خطابت کےانیس و دبیر۔ علامہ رشید ترابی – از آصف زیدی
ملت اسلامیہ نے علامہ رشید ترابی جیسا کویء خطیب شاید ہی کبھی پیدا کیا ہو۔علامہ صاحب کی خطابت میں انیس کی فصاحت اگر شمع تکلم ہے تو دبیر کی بلاغت مشعل سخن ہے۔ علامہ رشید ترابی خطابت کی عظمت کا نام ہے۔ ان کی ہشت پہلو شخصیت میں ایسے جوہر یکجا ہو گےء تھے جو بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں۔
یہ ہزار شیوگی کم از کم میں نے اپنی عمر اور اپنے علم میں اردوکے کسی اورخطیب میں نہیں پایء۔ان سے پہلے جراحت جاں کی یہ گل کاریاں منبر مجلس پر ناپید تھیں۔ان کی خطابت کے سمندر میں مغرب و مشرق کے بحر علمی کا ایک سیل رواں سننے والوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔ قرآن کریم سے استناط پر بھرپور قدرت ہے۔ تصرف شعری کا وہ کمال کہ ایسی مثال ان سے قبل اور بعد میں نا یافت ہے۔ تاریخ و رجال کا ایسا حکیمانہ ادراک کہ ذہنوں میں اسرار و معانی کے دریچے خود بخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔ فلسفہء و منطق کے دریچوں سے آفاقی فکر کی روشنی دلوں کو منور کرتی چلی جاتی ہے۔
واقعہء کربلا کے تناظر میں جدید ترین اور دقیق موضوعات کے کوہ گراں کو آب رواں بنانا صرف علامہ صاحب ہی کا خاصہ ہے۔آپ کی خطابت میں آورد نہیں بلکہ آمد کی فراوانی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں میں انھیں بڑے شوق سے سلام کیا کرتا تھا۔آج بھی ان کا دست شفقت سر پر محسوس ہوتا ہےاور اب یوں گماں ہوتا ہے جیسےانھیں سلام کرنے میں تاریخ اسلام کی بڑی شخصیات کو سلام کرنے کا لطف پنہاں تھا۔علامہ صاحب اسلامی فکر کی پوری تاریخ کے روشن چراغ تھے جس کے اجالے سے قوم کے فکر و ذہن کی تربیت بھی ہوتی ہے اور تطہیر بھی۔ وہ خود تو آفتاب خطابت بن کر غروب ہو گیےءمگر ان کا اجالا آج بھی جہان سماعت کی فضاوءں کو منور کیے ہوےءہے۔جہاں تک میرا تعلق ہے, منبر سے پھر سواےء ان کی آواز سننے پر دل کبھی مکمل طور پر مایل ہی نہ ہو سکا۔
سید الشہدا(ع )کی شہادت عظمی۱کے تیرہ سو برس مکمل ہونے پر حیدرآباد میں ایک عظیم الشان جلسے کا انعقاد کیا گیا۔موسی۱ندی کے سامنے سالارجنگ کی بارہ دری کے وسیع و عریض میدان میں مسلمانوں کا تاریخی اجتماع ہے۔خطیب ملت نواب بہادر یار جنگ صدر جلسہ ہیں۔کچھ مقررین اور شاعروں کے بعد معلن نے علامہ رشید ترابی کا نام پکارا۔مجمع میں ہلچل سی ہونے لگی۔ لوگ آنکھیں مل مل کے سیدھے ہو کر بیٹھ گےء۔ایک جواں سال خطیب نے گفتگو کا آغاز کیا۔پہلے جھرنا پھوٹا ,پھر سیل چلا اور پھر کشت سماعت خطابت کے موج در موج دریا سے سیراب ہونے لگی۔یہاں رشید ترابی نے تقریر تمام کی ادھر صدرمجلس نواب بہادر یار جنگ اچانک اٹھے ۔انھوں نے علامہ صاحب گیا کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور بے اختیار کہا” اب رشید میاں کے خطاب کے بعد میرے لیے بولنے کو کیا باقی رہ گیا
مجھے یاد ہے کہ بچپن میں جب میں مجلس میں جایا کرتا تھا تو کچھ دیر کے بعد ہمیشہ سو جاتا تھا۔ ہم اکثر محرم کے لیے کراچی آیا کرتے تھے۔ اور ایک روز یوں ہوا ایک چھوٹا سا بچہ علامہ رشید ترابی کی خالقدینا ہال کی مجلس میں منبرکے بلکل سامنے بیٹھا تھا۔یہ وہ پہلی تقریر ہے جو میں نے جاگ کر پوری سنی۔ساری تقریرکا ایک لفظ بھی سمجھ نہ آنے کے باوجود میں یوں مہبوت ہو گیا کہ پتہ ہی نہ چلا کب مجلس شروع ہویءاور کب تمام ہو گیء ۔ایک سحر خطابت تھا جس نے مجھے مسحور کرکے چھوڑ دیا۔
جب میں نے ہوش سنبھالا تو منبر کے افق پر علامہ صاحب کا سورج اپنی تمام آب و تاب سے روشن تھا۔علامہ صاحب سے پہلے پورے ہندوستان میں ایک ہی مکتب خطابت تھا اور وہ لکھنوءکا۔طریقہ یہ تھاکہ پہلے تقریر کی ضبط تحریر میں صورت گری کر لی جاےءاور پھر اسے ذہن نشین کرکے منبر سے خطابت کی شکل میں دہرا دیا جاےء ۔ایسے میں علامہ رشید ترا بی کی صورت میں خطابت کا ایک نیا جہان رونماہوا۔ انھوں نے خود اپنے ایک نیےءمکتب کی بنیاد رکھی اور بعد میں آنے والوں کے ایک نیےءچلن کی بنا ڈالی۔
صاحبان دولت کے سامنے وہ کبھی نہیں جھکے۔ جب انھوں نے ذاکری کی ابتداءکی اور ان کی خطابت کا چرچا ہونے لگا تو نظام دکن
میر عثمان علی خان نے خوش ہو کر انھیں اعلی۱منصب عطا کر دیا۔لیکن ایک سال بعد محرم کا پہلا عشرہ پڑھنے کے لیے خوجہ جماعت
کی دعوت پر وہ بمبیء تشریف لے گےء تو نظام دکن نے جواب طلبی کی کہ میری اجازت کے بغیر تم کیوں گےء۔ علامہ صاحب نے برجستہ جواب دیا کہ ذکر حسین (ع) میری عبادت ہے اور اس عبادت کی بجا آوری کے لیے میں کسی میر و سلطاں کی مرضی کا پابند نہیں ہو سکتا۔ یہ کہہ کر انھوں نے منصب واپس کر دیااور پھر عمر بھر نہ کبھی نظام دکن کے سامنے گےءاور نہ ہی ان کی کویءمجلس پڑھی۔
اسی طرح ایک مرتبہ شاہ خراسان کے سیٹھوں کی کسی نخوت آمیز بات پر ناراض ہو گےءاور پھر کبھی ان سے رابطہ نہ رکھا۔ان کی شہرت اور مقبولیت کےحاسدوں نے اکثر ان پر کیچڑ اچھالا مگر علامہ صاحب نے کبھی کنایتا” بھی اپنے کسی مخالف کے بارے میں کچھ نہ کہا۔ایک مرتبہ ہاشم رضا کے بھایءکاظم رضا کی مجلس میں ہاشم رضا سے پوچھاکہ کس موضوع پر پڑھوں۔ ہاشم رضا نے کہا۔ ” ادب”۔ ہاشم رضا یاد کرتے ہیں کہ انھوں نے ادب کے موضوع پر فصاحت اور بلاغت کا وہ دریا بہایاکہ میں مہبوت رہ گیا۔جب ۱۹۵۸ ء میں پہلا ماشل لاء پاکستان پرمسلط ہوا تو اس وقت کے سیکریٹری اطلاعات نے حکمنامہ نکالا کہ جب کت علامہ رشید ترابی کی تقریر کا مسودہ پہلے ریڈیو پاکستان کے حکام سے منظوری حاصل نہ کرے۔ مجلس شام غریباں ریڈیو پاکستان سے نشر نہ کی جاےء۔ علامہ رشید ترابی نے اس حکم کو ماننے سے یکسر انکار کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ” میں لکھ کر تقریر نہیں کرتا اور حاضرین کو دیکھنے کے بعد تقریرکے موضوع کا انتخاب سر منبر کرتا ہوں۔ اس لیے پہلے سے نہیں بتلا سکتا کہ کیا تقریر کروں گا” ۔ چنانچہ دو سال ۱۹۵۸ اور ۱۹۵۹ مجلس شام غریباں ریڈیو سے نشر نہ ہویء۔آخر محمہ اطلاعات کو ہار ماننی پڑی اور ۱۹۶۰ سے علامہ صاحب کی شام غریباں کی تقاریر کا سلسلا بحال ہو گیا۔
اگر میں نے انیس و دبیر کو مجسم دیکھا اور بولتا ہوا سنا ہے تو وہ انیس و دبیر علامہ صاحب تھے۔ ان کی زندگی میں خطابت کا عروج ہی عروج ہے زوال کہیں نہیں ہے۔
بعد از وفات تربت مادر زمیں مجو
در سینہ ہاےء مردم عارف مزار ما
Comments
Latest Comments
Allama was great scholar i have listen him in t.v.and live majlis i m not belong shia community but i like Allama Rasheed Turabi Marhoo. Allh un ki maghfirat farmay Itehad-e-Bainulmuslameen ka woh aik bab thay.
What ever Mr. Asif has written is 100 % true. In fact his Majalis were like a open university were we as children , youth learned a lot.His two majalis I will never forget, one of Nisther Park in which he recited the whole Marcea of 17 band on Hazrat Ali A kber (AS) and the other in Iranian on shabe Asoor . May his soul rest in peace
IN NA ILA
Mola inhay in ki khidmaat ka bahatreen ajar day…
Indeed a great orator. Can someone post the audios/videos of all his majalis available. It would be a great collection and a huge service.
Great suggestion. I will do it next year, Insha Allah.