Asma Jahangir against Ansar Abbasi’s henchman
Ahmed Noorani is part of the group that is controlled by Ansar Abbasi at The News and Jang. Ahmed Noorani is known for taping conversations. He has done so with Nazir Naji, inciting him to hurl abuses at Ahmed Noorani which were printed in Jang and while the conversation was posted on pkpolitics.com (can someone make a connection!?). Earlier on in 2010, Ahmed Noorani taped the conversation of Asma Jahangir where she uttered the words “Uloo kay pathay” on the matter of Article 62 (f) of the constitution which was inserted by Zia ul Haq through the 8th Amendment. the same was printed in Jang and again furor was caused.
It is in light of his past, that Asma Jahangir did the right thing of not speaking to Ahmed Noorani on phone and demanding to respond in writing to questions. Ahmed made report which was titled “Supreme Court Bar Association ka naya sadar; Zardari Camp Asma Jahangir ka haami ban gaya” which was printed in Jang on June 14, 2010 and is pasted below.
In response to his report, Asma Jahangir’s rebuttal has been published in Jang on June 15, 2010. She has very clearly responded to the allegations of Ahmed Noorani. You can read the same below:
Noorani’s bias towards the PPP is again clearly reflected when he writes “Babar Awanon”. What is happening in Jang group. Have they lost all sensibility? What sort of reporting is taking place and more importantly the kind of words that are being published. Absolute rubbish!
International Herald Tribune censored for using word ‘Mosque’
Story here; http://cafepyala.blogspot.com/2010/06/point-blank.html
Censored article is available online; nytimes.com/2010/06/13/opinion/13sethi.html?src=me&ref=opinion
Height of insecurity.
ASLAMOALEKUM
MAIN AP KO LOGON KI HELP KARNAY PAR
MOBARAKBAD DETA HOUN.
REHAN. AWAN TOWN LAHORE.
Share
محترمہ ہمیں معاف فرمائیں……کس سے منصفی چاہیں…انصار عباسی
سپریم کورٹ بار کا الیکشن جیتنے کے بعد محترمہ عاصمہ جہانگیر نے جنگ گروپ اور جیو کو ہدف تنقید بنایا ہوا ہے۔ اپنی تنقید میں وہ نہ صرف ذاتیات پر اترتی جا رہی ہیں بلکہ ایک ایسا رویہ اپنائے ہوئے ہیں جس کی توقع کسی ایسے شخص سے نہیں کی جا سکتی جو اپنے آپ کو انسانی حقوق، جمہوریت اور میڈیا کی آزادی کا علمبردار سمجھتا ہو۔ گزشتہ ہفتہ سینئر صحافی محترمہ نسیم زہرہ کے ٹاک شو میں محترمہ عاصمہ جہانگیر نے جس قسم کے رویے کا مظاہرہ کیا اس کی مجھے قطعی توقع نہ تھی۔ نسیم زہرہ بھی حیران و پریشان تھیں کہ ان کے ٹاک شو کا موضوع تو کچھ اور تھا مگر عاصمہ جہانگیر نے جنگ گروپ اور جیو پر اپنا غصہ نکالنا شروع کردیا۔ میری موجودگی میں مجھے اور جنگ گروپ اور جیو کو زرد صحافت کرنے کے طعنے دیے گئے اور تقریباً ہر موقع پر مجھے ٹوکا گیا جس کے نتیجے میں پروگرام دو ایک مواقع پر مچھلی منڈی بن کر رہ گیا۔ مجھے تعجب اس بات پر ہوا کہ میں صدر آصف علی زرداری اور ان کی پالیسیوں پر بات کرتا تھا تو بجائے اس کے کہ مجھے وہاں موجود پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر مولا بخش چانڈیو جواب دیتے محترمہ عاصمہ نے یہ ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھا لی اور اس خوب انداز میں نبھائی کہ یہ کام شاید صدر زرداری اور حکومت کے اچھے اچھے نامزد ترجمان بھی نہ کر سکتے تھے۔ مجھے حکومت اور محترمہ کے درمیان گٹھ جوڑ کا پہلے جو شک تھا وہ اور شدید ہو گیا۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ سپریم کورٹ بار کے سربراہ کا عہدہ تومزاج میں ٹھہراؤ او ر برداشت کا متقاضی ہے۔میڈیا نے تو جناب اعتزاز احسن، علی احمد کرد اور قاضی انور صاحب کے خلاف بھی لکھا اور بولا مگر ان سب کا ردعمل ہمیشہ مہذب رہا۔ غلطیاں ہم سے بھی ہوتی ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ذمہ دار لوگ حکومت کے ساتھ آواز ملا کر اپنی کسی ذاتی عناد کی بنیاد پر کسی مخصوص میڈیا گروپ کے خلاف مہم چلانا شروع کر دیں۔ پروگرام کے دوران محترمہ کا فرمانا تھا کہ جنگ، دی نیوز اور جیو جھوٹ لکھتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے اوپر جنگ گروپ نے کیچڑ اچھالا۔ محترمہ نے ایک موقع پر کہا کہ جنگ گروپ نے ان پر احمدی ہونے کا الزام لگایا۔ ان کا کہنا تھا ”They talked about me being an ahmadi“ اور پھر میری طرف دیکھ کر کہا ”بھئی تمہیں کس نے کہا کہ میں احمدی ہوں“ ۔ پروگرام کے دوران تو محترمہ کچھ سننے کیلئے تیار ہی نہ تھیں مگر میں ان سے پوچھتا ہوں کہ مجھے بتائیں کہ میں نے یہ کب کہا کہ آپ قادیانی یا احمدی ہیں۔ مجھے چھوڑیں مہربانی کرکے اتنا ہی بتا دیں کہ جنگ یا دی نیوز نے کب لکھا کہ آپ قادیانی ہیں۔ اگر سپریم کورٹ بار کے الیکشن کے دوران ایسی باتیں کی گئیں تو اس میں جنگ گروپ، جیو یا انصار عباسی کیسے قصور وار ٹھہرے۔ ریکارڈ کی درستگی کیلئے بتاتا چلوں کہ الیکشن کے روز چھپنے والی اپنی رپورٹ میں طارق بٹ صاحب نے وکلاء کی سیاست کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہوئے ایک جگہ لکھا ”سپریم کورٹ بار کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے والے وکلاء کے درمیان عاصمہ جہانگیر کے خلاف ”قادیانی“ فیکٹر کی بھی بحث ہو رہی ہے اور انتخابات میں یہ بات اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔“ طارق بٹ جو ایک سینئر صحافی ہیں اگرچہ میرے ساتھ دی نیوز کی تحقیقاتی ٹیم کے اہم رکن ہیں مگر انہوں نے جو لکھا نہ تو میرے کہنے پر لکھا اور نہ ہی انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ ایسا لکھ رہے ہیں۔ بٹ صاحب نے بھی عاصمہ کو قادیانی نہیں گردانا بلکہ اس بحث کا مختصراً تذکرہ کیا جو تمام وکلاء برادری میں زبان زدعام تھی۔ بٹ صاحب نے انتہائی احتیاط سے اس فیکٹر کا حوالہ دیا۔ حقیقت میں جو کچھ کہا گیا وہ اس سے بہت سنگین تھا اور یہ تمام وکلاء برادری جانتی ہے۔ اگرچہ پورا جنگ گروپ محترمہ کے نشانہ پر آ گیا مگر غور کرنے پر پتہ چلے گا کہ عاصمہ جہانگیر کے حق میں جنگ گروپ میں بہت کچھ لکھا گیا اور ان سے متعلق قادیانی فیکٹر سے متعلقہ بات کی بھی حال ہی میں حامد میر صاحب نے اپنے کالم میں وضاحت کی۔ میر صاحب کا کالم جو عاصمہ صاحبہ کے حق میں لکھا گیا تھا اس میں محترمہ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہا کہ محترمہ کے شوہر قادیانی نہیں بلکہ ان کے سسرال میں کچھ لوگوں کا تعلق احمدیوں کی لاہوری جماعت سے ہے۔ حامد میر صاحب کے علاوہ جنگ اور دی نیوز میں محترمہ کے حق میں اور بہت کچھ لکھا گیا اور ان لکھنے والوں میں جناب منو بھائی، ایاز امیر، غازی صلاح الدین ، شکیل شیخ، بابر ستار، شفقت محمود وغیرہ شامل ہیں۔ ”جھوٹ“ لکھنے والے جنگ گروپ نے محترمہ کے الیکشن جیتنے پر ان کے حق میں اداریہ بھی لکھا۔ کوئی پوچھے کیا کسی ایسے لکھنے والے کو لکھنے سے روکا گیا۔ کیا محترمہ کے حق میں لکھا ہوا ایک لفظ بھی کاٹا گیا۔ اگر نہیں تو پھر مہم کہاں چلائی گئی۔
مجھے نہیں معلوم کہ محترمہ کے اصل غصہ کی کیا وجہ ہے مگر میں ایک حقیقت یہاں ضرور بتانا چاہوں گا کہ الیکشن سے ایک روز قبل محترمہ اور ان کے کچھ ہمدرد سینئر صحافیوں نے جنگ گروپ پر بھرپورپریشر ڈالنے کی کوشش کی کہ جنگ اور دی نیوز جناب احمد نورانی کی وہ خبر نہ چھاپیں جس میں اس نوجوان صحافی نے محترمہ کے سپریم کورٹ کے این آر او پر فیصلے کے بعد اعلیٰ عدلیہ کے خلاف دیئے گئے بیانات کے اقتباسات کو من و عن پیش کیا۔ کس نے محترمہ اور ان کے سفارشی سینئر صحافیوں کو یہ مخبری کی کہ احمد نورانی کوئی ایسی خبر کر رہے ہیں، ابھی تک ہمیں معلوم نہ ہو سکا اگرچہ اس پر ادارے کے اندر پوچھ گچھ ہو رہی ہے۔ جنگ گروپ کا یہ جرم ہے کہ اس نے اس خبر کو روکنے سے انکار کر دیا۔ محترمہ کا کہنا ہے کہ جنگ گروپ جھوٹ لکھتا ہے اور جیو جھوٹ بولتا ہے۔ جنگ گروپ کے کچھ صحافیوں نے یہ لکھا کہ عاصمہ جہانگیر کو حکومت اور پی پی پی کی سپورٹ حاصل ہے۔ یہ بات دوسرے اخبارات اور ٹی وی چینلز بھی کہتے رہے۔ ہاں یہ جنگ گروپ کا جرم ضرور ہے کہ اس نے سردار لطیف کھوسہ جو پیپلزلائرز فورم کے سربراہ اور صدر زرداری کے اہم دست راست ہیں کا یہ بیان چھاپا کہ پیپلزپارٹی کے وکلاء‘ حکومت اور بابر اعوان سب عاصمہ جہانگیر کی سپریم کورٹ بار الیکشن میں حمایت کریں گے۔ الیکشن سے قبل ہم نے عاصمہ جہانگیر کے متعلق صرف دو ایسی خبریں چھاپیں جو ان کی طبیعت کو ناگوار گزریں۔ ایک خبر الیکشن سے تقریباً تین چار ماہ قبل اور دوسری تقریباً آٹھ نو ماہ قبل چھپی۔ پہلی خبر کا ان کے الیکشن سے کوئی تعلق نہ تھا بلکہ وہ محترمہ کا اٹھارویں ترمیم کے لیے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے آئین میں کسی بھی اسلامی شق کو تبدیل یا ختم نہ کرنے کے فیصلے کی خبر پر ردعمل تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پارلیمنٹیرین الو کے پٹھے ہیں۔ اگرچہ دوسرے دن انہوں نے اپنے اس بیان کی تردید جاری کر دی مگر دی نیوز کے متعلقہ صحافی کے پاس محترمہ کے انٹرویو کا ثبوت موجود ہے۔ دوسری خبر میں یہ کہا گیا تھا سپریم کورٹ بار کے الیکشن میں عاصمہ جہانگیر پی پی پی اور زرداری کیمپ کی امیدوار ہوں گی ۔ اس خبر کے لیے محترمہ اور محترمہ کے چیف سپورٹر جسٹس طارق محمود کا موٴ قف بھی لیا گیا تھا جو شائع بھی ہوا اور بعدازاں سردار لطیف کھوسہ کے بیان سے ثابت بھی ہو گیا کہ جو چند ماہ قبل جنگ گروپ نے لکھا وہ سچ تھا۔ یہاں میں ایک بات واضح کر دوں کہ اگر ہم نے یا جنگ گروپ نے محترمہ کے خلاف کوئی مہم چلانی ہوتی تو اس کے لیے الیکشن سے قبل چند ہفتوں میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا سکتا تھا مگر ایسا ہرگز نہیں کیا گیا۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ محترمہ کے چیف سپورٹر جسٹس طارق محمود یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ جنگ گروپ اس الیکشن میں اپنی مرضی کے نتائج چاہتا تھا۔ ایک ذریعے کے مطابق ان چیف سپورٹر صاحب نے میرے متعلق یہ بھی بات کی کہ انصار عباسی نے الیکشن سے پہلے کہا تھا کہ میں دیکھتا ہوں کہ عاصمہ جہانگیر کیسے جیتتی ہے، جو سراسر جھوٹ ہے۔ جو مجھے جانتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ میں اس قسم کی ذہنیت رکھتا ہوں اور نہ ہی میں اس طرز کی گفتگو کرتا ہوں۔ عاصمہ جہانگیر نے بلاشبہ انسانی حقوق کے لیے کام کیا مگر میرا ان سے کوئی ذاتی عناد نہیں بلکہ ایک نظریاتی اختلاف ہے اور جس کی اصل وجہ میرا دین اسلام کو مکمل ضابطہ حیات ماننا اور محترمہ کا اس کے بالکل برعکس ہونا اور بعض اوقات کچھ معاملات میں حد سے تجاوز کرنا ہے۔ میں یہاں پر صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ ہمیں اپنے آپ کو آسمانی مخلوق سمجھنے کی بجائے عام انسان سمجھنا چاہیے ۔ اپنے آپ کو آسمان پر بٹھا لینے سے کوئی تنقید سے مبرا نہیں ہو سکتا۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=481942
Tariq Butt of The News / Geo TV threatens Asma Jahangir – by Sikandar Mehdi
http://criticalppp.com/archives/27526
Asma Jehangir’s rejoinder to The News / Jang
http://criticalppp.com/archives/13063
Thanks for your share this content ,it was really nice ,we are professional manufacturer that produce the led tube ,led panel light ,led display ,thank you so much again !if any new question ,can i visit here again? by the way , pls visit our websites:Led panel light