ادریہ تعمیر پاکستان: پاکستانی میڈیا شیعہ نسل کشی اور دیوبندی دھشت گردی پر کنفیوژن پھیلا رہا ہے
پاکستان کے مین سٹریم میڈیا کے بارے میں اب یہ بات بہت یقین کے ساتھ لکھی جاسکتی ہے کہ وہ ریاست کے اداروں میں بیٹھے ان گروہوں کا ساتھ دے رہا ہے جو پاکستان میں دھشت گردوں کی شناخت کے سوال کو اسی طرح سے کنفیوژن کا شکار رکھنا چاہتے ہیں جس طرح سے دھشت گردی کا نشانہ بننے والوں کی شناخت کے گرد ایک آہنی پردہ ٹانگ دیا گیا ہے
پاکستانی میڈیا کے بارے میں تعمیر پاکستان ویب سائٹ نے اپنے گذشتہ ہفتے کے اداریے میں لکھا تھا کہ اس میں چھپنے والی رپورٹوں اور تجزیوں میں شیعہ نسل کشی سے انکار کی جانب رجحان زیادہ غالب نظر آتا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ شیعہ کی نسل کشی کے زمہ دار دھشت گردوں کی دیوبندی شناخت پر بھی پردہ ڈال دیا جاتا ہے
پاکستانی میڈیا کا دھشت گردی کا نشانہ بننے والے سماجی گروہوں کی شیعہ شناخت کو زکر نہ کرنا اور دھشت گردوں کی دیوبندی شناخت کو رپورٹ میں نہ آنے دینا جانبداری کی نشانی ہے
حال ہی میں جب سانحہ مستونگ ہوا تو اس حوالے سے جو رپورٹنگ دیکھنے کو ملی اس میں اگر ہزارہ برادری کا زکر آیا تو وہاں پر ان کی شعیہ شناخت کو حذف کردیا گیا اور اگر کہیں ایسا نہیں کیا گیا تو پھر دھشت گردوں کی دیوبندی شناخت کو تو ضرور چھپالیا گیا
روزنامہ ڈان جوکہ انگریزی کا ایک موقر اخبار ہے اس میں شیعہ ہزارہ برادری بارے جو رپورٹس دھشت گردی کے تناظر میں شایع کیں ان میں یا تو ہزارہ برادری کی شیعت کو چھپالیا یا سرے سے ان کے خلاف کاروائی کرنے والے دھشت گردوں کی دیوبندی شناخت کو بیان ہی نہیں کیا گیا
روزنامہ ڈان کی 26 جنوری 2014ء کی اشاعت میں ہزارہ برادری کے دو کرداروں کو لیکر ہزارہ برادری کی حالت زار پر اس کے دو رپوٹرز علی شاہ اور فوزیہ ناصر کی نیوز سٹوریز شایع کی گئیں ہیں
http://www.dawn.com/news/1082698/know-my-name
http://www.dawn.com/news/1082699/haunted-by-horror
ان دونوں خبر کہانیوں میں ہزارہ کمیونٹی کی شیعہ شناخت کا کہیں بھولے سے بھی زکر نہیں کیا گیا اور ساتھ ساتھ کسی ایک جگہ بھی مارنے والوں کی دیوبندی شناخت کو بیان کرنے کا کشٹ نہیں کاٹا گیا
اس طرح کی بہت ساری نام نہاد تحقیقی خبریں ہم پاکستانی میڈیا میں بہت تزک و احتشام کے ساتھ شایع اور نشرہوتے دیکھتے ہیں مگر ان کو پڑھ کر کوئی بھی قاری یہ عقدہ حل نہیں کرسکتا کہ پاکستان میں منصوبہ بندی کے ساتھ شیعہ نسل کشی ہورہی ہے اور شیعہ کو نشانے پر رکھنے والے دھشت گردوں کا تعلق دیوبندی فرقے سے ہے
اگر اور غور سے دیکھا جائے تو پاکستانی میڈیا کا شیعہ کلنگ اور دیوبندی تکفیری خارجی گروہ کے ان کلنگ میں ملوث ہونے کے تذکرے سے دور رہنے کا مقصد سمجھ میں آسکتا ہے
پاکستانی میڈیا دھشت گردی کی مذھبی جڑوں کو ابہام کا شکار کرنے کے لیے اسے “شیعہ-سنّی “تنازعے سے جوڑنے اور زمہ داری دونوں اطراف میں ڈالنے کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے
پاکستانی میڈیا کی روش سے صاف لگتا ہے کہ وہ شیعہ برادری کو مذھبی اعتبار سے دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کے جبر اور خون آشامی کا شکار دکھانے سے سے گریزاں ہے
پاکستانی میڈیا کی جانب سے غیر زمہ داری کا مظاہرہ کی ایک مثال کراچی سی آئی ڈی کے انچارج اور ایس پی راجہ عمر خطاب کی ایک پریس کانفرنس کی بے تحاشا کوریج اور اس کانفرنس میں کئے گئے غلط دعاوی کو جوں کا توں شایع کرنے اور اس میں پائے جانے والے تضادات کو انوسٹی گیٹو رپورٹنگ سے ظاہر نہ کرنے کی ہے
پاکستانی میں سٹریم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے 25 جنوری 2014ء کو کراچی سی آئی ڈی پولیس کے راجہ عمر خطاب کی ایک خصوصی پریس کانفرنس کو براہ راست کوریج دی
اس پریس کانفرنس میں راجہ عمر خطاب نے ارشاد حسین اور جوہر حسین کو ایک آپریشن کے زریعے گرفتار کرنے کا انکشاف کیا اور دعوی کیا کہ ان ملزمان کا تعلق کالعدم تنظیم سپاہ محمد سے ہے اور یہ ایران سے تربیت یافتہ ہیں اور ان کے گروہ میں 13 دھشت گرد اور ہیں جو مفرور ہیں
راجہ عمر خطاب نے جن دو شیعہ لڑکوں کو انتہائي خطرناک دھشت اور سپاہ محمد کے کارکن بناکر پیش کیا وہ 6 دسمبر 2013ء سے کراچی سی آئی ڈی کی حراست میں تھے
انگریزی روزنامے ڈیلی ٹائمز نے 9 جنوری 2014ء کی اشاعت میں یہ خبر شایع کی تھی کہ ایک شیعہ خاتون شیبا نے سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو درخواست دی تھی کہ اس کے شوہر جوہر حسین کو کراچی پولیس نے غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا ہوا اسے بازیاب کرایا جائے
یہ جوہر حسین وہی ہے جس کو کراچی سی آئی ڈی پولیس نے سپاہ محمد کا دھشت گرد قرار دیا ہے اور یہ شیبا خاتون کے بقول 2013ء کے آخر میں اچانک لاپتہ ہوگیا اور اس نے اپنے خاوند کی بازیابی کے لیے کراچی پولیس لائزن کمیٹی کو درخواست دی اور پھر جوہر کی گمشدگی کا مقدمہ گلستان جوہر کراچی پولیس اسٹیشن میں 7 دسمبر 2013 کو درج کرادیا گیا
اسی دوران سول لائن پولیس اسٹیشن کراچی میں تعینات اہلکار شیر محم نے جوہر کی بیوی سے رابطہ کیا اور اس کو بتایا کہ اس کا شوہر کراچی سی آئی ڈی پولیس افسر عمر خطاب کی تحویل میں ہے اور اس کو سول لائن تھانہ میں رکھا گیا ہے
اس اہلکار نے خاتون شیبا سے دو لاکھ رشوت طلب کی تاکہ اس کے شوہر کو رہائی مل سکے
Wife demands immediate release of illegally detained husband
By Amar Guriro
-
January 09, 2014
KARACHI: A lady has requested the court to help her husband, who was arrested by police without any reason. Shabia Sultana wife of Johar Hussain has said in her letter toChief Justice of Sindh High Court that her spouse was under illegal detention since December 6, 2013. First, she informed the CPLC East about her missing husband, and afterwards lodged a complaint with Gulistan-e-Johar Police Station, who registered the report for missing person in their roznamcha on December 7, 2013. “A police cop Sher Mohammad contacted us and informed that SP Raja Umer Khitab had detained Johar Hussain in Civil Lines Police Station. He asked us to arrange Rs 200, 000 for his release,” she alleged. Sher further said that she insisted that the money would be arranged after she would meet her detained husband. Then, she, accompanied by Irshad, a friend of Johar Hussain, went to Civil Lines Police Station, where she saw her severely tortured spouse. “SP Raja Umer Khitab detained Irshad too and asked me to give him Rs 200,000 and then he would release both them. He also threatened me that on delay he would implicate Johar and Irshad,” Shabia informed, while requesting chief justice Sindh High Court to take suo motu notice of the illegal detention of her husband and his friend.