چیف جسٹس افتخار چودھری کے نام تاریخ کا پیغام – سعد منصور

ہم نے سوچا کہ چیف جسٹس  میں اپنے پی سی-او-پر لئے گئےحلف پر معافی مانگنے کی ہمت نہیں تو کیا ہوا- بلا شبہ وہ دل میں ضرور نادم ہوگے پر آج تو انہوں نے ہماری ساری  خوشفہمی دور کرکے ہمیں ہی نادم کردیا- فرماتے ہیں کہ، “پاکستان کا عدالتی نظام ایک مثال ہے، جتنے بھی مارشل لاء آے لیگل سسٹم ختم نہیں ہوا-

اس بیان پر جتنا رویا جائے کم ہے کیوںکہ اب ان گناہ گار کانوں سے یہی سننا باقی رہہ گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں یزید اور میر جعفر کی تعریفوں کی صدایں بلند ہوگیں- پر جب سپریم کورٹ کو اس بات کا ادراک نہیں کہ داغدار ماضی پر فخر کرنے سے انسان اپنا ہی منہ کالا کرتا ہے تو یہ لازم ہے کہ ہم ان کے لیے تاریخ کا سبق دہرادیں-

بنگلادیش میں واقع حسین سہروردی شہید کا مزار

پاکستان کے پہلے با لواسطہ منتخب وزیراعظم بننے حسین سہروردی جو پاکستان کی ٨٠ فیصد آبادی کی نمایندہ قانونساز اسمبلی کے منتخب کردہ تھے- یہ اسمبلی مشرقی پاکستان، سندھ، سرحد اور پنجاب کی ان اسمبلیوں نے منتخب کی تھی جو باقائدہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئی تھیں- مشرقی پاکستان میں پہلی بار الیکشن ١٩٥٤ میں ہوے جس کے ١٩٥٥ میں محمد علی بوگرا کے استیعفےٰ کے بعد اسمبلی کو موقع ملا کے کثرت راۓ سے وزیر اعظم منتخب کریں پر چودھری رحمت علی کو نامزد کردیا گیا، اس  دوران قانون ساز اسمبلی میں مشرقی پاکستان کے نمائندے شامل ہوگئے تھے اور اسمبلی کی تشکیل نو کے بعد چودھری رحمت علی کے خلاف مخالفت میں اضافہ ہوا اور انہوں نے استعفیٰ دیدیا- اور بالآخر اسمبلی نے حسین شہید سہروردی کو منتخب کیا- تاہم یہ با لواسطہ منتخب وزیراعظم بھی اس وقت کے جج، جرنیلوں اور اسٹبلشمنٹ کو پسند نہیں تھا اور میر جعفر کے پر پوتے میجر جنرل اسکندر مرزا نے اسمبلی کا اجلاس بلانے سے انکار کر دیا اور حسین سہروردی کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا-   ڈیڑھ سال پہلے جسٹس منیر اپنے تاریخی فیصلے میں انصاف کی امید پہلے ہی ختم کر چکے تھے- سہروردی نے قومی جمہوری پارٹی کی ابتداء کی جس نے ایوب آمریت کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا- تاہم مستقل علالت کے باعث انہوں نے تحریک کی قیادت نورالامین کو سونپی اور بیروت چلے گئے- وہاں انکی مشتبہ موت نے پاکستان بلخصوص مشرقی پاکستان میں غم کی لہر دوڑ گئی اور لاکھوں لوگوں نے سپرد خاک کیا- کچھ عرصے بعد اسکندر مرزا اور پھر جسٹس منیر  کا انتقال ایک کو وطن کی مٹی نصب نہیں ہوئی، دوسرے کی موت ١٩٧٩ میں ہوئی اور اخباروں کی زینت بھی نہیں بن بائی-  پر حسین شہید سہروردی کی پر اسرار موت اور ان کی بےپناہ خدمات کے نتیجہ میں انکو لافانی کر دیا!

١٩٦٣ میں حسین شہیدسہروردی کے انتقال کے ٹھیک ایک دہائی بعد پاکستان جمہوریت بنا اور کچھ ہی سال میں ایک اور وزیراعظم کا قتل ہوا اسکے جنازے میں تو شرکت سے بندوق اور بوٹوں نے روک دیا پر پاکستان کی عوام نے اسے شہید قرار دیکر اسکی پارٹی کو بار بار اقتدار کی زینت تک پہنچا دیا- اس آمر کی موت جشن کا سبب بنی اور انکے سیاسی وارثوں نے بھی انکی حادثاتی موت کو شہادت نہیں قرار دینے کی جرات کی، یہی نہیں بلکہ ایک جبڑا ہی تدفین کے لیےمل پایا جس بر آج تک کوئی جا کر فاتحہ پڑھنا بھی گوارا نہیں کرتا اور اب سے کچھ عرصے پہلے تک صرف بس  کنڈکٹروں کی جبڑا چوک کی ہی آواز سنی دیتی تھی-  وہ جج جنہوں نے جمہوریت کو شہید کیا اور وہ جنہوں نے بھٹو کو شہید کیا وہ تاریخ میں کھو گئے اور ذولفقارعلی بھٹو آج بھی پاکستان کے مقبول ترین سیاستدان ہیں- بھٹو کا نام آج پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے اور معلون ضیاء کے مارشل لا کو تحفظ دینے والے جج صاحبان کو کوئی نہیں- خواں سپریم کورٹ میں بیٹھا ان کا داماد آئین اور قانون کی بالادستی کا جتنا ہی ڈھونگ کیوں نہ رچالے ان کے اور ان کے سسر کے کارنامے اور پی-سی-او پر لیے حلف یہ قوم ان کی بدنما شاعری اور خلیل جبران کی نظموں کی عصمت آرائ سے نہیں بھولے گی گو اس میں کوئی شک نہیں کہ کل ان کا نام ضرور بھول جائے گی-

بھٹو خاندان کے مقبروں کے باہر عوام کا سمندر

اسی طرح مختلف ادوار کے پی-سی-او زدہ ججوں نے پاکستان کی تیسری منتخب وزیراعظم بینظیر بھٹو کو غیرقانونی طور پر جیل میں رکھنیں اور پاکستان کے سینکڑوں شہریوں کے قتل کو قانونی تحفظ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا- اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں ان کی حکومت کو گرانے میں بھی بھرپورساتھ دیا- ان کو، ان کی ماں کو، شوہر کو اور ہزاروں کارکنوں کو جیل میں رکھا پر ایک جج نے بھی نانصافیوں کے خلاف چوں کرنا بسند نہیں فرمایا- پر وہ جج جس نے انکی  حکومت کی برطرفی کو  تحفظ دیا اس سجاد علی شاہ کو اسی کے ہمنشینوں نے بے آبرو کر کے نکال دیا- حکومت میں نہ ہونے کے باوجود بھی بینظیر بھٹو پاکستانی عوام کے دلوں پر راج کرتی رہیں اور ان کی شہادت کے بعد ان کے رقیب بھی ان کی عظمت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے- آج وہ شہادت کے درجہ پر فائز ہیں اور سجادعلیشاہ کا مقدر گمنامی ہے-

ان تینوں وزراءاعظم کا نام تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا گیا پر یہ بات ہمارے پی-سی-او زدہ چیف جسٹس کہاں سمجھیں گے جو اپنی نوکری کی خاطر کاٹی گئی چند ماہ کی پرتعیش نظربندی کا احسان جتاتے نہیں تھکتے- تو ان جیسے بیغیرت اور بےحس ججوں کو آسان الفاظ میں یہ بتانا چاہوں گا کہ بلا شبہ مارشل لا کے باوجود عدالتیں چلتیں رہیں پر ان عدالتوں میں عدل ہونا بند ہوگیا- اپنی نوکری کی خاطر قران پر لیے حلف کو توڑا- عدل کے بغیر عدالتی نظام نہیں ہوتا اور پارلیمنٹ کے بار بار ٹوٹنے سے پاکستان کا وقار بلند ہوا کیونکہ اپنی غداری کو پارلمانی تحفظ دینے کے لیے  نامنہاد انتخبات کرانے پڑے- چیف جسٹس افتخار چودھری کیا جانیں ٹیپو سلطان کے وہ سنہری اقوال،

شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے: اور یہ سو سالہ زندگی پاکستانی ججوں کو مبارک ہو-

Comments

comments

Latest Comments
  1. Chowrangi
    -
  2. zulfi
    -
  3. zaheer khan
    -
  4. ahsan shah UK
    -
  5. Irfan
    -
  6. akmal
    -
  7. Irfan
    -