انسپکٹر جمشید اورسپاہ صحابہ: پاکستان میں تکفیری دہشت گردی میں مشہور جاسوسی ناول نویس اشتیاق احمد کا کردار- ازعبدل نیشاپوری
Summary: This post offers an overview of Pakistani Urdu novelist Ishtiaq Ahmed’s role in the spread of takfiri, sectarian and jihadist ideology in Pakistan. Through the hate based narratives based in his novels on the Inspector Jamshed, Inspector Kamran Mirza and Shauki Series, Ishtiaq Ahmed used to spread venom against the Ahmadis, Shias, Sunni Sufis and Barelvis as well as against Christians, Jews and Hindus. In his later life, he used to write for the banned Deobandi terror outfit ASWJ/SSP’s periodicals Daily Islam and Bachon Ka Islam. He also wrote a number of sectarian and takfiri books with the alias of Abdullah Farani.
اشتیاق احمد کا شمار پاکستان کے معروف ترین جاسوسی ناول نویسوں میں ہوتا ہے – ابن صفی کی عمران سیریز کے بعد انہی کے ناول بچوں اور نوجوانوں میں بہت زیادہ مقبول ہوۓ
انیس سو اسی اور نوے کے عشرے میں اشتیاق احمد کی شہرت اپنے عروج پر تھی ان کے تخلیق کردہ کردار انسپکٹر جمشید، انسپکٹر کامران مرزا اور شوکی برادرز پاکستان کے طول و عرض میں اردو ناول پڑھنے والے لاکھوں قارئین کے دلوں کی دھڑکن تھے – حال ہی میں کراچی کے اٹلانٹس پبلیکیشنز نے اشتیاق احمد کے نئے اور پرانے ناولز شائع کرنا شروع کیے ہیں جن کو بچوں، نوجوانوں اور انسپکٹر جمشید کے سحر میں گرفتار ادھیڑ عمر کے لوگ ابھی تک شوق سے پڑھتے ہیں
سن انیس سو اسی کی دہائی کے اواخر اور نوے کی دہائی کے آغاز میں اشتیاق احمد کے ناولوں میں مذھب اور فرقہ کی بنیاد پر تکفیری نفرت انگیزی اور برین واشنگ کا عنصر نمایاں ہونے لگا خاص طور پر ہر ناول کے آغاز میں پیش لفظ (دو باتیں) اور ایک خاص طرز کی احادیث اور روایتیں پیش کی جانے لگیں جن سے سنی صوفی، بریلوی، شیعہ، احمدی، مسیحی، یہودی اور ہندو برادری کے لئے براہ راست یا بالواسطہ نفرت نمایاں ہوتی – اس کے علاوہ ناول کے متن میں بھی انسپکٹر جمشید، کامران مرزا اور دوسرے کرداروں کی زبان سے وہابی اور دیوبندی تکفیری خیالات کی بوچھاڑ ہونے لگی جن سے ایسا لگتا تھا کہ سنی بریلوی، صوفی، شیعہ، احمدی، مسیحی، یہودی، ہندو کمیونٹی کے افراد پاکستان اور اسلام کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں اسی طرح امریکہ، ایران، ہندوستان اور اسرائیل کے خلاف بھی اشاروں کنایوں اور بعض اوقات کھلم کھلا نفرت انگیزی کا آغاز ہو گیا – یاد رہے کہ اشتیاق احمد کے اصلی تعلق جھنگ پنجاب سے ہے جہاں پر دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والی بد نام زمانہ کالعدم دہشت گرد تکفیری تنظیم سپاہ صحابہ (نام نہاد اہلسنت والجماعت) و لشکر جھنگوی نے جنم لیا – فوجی آمر جنرل ضیاء الحق دیوبندی نے جھنگ میں دہشت گرد مولوی حقنواز جھنگوی دیوبندی کی سرپرستی کی جس کے نتیجے میں جھنگ اور پنجاب بھر میں سنی صوفی، بریلوی، شیعہ اور احمدی کمیونٹی کے افراد کا قتل عام شروع ہو گیا – جس زمانے میں حقنواز جھنگوی اور سپاہ صحابہ کے دوسرے دہشت گرد ملا جھنگ، لاہور، ملتان اور اسلام آباد میں شیعہ کافر، بریلوی مشرک اور قادیانی مرتد کے نعرے لگوا رہے تھے اور عام امن پسند سنی حنفی و صوفی مسلمان کو وہابیت اور دیوبندی تکفیریت میں مبتلا کر رہے تھے اسی زمانے میں اشتیاق احمد نے یہی کام اپنے ناولوں کے ذریعہ سے کرنا شروع کیا اور لاکھوں معصوم امن پسند سنی، حنفی، صوفی یا بریلوی بچوں کے دلوں میں اولیا الله کے مزاروں کی نفرت ڈالی، میلاد اور عاشورہ کے مراسم پر شرک و بدعت کا لیبل چسپاں کیا اور تمام غیر وہابیوں اور غیر دیوبندی فرقوں کو کافر، مشرک یا بدعتی اور پاکستان و اسلام کا دشمن قراردیا – یہ پاکستان میں موجود سعودی لابی کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا کہ اخبارات، جرائد، مساجد، کتب اور مدرسوں کے ذریعہ پاکستان میں القاعدہ، طالبان، سپاہ صحابہ اور داعش جیسے تکفیری خوارج کی راہ ہموار کی جائے اور اس منصوبے میں اشتیاق احمد کا مجرمانہ کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا – اسی تکفیری ایجنڈے پر چلنے کے عوض اشتیاق احمد کو سپاہ صحابہ اور سعودی عرب کی طرف سے ستائشی خطوط لکھے گے اور مختلف مفادات سے نوازا گیا اس کی حالیہ مثال دیوبندی وہابی تکفیری اخبار روزنامہ اسلام میں اشتیاق احمد کی مستقل ملازمت اور تنخواہ ہے
اشتیاق احمد کی وجہ شہرت ان کے تحریر کردہ جاسوسی ناولز ہیں – کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی کسی بھی زبان میں سب سے زیادہ ناول لکھنے والے مصّنف ہیں ۔ ان کے تحریر کردہ ناولوں کی مجموعی تعداد سات سوسے زائد ہے۔
اشتیاق احمد کی جاسوسی کہانیوں کی ٹیمز میں انسپکٹر جمشید ،انسپکٹر کامران اور شوکی برادران بہت مشہور تھے۔انسپکٹر جمشید سیریز وہ سیریز تھی جس نے لاکھوں قارئین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے اپنے کرداروں کو پاکستان کی حفاظت کرنے والوں اور مسلم امّہ کے محافظین کے طور پر پیش کیا – اس سیریز کے اہم کردار ایک جاسوس انسپکٹر جمشید تھے جو بیشتر جرائم اپنے تین بچوں محمود، فاروق اور فرزانہ کے ساتھ مل کر حل کیا کرتے تھے۔ان کے اس کام میں ان کی مدد نہ صرف ان کے بچے کرتے تھے بلکہ ایک ریٹائرڈ آرمی افسر خان رحمٰن ،ایک بے انتہا قابل سائنسدان پروفیسر داود،اور ان کے ماتحت سب انسپکٹر اکرام بھی ان کی مدد میں پیش پیش تھے۔ انسپکٹر کامران مرزا کے ساتھ آفتاب، آصف اور فرحت ہوتے تھے، جبکہ شوکی سیریز میں شوکی، اخلاق اور آفتاب تھے
اشتیاق احمد صاحب کی ایک خوبی ان کی ناول لکھنے کی رفتار بھی ہے۔ وہ بہت کم عرصے میں بہت سے ناولز لکھتے تھے اس کے علاوہ وہ ہر چند ماہ بعد ہر ناول کا ایک خاص نمبر یا اسپیشل ایڈیشن بھی لکھتے تھے۔
وہ بچوں کے ایک رسالہ “بچوں کا اسلام” میں بطور مدیر فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اشتیاق احمد جھنگ میں مقیم رہے اوراپنی تحریروں کے ذریعہ تکفیری، خارجی، وہابی اور دیوبندی نظریات کی ترویج کا سلسلہ جاری رکھے رہے
انہوں نے اپنی تحریروں سے سنی صوفی، بریلوی، شیعہ، احمدی، مسیحی، ہندو اور دیگر پاکستانیوں کے خلاف جو زہر پھیلایا ہے اس کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ گزشتہ چند عشروں میں لشکرجھنگوی سپاہ صحابہ اور طالبان سے تعلق رکھنے والے دیوبندی تکفیری دہشت گردوں نے پینتالیس ہزار سے زائد سنی صوفی، حنفی و بریلوی، بائیس ہزار سے زائد شیعہ اور سینکڑوں احمدی، مسیحی، ہندو اور دیگر پاکستانیوں کو شہید کر دیا ہے اس خون ناحق کی ذمہ داری اشتیاق احمد پر بھی عائد ہوتی ہے – اس دنیا اور اخروی دنیا کی عدالت میں انھیں بھی اپنے جرائم کا حساب دینا ہو گا
https://www.facebook.com/omarfarooq.ahrar/videos/860836770662639/
Ishtiaq Ahmed and the Lahore massacres – by Sabizak https://lubp.net/archives/17613
ye column parh kar bachpan ki yaad taza ho gayi …main bhi Ishtiaq Ahmed ka bada fen tha ..magar us ko chorne ki waja ye hi thi ke un ka andaz-e tehreer badal gaya tha …jasoosi kam aur tablighi andaz zyada . woh bhi ajeeb sa
main is column se 100 fesad agree hoon …..
from social media
Khurram Zaki
اشتیاق احمد انجمن سپاہ صحابہ کا بڑا حامی تھا۔
Khurram Naqvi
Yes, I remember that. In late 80s and early 90s when I was exposed to his Novels during my early teens, the sectarian hatred especially against Shias and Ahmedis, subtle references to demonise Iran and reverence to Saudi Arab was so clear that even a 12 year old like me could easily spot that. After reading a few of his novels I finally took some of them to my Father to ask him if what I was thinking was correct. I still remember the anger my late Father had against this bigoted writer after reading the text I shared with him. Still remember his remarks “this is how they are brainwashing our kids with their poisonous ideology”
FaizJehangiri
good one.Remember reading his crap in 80s.He is biggest bigot
Its a great article but on the top with Haq Nawaz Jhangvi picture why you posted picture of famous poet Shakib Jalali
——-
NOTE BY ADMIN: Apologies. Picture now corrected.
http://www.poemhunter.com/shakeeb-jalali/
facebook
Хайр Ул Аммал
اشتیاق احمد نے اپنے ايک ناول ميں جو نائن اليون کے موضوع پر لکھا تھا اس ميں اس نے يزيد لعين کو قتل امام حسين (ع) کے بری کيا تھا اور اور يزيد لعنتی کو مظلوم بنا ديا تھا
موصوف کا جھنگ سے ہونا اور اينٹی شيعہ ہونا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اشتياق احمد سپاۃ صحابہ کا کتنا بڑا حامی ہے
مزہیی طور پر شائد يہ وہابی ہے کيونکہ ايک ناول ميں اس نے انسپکٹر جمشید کو وہابی لکھا تھا
اژدھا سيريز ميں اس نے لکھا تھا
اس سيريز ميں پانچ چھ ناول تھے شائد اشتياق احمد کے
جس ميں اس نے يزيد ملعون کو قتل امام حسين سے بری کيا تھا اور کہا تھا کہ جب يزيد کو قتل امام حسين(ع) کا پتا چلا تو اس نے بڑے احترام سے سيد زاديوں کو مدينہ بھيج ديا تھا اشتياق احمد بھی نسيم حجازی کی طرح بنی اميہ کا بہت بڑا مداح ہے
والسلام
Khurram Naqvi
In one of his Novels named “Sartabu ka Shahkar” he asserted that Iran (he used some pseudonym) is bound to have earthquakes and natural disasters because of their enmity towards Islam and Muslims
He categorically mentioned the incident of clash b/w Saudi security forces and Irani Hajis in 80s when the later launched their protest against USA and Israel during Hajj and Saudis opened fire upon them. Amazingly Ishtiaq Ahmed labelled it as an Irani conspiracy to seize Baitullah and even today his ideological children of ASWJ keep chanting the same narrative
To be fairly honest, his novels weren’t that great from a literary point of view either. Repetitive and devoid of any character development. Nothing ever evolves, nothing ever changes. Also, take any Inspector Jamshed novel and do the following replacements:
1) Inspector Jamshed – Inspector Kamran Mirza
2) Mehmood – Asif
3) Farooq – Aftab
4) Farzana – Farhat
The new text will make just as much sense. These aren’t different characters. They don’t have different personalities. There’s nothing significant that distinguishes Mehmood’s personality from Asif’s and so on.
The hate-preach is actually when his novels went from average to despicable.
اشتیاق احمد کا اسلامی رنگ
پہلے ناول صرف ناول ہوتے تھے بعد میں میرے ناولوں میں اسلامی رنگ شامل ہونے لگا اور ہوتے ہوتے بات بہت آگے بڑھ گئی۔ اسلامی رنگ کیا آیا۔ مرزائیت کے خلاف، شرک اور بدعت کے خلاف، شیعت کے خلاف، اسلام دُشمن عناصر کے خلاف، عیسائیت کے خلاف قلم چلنے لگا تو ناولوں کی اشاعت میں فرق آگیا اور تعداد فروخت کم ہونے لگی
اشتیاق احمد
———
اشتیاق احمد اور ایران (بازنطان)۔
بازنطان کی حکومت تو دن رات انشارجہ اور بیگال (اسرائیل) کے خلاف بیان دیتی رہتی ہے۔
وہ بیانات صرف دکھاوا ہوتے ہیں تاکہ دنیا کو یہی معلوم ہوتا رہے کہ وہ آپس میں دُشمن ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ہم تو اب تک تم لوگوں (بازنطانیوں) کو مسلمان خیال کر تے رہے ہیں۔
ہمارے ملک کے بارے میں لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ملک مسلمانوں کا ہے۔۔۔ لیکن ہم اسلام کے تو قریب نہیں جاتے۔۔۔ ہر بات میں اسلام کی نفی کرنا ہمارا محبوب مشغلہ ہے۔۔۔ مشغلہ سمجھتے ہیں آپ۔۔۔ جیسے بچے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں نا۔۔۔ یار تمھاری ہوبی کیا ہے سو ہماری ہوبی یہ ہے کہ اسلام کی ہر بات میں کاٹ کی جائے۔۔۔ یہاں تک کہ عورتوں کی تجارت میں مسلمان عورتویں اغوا کی جائیں۔۔۔۔۔۔۔
نہیں ایک بات۔۔۔ آپ کے مُلک کے لوگ نماز پڑھتے ہیں۔۔۔ شوکی بولا۔
عام طور پر نہیں پڑھتے۔
شکریہ ہم جان چکے ہیں۔۔۔ آپ کا تعلق بازنطان سے ہی ہے
—-
اشتیاق احمد کا خانستان (افغانستان) اور طالبان۔
کوئی بوجھے تو جانیں کہ پاک لینڈ (پاکستان) میں بوروں کی بستی سے اشتیاق احمد کی کیا مراد ہے۔ ہم کچھ کہیں گے تو برا لگے گا طالبان لوورز کو۔۔۔۔۔
—
نوٹ: یہ بات یاد رہے کہ اشتیاق احمد کے ناول پڑھنے والوں میں زیادہ تر تعداد 9 سال کے بچوں سے لیکر 16 سال کی عمر کے نوجوانوں کی ہے۔ یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس طرح کا لٹریچر اُن کے اذہان پر کسقدر اثر انداز ہوتا ہو گا
———–
اشتیاق احمد کا تین چار روز پرانا کالم پڑھ کر احساس ھوا کہ پاکستان کی پوری ایک نسل کو الو بنانے والے کی اپنی دماغی حالت “الو کے پٹھوں” والی ہے
http://zarbemomin.com.pk
http://www.siasat.pk/forum/showthread.php?314134-%26%231575%3B%26%231606%3B%26%231587%3B%26%231662%3B%26%231705%3B%26%231657%3B%26%231585%3B-%26%231580%3B%26%231605%3B%26%231588%3B%26%231740%3B%26%231583%3B-%26%231575%3B%26%231608%3B%26%231585%3B-%26%231587%3B%26%231662%3B%26%231575%3B%26%231729%3B-%26%231589%3B%26%231581%3B%26%231575%3B%26%231576%3B%26%231729%3B
اشتیاق احمد پر بات ہوئی تو جیسے کچھ بھولی بسری یادیں واپس آئیں
محترم ایران کو “بازنطان” ، امریکا کو انشارجہ اور اسرائیل کو بیگال کہتے تھے .
بالکل سپاہ صحابہ کی طرح ان تینوں کا گٹھ جوڑ بنا کر نفرت پھیلاتے تھے شیعہ لوگوں کے خلاف
افغانستان کو خانستان کہ کر طالبان کی محبت میں کیا کیا نہیں لکھا
Ishtiaq Ahmed and the Lahore massacres
I have thought about it quite frequently since the attack on Ahmadi mosques in Lahore, but after the Daata Darbar massacre it has taken even more concrete shape in my mind. Ishtiaq Ahmed has a role to play in the mindset that perpetuates such killings.Who is Ishtiaq Ahmed? Maybe the handful of readers of this blog who (i presume) have mostly been raised on English and American influences will never have heard of him, but I am sure some of the slightly older readership will have come across his novels some time or the other. When I was a child of about 9 and 10 they were all the rage in circles that read even a little bit of Urdu. Our chief pleasure used to be the exchange of Ishtiaq Ahmed novels that appeared with the frequency of four a month but in our meagre pocket money, my friend and I could afford only one each between us. Devouring our own first we would immediately move on to the other’s.
Ishtiaq Ahmed novels were, loosely speaking, the equivalent of Hardy Boys. Adventurous and fast-paced, they were gripping enough to keep countless young pre-teen and teens enthralled. Over time though, they started moving from being subtle indoctrinations to full-blown hate-preaching. The pleasure that was once to be had in the kicks, punches, quirks and witty repartee of the characters was employed to brainwash youth into thinking about Ahmed’s Wahabist ideologies. India was perpetually demonized of course, his novel ‘Langra Inteqaam’ fully endorsing all the text-book versions of what happened in Bangladesh, and he constantly pushed the ideal of religion before country (the kind of thinking that Musharraf later tried to overturn with his ‘Sab se Pehlay Pakistan’ campaign).
Somewhere in the early 90s, Ahmed started a campaign in his prefaces. He claimed that in an upcoming novel he would shock all his readers into running to a specific corner of their houses. This was typical Ishtiaq Ahmed marketing, the creation of suspense to sell his books. It intrigued the young me greatly, who was a perpetual lagger when it came to solving anything before the last page. This ‘marketing gimmick’ turned out to be something far more sinister as it unfolded. Ahmed wrote an out-and-out novel against people who visit Sufi shrines, replete with ahaadees to back him up. Ahmedis and Sufi followers became the constant target of his poisonous pen that had previously only indulged in nodding passes to ‘muslamaanyat’ and barely veiled antagonism towards India. Now it turned inwards and sought to destroy any semblance of tolerance within the country itself.
Ahmedis, particularly, came under great fire. The idea that every dissenter is ‘vaajib-ul-qatal’ (liable to be killed) came to me the first time through the writings of Ishtiaq Ahmed. Make no mistake about it, his circle of influence wasn’t small. True, that none of the girls in my elitist-ish school were reading him but boys from equivalent schools certainly were, and we know those are the ones whom brainwashing affects directly (though it is not any less hazardous in women). My brother, i remember, once asked me to give him my collections of Ishtiaq Ahmed novels to take to America for a homesick friend of his. His influence ranged far and wide.
Already having read cartoon series version of Muhammad Bin Qasim, Tariq Bin Ziyaad and Mahmood Ghazni’s ‘heroic’ conquests in Taleem-o-Tarbiat I was fertile grounds for hatred against Ahmedis and any kind of non-wahaabi Muslims. Today I wonder, if someone like me could be affected thus, who was on the other hand taking in copious amounts of toyroom tea parties and English boarding schools in Enid Blyton, then where is the surprise in so many brainwashed suicide bombers that keep getting thrown up by the dozen. At that tender age of 12 or 13, being physically fearless by nature and not being a particular family favourite, I could easily have become a suicide bomber I am sure. Later on in life, teaching at Aitchison, I learned the same lesson–there is an immense amount of hardliners amongst the ‘creme de la creme’ (to repeat a phrase that an odious old teacher repeated ad nauseum) of the country. Madrassaas are not the only breeding ground for terrorists in Pakistan. ‘Elite’ schools with self serving Principals and text books that preach nothing but hatred and intolerance are just as bad. It is only at the all girls LGS that I currently teach at (kudos and a totally humble bow to its Principal Nasreen Shah) that there is a concerted effort to make the girls think in the right direction, in order to nullify the effects of some of their text book education as well as the insidious influences of ‘fashion’ and partying and other forms of empty headedness.
The ‘pe dar pe hamlay’on Lahore, as Ishtiaq Ahmed himself would put it, made me think incessantly of the man and whether any of the attackers (or those who control them) could ever have read him at some point, and derived moral justification for their convictions from his evil simplification of things. It isn’t too great a stretch.
Sabahat Zakariya
Express News package on Ishtiaq Ahmed’s death
http://www.dailymotion.com/video/x3ee3py_who-was-ishtiaq-ahmed-report-by-express-news-after-his-death_news
Writer Ishtiaq Ahmed laid to rest
DAWN REPORT — UPDATED ABOUT 5 HOURS AGO
WHATSAPP
4 COMMENTS
EMAIL
PRINT
JHANG/KARACHI: Renowned Urdu writer of detective stories Ishtiaq Ahmed who died of a heart attack on Tuesday at Karachi airport while waiting to board a flight, was laid to rest in Jhang on Wednesday afternoon. He was 71.
His body reached Jhang at 11am. Funeral prayers were offered at Tableeghi Jamaat’s Bilal Markaz before his burial at Adhiwala graveyard.
Ahmed was born in Panipat, in the Indian state of Haryana. After partition he migrated to Pakistan. He grew up in Jhang where he did his schooling. He was a rare Urdu author of mystery tales who captured the imagination of children belonging to every stratum of society. But such was the charm of the web of mystery that he weaved through his unparalleled Inspector Jamshed series that a big number of his readers were adult men and women.
His language was simple but effective, and the three stock characters of the inspector’s children –– Mahmood, Farooq and Farzana, who would be at the centre of every mystery-solving episode –– endearing.
Apart from the immensely popular Inspector Jamshed spy novels, he was also the creator of the Inspector Kamran Mirza and Shoki Brothers series. On occasions, the three would be put together in a single story in a special novel if the script had a wider scope.
Isthiaq Ahmed authored 800 books, and also edited a magazine, Bachchon Ka Islam. Some of the famous and widely read Inspector Jamshed novels are Jeeral Ki Wapsi, Reshmi Parchhaen, Begaal Mission and Geemoof Ka Waar.
Ahmed was at the peak of his popularity and acclaim in the late 1970s and mid-1980s when his suave and pragmatic Inspector Jamshed and his inquisitive, smart children became household names. One interesting storytelling technique of the author was that each chapter of the story ended on a puzzling note, invariably eliciting an exclamatory remark from one of the kids.
Readers used to wait for his new book, which would invariably be in the shape of a novella in terms of size, for months to hit the newsstands. They would either buy it from bookstores or rent a copy from libraries that dotted nearly all middle-class localities of Karachi three decades ago. According to one account, he wrote his first book of the series in 1973.
Ishtiaq Ahmed had been in Karachi for the last few days to take part in the international book fair, held from Nov 13 to Nov 16 at the Expo Centre, where he signed copies of his books for his admirers. At the fair, his latest title Imran Ki Wapsi was the most sought-after book among his readers.
Published in Dawn, November 19th, 2015
http://www.dawn.com/news/1220670
A tribute by a Deobandi ASWJ member from Chilas, Kohistan.
بچوں کے ادب کا ستارہ ڈوب گیا
اعظم طارق کوہستانی بدھ 18 نومبر 2015
شیئر
ٹویٹ
تبصرے
مزید شیئر
800 ناولوں کے مصنف اشتیاق حمد صرف میٹرک پاس تھے۔ کچھ کرنے کے لیے روایتی تعلیم پیروں میں زنجیر نہیں بنی۔ فوٹو: فائل
دنیا کے تمام قابل احترام بڑے لوگوں کی ذاتی زندگیوں میں جھانک کر دیکھیے آپ کو ایسی کئی چیزیں پوشیدہ نظر آئیں گی جو انہیں بڑا آدمی بناتی ہیں۔ اُس شخصیت کی تعمیر میں کئی لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے جو اُسے اوپر ہی اوپر اُوج ثریا تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اشتیاق احمد بھی ایسے ہی فرد تھے۔ انہیں ’’جھنگ‘‘ سے محبت تھی۔ اپنے بچوں سے، اُن گلی کوچوں سے جہاں زندگی کی کئی بہاریں اُنھوں نے گزاری تھیں۔ یہ جھنگ سے محبت ہی تھی کہ انہوں نے جھنگ میں رہنا پسند کیا۔ ورنہ لوگ جب بڑے ہوجاتے ہیں تو چھوٹے چھوٹے شہروں میں رہنا پسند نہیں کرتے، نہ اُنھیں وہاں اپنا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ پاکستان بننے سے قبل 5 جون 1944ء کو انڈیا کے تاریخی شہر پانی پت میں پیدا ہونے والے اشتیاق احمد تقسیم کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ وہ جھنگ میں بسے اور جھنگ کے ہوکر رہ گئے حتیٰ کہ وہ روزنامہ اسلام کے تحت نکلنے والے پرچے ’’بچوں کا اسلام‘‘ کے مدیر بنے، انہیں کراچی بلوانے کی کوششیں بھی ہوئیں لیکن انہوں نے جھنگ کے اسی مکان میں رہنے کو ترجیح دی جس میں وہ رہتے آئے تھے۔
800 ناولوں کے مصنف اشتیاق حمد صرف میٹرک پاس تھے۔ کچھ کرنے کے لیے روایتی تعلیم پیروں میں زنجیر نہیں بنی۔ انہوں نے صرف ابن صفی اور نسیم حجازی کو نہیں پڑھا بلکہ وہ کئی مغربی مصنفین کو پڑھ چکے تھے۔ بچوں کے معروف رسالے ماہنامہ ساتھی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ’اگاتھا کرسٹی‘ کو بھی پڑھ چکے ہیں۔
اُن کے ناولوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ پوری دنیا میں شاید ہی کسی مصنف نے 800 ناول لکھے ہوں۔ وہ لکھنے کی مشین تھے۔ انہوں نے لکھا اور بہت ہی اچھا لکھا۔ بچے، بڑے سب ہی ان کے ناولوں کے شیدائی تھے۔ اشتیاق احمد ایک دفعہ بتا رہے تھے کہ ایک دن انہوں نے اخبار میں پڑھا کہ دنیا کا سب سے تیز مصنف ایک منٹ میں اتنے الفاظ لکھ لیتا ہے۔ اشتیاق احمد صاحب نے بھی وقت نوٹ کرکے جب لکھا تو وہ الفاظ اس سے کہیں زیادہ تھے جو دنیا کا تیز ترین مصنف لکھتا تھا۔
جب ان سے دریافت کیا گیا کہ وہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام کیوں درج نہیں کرواتے تو کہنے لگے: ’’ذاتی طور پر مجھے اس کا شوق نہیں مگر میرے بعض دوستوں کا خیال تھا کہ اس طرح پاکستان کا نام روشن ہوگا، اسی وجہ سے سلیم مغل (سابق مدیر آنکھ مچولی) نے کافی کوششیں کیں۔ مگر گنیز بک والوں کا کہنا تھا کہ ان سب ناولوں کے ٹائٹل کی ویڈیو بنا کر ہمیں بھیجی جائیں لیکن سب ناولوں کا ریکارڈ اشتیاق احمد کے پاس بھی موجود نہیں تھا۔ دوسری وجہ اشتیاق احمد نے یہ بتائی کہ اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ فلم کا خرچ اٹھا سکوں اس لیے یہ معاملہ رہ ہی گیا۔
ناولز تو اشتیاق احمد نے لکھے ہی لکھے۔ اس کے علاوہ بے شمار کہانیاں وہ لکھ چکے تھے۔ یہ کہانیاں نونہال، بچوں کا اسلام، ماہنامہ ساتھی، ذو ق وشوق میں شائع ہوتی رہتی تھیں۔ انہیں کئی ادبی ایوارڈز بھی مل چکے ہیں۔ اشتیاق احمد کی کہانہاں بچوں میں بے حد مقبول تھیں۔ ایک شخص کے دماغ میں بیک وقت اتنے سارے آئیڈیاز کیسے کلبلاسکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب بھی اشتیاق صاحب نے ہمیں بتایا تھا کہ ایک ڈائری ان کی جیب میں ہر وقت موجود رہتی ہے، جیسے ہی کوئی خیال ان کے ذہن میں آتا ہے۔ وہ اسے لکھ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ لکھنے کے اوقات بھی ان کے مخصوص تھے۔ وہ ایک خاص وقت میں بیٹھ جاتے اور لکھتے رہتے۔ دن کے آٹھ دس صفحات کا کوٹا پورا کرکے اُٹھتے۔ دن کے آٹھ دس صفحات لکھنا ان کے ابھی کا قصہ ہے، جوانی میں تو اس سے بھی زیادہ ہی لکھا کرتے تھے۔
’’بچوں کا اسلام‘‘ نے ان کے نام کی وجہ سے وہ مقبولیت حاصل کی جو کم ہی کسی رسالے کے حصے میں آتی ہے۔ بچوں کا اسلام نے ان کا وقت بہت زیادہ لیا۔ وہ کہتے تھے ادیب بننا آسان ہے جو جی میں آیا لکھ دیا لیکن مدیر بننا بہت مشکل ہے۔ بے شمار ڈاک میں سے ایک اچھی تحریر نکالنا ایسا ہے جیسے بھوسے میں سے سوئی نکالنا۔ ادب کی طرف جھکائو ان کے بھائی آفتاب احمد کا بھی تھا۔ جو جوانی میں انتقال کرگئے لیکن انہوں نے بھی بچوں کے لیے لکھا۔
اشتیاق احمد پاکستان کے وہ واحد قلمکار تھے جنہوں نے بچوں کے لیے لکھا اور اسی کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔ پاکستان میں بچوں کے ادیبوں کے ساتھ ہماری حکومت اور اداروں کا جو رویہ ہے وہ افسوسناک ہے۔ بچوں کے تقریباً تمام ادیب اس عدم توجہی پر شاکی ہیں۔ بہت اچھا اور عمدہ لکھنے والے قلمکار بچوں کے ادب کو اپنا ذریعہ معاش نہیں بنا پائے۔ یہ تو اشتیاق احمد کے قلم کا جادو تھا۔ وہ غیر معمولی شخصیت تھے۔ جس نے اپنے ناولوں کے ذریعے خود کو زندہ رکھا۔
اشتیاق صاحب مذہبی آدمی تھے۔ دین کے احکامات کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ وہ جن علمائے کرام کے زیر انتظام رہے انہوں نے اشتیاق احمد کو ایک طرف ہی رکھنے کی کوشش کی۔ ہمارے ایک صحافی دوست بتا رہے تھے کہ کسی زمانے میں ایک نجی چینل نے اشتیاق احمد کا انٹرویو کرنے کا سوچا۔ اشتیاق احمد سے بات ہوئی تو اشتیاق احمد نے کہا کہ وہ اپنے علما سے پوچھ کر بتائیں گے۔ ’بڑے‘ علماے کرام نے انہیں منع کردیا کہ ٹی وی پر آنا شرعاً درست نہیں۔ چند برس گزرنے کے بعد وہی علما کرام اپنا چینل لانچ کرنے کے منصوبے بنانے لگے اور وہ سارے بڑے علمائے کرام مختلف چینلزپر رونق افروز بھی ہوتے رہے۔
اشتیاق احمد سب سے محبت کرتے ہیں اور سب لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔ بک فیئر میں تین دن مسلسل ان سے ملتا رہا۔ میں نے کہا کہ بچوں نے ناک میں دم کرکے رکھا ہے۔ اشتیاق احمد کا انٹرویو کرنے کا کہتے ہیں۔
کہنے لگے:’’جب جی چاہے لے لینا۔‘‘
میں نے کہا: ’’ابھی تو آپ کے لیے بھی مشکل ہے۔ میں سوالات بھیجوا دوں گا اور کچھ باتیں یہاں کرلوں گا۔ کہنے لگے: ’’ہاں یہ ٹھیک ہے‘‘۔ پھر اگلے دن خود یاد دلایا کہ سوالات بھجوادینا۔ میں لکھ دوں گا۔
میں نے ازراہِ مذاق کہا :’’ یہاں آکے تنگ ہوجاتے ہوں گے۔ سارا دن بچوں کا رش اور آٹو گراف …‘‘
بیزاری سے کہا: ’’اب نہیں آئوں گا۔ سارا دن بیٹھے رہو۔‘‘
رات آٹھ بجے کے قریب آخری ملاقات ہوئی تو میں نے اگلے دن کھانے کی دعوت دی ۔۔۔۔ کہنے لگے کہ کل واپسی ہے صبح۔ مجھے کیا پتا تھا کہ وہ لاہور کی فلائٹ نہیں بلکہ ایک لمبی فلائٹ لے کر جانے والے تھے۔
بینا صدیقی ٹھیک ہی کہتی ہیں: ’’ہم اشتیاق احمد کی تحریریں پڑھ کر بڑے ہوئے ہیں آج بھی ان کے ناولز پڑھ کر تفریح حاصل کرتے ہیں۔ بے شمار پبلشرز، ڈیلرز، سپلائرز حتیٰ کہ ردی والوں نے ان کے ناولز بیچ کر بہت پیسے کمائے لیکن وہ آخر وقت تک سفید پوش رہے۔
اشتیاق احمد کا آخری ناول ’’عمران کی واپسی‘‘ تھا۔ یہ 800واں ناول تھا جو انہوں نے فاروق احمد کی فرمائش پر لکھا تھا۔ میں نے پوچھا کہ اب عمران سیریز لکھنے کا ارادہ ہے۔ کہا کہ نہیں صرف یہ ایک ہی ناول لکھا ہے اور نہیں لکھنی عمران سیریز۔
ان کے جاسوسی ناولز نے بہت سارے بچوں کو پولیس کی راہ دکھائی۔ اسلام آباد کا آئی جی غلام رسول زاہد ان میں سے ایک ہے۔
اشتیاق احمد کے قلمی ناموں نے بھی بہت شہرت حاصل کی۔ جن میں عبداللہ فارانی، سرور مجذوب، ارشاد الٰہی وغیرہ شامل ہیں۔ 17 نومبر2015ء کو بچوں کے ادب کی تاریخ کا درخشندہ ستارہ ڈوب گیا۔ الل
http://www.express.pk/story/408342/
اشتیاق احمد کی تحریریں https://lubpak.com/archives/343864
Ishtiaq Ahmed – the “novelist” hatemonger
November 19th, 2015
By Yasser Latif Hamdani
Two days ago Ishtiaq Ahmed, the novelist who once attempted unsuccessfully to get his name registered in Guinness Book of World Records for being the most prolific author, passed away. Since then my Facebook and Twitter timelines are full of eulogies, praise and admiration for his work. Hence record must be set straight even though there is no controversy in death: Ishtiaq Ahmed was a foulmouthed bigoted fanatic who abused and attacked Shias, Ahmadis and Christians in his novels. I am reproducing some of his “detective literature”. For those of you who can read Urdu can appreciate the real intent behind the filth and garbage he wrote. For those who can’t read Urdu, you should count your lucky stars but I will give the broad contours of his novel “Wadi-e-Marjan” in which the protagonist “Inspector Jamshaid” – the hero with near super hero powers- takes on the evil residents of a valley along with his family. Essentially the evil residents – supposed to be Ahmadis- are building up a super secret Army to take over the country from their valley and convert forcibly the people of the country to their faith. You get the picture.
Here are some nuggets from the author
“Shiaism was a Jewish Conspiracy!” – Source editorial in “Bachon Ka Islam” or “Islam for Kids”
CUHvK5jUkAAiSdG
“Ahmadis are actually Jews and they work for Israel.” In this piece Inspector Jamshaid the great detective and our equivalent of Sherlock Holmes determines the guilt of two employees by establishing that they are a Christian and a “Qadiani”. “Christians are in any event enemies of Muslims and “Qadianis” are actually Jews because they work for them in the Israeli Army.”
IMG_20151119_160438
Ahmadism was a religious conspiracy by the Jews against Islam. Source “Wadi-e-Marjan”.
CUHy4UsWIAENWj9
These are only a few of the selected nuggets I randomly chose from his works. His books, writings, and articles are full of such hate and abuse against minorities in Pakistan. It qualifies as hate material and far from having our kids exposed to such nonsense, it is about time the government BANNED his books under the National Action Plan.
http://pakteahouse.net/2015/11/19/ishtiaq-ahmed-the-novelist-hatemonger/
I read him until 8th grade along with Mazhar Kaleem. Both writers were replaced by Suspense/Jasoosi digest back in late 80s early 90s. Yes he was a good writer but a religious bigot. Living in Jhang he was heavely influenced by the Sipah-e-sahaba and the extremists right wingers. His bias and hatred was not limited to Ahmadis but also Shias and baraelvies too. I wrote him a letter along with some other kids from neighborhood asking him to stop spreading the hatred back in 89.
Ishtiaq Ahmed responded back by refuting and saying it’s just an allegation and he doesn’t promote intolerance. Clearly he was blinded by his hatred. I stopped reading him around that time. From what I have been reading about him now he continued that path and eventually introduced ‘religious jihadism’ in kid’s literature. Sad !