریت کو زبردست پروپیگنڈے ،مالیاتی لالچ اور ریاستی سرپرستی میں اقلیت میں بدلنے کی مربوط کاروائی کرہا ہے اور وہ ہندؤ،احمدی اور عیسائیوں کو اس ملک کا برابر کا شہری تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور ان تمام مذھبی برادریوں کے خلاف منظم دھشت گردی اور فسطائی جبر کو مسلط کئے ہوئے ہے

دھشت گردی ،بدامنی اور خون ریزی کے بارے میں جس قدر بھی بحث سیاسی جماعتوں کی قیادت،ملٹری قیادت ،قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں ہوتی رہی ہے اس میں کسی ایک جگہ بھی واضح اور دو ٹوک انداز میں یہ تسلیم نہیں کیا گیا کہ دھشت گردی،بدامنی اور خون ریزی کی بنیادی وجہ وہ شیعہ-بریلوی سنّی،احمدی،ہندؤ،عیسائی مخالف خارجی تکفیری آئیڈیالوجی ہے جس کو  تمام نام نہاد جہادی(کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان،لشکر جھنگوی،تحریک طالبان پاکستان و افغانستان،تمام دیوبندی جہادی تنظیمں چاہے وہ کشمیر میں جہاد کا نعرہ لگا رہی ہوں یا افغانستان میں یا پاکستان میں )تنظیموں نے اپنی بنیادی آئیڈیالوجی بلکہ عقیدہ قرار دے رکھا ہے

دو روز پہلے جب میاں محمد نواز شریف،سید خورشید شاہ،مولانا فضل الرحمان ،عمران خان اور چوہدری نثار نے قومی اسمبلی میں دھشت گردی،بدامنی اور خون ریزی بارے خیالات کا اظہار کیا تو کسی ایک نے بھی تحریک طالبان،لشکر جھنگوی اور دیگر دیوبندی تکفیری خارجی دھشت گرد گروہوں کی آئیڈیالوجی اور ان کی تشکیل کی بنیاد پر ایک لفظ تک منہ سے نکالنے کی ہمت نہیں کی

بلکہ فضل الرحمان جب دھڑلے سے تکفیری خارجی قاتلوں کو بدمعاش اور درندے قرار دینے پر سیخ پاہوکر طالبان سے مذاکرات کرنے کی مخالفت کرنے والوں کو غیر مہذب اور ناشائستہ قرار دیتے رہے تو بھی پوری قومی اسمبلی میں کوئی ایک رکن بھی ایسا نہیں تھا جو فضل الرحمان کو جواب دیتا

ابھی کل کی بات ہے جب اسلام آباد میں افغانستان میں امن کے حوالے سے رو روزہ کانفرنس ہورہی تھی تو جماعت اسلامی کے امیر کی دریدہ دھنی دیکھنے کے قابل تھی اس مردود نے حضور علیہ الصلوۃ والتسلیم کے حضرت حمزہ کو دئے جانے والا خطاب سید الشہداء ایک ایسے جانور کو دے ڈالا جس کے ہاتھ ہزاروں مسلمانوں اور غیر حارب غیر مسلموں سے رنگے ہوئے تھے اور جو دور حاضر میں “سید الخوارج” تھا

منور حسن کی اس گستاخی اور دریدہ دہنی کو معمول کی بات سمجھ کر قبول کرلیا گیا اور اس موقعہ پر آئی ایس پی آر بھی خاموش رہا جس نے اپنے فوجیوں کو شہید نہ کہنے پر منور حسن کے لتے لیے تھے اور اس کو قوم اور افواج کی توھین کرنے کا زمہ دار ٹھہرایا تھا

جب اس گستاخ نے حضرت حمزہ کی روح کو تکلیف پہنچائی اور اس ملک کے باسیوں کے جذبات کی توھین کی تو کسی کی غیرت جوش میں نہیں آئی

اگر غور سے پاکستان آرمی کی ملٹری ڈاکٹرائن اور قومی سلامتی کی پالیسی کے مسودے،طالبان سے بات چیت کے اعلان کو پاکستان کی ریاست کے اب تک دھشت گردی کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات اور عمل کی روشنی میں جائزل لیا جائے تو ہم یہ بات کہنے پر مجبور ہوں گے کہ پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ جوکہ وہ ہاتھی ہے جس کے پاؤں میں سب کا پاؤں ہے وہ “دیوبندی-تکفیری خارجی آئیڈیالوجی” پر استوار عسکریت پسندی کو اپنے لیے خطرہ خیال نہیں کرتی ہے بلکہ وہ اس عسکریت پسندی کے کنٹرول سے باہر ہوجانے اور ان کے ایجنڈے سے آگے اپنا ایجنڈا بنانے کے عمل کو اپنے لیے خطرہ خیال کرتی ہے

ہم اپنے اس الزام کے جواب میں کچھ ایسے حقائق کی جانب اشارہ کرتے ہیں جو ملٹری اسٹبلشمنٹ کی اصل پریشانی کو سامنے لانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں

ملٹری اسٹبلشمنٹ کو لشکر جھنگوی کی ملک کے اندر جاری شیعہ نسل کشی مہم سے کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ اس نے افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں 30 ہزار شیعل مسلمانوں کو طالبان کے ہاتھوں زبح کرنے پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اور اس نے 90ء کی دھائی میں شیعہ کی ٹارگٹ کلنگ مہم میں ملوث ان جہادی دیوبندی تنظیموں کو ختم کرنے کی کوئی کوشش نہ کی جو اس وقت جہاد کشمیر کے نام پر افغانستان اور آزاد کشمیر میں پاکستان ‌ فوج کی نگرانی میں چلنے والے تربیتی کیمپ چلارہے تھے

2

اس وقت پاکستان کے شہروں اور دیہاتوں میں جو دیوبندی مدرسے دھشت گردی کا نصاب پڑھارہے ہیں اور دھشت گردوں کے لیے محفوظ جنت بنے ہوئے ہیں ان میں سے اکثر کی تعمیر 80ء اور 90ء کے عشروں میں آئی ایس آئی کے تعاون سے ہوئی

بلوچستان میں دھشت گردی اور وردی کے جو ڈانڈے ملتے ہیں اس سے بھی ہمارے دعوے کی تصدیق ہوتی ہے

3

پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی وہ ادارہ ہے جو دیوبندی-وہابی سیاست کو مرنے سے بچاتی آئي ہے اور اسی ادارے نے متحدہ مجلس عمل کی تشکیل میں اہم ترین کردار ادا کیا اور پھر آج کی جو دفاع پاکستان کونسل ہے اس کی تشکیل میں بھی آئی ایس آئی کا ہاتھ بہت واضح ہے اور اسی ایجنسی نے حقانی نیٹ ورک سمیت بہت سے عسکری گروپوں کو شمالی اور جنوبی وزیرستان میں اپنے قدم جمانے کا موقع فراہم کیا اور اے نیٹ ورک کو افغانستان میں اہم ترین پراکسی ٹول کے استعمال کیا

ہم پورے شرح صدر کے ساتھ یہ بات کہنے میں حق بجانب ہیں کہ پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ نے کبھی بھی تزویراتی گہرائی کی پالیسی کو ترک نہیں کیا اور یہ پاکستان کو ڈیپ سٹیٹ بنانے اور ایک سیکورٹی سٹیٹ بنانے کے منصوبے سے بھی کبھی دست بردار نہیں ہوئی ہے

اس کو اپنی تزویراتی گہرائی کی پالیسی کے آڑے آنے والے وہ بھی برداشت نہیں ہوتے جو ان کے اپنے  پروردہ ہوتے ہیں اور تاریخ کے کسی لمحے میں وہ اپنے آزاد کردار پر اصرار کرنے لگتے ہیں

کیا کوئٹہ میں مولانا عبداللہ زاکری،مولوی عبدالمالک،ہوتک اور دیگر اہم ترین افغان کمانڈروں کے یکے بعد دیگرے قتل میں یہ بات اہم نہیں ہے کہ یہ سب وہ کمانڈرز اور افغان طالبان رہنماء تھے جو کرزئی حکومت سے افغان طالبان کی بات چیت کی ایسی فضاء بنانے میں مصروف تھے جس سے آئی ایس آئی کے بائی پاس ہونے کا خطرہ پیدا ہورہا تھا

جلال الدین حقانی کا بیٹا نصیرالدین حقاںی آخر ایسے وقت میں ہلاک کیسے ہوا جب اس کے پاکستانی ایجنسی آئی ایس آئی کے ساتھ اختلافات کی خبریں آرہی تھیں؟

پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کو اگر کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان اور اس کے دوسرے نقابی نام لشکر جھنگوی کی اینٹی شیعہ،سنّی بریلوی تکفیری خارجی آئیڈیالوجی سے کوئی خطرہ ہوتا تو یہ کبھی بھی لشکر جھنگوي کو اپنی نگرانی میں بلوچستان لیکر نہ جاتی اور وہآں پر بلوچ قوم کے مزاحمت کی تحریک کے سرخیل سیاسی کارکنوں،دانشوروں،ادیبوں،شاعروں،وکلاء،ڈاکٹرز اور شیعہ برادری کے لوگوں کا قتل نہ کراتی اور کیا کسی کو اب اس بات میں کوئی شبہ ہے کہ لشکر جھنگوی بلوچستان میں ملٹری اسٹبلشمنٹ کی پراکسی وار کی اہم ترین اتحادی ہے؟

کیا یہ محض اتفاق ہے کہ کراچی کا سی آئی ڈی ڈیپارٹمنٹ کا نیا سربراہ ایس ایس پی عمر خطاب اپنے پیش رو شہید سربراہ کے بالکل الٹ دھشت گردی ،خون ریزی کراچی میں جاری شیعہ کی نسل کشی اور سنّی بریلویوں کے خلاف ہونے والی انتہا پسند کاروائیوں کے ضمن میں اچانک یہ نظریہ لیکر آتا ہے کہ دھشت گردی کے پیچھے ایران ہے اور کراچی میں وہ دھشت گردی کی اکثر وارداتوں کی زمہ داری شیعہ تنظیم سپاہ محمد پر ڈال دیتا ہے جس کا کوئی وجود نہیں ہے اور اس حوالے سے جو گرفتار لڑکے پیش کرتا ہے وہ دسمبر 2013ء سے گرفتار ہوئے ہوتے ہیں جن کی بازیابی کی درخواست سندھ ہائی کورٹ میں ہوتی ہے اور جن کی رہائی کے لیے اس نے مفروضہ دھشت گرد جوہر حسین کی بیوی سے دو لاکھ روپے رشوت کے طلب کئے ہوتے ہیں؟

کیا یہ بھی اتفاق ہے کہ پاکستان کا مین سٹریم میڈیا پاکستان میں شیعہ نسل کشی کے وجود سے انکاری ہے؟اور کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ مین سٹریم میڈیا شیعہ نسل کشی کے زمہ دار گروہوں کو دیوبندی تکفیری خارجی لکھنے سے گریز کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ان کو “سنّی شدت پسند ” لکھا جاتا ہے

Comments

comments