Editor’s Note: The following article, “To the admirers of Muhamad bin Qasim” by Danial Lakhnavi takes a satirical look at the hyper-nationalist narrative of our urban chattering class. A significant part of this narrative involves eulogizing murderers and rapists as modern day heroes. The basis for such “heroism” is nothing more than bloody conquests made on the basis of a warped sense of honour, where opportunists like Mohammad Bin Qasim and Moutasim Billah are portrayed as heroes for leading conquests and massacres at foreign lands, while ignoring the grotesque persecution of Muslims in their land of origin.
Today, it is the likes of Jihadi-sympathizer Islamopatriots like Javed Chauhdry and Orya Maqbool Jan, who continue to promote these warped and bizarre notions of honour. In their narrative,the Dr. Shazias, Zarina Marris and Aasia Bibis, the real daughters of Pakistan are ignored and US-domiciled Al Qaeda-Jamaat Islami Mata Haris like Aafia Siddiqui are the only ones who are deemed worthy. In fact, as per these faux notions of honour, it is Aafia Siddiqi, a convicted felon, who is the conscience of the nation and not women like Aasia Bibi and Dr. Shazia Khalid.
We welcome Danial Lakhnavi to the LUBP team and hope that he can continue to contribute such original and daring pieces that puncture the false pride of our upper middle class and their expat counterparts. (Nighat)
بن قاسم کے ثناخوانوں کے نام
دانیال لکھنوی
تاریخ نویسی کے حوالے سے ھمارا علمی کام معروضیت اور سائنسی انداز فکر کے بجائے سنسنی خیز واقعاتی منظر کشی، شھزادوں اور شھزادیوں کے رومانوی قصّوں، باندیوں اور کنیزوں کی عشقیہ وارداتوں، خواجہ سراوں کی یاد داشتوں اورچند المیہ کرداروں کی درد ناک داستانوں پر اور ان سب سے آراستہ ناولوں پر مشتمل ھے.
ایسے میں اگر حقائق پر مبنی تاریخی نگاری کے ذریعےکسی نے اس رومان سے ھمیں جگانے کی کوشش کی تو اسے آڑے ھاتھوں لیا گیا اور بعض اوقات تو علاقہ اے ایس آیی کو اس کے گھر سرچ وارنٹ لے جا کراس کے گھر سے پڑوسی ملک سے وابستگی کے ثبوتوں پر مبنی دستاویزات برآمد کرنے کے لئے تلاشی لینی پڑی۔ ایسے میں بھلا کسے پڑی ھے کہ وہ خواب بُننے اور دکھانے کے بجاے جھنجھوڑنے کاناخوشگوار امر سرانجام دے۔
برّصغیر میں جب مسلم اشرافیہ نے سیاسی ضرورتوں کے پیش نظر مذہب کو شناخت کا حوالہ قرار دے کر مسلم قوم دریافت کرلی تو اس قوم کے لئے مسلم تہذیب و ثقافت کی اصطلاحات گھڑنے کے ساتھ ساتھ ایک تاریخ مرتّب کرنے کی ضرورت پڑی۔ اور یوں مختلف قوموں کے متفرّق اجزاء اور تاریخی ادوارکو ملا کران پر مشتمل تاریخ وجود میں لا ئی آگئی جسے مسلم تاریخ کا عنوان دے دیا گیا، اس عنوان کے زیر سایہ مذھبی نظریہ سازوں نے سیاست گری اور عملی سیاست کی مصلحت آمیزیوں کی خاطر دلائل ڈھونڈ نکالنے کے لیے تاریخ پر طبع آزمایی کی یوں تاریخی زاویہ ہائےنظرکی محوّلہ بالا لسٹ میں ایک اور زاویے کا اضافہ کر دیا گیا، وہ ہے سیاسی موقع پرستی کے لیے تاریخی واقعات کی توجیہات کا زاویہ۔ ۔ ۔
ذرااپنے گرد نظر ڈالئے،جہاں سستی جذباتیت کے زیر اثر، انفرادی رجحانات بلکہ درست کہیں تو انفرادی ہیجانات کو قومی رجحانات کے لیے نمونہ عمل بنانے کی خاطر قومی رویوں کو غیرت اورضمیر کے پیرایوں میں ذکر کرکے ہر گفتار کا غازی اور قلمی مجاہد پوری قوم کو صلاح الدین ایوبی، بن قاسم، معتصم باللہ بنانے پر تلا ہوا ہے۔ اور اس قلمی جہاد میں ھمارے معاصر کالم نگاران جاوید چوھدری، اوریا مقبول جان، عرفان صدیقی اور عبدالقادر حسن صاحب قابل ذکر ہیں ، نوائے وقت اور روزنامہ امت بھی یھی فریضہ سرانجام دے رھے ھیں. لیکن ان کا تذکرہ ہی کیا کہ ان کی تو ایڈیٹوریل پالیسی ہی یھی ھے مذکورہ بالا افراد تو اس فریضے کو قومی سطح کے اور لبرل(میرے اس خیال کو آپ میری سادگی پر محمول کرسکتے ھیں) اخبارات کے ادارتی صفحات پر جوش وجذبے کےساتھ سرانجام دے رھے ھیں
دلچسپ امریہ ہے کہ ان اصحاب کے پسندیدہ تمام تاریخی کردار اصحاب سیف اور میدان حرب میں داد شجاعت دینے والے تھے. اور غالبْا یھی وجہ ھے کہ ان کے زمانہ حال کے پسندیدہ کردار بھی بندوق بردار ہیں ، چوہدریوں اور مقبول جانوں کا ہم فکر ایک شاعر رقم طراز ہے کہ
ع
کہتی ہیں بیٹیاں اسلام کی کشمیرمیں،(افغانستان اور فلسطین میں بھی)
معتصم باللہ کہاں ہے،ابن قاسم ہے کہاں
اب ہمارے جناب محمد بن قاسم صاحب چل پڑے تھے سندھ میں ایمان کے جھنڈے گاڑنے، اب بھلا کوئی ان صاحب سے پوچھے کہ تم جو اپنی جان جھوکوں میں ڈال کر یھاں آرہے ھو تمھیں اپنے سسر حجاج بن یوسف کے مسلمانوں کے خون میں رنگے ھوئے ھاتھ نظر نھیں آتے یا کوئی معتصم باللہ سے ہی پوچھ لے کہ تم جو (بقول تمہارے زمانہ حال کے صحافتی حدی خوانوں کے)، ایک بہن کی آبرو کی خاطر لشکر لے کرچل پڑتے ہو، تمھیں اپنی قلم رو میں بلکہ اپنے حرم میں بےآبرو ہوتی بیٹیاں نظر نہیں آتی
مجھے افغان قبایلی جنگجوَوں کی مدح میں ان جوشیلے قلم کاروں کا یہ دسیوں بار دہرایا ہوا قول بڑا دلچسپ اور کبھی توبڑااحمقانہ لگتا ہے کہ یہ آپس میں سارا وقت لڑتے رہتے ہیں مگر بیرونی حملہ آور کے خلاف مل کر لڑتے ہیں. اب بھلا یہ توصیف ہے یا توہین، لگتا ہے ان کے بندوق بردار ھیرو بھی اس حوالے سےکچھ کم حیران کن نہیں. اسی لیے وہ بھی اپنے گرد وپیش کے بگاڑسے بے نیاز پاس پڑوس میں جغرافیایی گھرائیاں ناپتے نظر آتے ہیں۔ اور قوم کو ہمیشہ بیرونی خطرات سے ڈراتے نظر آتے ہیں۔
انہی کے اتّباع میں دور حاظر کے بن قاسم بھی شرق وغرب کی بہنوں بیٹیوں کے غم میں نوحہ کناں تو ہیں.لیکن انہیں زرینہ مری اور شازیہ خالد اور اس جیسی سینکڑوں بہنیں نظر نہیں آتیں نہ ہی اپنے گردوپیش کھڑے حجاج نظر آتے ہیں۔
کبھی کبھار تو ایسا لگتا ہے کہ بھٹو صاحب کے ایٹم بم بنانے اور گھاس کھانے کے نعرے پر ہم پورے طور پر عمل پیرا ہیں. اسی لئے تو بم بنالینے کے بعد ھماری عقل باجماعت طور پر گھاس چرنے تشریف لے جاچکی ہے اور اس چراگاہ کی آبیاری میرے معاصر اردو قلم کاروں اور رکھوالی پنشن یافتہ جرنیلوں اور سپاہ سالاروں کے سپرد ہے اور دونوں یہ امور کیسے انجام دے رہے ہیں آپ کے سامنے ہے۔ ۔ ۔ ۔
Comments
comments
Welcome Lakhnavi sahib to the LUBP Forum. You mentioned Urdu writers and pensioner Generals but missed out on English writers. koi rishtah daari hai kia, qiblah? : )
برخودرار نیشاپوری، افسوس کے ہمارے مرحوم ابا جان اکبر الہ آبادی کے پرستار تھے اس لئے فرنگی زبان کو ناپسند کرتے تھے، اسی لئے ہم اس زبان پر دسترس سے محروم رہے، اور اب اس عمر میں قوا اور اعصاب مضحمل اور یاد داشت کمزور ہے۔۔۔ اس لئے انگریزی زبان و بیان سے ہمیں چنداں تعلق نہیں۔۔۔
امید ہے اعتزار قبول کر لیا جائےگا۔۔۔
Excellent piece.
بات یہ ہے کے جب قوم میں احساس کمتری چھا جاےاور وہ فکر و عمل سے دور چلی جاے تو پھر رومانیت ہی ایک راستہ رہ جاتا ہے ، اور تاریخ ایک ذریعہ جو کہ بے حد آسانی سے توڈا موڈا جا سکتا ہے ، اس لئے جو بھی حقیقت سے بھاگنا چاہے اس کے لئے تاریخ سب سے اچھا بہانہ اور آسان راستہ ہے.
اموی خوش قسمت تھے کے انھیں حجاج بن یوسف اور موسیٰ بن نصیر جیسے سپہ سالار اور منتظم ملے ، ان لوگوں کی پہلی اور آخری وفاداری اپنی ریاست کے ساتھ تھی اسی لئے انہوں نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ریاستی معاملات کو نبھانے اور اس کی وسعت کو بڑھانے میں. اور نہ انہوں نے اس بات کا خیال کیا ان کے راستے میں آنے والا کون ہے، جس نے رکاوٹ پیدا کی یا مزاحمت کی اس کوراستے سے ہٹا دیا گیا، چاہے داہر ہو کے حضرت عبداللہ بن زبیر . اور یہ ہی آج کی حقیقت ہے جو کے رومانوی خیالات کی حد سے باہر ہے ، اس لئے ہمارے ہاں شدّت پسندی بڑھ رہی ہے ، مگر انتظامی اور سیاسی سوجھ بوجھ مٹتی جا رہی ہے . چاہے زندگی کا کوئی حصّہ ہو، مملکت اور انتظام کا کوئی پہلو ہو، اندھیر نگری چوپٹ راج کی عملی تفسیر ہیں ہم لوگ.
Mohammad Bin Qasim Sindh tay hamaly karan j hisab saan aayo huyo , naki un khay Islam saan payar huyo ain na e who Islam g propagation karin aayo huyo, uho sirf ain sirf sindh khay lutin j hisab saan aayo huyo, uho sindh jo dushman aahay.
Mohammad Bin QASIM MURDABAD.
Daniel San tm Charty nai 😛
Very well written with portraying the true picture of the
so called of our text Book heroes.Indeed Danial have presented an excellent analysis.
Naveed
You talk about inferiority complex and total ignorance but these deficiencies has been present for centuries together; will they ever go away, or things will go worse before they get better. Law of average demands that the stupidity must end now. Let me add my absolute admiration of Daniaal for his very courageous accomplishment in writing his piece with total commitment and conviction.