حضرت کبھی انسان اور انسانیت کا بھی سوچ لیا کریں – عمار کاظمی
حضرت کبھی انسان اور انسانیت کا بھی سوچ لیا کریں مسلمان اگر مینار آسمان تک لیجانے، مساجد کو ماربل سے بھرنے اور دو دو حج کرنے کی بجائے غریبوں کو پانچ مرلے کی چھت مہیا کرنے لگیں تو شاید دنیا میں انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگے۔ شیعہ اگر زیارت کو زیور پہنانے اور علماء کو لاکھوں دے کر عشرہ پڑھانے کی بجائے غریب کی بیٹی کو زیور پہنانے یا خدمت خلق کرنے لگیں تو شاید مسلمانوں میں وہ بہتر تصور کیے جانے لگیں۔ مساجد پر پیسہ، درباروں پر پیسہ، عزاداریوں پر پیسہ مگر غریب کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں۔
جس خالق نے یہ سب کچھ بنایا ہے بھلا اسے پیسوں کی کیا ضرورت؟ جو خود بھوکے رہ کر لوگوں کے لیے لنگر چلاتے تھے بھلا ان کے لیے تمھارے ایک دو دن کے لنگر کیا اہمیت رکھتے ہیں؟ اور جو اولیاء اللہ، اللہ کی محبت کے سوا کوئی لالچ ہی نہیں رکھتے تھے ان کے درباروں پر نوٹوں کی بارش کا کیا مقصد؟ بے شک سب سے بڑی جہالت تو یہی ہے کہ جس نے یہ سب کچھ بنایا، تمھیں دیا تم اسی کے دیے ہوئے کو اس پر لگا کر دکھاوا کرتے ہو۔ غریب کی جیب میں نوکری پر جانے کا پیسہ نہیں ہوتا اور تم تبلیغ پر جانے کے لیے سات سمندر پار تک کے فنڈ اکٹھے کرتے ہو۔ آخر کس بات کی تبلیغ ہے یہ جو انسانوں کی زندگی میں بہتری لانے کی بجائے انھیں پستیوں کی طرف دھکیلتی جاتی ہے؟
اس طرح کے تصورات کے ساتھ دنیا کا کوئی مذہب یا مسلک جدید دنیا میں خود کو زیادہ دیر زندہ نہیں رکھ سکتا کہ جس میں فلاح انسان مذہب سے کم اہمیت رکھتی ہو۔ اسی جہالت کا فائدہ اُٹھا کر مذہب میں وہ طبقات ترقی کر رہے ہیں جو دہشت گردی کو بھی سپورٹ کرتے ہیں۔ اگر ان غلطیوں کو سدھار لیا جائے تو بلاشبہ اِن کی ترقی اور اُن کی تنزلی رک سکتی ہے۔ ان سب نے مل جل کر اصل اسلام کی پہچان کے صرف دو نظریے متعین کر رکھے ہیں۔ ایک جہاد کے نام پر دہشت گردی، جہاد کے نام پر مال غنیمت اکٹھا کرنا، اسلام کے پھیلاو کے لیے دوسروں کے علاقوں پر قبضہ، قتل و غارت اور دوسرا عقائد و رسومات کے نام پر جہالت۔