پروفیسر نرگس ماولوالہ
ادارتی نوٹ : تعمیر پاکستان بلاگ پاکستانی نژاد کوانٹم آسٹرو فزکس کی ماہر سائنسدان نرگس ماولوالہ کو عظیم سائنس دان البرٹ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت میں موجود زمان و مکان میں کشش ثقل کی لہروں اور امواج کے پائے جانے کے مفروضہ کو ثابت کرنے جیسا کارنامہ سرانجام دینے والی سائنس دانوں کی ٹیم کا حصّہ ہونے اور اس حوالے سے بنیادی کردار ادا کرنے پر خراج تحسین پیش کرتا ہے – نرگس ماولوالہ کراچی میں ایک پارسی خاندان میں پیدا ہوئیں اور وہ امریکی یونیورسٹی ایم آئی ٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ میں ایسوسی ایٹ ہیڈ ہیں اور وہ سائنس دانوں کی اس ٹیم کا حصّہ تھیں جنھوں نے ملکر سائنس کی دنیا کا گیارہواں سنگ میل عبور کیا جب انہوں نے عظیم طبعیات دان البرٹ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت میں موجود زمان و مکان میں پائی جانے والی کشش ثقل کی لہروں اور امواج کے مفروضے کو سائنسی بنیادوں پر ٹھیک ثابت کر دکھایا –
نرگس ماولوالہ ایک پارسی خاندان کی پاکستانی نژاد امریکی خاتون سائنس دان ہیں اور ان کی مذھبی شناخت یقینی بات ہے کہ تکفیری شاہ دولہ کے چوہوں کو اس کارنامہ پر نرگس ماولوالہ کو اپنانے اور ان کے کارنامے پر فخر کرنے سے روکے گی اور ڈاکٹر عبدالسلام کی طرح ان کے کام کو بھی نظر انداز کیا جائے گا یا ان کا تذکرہ گم کرنے کی کوشش کی جائے گی ، تعمیر پاکستان بلاگ ایسی کسی بھی از خود مسلط کردہ سنسر شپ کی راہ سب سے بڑی روکاوٹ بنے گا – پاکستان کے اندر نفرت پھیلانے کا کاروبار کرنے والے اور لوگوں کے فن اور ان کی محنت کے رد و قبول کے لئے ان کی مذھبی شناخت کو پیمانہ بنانے والے چآہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر سے ہوں ، چاہے ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو ان کی حولہ شکنی ضروری ہے – جیسے ڈاکٹر عبدالسلام کے خلاف جماعت اسلامی ، دیوبندی تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان ( اہلسنت والجماعت دیوبندی ) سمیت کئی ایک سلفی وہابی ، دیوبندی وہابی تنظیموں نے مہم چلائے رکھی –انتہا پسندوں اور تکفیری فاشسٹوں کی حوصلہ شکنی کا سب سے بہترین راستہ یہ ہے کہ آرٹ اور سائنس کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے اور لوگوں کے بند اذھان کو کھولنے کا کام کیا جائے
گیارہ فروری ، 2016ء پاکستان کے رہنے والوں کے لئے ایک بڑی خوشخبری لیکر آیا جب پوری دنیا نے سنا کہ ایک تو عظیم سائنس دان البرٹ آئن سٹائن نے ایک صدی پہلے یعنی 1915ء میں زمیان و مکان ( ٹائم اینڈ سپیس ) میں کشش ثقل کی لہروں اور امواج کے موجود ہونے کا جو نظریہ پیش کیا تھا اسے 200 سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے سچ کردکھایا ہے – دوسرا انکشاف یہ تھا کہ اس ٹیم میں پاکستانی نژاد خاتون سائنس دان نرگس مالوالہ نے انتہائی اہم کردار ادا کیا اور ان کے تحقیقاتی کام نے آئن سٹائن کے نظریے کو ایک صدی بعد سچ ثابت کرنے میں اہم کردار ادا کیا
پروفیسر نرگس ماولوالہ آسٹروفزکس میں 20 سال سے سرگرم ہیں اور وہ 2002ء سے امریکی یونیورسٹی میساچیوسسٹ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی – ایم آئی ٹی کے شعبہ فزکس سے بطور ایسوسی ایٹ ہیڈ کے وابستہ ہیں – ان کے آسٹروفزکس میں انتہائی قابل قدر تحقیقی مقالے شایع ہوچکے ہیں
ماولوالہ نے بی اے ویل سیلے کالج سے فزکس اور آسٹرونومی میں 1990ء میں کیا اور 1997ء میں میساجیوسسٹ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے پی ایچ ڈی کی
اس سے پہلے وہ کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (کال ٹیک ) میں پوسٹ ڈاکٹرل ایسوسی ایٹ اور پھر ایک محقق سائنس دان کے طور پر کام کررہی تھیں اور وہ اس انسٹی ٹیوٹ میں لیزر انٹرفیرومیٹک گریوٹیشنل ویو آبزرویٹری _ لیگو پر کام کررہی تھیں
ليگو پر تحقیق وہ ایم آئی ٹی میں اپنے گریجویشن کے زمانے سے ہی تحقیق کررہی تھیں اور ان کی ابتدائی ریسرچ نے ہی کشش ثقل کی لہروں اور امواج کے زمان و مکان میں پائے جانے کو ثابت کرنے کے لئے مزید ریسرچ کو ممکن بنایا
ان کو 2010ء میں میک آرتھر فاؤنڈیشن ایوارڈ جیسا بیش قیمت اعزاز بھی حاصل ہوا تھا
کراچی والی لڑکی
ماولوالہ کراچی کے ایک پارسی گھرانے میں پیدا ہوئی تھی اور اس نے ابتدائی تعلیم کانونٹ آف جیسس اینڈ میری اسکول کلفٹن کراچی سے حاصل کی اور اس بات کی تصدیق روزنامہ ڈان کو اسکول کی ایڈمنسٹریشن نے کردی ہے جس کا تذکرہ اس اخبار کی ویب سائٹ ” ڈان ڈاٹ کوم ” پر موجود ہے
بعد ازاں وہ کراچی سے امریکہ چلی گئی اور وہآں میساچیوسسٹ میں ویل سیلے کالج میں داخلہ لے لیا اور جہاں وہ اپنے آپ میں مگن رہنے والی خاموش طبع لڑکی شمار کی جاتی تھی – اس بات کا تذکرہ سائنس میگ ڈاٹ اوآرجی نے اپنے ایک آرٹیکل میں کیا ہے
رابرٹ برگ جو کہ ویل سیلے کالج میں نرگس ماولوالہ کے فزکس کے استاد تھے کہتے ہیں کہ
جب وہ نئی نئی کالج میں آئی تھی تو اس نے اپنے بے خوف ، پراعتماد انداز سے مجھے حیران کرڈالا تھا اور اس کا رویہ تروتازہ کردینے والا تھا
ماولوالہ کے ساتھیوں نے بتایا کہ بہت سے پروفیسر اپنے طلباء کو اپنے کولیگ کے طور پر ٹریٹ کرنا شروع کرتے ہیں تو اکثر طلباء کا ردعمل برابر نہیں ہوتا – لیکن اول دن سے ماولوالہ نے ایک برابر کے کولیگ کے طور پر کام کرنا شروع کردیا – وہ برگ کی مدد کرتی تھیں جو کہ اس وقت فیکلٹی میں نئے تھے ، اس نے ایک لیزر قائم کی اور ایک خالی کمرے کو لیب میں بدل ڈالا – 1990ء میں گریجویشن کرنے سے پہلے برگ اور ماولوالہ نے فزیکل ریویو میں مشترکہ طور پر ایک مقالہ شایع کیا جس کا عنوان تھا
B: Condensed Matter
اس کے والدین نے اس کو تعلیمی میدان میں شاندار کارکردگی دکھانے کے لئے کافی حوصلہ دیا اور ابتداء سے ہی اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادی تھی – اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی گلی میں ایک بائیک میکنک سے اوزار مانگ لیتی تھی اور اپنے بائیک کی مرمت خود کرڈالتی تھی – اس کی والدہ اس کے کپڑوں پہ گریس کے نشانات دیکھ کر اعتراض کرتی ضرور تھیں لیکن مرے والدین نے کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ کام مرے یا مری بہن کے کرنے کے نہیں ہیں
وہ سٹیریوٹائپ جینڈر کرداروں کے بغیر پلی بڑھی – اس کا کہنا ہے کہ اسے کبھی بھی امریکہ میں یہ احساس نہیں ہوا کہ امریکی سماجی معیارات کے مطابق زندگی بسر کرنا اس پر لازم ہے
اس کی عملی مہارتوں نے 1991ء میں اس کا ساتھ دیا جب وہ ایم آئی ٹی میں کریجویشن کے پہلے سال کی تکمیل پر کسی ریسرچ گروپ میں شامل ہونے کا سوچ رہی تھی – اس کا ایڈوائزر شگاگو جارہا تصا اور ماولوالہ نے اس کی پیروی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ، اسے نئے ایڈوائزر کی ضرورت تھی تو وہ رینر ویس سے ملی جو کہ ہال وے میں کام کررہا تھا
تم کیا جانتی ہو ؟ ویس نے اس سے پوچھا تھا –تو اس نے جو کلاسیں وہ لے چکی تھی اس کی لسٹ گنوانا شروع کردی تو درمیان میں اسے اپنے وقت کے سب سے بڑے تجرباتی سائنس کے ماہر نے ٹوکا اور پھر پوچھا
تم اس بارے میں کیا جانتی ہو کہ کام کیسے کیا جاتا ہے ؟
ماولوالہ نے اپنے عملی تجربے اور اس سے حاصل ہونے والی مہارت کو کام میں لایا اور اپنے حاصلات جیسے میشننگ ، الکیٹرانک سرکٹ ، لیزر کی تعمیر وغیرہ – تو یہ ویس تھا جس نے اسے سیدھی راہ پر لگایا
ماولوالہ کہتی ہے کہ ابتداء میں یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ جو کچھ ہے وہ اچھے استادوں کی تربیت کا نتیجہ ہے لیکن آہستہ آہستہ سب واضح ہوتا چلا گیا – پاکستان میں اپنے کیمسٹری کے استاد سے لیکر ایم آئی ٹی کے شعبہ فزکس کے سربراہ تک اسے بہت سے لوگ ملے جنھوں نے اس کا حوصلہ بڑھایا
عظیم دریافت
اگرچہ زمان و مکان میں کشش ثقل کی امواج اور لہروں کی موجودگی کا پتہ سائنس دانوں کو ستمبر 2015ء میں پتہ چل چکا تھا اور اس دریافت نے کاسموس کی اسٹڈی کا ایک نیا در وا کرڈالا تھا لیکن سائنس دانوں کو اس بات کی تصدیق کرنے کے لئے درکار ڈیٹا اکٹھا کرنے میں کئی ماہ لگ گئے
سائنس دانوں نے کہا کہ انہوں نے ایسی کشش ثقل کی لہروں کا سراغ لگایا ہے جو کہ دو بلیک ہول سے آرہی ہیں – بلیک ہول غیرمعمولی طور پر ٹھوس اشیاء جن کا وجود بہت پہلے ہی آئن سٹائن نے بیان کیا تھا – جوکہ ایک دوسرے کے گرد گردش کرتے ہیں ، اندرونی طرف پیچ دار جگر لگاتے ہیں اور ایک دوسرے کو ضرب لگاتے اور ٹکراتے ہیں – انہوں نے کہا کہ یہ لہریں سورج سے 30 گنا بڑے دو بلیک ہول کے باہمی ٹکراؤ کا نتیجہ ہیں جوکہ زمین سے 3۔1 بلین نوری سال کے فاصلے پر ہیں
سائنس کی دنیا کے اس ایک اور اہم سنگ میل کا اعلان ایک نیوز پریس کانفرنس میں کیا گیا اور یہ عظیم دریافت واشنگٹن سٹیٹ لیوزاینا میں نصب بڑے لیزر ڈیٹیکٹرز کے زریعے سے کی گئی جس نے ان لہروں کے وجود کو ثابت کردیا
http://s6.postimg.org/4gxrsqm1d/maxresdefault.gif