اہل تشیع اوراہل سنت بریلوی قیادت سے اہم گزارش: وقت آگیا ہے، انتظار مت کیجیے کرگزریے

سانحہ مستونگ،راولپنڈی و بنوں کے بعد جب کوئٹہ سمیت پورے ملک میں ایم ڈبلیو ایم اور سنّی اتحاد کونسل کے تحت اہل سنت واہل تشیع نے مشترکہ طور پر دھرنوں کا اہتمام کیا تو اہل تشیع اور اہل سنت بریلوی کی قیادت نے نواز حکومت کی جانب سے لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کاروآئی کرنے اور آپریشن کا آغاز کرنے کی یقین دھانی پر اعتبار کرتے ہوئے دھرنے ختم کردئے

لیکن دو ہفتوں بعد ہی دھشت گردوں سے مذاکرات کی کہانی پھر شروع کردی گئی،اس حوالے سے “پیام شہداء کانفرنس” میں ایم ڈبلیو ایم،سنّی اتحاد کونسل کے رہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

“اگر طالبان ظالمان سے مذاکرات کی گردان بند نہ کی گئی تو پھر اسلام آباد کا رخ کیا جآئے گا اور جب تک سعودی نواز حکمران رخصت نہ ہوں گے واپس نہیں آیا جائے گا”

یہ دعوے وحدت اور سنی اتحاد کی قیادت سے بارہا سننے کو ملے ہیں لیکن ان کی بار بار کی تنبہات کے باوجود نواز حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی جبکہ خود ان تنظیموں کی قیادت ابھی تک فوجی اسٹبلشمنٹ بارے کنفیوژ نظر آتی ہے

Photo: Kya aap Pak Fauj ko TTP ke khilaaf operation karne ke liyay support kareinge? - Admin

اس جیسی بہت سی تصویریں سید فیصل رضا عابدی کے فیس بک کی آفیشل پیج پر موجود ہیں اور وہ پاکستان آرمی کی قیادت کے بارے میں جس طرح کے خیالات کا اظہار کررہے ہیں اس سے تو یہ لگتا ہے جیسے پاکستان آرمی کی قیادت کا تو دیوبندی تکفیری خارجی عسکریت پسندی کو ابھارنے اور اس کو ثمرآور کرنے میں کوئی کردار نہیں ہے سارا کیا دھرا صرف اور صرف نواز اینڈ کمپنی کا ہے ،یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے سعودیہ عرب اور پاکستان کے درمیان اس وقت جو تزویراتی اتحاد نظر آرہا ہے اس کی خالق فوجی اسٹبلشمنٹ ہے یہ بات جتنی جلد سمجھ لی جائے اتنا ہی نقصان کم ہوگا

فوجی اسٹبلشمنٹ ،موجودہ وفاقی حکومت اور خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت کے دیوبندی عسکریت پسندوں کے ساتھ جو رشتے ہیں اور ان کے ساتھ جس طرح کے تزویراتی تعلقات استوار کئے گئے ہیں اس حوالے سے اہل سنت بریلوی اور اہل تشیع کی نمائندہ مذھبی سیاسی تنظیموں کی قیادت کا رویہ بہت مبہم سا ہے

مجلس وحدت المسلمین،تحریک نفاذ فقہ جعفریہ،سنّی اتحاد کونسل،پاکستان سنّی تحریک ،شیعہ علماء کونسل،جماعت اہل سنت کی قیادت کی جانب سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ وہ یہ خیال کرتی ہیں کہ مسلم لیگ نواز ،پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کا کالعدم تنظیموں کی طرف نرم رویہ اور ان کے خلاف آپریشن کے آپشن کو ترجیح نہ دینا شاید فوج اور ایجنسیوں کی قیادت کی منشاء کے خلاف ہے

ان جماعتوں کی جانب سے مسلح افواج کی قیادت کے بارے میں نرم گوشوں کا مظاہرہ کئی مرتبہ دیکھنے کو ملا ہے،بلوچستان میں ایف سی،فوج کے ساتھ ایم ڈبلیو ایم نے اب تک دو موقعوں پر معاہدے کئے

اور اہل تشیع کو یہ خبر دی کہ اب فوج اور ایف سی لشکر جھنگوی کو بلوچستان سے اکھاڑ پھینکے گی

لیکن اس دوران اہل سنت اور اہل تشیع کی نمائندگی کرنے والی مذھبی جماعتوں نے بلوچستان میں لشکر جھنگوی کے ساتھ رشتوں اور تعلقات کی کہانیوں پر کبھی بھی کسی واضح موقف کو اختیار نہ کیا

آج جب وفاقی حکومت طالبان سے مذاکرات کے لیے شیعہ اور اہل سنت بریلوی سے سخت تعصب رکھنے والے لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا چکی اور دوسری طرف طالبان نے بھی چن کر اینٹی شیعہ اور اینٹی سنّی بریلوی ثالث سامنے لیکر آئی ہے اور آئی ایس آئی کے پروردہ لوگوں کو پاکستانی قوم کا نمائندہ بنادیا گیا ہے جن کے اینٹی شیعہ اور اینٹی بریلوی خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور وفاقی حکومت کی جانب سے اس پروسس کو موجودہ آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ کی تائید اور حمائت بھی نظر آرہی ہے تو بھی مجلس وحدت المسلمین ،سنّی اتحاد کونسل اور پاکستان سنّی تحریک کی قیادت عسکری اسٹبلشمنٹ کے عزائم کے بارے میں خوش فہمی کا شکار نظر آتی ہے

حال ہی میں ایم ڈبلیو ایم،سنّی اتحاد کونسل اور وائس فار شہدائے پاکستان نے جو کانفرنس منعقد کی اس میں فوجی اسٹبلشمنٹ کی تزویراتی پالیسی اور اس کے تحت جہادی پراکسی پر کوئی بات نہیں کی گئی بلکہ فوج اور دیوبندی عسکریت پسندوں کو آمنے سامنے دکھانے کی کوشش ہوئی

فیصل رضا عابدی جوکہ وائس فار شہدائے پاکستان کے سربراہ ہیں اپنے فیس بک کے آفیشل پیج پر پاکستان آرمی کے سب سے بڑے حمائتی نظر آرہے ہیں اور وہ اپنی توپوں کا رخ صرف اور صرف نواز شریف کی طرف کئے ہوئے ہیں

لیکن وہ اس سارے عمل میں فوجی اسٹبلشمنٹ کے کردار کو نظر انداز کررہے ہیں

فوجی اسٹبلشمنٹ کی جانب سے ایک طرف تو “جہاد کشمیر” پروجیکٹ کو بدستور چلایا جارہا ہے اور لشکر طیبہ کے ساتھ ساتھ اب یہ مسعود اظہر کی کالعدم جماعت جیش محمد کو دوبارہ میدان میں لیکر آگئی ہے

فوجی اسٹبلشمنٹ دوسری جانب افغانستان میں تزویراتی گہرائی پانے کے لیے اپنے وفادار طالبان کے ساتھ ساتھ ان طالبان کو بھی منانے میں لگی ہوئی ہے جو اس سے ناراض ہیں ٹی ٹی پی سے ہونے والی گفتگو اسی کے گرد گھوم رہی ہے

گویا صاف بات یہ ہے کہ نہ تو فوجی اسٹبلشمنٹ اور نہ ہی پاکستان کی وفاقی حکومت پر اہل تشیع اور اہل سنت بریلوی کا کوئی ایسا دباؤ بنتا دکھائی دے رہا ہے جس سے وہ دیوبندی-وہابی عسکریت پسندی سے اپنے رشتے اور تعلق توڑے

کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ ایک طرف تو سنٹر رائٹ کی دو جماعتیں یعنی مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف دیوبندی-وہابی جماعتوں کا دباؤ زیادہ محسوس کررہی ہیں اور ٹی ٹی پی کے حامیوں کو ہی دھشت گردی کے حل نکالنے والوں کے طور پر سامنے لارہی ہیں

دوسری طرف فوجی اسٹبلشمنٹ بھی اہل تشیع اور اہل سنت بریلوی کے سیاسی وزن کو محسوس نہیں کررہیں جبکہ خود سیکولر لبرل جماعتوں جیسے پی پی پی اور اے این پی ہیں ان کے ہاں بھی اہل تشیع اور اہل سنۃ بریلوی کو نظر انداز کئے جانے کا ایشو اتنا اہم نہیں لگ رہا ہے

ایسے میں راجہ ناصر عباس،امین شہیدی،صاحبزادہ حامد رضا ،علامّہ ثروت قادری اور علامہ ساجد نقوی جیسے لیڈروں کو اب تک کی اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے

انھیں “طالبان سے مذاکرات نامنظور کے نعرے کسی کنونشن میں بلند کرنے سے آگے جانے کی ضرورت ہے

سب سے پہلے تو انھیں پورے ملک میں “طالبان نامنظور” اور “بندوق کے دباؤ پر خارجی شریعت کا نفاز نامنظور” کے نعروں تلے دھرنے دینے کی شروعات کرنا چاہئیے

دوسرے مرحلے پر ان کو دیوبندی-وہابی دھشت گرد تنظیموں سے ریاستی اداروں کی پشت پناہی سے دستبردار ہونے کی مانگ کرنی چاہئیے اور اگر یہ مطالبات نہ مانے جائیں تو پھر سول نافرمانی کی تحریک کا راستہ اپنانا چاہئیے

یہ فوری کرنے کے اقدامات ہیں جن کی جانب اہل سنت بریلوی اور اہل تشیع کی مذھبی قیادت کو بڑھنا چاہئیے

اس وقت پاکستان کے اہل تشیع،اہل سنت بریلوی،عیسائی ،ہندؤ ،احمدی،سکھ برادریوں کے اندر یہ احساس تیزی سے جڑپکڑ رہا ہے کہ ریاست اور سیاسی جماعتوں نے انتہا پسندی کے ہاتھوں ان کو لگنے والے سارے زخموں اور ان کے ساتھ ہونے والے حادثوں کو یکسر نظر انداز کردیا ہے اور ان کو کسی ایک مرحلے میں بھی اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی جیسے وہ ر اس لڑائی کے فریق  اور متاثرہ ہی نہ ہوں

خود ایم ڈبلیو ایم،سنّی اتحاد کونسل،پاکستان سنّی تحریک ،جماعت اہل سنت اور اہل تشیع کی جملہ تںطیموں کی سیاسی قیادت کو یہ سوچنا چاہئیے کہ اے پی سی سے لیکر مشاورت کے جتنے بھی مرحلے آئے تو کیا ان کی رائے طلب کی گئی اور کیا ان کے تحفظات کو زیر غور لایا گیا؟

یقینی بات ہے کہ ان کو کسی بھی مرحلے میں اعتماد میں نہیں لیا گیا تو کیا اس کے بعد بھی ایجی ٹیشن ،مزاحمت اور بھرپور تحریک چلانے کا وقت ابھی تک نہیں آیا؟

یہ وقت ہے اہل سنت بریلوی اور اہل تشیع اپنے سیاسی وزن کا ثبوت دیں اور اپنی اکثریت ثابت کریں

یہ وقت کنونشن کرنے کا نہیں بلکہ تحریک چلانے کا ہے اور دھرنے دیکر پورا ملک جام کرنے کا ہے

یہ وقت قومی اسمبلی،سپریم کورٹ،جی ایچ کیو،صوبائی اسمبلیوں کے سامنے دھرنے دیکر بیٹھنے کا ہے اور مذاکرات کے ڈرامے کو بند کرانے کا ہے

اگر وفاقی حکومت اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومت طالبان کو سیاسی جواز دلانے اور ان سے مبینہ ڈیل میں کامیاب ہوئی تو مطلب صاف ظاہر ہے کہ پورے ملک میں خارجی تکفیری برانڈ کی شریعت نافذ کردی جائے گی

اس برانڈ کے قانونی اور آئینی جواز کو ریاستی سطح پر مان لینے کا مطلب پاکستان میں بچی کچھی تکثریت اور مذھبی آزادی پر فاتحہ پڑھ لینا ہے

محترم حامد رضا،راجہ ناصر عباس و امین شہیدی!

آخر وہ وقت کب آئے گا جب قاتلوں کے خلاف آپ فوجی اسٹبلشمنٹ اور سعودی نواز حکومت کے دیوبندی-وہابی عسکریت پسندوں سے رشتوں اور تعلقات کو ختم کرنے کے مطالبے کے ساتھ اسلام آباد سمیت پورے ملک میں دھرنے دوگے اور اس وقت تک نہیں اٹھوگے جب تک سعودی نواز اور طالبان پروری کی پالیساں یکسر ختم نہ ہوجائیں اور پورے ملک سے طالبانی فاشزم کے خلاف سچی اور حقیقی کاروائی کا آغاز نہ ہوجائے

Comments

comments

Latest Comments
  1. farooq Usmani
    -
  2. Akmal Zaidi
    -
  3. farooq Usmani
    -
  4. muhammad shoaib
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.