ڈان میڈیا گروپ غیر جانبداری اور نیوٹرل صحافت چھوڑ کر نواز شریف اور مریم نواز کا حمائتی کیوں بن گیا ہے؟

 

 

 

https://www.bbc.co.uk/programmes/w3cswj8p

Bottom line is, now come back to, you the self-proclaimed independent, impartial and neutral media group covering Pakistan and now seen to be supportive and sympathetic to Nawaz Sharif and his daughter Maryam Nawaz Sharif, who has to be said now convicted criminals?    

بی بی سی سروس کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں سٹیفن سیکر آپ کو خوش آمدید کہتا ہے۔ آج ہمارے مہمان ایک ایسی شخصیت ہیں جن کے خاندان کی پاکستان کے ایک انتہائی بااثر انگریزی اخبار روزنامہ ڈان سے وابستگی رہی ہے۔ اور وہ ہیں حمید ہارون۔ انہوں نے ڈان میڈیا گروپ کا کنٹرول سنبھالا اور پھر اسے پرنٹ میڈیا سے ریڈیو اور ٹی وی چینل تک الیکٹرانک میڈیا کی دنیا میں لے گئے۔ ڈان گروپ ان دنوں مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔ یہ پاکستان کی مسلح افواج کے بارے میں آزاد اور بعض اوقات تنقیدی رپورٹنگ کرتا ہے۔ جس کے اپنے نتائج و عواقب ہوتے ہیں۔ اخبار کی ترسیل میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے کچھ صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا جارہا ہے۔ یہ ایک بڑے منظر نامے کا حصّہ ہے جس میں نیشنل اور انٹرنیشل ہیومن رائٹس گروپ پاکستان میں ‘اظہار کی آزادی’ کو لاحق سنگین خطرات کی بات کررہے ہیں۔ یہ ایک ایسا وقت ہے جب ملک میں الیکشن ہورہے ہیں اور الیکشن میں فوج کی مداخلت پہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ خاص طور پہ حال ہی میں سزا سناکر مجرم قرار دیے گئے سابق وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ فوج کے سلوک پہ بھی باتیں ہورہی ہیں۔”

بی بی سی سروس کے ہارڈ ٹاک پروگرام کے میزبان سٹیفن سیکر کا اپنے پروگرام میں تعارفی کلمات پاکستان کے مین سٹریم میڈیا میں جمہوریت کے علمبردار کہلانے والے میڈیا گروپوں کی جانب سے دنیا بھر میں جمہوریت اور پریس فریڈیم کے پاکستان تناظر کو واضح کرتے ہیں۔

ہمارا موقف اس معاملے میں یہ رہا ہے کہ پاکستان میں اظہار کی آزادی کو محدود کرنے، پاکستانی رائے عامہ حالات سے آگاہی دینے کی بجائے، ان کو جزوی طور پہ یا قریب قریب کلّی طور پہ ٹیلرنگ کرکے معلومات دینے اور حقائق کو مسخ کرنے اور کئی جگہوں پہ مکمل جانبداری سے کام لینے میں مین سٹریم میڈیا کے میڈیا گروپوں، ان کے مالکان اور ان میں کام کرنے والے صحافیوں کے متنازعہ اور جانبدارانہ کردار کا بڑا ہاتھ ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پاکستانی میڈیا گروپوں کے مالکان اور ان میں کام کرنے والے صحافیوں،اینکرز پرسن، تجزیہ نگاروں، ٹاک شوز کے میزبانوں میں سیاسی صورت حال پہ ایک بہت بڑی تقسیم ہے۔ اور یہ تقسیم سیاسی اعتبار سے  مسلم لیگ نواز بمقابلہ تحریک انصاف ہے۔ جبکہ مین سٹریم میڈیا گروپوں کے اخبارات،ٹی وی چینلز اور آن لائن ویب سائٹوں میں بھی یہ تقسیم بہت واضح نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پہ اگر ڈان میڈیا گروپ، جنگ-جیو میڈیا گروپ، نوائے وقت میڈیا گروپ اور ایسے ہی آج ٹی وی نیٹ ورک کودیکھا جائے تو اس کا غالب رجحان ‘نواز کیمپ’ کی طرف ہے۔ اور اس کے متوازی اگر 92نیوز میڈیا گروپ، اے آر وائی نیٹ ورک، 24 نیوز نیٹ ورک وغیرہ کو دیکھا جائے تو ان کا رجحان اینٹی نواز اور تحریک انصاف کے حق میں ہے۔ اور یہ دونوں کیمپ بہرحال اپنی صحافت میں معروضیت اور غیر جانبداری کے عنصر کو بہت کم سطح پہ لیجا جاچکے ہیں۔ اور دونوں طرف سے حقائق اور معلومات کی مینوفیکچرنگ اور ٹیلرنگ کا عمل جاری و ساری ہے۔

پاکستان میں ڈان، جنگ اور نوائے وقت میڈیا گروپ اگرچہ اپنے آپ کو جمہوری،لبرل اقدار کا علمبردار بتلاتے ہیں لیکن ان کی نواز شریف اور مسلم لیگ نواز کے باب میں جانبداری اور موضوعی صحافت اب اتنی بے نقاب ہوئی ہے کہ بی بی سی سروس کے پروگرام ہارڈ ٹاک کے میزبان صحافی سٹیفن سیکر کو بھی ڈان میڈیا گروپ کے سی ای او کو کہنا پڑا کہ وہ نواز شریف کے معاملے میں جانبدار ہیں اور جمہوریت اور آزادی اظہار کے بارے میں ان کے خیالات پروپیگنڈے کے قریب تر جاپہنچتے ہیں۔

سٹیفن سیکر نے پروگرام کے آغاز ہی میں جب حمید ہارون سے سوال کیا کہ انہوں نے واشنگٹن پوسٹ میں پڑھا کہ آپ کے نزدیک پاکستان میں اس وقت ‘آزادی اظہار’ پہ جو قدغنیں لگائی گئی ہیں اور جو جبر ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، تو اس کا ثبوت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب حمید ہارون نے بجائے ثبوت اور شواہد سے دینے کے پھر دعوے شروع کیے اور کہا کہ پاکستان کے تین قدیم ترین میڈیا گروپوں (ڈان،جنگ،نوائے وقت گروپس) کو تین سالوں سے بالعموم اور تین ماہ سے بالخصوص مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔۔۔۔۔۔۔

سٹیفن سیکر نے ان کی بات کو درمیان سے کاٹ کر کہا کہ

آپ کے اخبار شایع ہورہے ہیں، ٹی وی چینل آن ائر ہیں، آن لائن مواد آرہا ہے تو ماضی میں پریس کے ساتھ فوج کا جو سلوک رہا ہے،اس کے مقابلے میں توصورت حال بہتر ہے، پاکستانی میڈیا ایک وائبرنٹ اور محترک ہے اور جمہوری عمل بھی جاری ہے اور یہ سب پاکستان میں ماضی میں فوج کی مداخلت سے پیدا ہونے والی صورت حال سے تو کافی بہتر ہے اور یہ قابل تعریف ہے۔

حمید ہارون سٹیفن سیکر کی اس بات کا رد کرتے ہوئے یہ ماننے سے انکاری ہوجاتے ہیں کہ صورت حال بہرحال ماضی سے بہتر ہے اور کہتے ہیں کہ ایسا کہنا غلط ہے، اور وہ پاکستانی پریس اور میڈیا کو ایک متحرک میڈیا کہتے ہیں تو حمید ہارون کہتے ہیں کہ

 ‘ اگر ہم خاموش ہوگئے تو پاکستان میں صحافت کی حالت مڈل ایسٹ یا مشرق بعید جیسی ہوجائے گی’

لیکن یہاں سوال یہ جنم لیتا ہے کہ حمید ہارون ہوں یا میر شکیل الرحمان ہوں یا علیزہ مجید نظامی ہوں یہ پاکستان میں معروضی اور سچائی کے قریب ہوکر صحافت کرنے کی بجائے متنازعہ اور ٹیلرنگ صحافت کررہے ہیں اور یہ صحافت بہرحال ان کے لیے مسائل کو جنم دے رہی ہے۔

حمید ہارون سٹیفن سیکر کی جانب سے پاکستانی میڈیا کے وائبرنٹ ہونے کی بات سنکر اپنے موقف میں تھوڑا بدلاؤ لاتے ہیں اور کہتے ہیں:

Despite everything else …….. I think is vibrant Press and we have an almost an obligation to trying to keep a vibrant Press active, not only for the people of Pakistan but for across the South Asia ۔۔۔۔۔

حمید ہارون کا خیال ہے کہ وہ پاکستانی پریس کو متحرک رکھنے کی کوشش کررہے ہیں تمام ترمشکلات اور ریاست پاکستان کی پچھلے کئی عشروں سے اس کو ختم کرنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے باوجود اور وہ کہتے ہیں وہ ایسا صرف پاکستان کی عوام کے لیے ہی نہیں کررہے بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے لیے ایسا کررہے ہیں۔

اس پہ سٹیفن سیکر ایک بار پھر بہت ہی چالاکی کے ساتھ حمید ہارون کو کہتے ہیں کہ آپ کے فرض کو اگر مبالغہ نہ بھی کہا جائے تو ہمیں خاص اور ٹھوس انداز میں بتائیں کہ گزشتہ چند ماہ میں کیا کیا واقعات ہوئے ہیں جن کی وجہ سے آپ یہ کہتے ہیں  ‘صحافت کی آزادی’ کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔

یہ سوال پھر ہمیں احساس دلاتا ہے کہ سٹیفن سیکر حمید ہارون کی باتوں کو شواہد اور ثبوت کی بجائے زیادہ تر دعوؤں کی مد میں لے رہے ہیں۔ اس پہ حمید ہارون ایک بار پھر ثبوت اور شواہد پیش کرنے کی بجائے بلند آہنگ ہوکر یہاں سے بات شروع کرتے ہیں ‘ پہلی بار تاریخ میں، میں صرف ڈان گروپ کی طرف سے نہیں بلکہ چار سو سے زائد اخبارات و رسائل کی نمائندہ تنظیم اے پی این ایس کے سربراہ کی حثیت سے۔۔۔۔۔۔۔’ سٹیفن ان کو یہیں پہ ٹوک دیتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ پہ الزام ہے کہ آپ اس حوالے سے ٹھیک نمآئندگی نہیں کررہے۔آپ کو ٹھوس اور خاص واقعات بتانا ہوں گے تاکہ پتا چلے کہ واقعی پریس فریڈم اور پریس کو مجموعی طور پہ پاکستان میں سخت خطرہ ہے۔

اس پہ حمید ہارون کہتے ہیں کہ اخبارات کی ترسیل کو روکا جارہا ہے۔ اور ملک کے اکثر حصوں میں ایسا ہورہا ہے۔ کچھ حصوں کو میڈیا پہ اپ لوڈ کرنے سے روکا جارہا ہے۔ اور وہ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں یہ اصل میں نواز شریف کو بلاک کرنے کی کوشش ہے اور اسی سلسلے میں سب کچھ ہورہا ہے۔

یہاں پہ حمید ہارون یہ بتانے سے قاصر رہے کہ انتخابی مہم کے دوران جب بلاول نے کراچی سے اپنی مہم کا آغاز کیا تو ڈان، جیو، وقت نیوز سمیت اکثر میڈیا گروپ نے ان کی ریلیوں اورتقریروں کی بالکل بھی براہ راست کوریج نہیں کی اور مکمل بلیک آؤٹ کی سی کیفیت تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ پی پی پی کی لاہور میں مبنیہ منی لانڈرنگ اور جعلی اکاؤنٹس کے حوالے آصف علی زرداری اور فریال تالپر کے ملوث ہونے بارے جھوٹی اور پروپیگنڈا خبریں آن ائر کرنے کے خلاف کی گئی پریس کانفرنس کا بھی مکمل طور پہ بلیک آؤٹ کیا گیا۔ تو کیا یہ بھی ملٹری نے کروایا تھا؟

اگر عاصمہ شیرازی، سید طلعت حسین اور دیگر کئی صحافی ٹوئٹر پہ اور خود حمید ہارون بی بی سی سروس کے ہارڈ ٹاک پروگرام میں یہ بتاسکتے ہیں کہ نواز شریف کے بیانات اور ان کے استقبال کی کوریج اور انٹرویوز کو نشر کرنے سے مبینہ طور پہ منع فوج نے کیا تو وہ پی پی پی کے چئیرمین بلاول کا اپنے چینلز پہ بلیک آؤٹ کیے جانے کا حکم دینے والے کے بارے میں کیوں نہیں بتاتے؟ اور یہ عقدہ بھی آج تک نہیں کھل سکا کہ حمید ہارون جتنا زور نواز شریف کے فوج کی جانب سے مبینہ بلیک آؤٹ کیے جانے پہ بول رہے ہیں، اتنا وہ پی پی پی کے بارے میں کیوں نہیں بولتے اور پی پی پی کو جسطرح سے سندھ میں جی ڈی اے، پی ٹی آئی اور دیگر قوتوں کے زریعے سے روکنے اور محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس پہ یہ وائبرنٹ اور متحریک میڈیا وائبرنٹ اور متحرک کیوں نہیں ہوتا؟

سٹیفن سیکر آخر کار یہ کہہ دیتے ہیں

You and your media group, it seems to have chosen deeply sympathetic to Nawaz Sharif, why you have done now?

حمید ہارون اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ وہ اور ان کا گروپ نواز شریف کی طرف بہت زیادہ ہمدردانہ جھکاؤ رکھتا ہے اور ان کا خیال یہ ہے کہ ان کو تو صرف سیاست دانوں کے ہی احتساب جیسے امتیازی سلوک پہ اعتراض ہے۔

سٹیفن سیکر اس پہ حمید ہارون کو یاد کراتے ہیں کہ 2016ء میں ڈان لیکس سے معاملہ شروع ہوا تھا۔اور ان سے پوچھتے کہ ان کو اس طرح سے حکومت اور فوج کے درمیان مبینہ چتقلش میں پارٹی بننے کی کیا ضرورت تھی اور تبھی سے ڈآن میڈیا گروپ کا جھکاؤ نواز شریف کی طرف نظر آتا ہے۔ سٹیفن سیکر حمید ہارون کو کہتے ہیں کہ کچھ سالوں سے ان کا جو موقف ہے وہ غیر جانبدار اور آزاد نظر نہیں آرہا ہے۔

 

Bottom line is, now come back to, you the self-proclaimed independent, impartial and neutral media group covering Pakistan and now seen to be supportive and sympathetic to Nawaz Sharif and his daughter Maryam Nawaz Sharif, who has to be said now convicted criminals?

 

اس پروگرام نے پاکستان کے کمرشل لبرل مافیا کو کافی حد تک بے نقاب کیا ہے۔ حمید ہارون کی باتوں نے یہ تاثر اور پختہ کیا ہے کہ کمرشل لبرل مافیا شریف برادران کی ذاتی بقا کی جنگ لڑرہا ہے۔ کیونکہ اگر پاکستانی کمرشل لبرل مافیا کو پاکستان میں جمہوریت اور لبرل اقدار کی فکر ہوتی تو وہ پاکستان میں جمہوریت اور لبرل اقدار کی لڑائی لڑنے والی نواز شریف کے کیمپ سے ہٹ کر سیاسی قوتوں اور صحافتی کیمپوں کو بھی کوریج دیتے اور یہ بھی بتاتے کہ نواز شریف اور ان کی جماعت مسلم لیگ نواز کا کتنا بڑا ہاتھ ہے جمہوریت کو کمزور کرنے، پارلیمنٹ کو بے اثر بنانے اور موجودہ حالات کو یہاں تک لانے میں

Source:

ڈان میڈیا گروپ غیر جانبداری اور نیوٹرل صحافت چھوڑ کر نواز شریف اور مریم نواز کا حمائتی کیوں بن گیا ہے؟

Comments

comments