کرنل شجاع خانزادہ کی شہادت : پنجاب میں دھشت گردی کے خاموش سیل ہر جگہ ہیں – تجزیہ ناصر جمال رپورٹر ڈیلی ڈان

خانزادہ

ناصر جمال انگریزی روزنامہ ڈان کے رپورٹر ہیں اور تجزیہ کار بھی ، ان کی جانب سے پنجاب میں طالبانائزیشن ، شیعہ ، سنّی بریلوی مخالف فرقہ پرست دھشت گردی پر کئی رپورٹس اور تجزئے سامنے آئے لیکن ان سب میں زیادہ فوکس یہ تھا کہ پنجاب میں دھشت گردوں کی محفوظ پناگاہیں صرف اور صرف پنجاب کے اندر سرائیکی بیلٹ میں ہیں جسے جنوبی پنجاب کہا جاتا ہے میں ہی ہیں اور اسے ہی دھشت گردوں کی بھرتی کا مرکز کہا جاتا رہا ہے ، پاکستان میں انگریزی پریس کے اکثر لبرل تجزیہ کاروں نے جب یہ مفروضہ قائم کرلیا کہ پنجاب میں مذھبی دھشت گردی کا فوکس صرف اور صرف جنوبی پنجاب ہے تو ساتھ ہی یہ مفروضہ بھی قائم کیا کہ اس کی بنیادی وجہ اس علاقے کی پسماندگی ، غربت ، محرومی ہے ، لیکن اس دوران یہ تجزیہ نگار اس بات سے صرف نظر کرتے رہے کہ القائدہ ، تحریک طالبان پاکستان اور پھر داعش اور ان کے ساتھ روابط رکھنے والے مقامی دھشت گرد نیٹ ورکس ، ان کے پروپیگنڈا سیل اور نظریہ سازوں کی موجودگی کے کئی شواہد ایک طرف تو جدید یونیورسٹیوں بشمول پنجاب یونیورسٹی میں ملے ، ساتھ ساتھ کئی دھشت گرد ، سہولت کار ، ماڈریٹر جو پکڑے گئے ان کا تعلق مڈل کلاس ، اپر مڈل کلاس اور کئی ایک پروفیشنل مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے اور یہ شمالی پنجاب کے اضلاع سے تعلق رکھتے تھے لیکن مین سٹریم میڈیا تکفیری دھشت گردوں کا تعلق پنجاب میں سرائیکی بیلٹ سے ہی جوڑتا رہا اور اس کے پیچھے ان مغربی صحافیوں کی رپورٹنگ اور خود امریکی سفارت خانے کے اہلکاروں کی مرتب کردہ رپورٹوں کا بھی اثر تھا جو مقامی سورسز سے معلومات اکٹھی کرنے کے بعد کوئی رائے بناتے تھے – جیسے برائن ڈی ہنٹ امریکی قونصلر برائے لاہور امریکی قونصلیٹ کی ایک رپورٹ جو ویکی لیکس کے زریعے سے میڈیا میں آئی ، جس میں برائن ڈی ہنٹ نے لکھا تھا کہ سعودی عرب اور یو اے ای سے جنوبی پنجاب میں دیوبندی اور اہل حدیث مدارس کو سالانہ ایک ارب ڈالر کی امداد آتی ہے جو اس علاقے میں شدت پسندی پھیلانے میں کام آرہی ہے لیکن شجاع خانزادہ سابق وزیر داخلہ پنجاب نے 4 اگست 2015ء کو جو پریس کانفرنس “یوحنا آباد چرچ دھماکے ” کے زمہ داروں کی گرفتاری کے حوالے سے کی تھی اس میں کہا تھا کہ 550 ملین روپے کی فنڈنگ ہے جو مدارس کو ہوئی اور وہ مشکوک فنڈنگ ہے پنجاب کے 5 فیصد مدارس کی
ناصر جمال کا تازہ تجزیہ اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ وہ لاہور سمیت پاکستان کے اربن سنٹرز میں بیٹھے دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق اب یہ تسلیم کررہے ہیں کہ مذھبی دھشت گردی جس کا 99 فیصدی حصّہ ” تکفیری ” دھشت گردوں پر مشتمل ہے اور جن کا نشانہ پاکستان کے ریاستی ادارے ، شیعہ ، سنّی ، اعتدال پسند دیوبندی ، اہلحدیث ، احمدی ، ہندؤ ، کرسچن سب ہی ہیں کے خاموش سیل صرف جنوبی پنجاب تک محدود نہیں ہیں بلکہ ان کا دائرہ کار پورے پنجاب تک پھیلا ہوا
اگرچہ ناصر جمال نے ایک دفاعی تجزیہ کار کے حوالے سے یہ بات درج کی ہے کہ اٹک ایک پرامن شہر ہے ، وہاں پر خودکش حملہ خطرے کی گھنٹی اور دھشت گردی کے پنجاب میں پھیلاؤ کی علامت ہے ، ہم اس بات کو دوسری طرح سے دیکھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ پنجاب کے اکثر شہر اور دیہاتوں کو تکفیری خارجی دھشت گرد اپنے بھرتی کے مراکز کے طور پر استعمال کررہے تھے اور پنجاب کی ایڈمنسٹریشن ان تکفیری دھشت گردوں ، ان کے سہولت کاروں کے خلاف نہ تو
Pre – Emptive
اور نہ ہی
Preventive
سٹریٹجی اور ٹیکٹس استعمال کرنے پر آمادہ تھی بلکہ مسلم لیگ نواز نے بحالی جمہوریت کے بعد دونوں ادوار میں تکفیری دھشت گردی اور انتہا پسندی کی سب سے بڑی جماعت اور تنظیم ” اہل سنت والجماعت / کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان ” کے ساتھ اتحاد بنایا اور پنجاب میں تحریک طالبان پاکستان ، داعش سمیت تکفیری دھشت گرد تنظیموں کے خلاف کوئی اقدام نہ اٹھایا – شہباز شریف چیف منسٹر پنجاب کا ویکیلیکس کے زریعے سے ایک خط القائدہ کے ڈپٹی چیف کے نام سامنے آیا اور پھر ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کے چہلم کے موقعہ پر شہباز شریف نے ” طالبان ” سے درخواست کی کہ وہ پنجاب کو نشانہ نہ بنائیں – پنجاب حکومت نے مبنیہ معاہدے کے تحت سپاہ صحابہ پاکستان کے کئی دھشت گردوں کو رہا کیا اور ان کو پنجاب کے اندر نقل و حرکت کی آزادی دی – پنجاب کا ہوم ڈیپارٹمنٹ ، اس کے ماتحت ادارے پولیس اور پولیس کے اندر قائم انسداد دھشت گردی ڈیسک ، سی آئی ڈی ، سپیشل برانچ اور ڈی سی اوز ، کمشنرز سب کے سب اہلسنت والجماعت / سپاہ صحابہ پاکستان سمیت پرو طالبان تنظیموں اور ہمدردوں کے خلاف کاروائی کرنے سے گریزاں رہے جبکہ مشکوک مدارس کے خلاف بھی کوئی ٹھوس کاروائی عمل میں نہ آسکی
سانحہ پشاور آرمی اسکول کے بعد جب آرمی نے چاروں صوبوں ، گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر کے اندر شہروں اور ریہاتوں میں ” انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز ” کا سلسلہ شروع کیا تو ان آپریشنز کی کمانڈ غیر اعلانیہ طور پر اپنے ہاتھ میں لے لی اور اس دوران بتدریج صوبائی ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب میں بھی اصلاحات کا سلسلہ شروع ہوا – جنرل راحیل شریف کی قیادت میں کورکمانڈرز کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ چاروں صوبوں ، آزاد کشمیر اور گلگت بلستان میں انسداد دھشت گردی کا آزاد ، خود مختار محکمے قآئم ہوں گے اور یہ پولیس سے الگ ہوگا ، اس محکمے کا سارا سیٹ اپ ہوم ڈیپارٹمنٹ دیکھے گا ، جبکہ اس محکمے کی جانب سے جتنے بھی دھشت گردوں کے خلاف آپریشن ہوں گے کہ اس کی نگرانی آئی ایس آئی کرے گی اور شنید یہ ہے کہ اس وقت سی ٹی ڈی کے جاروں صوبوں ، آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان میں جو محکمے ہیں ان کی نگرانی فوج کررہی ہے اور یہ اہتمام بھی کیا گیا ہے کہ ہوم ڈیپارٹمنٹس میں اس محکمے کو ڈیل کرنے والے مجاز افسروں کی تعیناتی بھی صوبائی دارالحکومتوں کے اندر کورکمانڈرز کی منظوری سے کی جائے
LUBP template 2روزنامہ ڈان نے کرنل ( ر) شجاع خاںزادہ وزیر داخلہ پنجاب کی خود کش بم دھماکے میں شہادت کے بعد وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا جو بیان شایع کیا ہے ، وہ غور طلب ہے

Con­dem­n­ing Sunday’s attack in Attock in which Punjab Home Minister Shuja Khanzada was killed, Prime Minister Nawaz Sharif has reaffirmed his government’s determination to pursue the National Action Plan (NAP) against terrorism with full force.

He called for adopting a pre-emptive strategy to counter terrorists’ plans and asked law-enforcement agencies not to lower their guards till the elimination of last terrorist.

Source : http://www.dawn.com/news/1200938/nawaz-vows-to-pursue-nap-with-full-force

http://www.dawn.com/news/1200971/analysis-militants-still-have-support-base-in-punjab

Comments

comments