آپریشن ضرب عضب کے متاثرین اور تکفیری خارجی دہشتگردوں کا ہدف بننے والے مظلومین – از خرم زکی
آج کل آپ کو سوشل میڈیا پر کئی پیجز پر وزیرستان میں فوجی آپریشن سے متاثر افراد کی تصویریں دکھائی دیں گی
ان تصویروں میں خاص طور پر ان بچیوں کی تصویریں ہوں گی جو نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کے ہمراہ محفوظ مقامات پر نقل مکانی کر رہی ہیں. یقینا یہ ان خاندانوں کے لیۓ ایک مشکل وقت ہے
بد قسمتی سے گزشتہ کئی دہائیوں سے حکومت و فوج دونوں کی نا اہلی یا مجرمانہ غفلت یا دونوں کے سبب ان علاقوں میں تکفیری خارجی دہشتگردوں نے اپنے قدم مضبوطی سے جمع رکھے تھے. اور ان ہی علاقوں کو بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرتے ہوۓ تحریک طالبان کے تکفیری خارجی دہشتگرد پورے ملک پر حملے کر رہے تھے. ان حملوں کا نشانہ صرف مسلح افواج و فوجی تنصیبات ہی نہیں بلکہ مرد، عورتیں، بچےاور تمام سول تنصیبات بھی تھیں. کیا ایسی صورتحال میں خاموش بیٹھ کر تماشا دیکھا جاتا یا حکومت کی ذمہ داری تھی کہ دہشتگردی کے ان اڈوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے
فوج کے اصرار پر آخر کار حکومت نے ان علاقوں میں فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا. لیکن یہ آپریشن ان تکفیری خارجی دہشتگرد تنظیموں کے سرپرستوں اور ہمدردوں کو قابل قبل نہیں اس لیۓ حسب توقع آپریشن کے آغاز کے ساتھ ہی ان نقل مکانی کرنے والوں کی “نارمل” تصویروں کو بھی “دردناک” ہیڈ لائنز کے ساتھ سوشل میڈیا پر نشر کرنا شروع کر دیا گیا
انجمن سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، تحریک طالبان کے یہ ہمدرد یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ ان تمام متاثرین کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنا کسی اور کی نہیں بلکہ پاکستان مسلم لیگ کی وفاقی حکومت اور صوبہ خیبر پختونخواہ کی مخلوط حکومت میں شامل پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی ذمہ داری ہے. اس لیۓ بجاۓ فوجی آپریشن پر تنقید کرنے کے وفاقی اور صوبائی حکومت کا محاسبہ کیا جاۓ کہ وہ نقل مکانی کرنے والے ان متاثرین کی امداد کے لیۓ کیا کر رہی ہے. لیکن افسوس اور شرم کی بات یہ ہے کہ جو لوگ آج کل وزیرستان سے نقل مکانی کرتے ہوۓ بچوں کی تصویریں لگا رہے ہیں ان کے پیجز پر تحریک طالبان، انجمن سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کے یتیم، سسکتے بلکتے بچوں کی کوئی تصویر نظر نہیں آئے گی. واہ ری منافقت! جو زندہ ہیں، جن کے والدین زندہ ہیں ان سے ہمدردی لیکن طالبانی درندوں اور تکفیری وحشیوں نے جن کو ذبح کر ڈالا، جن کے گھروں کو اجاڑ ڈالا ان کا کوئی ذکر نہیں، اور پھر اسلام کی دہائی
اس سے پتہ چل جاتا ہے کہ ان لوگوں کی ہمدردیاں مقتول کے ساتھ نہیں قاتلوں کے ساتھ ہیں. اور نقل مکانی کرنے والوں کی تصاویر محض پروپیگنڈہ کا ایک ذریعہ. اصل مقصد ان متاثرین کو مدد فراہم کرنا نہیں بلکہ تحریک طالبان کے تکفیری درندوں کے خلاف آپریشن کے خلاف راۓ عامہ ہموار کرنا ہے. لوگ مرتے رہیں، ذبح ہوتے رہیں، سول و فوجی تنصیبات پر حملہ ہوتا رہے، سنی و شیعہ مساجد پر حملہ ہوتا رہے، نمازی شھید ہوتے رہیں، عاشورہ و عید میلاد النبی کے جلوس پر حملے ہوتے رہیں، ملک تباہ ہوتا رہے لیکن ان کے پالتو جانوروں طالبان، لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کے خلاف کوئی آپریشن نہ ہو، سارے حقوق، ساری انسانیت ان تکفیری دہشتگردوں کے لیۓ مخصوص ہے باقی سارے پاکستانی دوسرے درجے کے شہری ہیں. کچھ استثنات بھی ہیں، جن کو ہر مظلوم کا درد ہے، ہم ان کے ساتھ ہیں
آزمائش شرط ہے، پیج وزٹ کر کے دیکھیں، اگر وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے بچوں کے ساتھ ساتھ کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ کمیونٹی پر ہونے والے دہشتگرد حملوں میں شہید ہونے والے افراد کے روتے بلکتے بچوں کی تصویر بھی نظر آ جاۓ تو سمجھیں انسان کا بچہ ہے اور اگر نہ نظر آۓ تو سمجھ جائیں کہ قرآن کی اس آیت کا مصداق ہے جو کہتی ہے “یہ جانور ہیں بلکہ اس سے بھی بدتر ہیں” ایک سوال ڈی جی آئ ایس پی آر جرنل عاصم باجوہ سے بھی کرتا چلوں. بی بی سی نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں الزام لگایا ہے کہ جن علاقوں میں آپریشن کیا جا رہا ہے وہاں سے دہشتگردوں کو پہلے ہی فرار ہونے کے مواقع فراہم کر دیۓ گۓتھے اور اس بات کی سند کے طور پر بی بی سی نے نقل مکانی کرنے والوں کے بیانات نقل کیۓ ہیں. آپ کیا کہتے ہیں اس حوالے سے ؟ کیا یہ جو وفاقی حکومت کی جانب سے ان تکفیری دہشتگردوں کے ساتھ مذاکرات کا چھ ماہ طویل جو ناٹک رچایا گیا کیا اس کا مقصد ان دہشتگردوں کومحفوظ راستہ مہیا کرنا تھا ؟