چارلی ہیبڈو، اسلامو فوبیا، آزادی اظہار اور اقدار انسانی – عامر حسینی

Charlie Hebdo

سب سے پہلے تو میں بیروت سے شایع ہونے والے عربی روزنامہ الاخبار کے انتہائی سئنیر صحافی یازن السعدی کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے مجھے فرانس کے ایک انتہائی متنازعہ نام نہاد سٹیریکل جریدے چارلی ہیبڈو کے حوالے سے مغرب میں بالعموم اور ہمارے ہاں کے بعض نام نہاد لبرل جوکہ لبرل کم اور فسطائی زیادہ ہیں کے ہاں یک طرفہ چلائی جانے والی بحث کی فکری کجی اور ان کی نام نہاد روشن خیالی کے خام ہونے کے بارے میں ایک راہ سجھائی اور آج کا یہ کالم ایک طرح سے یازن السعدی کے ہی خیالات کی باز گشت ہے ، بس اس میں میں نے اپنے خیالات کا اضافہ کردیا ہے اسلامو فوبیا اور اس فوبیا کے شکار صرف مغرب میں ہی نہیں ہیں بلکہ اس فوبیا کے شکار خود مسلم ممالک کے اندر بھی موجود ہیں ، جب یہ کالم لکھنے بیٹھا تو مرے سامنے ایک معاصر انگریزی اخبار میں چھپا ایک کالم بھی ہے جو پاکستان کے ایک مذھبی فوب نے لکھا ہے اور اس آرٹیکل کا عنوان ہے

Mosque versus state

پرویز ہود بھائی نے ” مسجد بمقابلہ ریاست ” جیسے انتہائی افتراق پیدا کرنے والے عنوان کے تحت جو پہلی لائن ہی لکھی وہ کچھ یوں ہے

THE mosque in Pakistan is now no longer just a religious institution. Instead it has morphed into a deeply political one that seeks to radically transform culture and society

اس لائن یہ پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں شاید اب کوئی مسجد ایسی نہیں ہے جو عبادات و دعا اور دیگر مذھبی فریضوں کے لیے استعمال ہورہی ہے بلکہ پرویز ہود بھائی کی ںظر میں اب پاکستان میں ساری کی ساری مساجد پاکستانی کلچر اور معاشرے کے اندر ایک ریڈیکل تبدیلی لانے کے لیے کوشاں ہیں اور پرویز ہود بھائی نے اس کے بعد اپنے پورے آرٹیکل میں یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ریڈیکل تبدیلی انسانوں کے گلے کاٹنا ، ان سے ان کے عقیدے کی بنا پر نفرت کرنا اور دھشت گردی کا بازار گرم کرنا ہے ،

میں سمجھتا ہوں کہ پرویز ہود بھائی جیسے نام نہاد لبرل ان مغربی اسلامو فوبک لوگوں سے ہرگز مختلف نہیں ہیں جو اسلام ، اسلام کے شعائر ، اسلامی عقائد ، مسجد اور مدرسوں کو بالذات دھشت گردی ، انتہا پسندی اور قتل و غارت گری کی جڑ بتلارہے ہیں ، یہ چند ایک مثالوں ، چند ایک لوگوں اور گروہوں کے فعل کو ، ان کے اعمال کو ، ان کے کردار کو ان کے شعار کو عمومیانے اور مطلق فتوی صادر کرنے کا عمل ہے جو ایک اور سطح کی انتہا پسندی ہے جس کو لبرل ازم کے نام پر ، عقلیت پسندی کے نام پر زبردستی مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس بات سے کوئی انکار نہيں کرتا کہ پاکستان کے اندر تکفیری ، خارجی ، فرقہ وارانہ منافرت اور دھشت گردی کی لاجسٹک سپورٹ ایسے مدرسوں اور مساجد سے بھی ہورہی ہے جو پاکستان کے اربن سنٹرز میں واقع ہیں اور کسی کے بقول ایسے مدرسے دو یا تین فیصد ہوں گے یا اگر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں کی بات پر یقین کریں تو وہ دس فیصد ہوں گے اور یہ دس فیصد مدارس بھی ایک مخصوص مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں جسے دیوبندی مکتبہ فکر کہا جاتا ہے

لیکن اس بنیاد پر نہ تو اسلام کو دھشت گردی کا مذھب کہا جاسکتا ہے ، نہ ہی مدرسہ سسٹم کو دھشت گردی کا پالنہار کہنا درست ہے ، نہ اس بنیاد پر مسجد کے بارے میں یہ کہنا درست ہے کہ وہ اب مذھبی انسٹی ٹیوٹ نہیں رہا ، لال مسجد کا غیر سرکاری خطیب مولوی عبدالعزیز اور جامعہ حفصہ کی انتظامیہ کے بارے میں اگر انتہا پسندی کے ثبوت لے ہیں تو اس سے اسلام کہاں سے قصوروار ٹھہر جاتا ہے اور اس سے یہ کہآں لازم آتا ہے کہ آپ سب مدرسوں اور سب مساجد کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیں اسلام تو دور کی بات ہے اس سے تو یہ بھی لازم نہیں آتا کہ آپ سارے دیوبندی مکتبہ فکر کے ماننے والوں کو دھشت گرد ، فرقہ پرست اور انتہا پسند ٹھہرادیں ، ہاں اتنا ضرور ہے کہ وفاق المدارس ، دیوبندی سیاسی تنظیمیں جیسے جے یوآئی ایف ہے ان کو بھی بعض مدارس و مساجد کا فرقہ وارانہ سرگرمیوں اور دھشت گردوں کی لاجسٹک سپورٹ کا سرے سے انکار کرنے کا رویہ اور موقف ترک کرنا چاہئیے

اور دیوبندی مذھتی پیشوائیت کو اپنے اندر سے ان لوگوں کو نکال باہر کرنا چاہئیے جو تحریک طالبان پاکستان ، القائدہ ، داعش ، لشکر جھنگوی ، جند اللہ ، غازی فورس کی دھشت گردی اور ان کی تکفیری و خارجی آئیڈیالوجی کو اسلام ، جہاد سے تعبیر کرتے ہيں اور حکیم اللہ محسود کو شہید تک کہنے لگ جاتے ہيں ، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دیوبندی مذھبی کلرجی کے ہاں معذرت خواہانہ اور دھشت گردوں کے مذھبی و مسلکی مشابہات کے سبب مداہنت ، مصلحت اور نیم دلانہ مذمت کی روش موجود ہے اور ان کے اندر ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو مذمت نیم دلی سے بھی نہیں کرتے بلکہ وہ مداحین میں شامل ہيں ، مگر اس سب کے باوجود ہم مطلق لفظ دیوبندی کو دھشت گردی ، تکفیریت ، خارجیت کے مساوی نہیں ٹھہراسکتے اور جو ایسا کرتا ہے

وہ ایک انتہا پسندی کے مقابلے میں دوسری انتہا پسندی کا شکار ہوتا ہے انگریزی پریس اور اس میں لکھنے والے کئی ایک لبرل صحافی ، کالم نگار اور اداریہ نویس جب کبھی مذھبی انتہا پسندی اور دھشت گردی بارے لکھنے لگتے ہيں تو وہ ” مذھبی دایاں بازو ” کی مبہم اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور اس طرح سے وہ بھی ایک خاص مظہر کو عمومی بنانے کے مرتکب ہوتے ہيں ، مثال کے طور پر ایک انگریزی معاصر روزنامے کے ایک سٹاف رپورٹر نے ایک تجزیہ لکھا جس کی شہ سرخی کچھ یوں تھی Aftermath 21st amendment ,religious rigt facing existential crisis اور آج مورخہ 10 جنوری 2015 ء کے اسی معاصر انگریزی روزنامے کے اداریہ نویس نے 21 ویں ترمیم کے حوالے سے جے یو آئی ايف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور جماعت اسلامی کی جانب سے ملٹری ایکٹ میں ترمیم میں لفظ مسلک ، مذھب اور فرقہ کے استعمال پر 21 ویں آئینی ترمیم کو مسترد کرنے کے عمل پر تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے

OBFUSCATION, deception and wrongful conflation are the usual tools of the religious right when it comes to attacking any form of consensus on the need for state and society to focus seriously on the fight against militancy.

اداریہ میں اداریہ نویس نے ” مذھبی دایاں بازو ” جیسی عمومی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے عسکریت پسندی کے خلاف ریاست اور معاشرے میں اتفاق کی ضرورت کے وقت سارے مذھبی دائیں بازو کو تیرگی ، فریب اور غلط طور پر پردہ ڈالنے جیسے ہتھیار استعمال کرنے کا جرم وار ٹھہرادیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ” مذھب ، فرقہ ، مسلک ” کے نام پر دھشت گردی کے پھیلاؤ ، اس کے زیادہ بڑے خطرہ ہونے اور اس کی سنگینی کے بارے میں صرف بائيں بازو ، سیکولر ، لبرل لوگوں میں ہی اتفاق نہیں پایا جاتا بلکہ دائیں بازو کی اکثریت اس سے متفق ہے اور یہی وجہ ہے کہ 21 ویں ترمیم پر دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مذھب پسندوں کی اکثریت کا اتفاق دیکھنے کو ملا ہے ،

کیا یہ اتفاق کہ دائيں بازو کا مذھبی حلقہ اور مسجد بمقابلہ ریاست جیسی عمومی اصطلاحوں کو خاص اور اضافی قسم کے سماجی مظاہر پر مطلق کرکے شایع کرنے کا دن ایک ہی ہے اور مرے خیال ميں تو یہ بھی ایک دوسری ابفسکیشن یعنی تیرگی ، اور گول مول روش ہے یہ ایک اور طرح کا فوبیا ہے جس کا ہمیں سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ آپ صاف صاف لکھئے کہ مذھبی دائیں بازو میں دیوبند مکتبہ فکر کی جماعت جے یو آئی ایف کے سارے دھڑے اور وفاق المدارس کی قیادت ، جماعت اسلامی اور ساجد میر کی جماعت ہے جو مذھب ، مسلک کے نام پر ہونے والی دھشت گردی اور عسکریت پسندی بارے ابفسکیشن اور فریب کے ٹول استعمال کررہی ہيں نہ کہ یہ مطلق مذھبی دایاں بازو ہے اور اسی طرح سے جب آپ مذھبی دھشت گردی ، اسلامی انتہا پسندی ، اسلامی بنیاد پرستی جیسی اصطلاحیں استعمال کی جاتی ہیں

تو اس سے ابہام جنم لیتا ہے اور ایک راستہ اسلامک فوبیا کا کھلتا ہے اور اگر آپ مطلق دیوبندی یا وہابی یا اہلحدیث یا سلفی لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے دیوبندی فوبیا ، وہابی فوبیا اور سلفی فوبیا کا راستہ کھلتا ہے اور فرقہ پرستی کا راستہ ہموار ہوتا ہے جبکہ سب جانتے ہیں کہ دیوبندی اور اہلحدیث میں یہ تکفیری و خوارجی مظہر ہے جس نے دھشت گردی اور اہل قبلہ کی تکفیر اور اس بنياد پر لوگوں کے قتل کا راستہ نکالا ہے جس کا ان کی اکثریت سے لینا دینا نہیں ہے تو زیادہ سے زیادہ اس سے دیوبندی وہابی تکفیری دھشت گردی کی اصطلاح کی گنجائش نکلتی ہے جسے تکفیری خارجی دھشت گردی و انتہا پسندی کہا جارہا ہے ، یہ سچ ہے کہ ٹی ٹی پی ، لشکر جھنگوی ، جند اللہ ، جماعت الاحرار والے اپنے آپ کو سنّی دیوبندی حنفی کہتے ہیں

لکین ان کے سںّی دیوبندی حنفی ہونے کا مطلب سب سنّیوں یا دیوبندیوں یا حنفیوں کا دھشت گرد ہونا قرار نہيں پاتا اور اس کے لیے سنّی بنیاد پرستی ، سنّی شدت پسندی یا سنّی دھشت گردی کی اصطلاح استعمال کرنا گمراہ کن ہے اور اگر اس گمراہ کن اصطلاح کا استعمال کیا جائے گا تو اس سے سنّی فوبیا کا مظہر جنم لے گا میرا کہنا یہی ہے کہ مغرب میں اسلامو فوبیا کا مظہر بھی اسی طرح کی عمومیت پسندی اور گمراہ کن اصطلاحوں کے استعمال سے جنم لیا ہے چارلی ہیبڈو میگزین کے دفتر پر حملے کے بعد اکثر لبرل اور دائیں بازو کے مغرب پسندوں کی جانب سے جو بحث سامنے آئی ہے وہ ” آزادی اظہار ” ” رواداری ” لبرل اقدار کے خطرے میں پڑ جانے پر زور دیتی نظر آتی ہے اور اسلام ، مسلمانوں پر عمومی طور پر عدم برداشت کا الزام سننے کو مل رہا ہے

اور پیرس میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے حامیوں نے اس حملے کے ردعمل میں مساجد پر حملے کئے ہیں ، گویا ان کے نزدیک ان حملوں کی زمہ دار خود مسجد کا ادارہ ہے چارلی ہیبڈو کو اسلامو فوبک مغربی دانشوروں نے آزادی اظہار کا سورما اور ھیرو بھی قرار دا ہے لیکن لبنانی صحافی زیان السعدی نے ٹھیک نشاندھی کی ہے کہ “چارلی ہبیڈو ” آزادی اظہار کا سورما نہیں ہے بلکہ اس سٹیریکل میگزین نے اپنے ایک ایسے کارٹونسٹ کو ملازمت سے فارغ کردیا تھا جس نے فلسطین کے حوالے سے صہیونیت کے بارے میں ایک طنزیہ خاکہ شایع کیا تھا اور اسے فوی طور پر سامی مخالف قرار دے دیا گيا تھا اور یہ واقعہ 2008 ء میں پیش آیا تھا اور آزادی اظہار کا یہ نام نہاد سورما کبھی بھی صہیونیت کے خلاف اپنے سٹریکل فن کو استعمال میں نہیں لاسکا

دوسری بات یہ ہے کہ ” آزادی اظہار اور جارحیت اور مجروج کرنے کی روش ” میں بہت فرق ہے اور ان کے درمیاں خط کھنچا ہوا ہے جسے چارلی ہیبڈو جیسے میگزین اکثر عبور کرجاتے ہیں اور افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ مغرب میں لبرل فاشسٹ اس نازک سے فرق پر کسی قسم کی بحث نہیں کرتے اور وہ اپنی جارحانہ روش کو آزادی اظہار سے تعبیر کرنے میں بہت تدلیس کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ زیان السعدی تو کہتا ہے کہ ایسی سنجیدہ بحث مغرب میں ابتک شروع ہی نہیں ہوسکی اور یہی وجہ ہے کہ آزادی اظہار کے نام پر جارحانہ حملے اور بدترین تضحیک کو حق سمجھنے والے ایک خوفناک قسم کے ردعمل کو جنم دیتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ روش ایک طرح سے تکفیر و خوارجیت کے لیے آکسجین کا کام کرتی ہے اور چارلی ہبیڈو تو اس وجہ سے اسلامو فوبیا کا بری طرح سے شکار ہوا ہے زیان السعدی کا کہنا یہ بھی ہے کہ مغرب میں چند مٹھی بھر سفید فام اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے دانشور آزادی اظہار کے نام پر مغرب میں مذھبی ، نسلی ، لسانی اور صنفی اقلیتوں اور کمزوروں پر حملہ آور ہوتے ہیں

اور وہ مغرب میں نسل پرست ، لسانی شاؤنسٹ اور مذھبی فوبیا کے زیر اثر طاقتور حرکیاتی نیٹ ورکس کی مزید مضبوطی کا سبب بنتے ہیں ، اسلاموفوبیا مغرب میں ایک مرض کی صورت اختیار کرچکا ہے اور اسلام کی سب سے مسخ اور انتہائی گمراہ کن تعبیر یعنی تکفیریت اور خارجیت کو ہی اسلام خیال کیا جارہا ہے اور یہ بذات خود ایک بڑا چیلنج ہے اسلامی مفکریں کے لیے ، لیکن مغرب میں اگر اسلامو فوبیا کے خلاف سب سے طاقتور آوازیں اگر کہیں سے بلند ہورہی ہیں تو وہ وہآں کی انقلابی مارکسی ، لیفٹ پارٹیوں اور حلقوں سے اٹھنے والی آوازیں ہیں اور وہ تکفیریت اور خوارجیت کو بے نقاب کررہی ہیں لیکن پاکستان کے اندر جو خود کو ترقی پسند کہتے ہیں اس کی اشرافیہ پولیٹکل ، ریڈیکل اسلام اور ریلجس رائٹ اور مسجد بمقابلہ ریاست جیسی اصطلاحیں استعمال کررہی ہیں

اور اس طرح سے فرقہ پرست تکفیری خارجی ملائيت اور ان کے ہمدردوں کو لوگوں کے مذھبی جذبات کا استحصال کرنے کا موقعہ فراہم کررہی ہیں مغرب میں آزادی اظہار کے نام پر سفید فام اشراف دانشوروں کا ٹولہ سیاہ فام ، زرد اقوام سے تعلق رکھنے والے گروہوں اور خاص طور پر مسلمانوں پر حملہ آور ہے اور ان کی شناختوں کو ان کے لیے باعث شرم بناکر پیش کرتا ہے ، مسجد ، پردہ اور ان کی مخصوص ثقافتی شناختوں پر حملہ آور ہوتا ہے اور مختلف قسم کے مذھبی ، نسلی ، صنفی فوبیاز کو جنم دیتا ہے اور یہ ویسا ہی عمل جس کا شکار مسلم ملکوں میں اٹھنے والے فتنہ تکفیر و خوارج سے متاثرہ صوفی سنّی ، شیعہ ، ہندؤ ، عیسآئی ، یہودی وغیرہ ہورہے ہیں جس طرح سے صہیونیوں کے جرائم کی سزا تمام یہودیوں کو دینا اور ان کے متعلق شاؤںزم اختیار کرلینا ظلم ہے بالکل ایسے ہی کچھ لوگوں کی انتہا پسندی کی سزا سارے مسلمانوں کو دینا غلط ہے پاکستان میں دانشوروں کو ان لوگوں کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے جو اسلام ، قرآن ، جہاد ، مذھبی تعلیم کے نام پر تکفیری اور خارجیت اور فساد کی روش پر گامزن ہیں اور ان لوگوں کے محاسبے کی ضرورت بھی ہے جو کچھ ضراریوں اور کچھ مدارس کی غلط کاریوں کو سب مساجد اور سب مدارس پر ناجائز طور پر لاگو کرتے ہیں اور ان تکفیریوں اور خارجیوں کی شناخت اصلی کی بجائے عمومیت پسندی کی روش پر گامزن ہوتے ہیں

Source:

http://lail-o-nihar.blogspot.com/2015/01/blog-post.html

Comments

comments