Towards a government of pious Muslims in Pakistan – by Khalid Wasti
تمام مسائل کا حل —– صالح قیادت کا قیام
=========================
پاکستان آزاد ہو جانے کے بعد بھی غلام ہے امریکہ کا ، ورلڈ بینک ،آئی۔ایم ایف اور عالمی استعمار کا
ہماری پالیسیاں واشنگٹن میں بنتی ہیں ، پینٹاگون سے ہدایات ملتی ہیں اور سی آئی اے کے ذریعے ان پر عمل درآمد ہوتا ہے
نظریہءپاکستان کی دشمن ، یہودیوں اور ہندوستانیوں کی ایجینٹ اور لادینی طاقتیں اس ملک خداداد میں موجود ہیں – آزادیءضمیر ، آزادیءاظہار اور بنیادی انسانی حقوق کی آڑ میں لا الہ اللہ محمدرسول اللہ کے نعرے پر حاصل کیے گئے ملک کو سیکولر اور لادینی ریاست بنانے کی سازشیں ہو رہی ہیں
– باسٹھ سال کے بعد بھی ہمارے مسائل حل ہونے کی بجائے الجھتے ہی چلے جاتے ہیں
دہشت گردی ، انتہا پسندی، غربت ، جہالت ، بے روزگاری ، فرقہ واریت ، افراتفری ، مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ ۔۔۔۔۔۔
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ان تمام برائییوں ، خرابیوں اور مسائل کی جڑ کیا ہے ؟ کسی پہلو سے سوچ لیں آخر کار آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس کی وجہ صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات سے دوری ہے
یہ امر بالکل واضح ہے کہ اسلامی اور شرعی نظام تو صرف متقی اور صالح افراد ہی نافذ کرسکتے ہیں
صالح ، ایماندار، متقی اور پاکباز لوگوں کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور دینے کے لیئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے صالح افراد کا انتخاب کر کے ان کی خدمت میں گزارش کی جائے کہ وہ ایک اسلامی ، شرعی اور سیاسی جماعت کا قیام عمل میں لائیں اور اس کار خیر کا آغاز کریں
اس کمیٹی کے چیئر مین کے طور پر صالح ظافر سے زیادہ مناسب اور موزوں کوئی اور نام نہیں ہو سکتا – یاد رہے کہ چیئرمین کا منصب محض عبوری طور ہوگا ، اسلامی حکومت کا قیام ہوتے ہی وہ ملا عمر کی طرح امیرالمومنین کا عہدہ سنبھال لیں گے – کیونکہ جب تک مسلمان ایک ہاتھ پر اکٹھے نہیں ہوجاتے ، امت واحدہ نہیں کہلا سکتے اور وہ صرف خلیفتہ المسلمین یا امیرالمؤمنین کا ہاتھ ہی ہو سکتا ہےجس پر تمام کی تمام امت مسلمہ اکٹھی ہو جائے
اس نیک کام کے آغاز کے لیئے مندرجہ ذیل نابغہءروزگار افراد جناب صالح ظافر کو اپنا تعاون پیش کر سکتے ہیں
قاضی حسین احمد، منور حسن، فرید پراچہ، حافظ سعید، ڈاکٹر اسرار احمد، زید حامد
لال ٹوپی والے ) ، مولنا عبدالعزیز ( لال مسجد والے) ،عمران خان، حمید گل اور دیگر ہم خیال صالح افراد
قانونی امور میں مشاورت کے لیئے قاضی انور (نادر روز گارشخصیت
فوجی امور میں مشاورت کے لیئے جنرل اسلم بیگ (آئی جے آئی بنوانے اور چودہ کروڑ بانٹنے والی “مشہور زمانہ“ شخصیت
سول امور میں مشاورت کے لیئے روئیداد خان – (محیرالعقول شخصیت
آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ پروگرام کتنا ہی بابرکت اور مفید عام کیوں نہ ہو آج کے دور میں جب تک آپ میڈیا تک موئثر رسائی نہیں رکھتے ، آپ کی کامیابی کے امکانات مشکوک ہیں
کامیاب پراپیگنڈے کے لیئے مندرجہ ذیل نیٹ اینڈ کلین صحافیوں سے بہتر ٹیم تشکیل دینا شاید ممکن نہ ہو
گا
ڈاکٹر شاہد مسعود،شاہین صہبائی،عرفان صدیقی ،انصار عباسی، ہارون رشیداور دائیں بازو کے دیگر مسلمہ صالحین
کسی بھی اختلاف کی صورت میں مسند عدل و انصاف پر فائز ، عہد ساز اور انتہائی غیر متنازعہ شخصیت افتخار چوہدری کو ویٹو پاور دی جا سکتی ہے
البتہ اس “گرینڈ صالح پلان “ کی قیادت سنبھالنے کے لیئے صالح ظافر کے علاوہ کوئی اور مرد میدان سامنے آنا چاہے تو اس کے لیئے شرط یہ ہے کہ وہ صرف نام کا ہی صالح نہ ہو بلکہ اصلی اور سچا صالح ہونے کا سرٹیفکیٹ اس کی شخصیت کا حصہ ہونا چاہیئے
Related articles:
Pakistani Taliban Union of Journalists (PTUJ)
Yet another lie of Saleh Zaafir, the liar in chief of Geo TV / Jang Group
Internews Pakistan
RESOURCE CENTER – MEDIA MONITOR
Wednesday June 13, 2007
Journalist apologizes to apex court
The Supreme Court on Tuesday summoned a journalist and warned him for publishing a news item suggesting initiation of references by the government against four senior judges who were part of the 13-member larger bench hearing the petition of Chief Justice Iftikhar Muhammad Chaudhry, and warned him to be careful in future. In its order, the Supreme Court said: “Muhammad Saleh Zaafir, editor special reporting, of the daily ‘Jang’ and ‘The News’, has entered appearance on our call, in connection with the news items appearing in the Rawalpindi edition of the daily ‘Jang’ and daily ‘The News’ of June 11, 2007, regarding some references being made against four senior judges of this court who, presumably also happen to be members of this bench.” The news item, the order said, appeared to be open to further serious exception because it had been published, more than boldly, on the front pages of the two newspapers on the day when the bench was expected to announce its decision on the maintainability of petitions filed in this court questioning the presidential reference against the Chief Justice of Pakistan.
http://www.dawn.com/2007/06/13/nat5.htm
http://www.thenews.com.pk/top_story_detail.asp?Id=8458
http://www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=2007\06\13\story_13-6-2007_pg7_3
Text of Saleh Zaafir’s unconditional apology to SC
Text of unconditional apology tendered by journalist Muhammad Saleh Zaafir before Supre Court, “I would humbly submit that I have no proof whatsoever in relation to the matter discussed in the said story.”
(Nation-5)
Muhammad Saleh Zaafir’s apology
“I, Muhammad Saleh Zaafir, do hereby tender an unconditional apology to the hon’ble court in relation to the contents of the story that appeared in daily The News/daily Jang on June 11, 2007.
“I have been directed by the hon’ble court to submit any proof in relations to the contents of the said items. I would humbly submit that I have no proof whatsoever in relation to the matter discussed in the said story.
“I keep this hon’ble court in the highest esteem and respect. I can never ever think of bringing about a bad name to the hon’ble court or to any learned judge of the hon’able court. I would submit that I can never think of committing contempt of this hon’ble court.
“I undertake to be careful in future and am ashamed for the publication of the story. I would humbly seek pardon in relation to the grievous lapse. “I pray to the hon’ble court that no further action may kindly be proceeded in relation to the matter. I would entreat that my unconditional apology may graciously be accepted.”
http://thenews.com.pk/top_story_detail.asp?Id=8458
Media Miscellaneous
Jang Group issues show-cause notice to reporter, Saleh Zaafir submits explanation
The Editorial Committee of the Jang Group, while initiating action, have informed Mohammad Saleh Zaafir that when he filed the said report, senior members of the Editorial staff asked him several questions. In response to one question, he divulged names of the honourable judges and his sources while assuring them of the authenticity of his report. The day after the publication of the report, he spoke to his seniors on the phone and again mentioned big names to establish the credibility of his story. But it is a matter of great concern for the Editorial Committee that he submitted an altogether different statement to the honourable Supreme Court.
http://www.thenews.com.pk/top_story_detail.asp?Id=8459
http://www.internews.org.pk/mediaresource/monitor130607.php
Saga of sham journalism but at least courts are doing good to get a hold of these elements as well. I think media is unearthing all the elements including itself and the flaws of current journalism itself.
Dr Shahid Masood’s (disguised at ashuftasar) response to Khalid Wasti’s article via pkpolitics:
خالد واسطی صاحب
میں آپ سے قطعی اختلاف کرتا ہوں ۔۔۔۔ آپ نے جن نابغہءروزگار افرادمثلا صالح ظافر قاضی حسین احمد، منور حسن، فرید پراچہ، حافظ سعید، ڈاکٹر اسرار احمد، ، ،عمران خان، حمید گل، قاضی انور اور دیگر ہم خیال صالح افراد اور نیٹ اینڈ کلین صحافیوں مثلا ڈاکٹر شاہد مسعود،شاہین صہبائی،عرفان صدیقی ،انصار عباسی، ہارون رشیداور دائیں بازو کے دیگرمسلمہ صالحین کا ذکر کیا ہےاور ان کے لیے جن الفاظ کا استعمال کرتے رہتےان کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے شاید آپ ان الفاظ کے صحیح معنی نہیں جانتے۔
مذکورہ بالا افراد کے لیے آپ نے جن الفاظ کا استعمال کیا ہے یہ قطعی اس کے سزاوارنہیں ہیں۔
بہ قول جوش ۔۔۔۔۔ الفاظ کے سر پر معنی نہیں ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الفاظ کے سینے میں اتر کر دیکھو
آئیے الفاظ کے سینے میں اتر کر دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
ایمان دار، نیک، صالح، سچے، کھرے، جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے والے، نہ جھکنے والے نہ بکنے والے ، ذہین فطین، زیرک، ذہن رسا رکھنے والے، ملک و قوم کی باگ دوڑ سنبھالنے کے صحیح مستحق اور اہل اور سب سے بڑھ کر لفظ کرپشن کو بالکل نہ جاننے والے اس لیے کہ یہ لفظ ان کی ڈکشنری میں ہی نہیں ہے!!! ان تمام صفات کے مالک اصل لوگ وہ ہیں جن کا ذکر واسطی صاحب نے کسر نفسی یا معصومیت کی بنا پربالکل نہیں کیا۔ مثلا :
زرداری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :
{مسٹر ٹین پرسنٹ (یہ جھوٹا پروپیگنڈاہے)،وعدہ ایفا کرنے والے،جھوٹ بالکل نہیں بولتے،سچے بیمار، کرپشن سے نابلد،گھوڑوں اور عوام کا نہایت خیال رکھنے والے، یاروں کے یار (خواہ یار کیسا ہی کیوں نہ ہو ۔۔۔ نہ جانے واسطی صاحب کو نابغہ روزگار افراد کی فہرست مرتب کرتے ہوئے ان کا خیال کیوں نہیں آیا!)، خواتین کا بے حد احترام کرنے والے، قناعت پسند، صابر شاکر، اپنی بات پر قائم رہنے والے، اعلی تعلیم یافتہ، سب سے بڑھ کر عنان اقتدار سنبھالنے کے لیے مکمل طور پر فٹ اور اہل۔۔۔ وغیرہ وغیرہ (وغیرہ میں بہت کچھ ہے لیکن تھوڑا لکھے کو بہت جانیے)
رحمان ملک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:
ذہین (ان کی ذہانت ان کے بیانات سے عیاں ہوتی ہے)، نہات ٹیلنٹیڈ، جو بھی کام کرتے ہیں بہت کامیابی سے انجام تک پہنچاتے ہیں! بھگوڑے کا الزام بالکل غلط ہے، یہ بھی کرپشن سے بالکل نابلد ہیں، اعلی درجے کے وفادار۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
بابر اعوان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :
نہایت ذہین، فطین، چالاک و شاطر (دیکھیے ان الفاظ کو مثبت معنی میں لیجیے!)،۔۔۔ جاہل، احمق، سادہ لوح عوام کو ٹی وی ٹاک شوز میں نہایت خلوص سے قانون کی زنبیل سے قوانین کے نت نئے مفاہیم سے مستفید فرماتے اور ان کی رہنمائی کرتے ہیں، ان کی پی ایچ ڈی کی ڈگری بالکل صحیح ہے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ رشوت بالکل نہیں لیتے ساڑھے تین کروڑ روپے کی رشوت کاالزام بالکل جھوٹا ہےپہلے تو ہمیں شک تھا لیکن بابر اعوان کی اس وضاحت سے کہ یہ قادیانی سازش ہے ہمیں پکا یقین ہو گیا ہے کہ بابر اعوان بے قصور ہیں، کرپشن کس چڑیا کا نام ہے یہ لاعلم ہیں ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
گیلانی و شاہ محمود ۔۔۔۔ :
اللہ اللہ کیا مقدس ہستیاں ہیں ان کے بارے میں لب کشائی کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے مبادا جل کر بھسم نہ ہو جائیں! جدید تراش خراش کے لاکھوں روپے کےبرانڈیڈ لباس پہننے والے، گدی نشین ، سجادہ نشین، پیر اور نہ جانے کن کن خصوصیات کی حامل یہ نابغہءروزگار شخصیات ہیں۔ مذہب ان کے گھر کی لونڈی ہے اور یہ اس کے ساتھ سلوک بھی ویسا ہی کرتے!، اپنے اپنے علاقوں کے سادہ لوح لوگوں کی حالت زار، ان کی جہالت اور پسماندگی کو دور کرنے کے لیے ہمہ وقت بےچین و متفکر رہتے ہیں، یہ بھی کرپشن سے نابلد ہیں اور یہ اس قدر پاک صاف ہیں کہ اگر خصوصا ان کی رعایا میں سے کوئی کچھ جانتا ہو اور لب کشائی کرے تو اللہ کی قدرت سے جل کر بھسم ہو جاتا ہے ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
فوزیہ وہاب ۔۔۔۔۔۔۔ :
بات کرنے کی تمیز تو کوئی ان سے سیکھے، نہات نستعلیق گفتگو کرتی ہیں، گفتگو میں اس قدر عمدہ دلائل دیتی یں کہ دوست دشمن سب قائل ہوجاتے ہیں، اپنی وزارت کی الف بے سے اچھی طرح واقف ہیں اوراپنے موجودہ منصب کے لیے مکمل طور پر اہل ہیں، وفادار بھی بہت ہیں۔ ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
ذوالفقار مرزا ۔۔۔۔۔۔ :
شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار، محب وطن ۔۔۔ ذرا ذرا سی بات پر پاکستان کے لیے کٹ مرنے والے اور پاکستان توڑنے کی بات کرنے والوں کا منہ توڑنے والے، لینڈ مافیا کے مخالف، ذاتی جیلیں اور عقوبت خانے رکھنے والے وڈیروں کے سخت دشمن، کرپشن کا لفظ ان کی لغت میں بھی نہیں ہے۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
نیٹ اینڈ کلین صحافی ۔۔۔۔۔۔۔۔ :
واسطی صاحب ۔۔۔ اردو تو اردو آپ تو انگریزی سے بھی نابلد ہیں آپ کو نیٹ اینڈ کلین کا مطلب بھی نہیں معلوم۔۔۔!!!
درج ذیل اصل میں نیٹ اینڈ کلین صحافی ہیں ۔۔۔۔۔
نذیر ناجی، نجم سیٹھی، آفتاب اقبال،عباس مہکری،آغا مسعود حسین، خورشید ندیم، عباس اطہر وغیرہ وغیرہ
نوٹ : ( درج بالا تمام “وغیرہ وغیرہ” میں لکھنے کے لیے بہت کچھ ہے مگر وقت کی کمی اور عدیم الفرصت ہونے کی بنا پر تھوڑا لکھے کو بہت جانیے)
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
اب تو چلتے ہیں مے کدے سے میر ۔۔۔۔۔۔ پھر ملیں گے گر خدا لایا
خیر اندیش
آشفتہ سر
Self promotion and self defence by Dr Shahid Masood (disguised as ashuftasar):
ashuftasar said:
السلام علیکم
باوا صاحب، آپ نے بالکل درست فرمایا “کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی” کیوں کہ آپ خود سمجھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی قوم کو سمجھنے دینا چاہتے ہیں۔ آپ اور کچھ دوسرے حضرات کو اعتراض ہے کہ ڈاکٹر صاحب زرداری کے پیچھے پڑ گئے ہیںاور اگر آپ حضرات کے رویوں اور تبصروں کا جائزہ لیا جائے تویہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ ڈاکٹر صاحب کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں یا کسی نے پیچھے لگایا ہوا ہے بہ ہر کیف ہمیں اس سے کوئی دل چسپی نہیں کہ آپ کسی کی ایما پر کرتے ہیں یا خود یہ خیا لات زریں رکھتے ہیں۔آپ شاہد مسعود پراعتراضات و الزامات کی بھرمار تو بہت کرتے ہیں لیکن وہ سب بودے، پھسپھسے اور دلائل سے عاری ہوتے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے آپ نے ایک “پروٹوٹائپ” پیغال لکھ رکھا ہوتا ہے اور اسے ہر پروگرام کے بعد کاپی پیسٹ کر دیتے ہیں کیوں کہ مقصد اول و آخر شاہد کی مخالفت ہوتا ہے۔
عام حالات میں یہ اعتراض وزن رکھتا ہے کہ ایک ہی موضوع پر پروگرام کیا جارہا ہےلیکن موجودہ غیر معمولی حالات کا جائزہ لیا جائےتو شاہد کا یہ اقدام سمجھ میں آتا ہے۔اگر آگ لگ جائے توضروری کام چھوڑ کر سب سے پہلے بجھانے کی فکر کرنی چاہیے۔۔۔ اگرجسم پر پھوڑا نکل آئے تو تکلیف کی شدت سےسارا جسم تڑپنے لگتا ہے اور معالج پھوڑے پر مرہم رکھنے کے بجائے درد کش دوا دیتا رہے تو کیا تکلیف ختم ہو جائے گی؟ اگر کسی تھانے میں رشوت ستانی عام ہے تو جب تک تھانے داار ٹھیک نہیں ہو گا مسئلا حل نہیں ہو گا۔۔۔ شاہد بھی یہی کہتا ہے کہ جب زخم ناسور بن جاتا ہے تو آپریشن ناگزیر ہو جاتا ہے خواہ یہ آپریشن کتنا ہی بڑا اورتکلیف دہ کیوں نہ ہو۔۔۔ مجھے تو محسوس ہوتا ہے کہ شاہد ، زرداری کے بارے میں کچھ ایسی گفتنی و ناگفتنی جانتا ہے، بل کہ گفتنی کم اور ناگفتنی زیادہ، جو کہ زرداری کے اتنے بڑے منصب پر فائز ہوجانےکے بعد پاکستان کے لیے قطعی طور پر نامناسب اور کئی لحاظ سے خطرناک ہے۔۔۔ اس لیے وہ سمجھتا ہے کہ حالات کی درستی کا نقطہ آغاز زرداری سے چھٹکارا اور اس کا قانون و انصاف کے مطابق احتساب ہے۔
شاہد پر دوسرا اعتراض حکومت سے پی ٹی وی کا ڈائریکٹر کا عہدہ حاصل کرنا ہے۔۔۔ لیکن یاران نکتہ داں یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس عہدے اور مراعات کو ٹھوکر مار کر دست بردار ہونے والا بھی یہی شاہد تھا۔ یاد رکھیے جو کرپٹ ہوتا ہے وہ بزدل بھی ہوتا ہے اور ہر ایک سے بنا کر فوائد حاصل کرنے میں لگا رہتا ہے اور اسے ہر چیز پر اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے اور ہر ایک سے بلا جواز “مسکراہٹ” سے ملتا ہے۔ ایسا شخص چپ چاپ اپنے مفادات کی حفاظت کرتا ہے اور کسی سے “پنگا” لینے کی کوشش نہیں کرتا لیکن شاہد نے پنگا (غیر ادبی لفظ استعمال کرنے کی معذرت لیکن اس وقت یہی مناسب معلوم ہوتا ہے)کس کس سے لیا اس کی تفصیل میں جائوں گا تو بات لمبی ہو جائے گی تھوڑا کہے کو بہت جانیے۔ شاہد اگرابن الوقت، بدنیت اور کرپٹ ہوتا تو ہرگز کرپٹ مافیا سے ٹکر لینے کی کوشش نہ کرتا۔معترضین یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ پی ٹی وی سے استعفی کے بعد مشیر بننے کی ایک اور پرکشش پیش کش بھی ہوئی جو شاہد نے ٹھکرا دی۔کتنا احمق اور دیوانہ تھا شاہد۔۔۔ سطحی پیمانے پر پرکھا جائے تو شاہد واقعی احمق تھا اس نے بہتی گنگا سے ہاتھ کیوں نہیں دھویا۔۔۔!!!
آپ نے فرمایا کہ
“ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب نے ایک اچھا آغاز کیا تھا. ہمیں اپنے ملک کے دشمنوں کے کے بارے میں بتانا شروع کیا تھا لیکن پھر اچانک وہ یو ٹرن لیکر۔۔۔۔۔۔ ”
باوا صاحب آپ کے خیال میں ملک کو لوٹ کھسوٹ کر دیوالیہ کرنے والے، کرپشن کرنے والے، ڈاکو، قاتل، لٹیرے ۔۔۔۔ پاکستانی ہونے کے باوجود کیا پاکستان کے دشمن نہیں ہیں۔۔۔!!!؟؟ کیا ان کا ذکر نہ کرنا حب وطن ہے؟
باوا صاحب میں آپ کی آرا کا احترام ضرور کرتا ہوں لیکن اتفاق نہیں۔ مجھے شاہد کا ترجمان مت سمجھیے گا۔ میں حالات و واقعات اور شخصیات کو اپنے قلب و ذہن کے پیمانے پر پرکھتا ہوں سطور بالا بھی اسی کا نتیجہ ہیں۔ امید ہے میری معروضات آپ پر گراں نہیں گزریں گی۔
والسلام ۔۔۔ مخلص۔۔۔
آشفتہ سر
http://pkpolitics.com/2009/12/05/meray-mutabiq-5-december-2009/
Bawa said:
توجہ ہٹاؤ مہم اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے. قوم کو درپیش اصل مسائل کے بارے میں اس پورے پروگرام میں ایک بھی جملہ نہیں بولا گیا. دشمن اپنی چھٹیاں قربان کرکے سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں اور گھیرا تنگ کرنے کی پلاننگ کر رہے ہیں اور ڈاکٹر صاحب این آر او کی بنسری بجانے کی دھن میں مگن ہیں. این آر او پر جب دو رائے ہیں ہی نہیں تو پھر کیوں اسکو متنازع بنایا جا رہا ہے. پوری قوم این آر او کی مخالف ہے اور جانتی ہے کہ این آر او بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے، حکومت بھی اسکا دفاع کرنے نہیں جا رہی ہے اور عدالتیں اپنے فیصلے دینے جا رہی ہے تو پھر اصل مسائل کو کیوں نہیں چھیڑا جا رہا؟ کون ہے جو اصل مسائل سے توجہ ہٹا رہا ہے اور کیوں؟ سوچیے اور خوب سوچیے
ashuftasar said:
@BAWA
السلام علیکم
۔۔۔ پھر وہی پروٹوٹائپ میسج !!! باوا صاحب ۔۔۔۔ اتنا بور پروگرام۔۔۔ بار بار ایک ہی موضوع کچھ بھی نیا نہیں ۔۔۔ شاہد کی وہی اکتا دینے والی باتیں۔۔۔ لیکن ان سب کے باوجود یہ پروگرام دیکھنے اور اپنا “پروٹوٹائپ میسج ” سب سے پہلےپوسٹ کرنے کے لیے آپ کی “لپک جھپک” دیکھنے کے قابل ہوتی ہے!!!۔۔۔ ہاہاہا ۔۔۔۔ وقت ملا تو آپ کی اس “لپک جھپک” کے بارے میں کبھی عرض کروں گا۔
میں نے آپ کا جواب پڑھا تھا۔۔۔ کاش میں اتنا عدیم الفرصت نہ ہوتا اور آپ کی طرح اتنا وقت دے پاتا تو جواب آں غزل کے طور پر بہت کچھ کہا جاسکتا تھا۔
قیس انور صاحب
خدا کے واسطے آپ تو ہمیں ٹوپیاں نہ پہنائیں۔! حکمران کیا کم “ٹوپیاں” پہنا رہے ہیں۔ قیس صاحب آپ نے بہت پرکاری سے ٹوپی کا جواز فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ لیکن عزیزم یہ یاد رکھیے کہ جواز تو کفر کا بھی ہوتا ہے۔ آپ کس کس ٹوپی کا جواز دیں گے اس طرح تو ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی بہت سی ٹوپیاں سر ابھاریں گی۔۔۔ خدا کے واسطے ہم پر رحم فرمائیں اور تعصب کےزہر کا دفاع کرنے کے بجائے اسے پورے جسم میں سرایت کرنے سے روکیں۔
والسلام ۔۔۔۔ مخلص ۔۔۔۔
آشفتہ سر
http://pkpolitics.com/2009/12/06/meray-mutabiq-6-december-2009/
Bawa said:
چیف جسٹس کے اس بیان کے بعد کہ ذرائع ابلاغ قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او) کے بارے میں درخواستوں کی سماعت کے دوران ٹی وی مذاکروں اور مباحثوں میں اس پر بات کرنے سے احتراز برتا جائے تاکہ تعصب کا تاثر پیدا نہ ہو اور این آر او کو آئین کی کسوٹی پر پرکھ کر فیصلہ کرنا ہے، ہمیں کسی فرد یا جماعت سے سروکار نہیں، ہم جمہوری نظام کو پٹری سے اترنے نہیں دیں گے، پہلے بھی جمہوری نظام کی حمایت کی ہے اور اب بھی یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ نظام کو ڈی ریل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ، یہ امید بندہ چلی تھی کہ اب بیرونی خطرات کی طرف توجہ دی جائے گی لیکن شاید یہ انکا ایجنڈہ ہی نہیں ہے یا یہ انکا مسئلہ ہی نہیں ہے یا پھر کسی انجانے خوف میں مبتلا ہیں کہ ان قوتوں کے خلاف جو پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں آزادانہ دندناتے پھر رہے ہیں زبان کھولی تو پتہ نہیں کس انجام کو پہنچا دیے جائیں؟ اب تو دندنانے والے کھلے عام دھمکیاں دینا شروع ہوگئے ہیں کہ پاکستان کو ہر حال میں ہمارے ساتھ تعاون کرنا ہی پڑے گا ورنہ پھر وہی ہوگا جو اب تک نہیں ہوا. حکومت سہمی ہوئی ہے، سیاستداں سہمے ہوئے ہیں، میڈیا سہما ہوا ہے سول سوسایٹی سہمی ہوئی ہے. کوئی تو آگے آئیے جو خوف کو ایک طرف رکھکر عوام کے سامنے سچ بولنے کی جرائت کرے.
بول، کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول، زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول، کہ جان اب تک تیری ہے
بول، یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے
بول، کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
ashuftasar said:
Bawa
السلام علیکم
جس دن آپ یہ پروگرام دیکھنا اور سب سے پہلے کومنٹ دینا بند کردیں گے اس دن ہمیں یقین آئے گا کہ یہ پروگرام اپنی مقبولیت کھو چکا ہے۔۔۔!!! اس پروگرام کی مقبولیت کا سب سے بڑا سبسب تو آپ کی شخصیت ہے۔۔۔!!!
بھائی میرے اس دن میں نے کچھ معروضات آپ کی خدمت میں پیش کی تھیں لیکن لگتا ہے یا تو آپ کی سمجھ میں نہیں آئیں یا آپ سمجھنا نہیں چاہتے۔
میرے بھائی ملک میں آگ(اس آگ کو بھڑکانے میں آپ کے بتائے ہوئے مسائل بھی شامل ہیں) ہوئی ہے اور فائر بریگیڈ کا ”سربراہ” اسے پیٹرول سے بجھانے کی کوشش کر رہا ہےشاہداسی جانب قوم کی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہےاگر آپ بہ غور پروگرام دیکھیں توشاہد ان مسائل کی نشان دہی بھی بالواسطہ اور بلا واسطہ کر رہا ہے۔۔۔ اگر آپ سمجھنا چاہیں توووو۔۔۔!!!
ڈاکٹر صاحب ۔۔۔ بہت خوب ۔۔۔ آپ بہترین فائر فائٹر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔۔۔ اللہ تعالی آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور آپ اسی طرح قوم کی رہنمائی کرتے رہیں۔۔۔ آپ کے اور باوا صاحب کے لیے دعا گو
والسلام۔۔۔۔ آشفتہ سر
Bawa said:
@ ashuftasar
وعلیکم السلام بھائی جی. میرے تو یہ منہ کو لگی ہوئی ھے میں اسکو کیسے چھوڑ دوں؟ ویسے میں آدھا گھنٹہ اور بھی انتظار کر لیتا تو بھی میرے کومنٹس پہلے ہی نمبر پر ہوتے. کبھی کبھی تو مجھے لگتا ھے کہ اگر یہی حال رہا تو یہاں آپکو صرف میرے ہی کومنٹس نظر آئیں گے
ویسے اگر برا نہ منائیں تو ایک بات عرض کروں کہ ہماری نظریں سات پردوں کے اندر چھپے ہوئے چہروں کو بھی پہچان لیتی ہیں. آپ پردہ اتار دیں. یہ آپ ہی کی محفل ھے. اپنی محفل میں یوں نقاب اوڑھ کر بیٹھنا اچھا نہیں لگتا. باقی آپکی مرضی
میں نے آپکی باتوں کو ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ پڑھا ھے اور سمجھا بھی. کاش آپ بھی میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے. میں آپ جتنا سیاست اور صحافت کو نہیں جانتا اور نہ ہی یہ میرا فیلڈ ھے لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ملکی سلامتی کے سارے معاملات ہماری فوج کے ہاتھ میں ہیں اور زرداری کا تعلق اور واسطہ اس سے شاید دس فیصد بھی نہیں ھے. تمام فیصلے فوج خود کرتی ھے اور حکومت صرف ذمہ داری قبول کرتی ھے. لھٰذا یہ کہنا کہ زرداری اس آگ پر پٹرول چھڑک رہا ھے میری سمجھ سے بالاتر ھے. نہ فوج زرداری کے کنٹرول میں ھے اور نہ ہی خفیہ ایجنسیاں. وہ تو صدارتی محل میں ڈر اور خوف کے مارے چھپا بیٹھا ھے
اوپر میں نے ملکی سلامتی سے متعلق کچھ خبریں پوسٹ کی ہیں. ویسے تو کوئی خبر آپکی نظر سے پوشیدہ نہیں ہوگی. اگر عدیم الفرصتی کی وجہ سے نہ پڑھ سکیں ہوں تو کم از کم ان پر ایک نظر ڈال لیں. اس سے آپ کو یہ اندازہ ضرور ہو جائے گا کہ این آر او زیر بحث لانا ضروری ھے یا ملکی سلامتی کو درپیش مسائل
دُعاؤں میں یاد رکھنے کا بہت بہت شکریہ. خدا تعالیٰ میرے ملک اور میری ساری قوم کو شاد و آباد رکھے اور دشمنوں کی بری نظروں سے محفوظ رکھے. اگر کوئی بات ناگوار گزری ہو تو معاف فرما دیجیے گا
دُعا گو
باوا
Bawa said:
اب بھی کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
یہ وہ پروگرام ہے جو اپنی پسندیدگی کی وجہ سے آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا تھا لوگ اس پروگرام پر کومنٹس کرنے کے لیے بے تاب ہوا کرتے تھے اور منٹوں سیکنڈوں میں اپنے کومنٹس کی بھر مار کر دیا کرتے تھے لیکن آج یہاں ہو کا عالم ہے کیونکہ ایک ہی بات کو اتنی دفعہ الفاظ بدل بدل کر پیش کیا گیا کہ اب لوگوں کی دلچسپی بالکل ختم ہوگی ہے. اسکا اندازہ اس پروگرام پر موجود کومنٹس سے لگایا جا سکتا ہے.پروگرام کو پوسٹ کیے پانچ گھنٹوں سے زیادہ وقت ہوگیا ہے اور ابھی تک صرف پانچ لوگوں نے کومنٹس لکھنا مناسب سمجھا ہے. ڈاکٹر صاحب کو اب سمجھ لینا چاہئیے کہ لوگوں کے اصل مسائل کو نظر انداز کر دیا جائے تو لوگ بھی پروگرام کو نظر انداز کر دیتے ہیں. میں ڈاکٹر صاحب کا مستقل مداح ہونے کے ناطے گزارش کرتا ہوں کہ اب بہت ہو چکی اور یہ مناسب وقت ہے کہ قومی سلامتی کے مسائل کو چھیڑا جائے اور انہیں ڈسکس کیا جائے
http://pkpolitics.com/2009/12/12/meray-mutabiq-12-december-2009/
============
آشفتہ سر صاحب !
============
اندھیرے کا علاج ؟ اجالا
جہالت کا علاج ؟ علم
کفر کا علاج ؟ ایمان
کرپٹ حکومت کا علاج ؟ صالح حکومت کا قیام
صالح حکومت کے قیام کے لیئے ، صالح افراد کا انتخاب
تو جناب ! آپ صالح افراد کے انتخاب کے لیئے درست فیصلے نہیں کریں گے تو پھر مطلوبہ نتائج کیسے حاصل ہوں گے ؟ پھر تو ہم اسی دلدل میں دھنسے رہیں گے جس میں پچھلے ساٹھ سال سے پھنسے چلے آتے ہیں –
آپ کی خدمت میں ادب و احترام سے گزارش ہے کہ اپنی فہرست پر نظر ثانی کریں اور اس میں سے تمام
غیر صالح افراد کے نام حذف کریں کیونکہ اب ملک اگر بچانا ہے تو صرف اور صرف صالح قیادت نے-
A very interesting comment on Saleh Zaafir – from pkpolitics:
UmeR said:
salah zafar sahab ki baat abb kam az kam main tau maan-nay say raha. Aik dafa inn sahab ne apne rivayti talkh lehjay main farmaya tha, daaactor sahab people’s party ke 65 MNA’s zardari sahab ke khilaaf khul kar saamnay agaye hain, aur unki PM se mulaqat bhi hui hai.
I got so excited and waited for 1-2 weeks ke shayad koi achi khabar aye, but nothing happened.
Yeh jang group apni khawahish ko khabar bana ke headlines lagatay hai, aur yehi haal inke anchors ka hai.
Pakistan main koi bhi apne profession se, apne kaam se, apne aap se insaaf nahi karta (including tehreek-e-’insaaf’), aur yehi sab se barra masla hai.,