Sophistry of our policy elites
Unicode version
تحریر؛ علی ارقم
پاکستان میں سول اور عسکری ہیئت مقتدرہ کے غالب کردار اور سرد جنگ کے دور کے زیر اثر چلے آرہنے والے قومی سلامتی کے تصوّرات اور ریاست کے داخلی و خارجی اظہاریوں پر اس کی واضح چھاپ نے معقولیت، دلیل و مباحثے اور معروضیت کی بنیاد پر تجزیئے ، مشاہدے اور عملی امکانات کوفروغ دینے کی حوصلہ شکنی کی ہے اور ریاست کے طے کردہ نظری معیارات ہی کے پیرائے میں اسے دیکھنے، پرکھنے اور تشہیر کرتے رہنے کے رجحان کوپروان چڑھایا ہے .دہائیوں پر محیط اس رجحان نے علمی ، عملی اور سیاسی سطح پر ایسے حلقوں کو مستحکم کیا ہے جو ریاست ہی کے نظریات کی صدائے بازگشت دیتی سنائی دیتی ہیں۔
داخلی سطح پر اس تضاد کا اظہار اگر پاکستان میں پائے جانے والے ان گنت سیاسی، معاشی اور سماجی بحرانات سے ہوتا ہے تو خارجی طور پر اس کا مظاہرہ پاکستان کی دہائیوں پر محیط خواہشات، خیالات اور خدشات پراستوارپاک انڈیا تعلّقات اور اسی کے ضمن میں تشکیل دی گئی عالمی خارجہ پالیسی بالخصوص افغان پالیسی میں دکھائی دیتا ہے، جہاں چند طے شدہ نظریات اور ترتیب دیئے گئے مقاصد اوراس کے حصول کی حکمت عملی میں چلی آرہنے والی یکسانیت کے اطراف گردش کرنے والی بحث گھوم پھر کر چند نکات پر مرکوز ہو کر رہ جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے اسی کی وضاحت کرتے ہوئے ادیب، دانشور اور سیاسی تجزیہ نگار وجاہت مسعود نے لکھتے ہیں
z ’قومی سلامتی اور وسیع تر نظریاتی مفادات کی مالاجپنے والی ریاست اپنے عوام کا علمی، تخلیقی اور پیداواری امکان بلند کرنے کے بجائے مختلف جغرافیائی، نسلی اور مذہبی تنازعات کے ذریعے ایسے قومی مفادات کو فروغ دینے کا بیڑہ اٹھاتی ہے جنہیں نہ عوام سمجھ سکتے ہیںاور نہ ایسے تنازعات سے عوام کا مفاد وابستہ ہوتا ہی۔ یہ فرض کرلیا جات ہے کہ فوجی جنتا اوراعلٰی ریاستی مناصب پر فائزسرکاری اہلکاروں کا ایک مٹھّی بھر ٹولہ ہی ان مفادات کی درست تفہیم رکھتا ہے اور وہی(دیدہ و) نادیدہ ٹولہ یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ ان مفروضہ قومی مطالبات اورمفادات پر بنیادی فیصلے کری۔ ‘(ص 208، پاکستان دوراہے پر)
تزویراتی مفادات کے عنوان سے تخلیق دی جانے والی افغان پالیسی بھی ریاست کے محوّلہ بالا کردار کا ایک مظہر ہے جسے تشکیل دینے والی ہماری پالیسی ساز اشرافیہ جو فوجی اور سول افسرشاہی کے حاظر سروس و ریٹائرڈ افسران، ریاستی پالیسیوں کی توضیح و تشریح کرنے والے تھنک ٹینکس کے نمائندوں، بااثر سمجھے جانے والے صحافیوں اور سیاسی جماعتوں میں موجود بعض بارسوخ افراد پر مشتمل ہے وہ نتائج و عواقب سے بے نیاز اور معروضیت سے عاری ، فکروعمل کی اس یکسانیت اور دائروں میں سفرکی اس روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں .
افغانستان میں جاری تین دہائیوں پر محیط بدامنی اور اس پورے عمل میں ہماری عملی شرکت کے نتیجے میں اس وقت عسکری و انٹیلی جنس اداروںاور سفارتی میدان میںمختلف سطح پر خدمات سر انجام دینے والے ریٹائرڈ افسران کی آج ایک پوری کھیپ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اس جمود کو برقرار رکھے ہوئے ہے، تو دوسری طرف صحافیوں اور دانش وروں کی ایک اچھی خاصی تعداد ریاست کی پالیسی سازی کے امور میں عسکری ہیئت مقتدرہ کے بنیادی کردار کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اپنی سوچ اور آراء کو اس سے ہم آہنگ کئے ہوئے ہے، تیسری طرف الیکٹرانک میڈیا کے پھیلاؤ، رموز صحافت سے ناآشنا اور مباحثے و تبادلہء خیال کے وصف سے نابلد ٹی وی میزبانوں کے سیاست و معیشت سے لے کر خارجہ پالیسی تک کے امور پر سطحی معلومات کی بناء پر رائے زنی بھی ان امور پر سنجیدہ بحث کے فروغ میں مانع ہے کیوں کہ جب بھی ہماری داخلی و خارجی مہم جوئیوں پر تنقید کا موقع و محل ہوتوٹاک شوز کے نقّار خانے میں ایک آدھ معقول آوازبھی دب کر رہ جاتی ہے .
۱۱ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بل پرافغانستان میں موجودگی، خطّے میں لڑی جانیوالی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں جب یہ خطّہ دوبارہ عالمی توجّہ کا مرکز ٹہرا تو پاکستان کی دہائیوں سے جاری تزویراتی مفادات کے عنوان سے آراستہ افغان کردار بھی تنقید و جانچ کی زد میں آگیا، پاکستان کی حامی سمجھی جانے والی طالبان حکومت کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا ، اور تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود ہمارے ناپسندیدہ عناصر امریکی سنگینوں کے سائے تلے تخت کابل پر براجمان ہوکر ہمارا منہ چھڑانے لگے،
اپنے بچے کھچے تزویراتی اثاثے محفوظ رکھنے کے چکّر میں (تاکہ بوقت ضرورت پھر کام آئیں) ہم ان کے پاکستانی ہمدردوں کو اتنی چھوٹ دیتے گئے کہ وہ توانا و طاقت ور ہوکر آج ہماری داخلی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ بن چکے ہیں جس کا احساس وہ ہمیں عوامی اجتماعات، بازاروں اور عبادت گاہوں، حسّاس اداروں کے مراکز اور دفاعی اہمیت کے حامل مقامات پر دہشت گردی کی کاروائیوں اور اپنی حلیف فرقہ پرست جماعتوں کے تعاون سے اقلیتوں اور مختلف مکاتب فکر کے خلاف تشدّد اور قتل و غارت گری کی کاروائیوں کے ذریعے دلاتے رہتے ہیں۔
ایسے میں امریکی کانگریس کے فنڈ سے چلنے والے ادارے یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹیٹیوٹ آف پیس نے حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی شیری رحمان کے قائم کردہ ادارے جناح انسٹیٹیوٹ کے اشتراک سے ایک پراجیکٹ کا آغاز کیا جس کا مقصد افغانستان کے مستقبل کے منظرنامے ، امریکی ترجیحات اور اس میں پاکستان کے کردار کے امکانات کا جائزہ لینا تھا۔اس جائزے کے لئے پاکستان کی جانی مانی خارجہ پالیسی ایلیٹ کے ارکان کے ساتھ متعدد مذاکروں ، مباحثوں اور طویل نشستوں کا اہتمام کیا گیااور آئی ایس پی آر کے ترجمان اور سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اور کچھ سینیئر تجزیہ نگاروں کے انٹرویوزبھی کئے گئے اور ان تمام آراء کومعید یوسف، ہمایوسف اور سلمان زیدی نے حتمی رپورٹ کی شکل دی ہے۔ اگرچہ اس میں سیاسی جماعتوں کے ارکان کی آراء کو ضم کرنے کے بجائے ایک الگ باکس میں دکھایا گیا ہے اور مجموعی رپورٹ خارجہ پالیسی ایلیٹ ہی کے مطالبات کی ترجمانی کرتی دکھائی دیتی ہے۔
پالیسی سازاشرافیہ نے افغانستان کے مستقبل کے منظرنامے کے حوالے سے ریاست کے دو مقاصد کی نشاندہی کی ہے پہلا یہ کہ افغانستان میں کوئی بھی سیاسی انتظام پاکستان میں داخلی عدم استحکام میں اضافے اورپاکستان میں بسنے والے پختونوں میں غم و غصّے میں اضافے کا باعث نہ بنے، دوسرا یہ کہ کابل میں پاکستان مخالف حکومت قائم نہ ہواور افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ان مقاصد کے حصول کے لئے قابل عمل پہلؤوں کی نشاندہی کرتے ہوئے افغانستان میں ایک مستحکم حکومت، پشتونوں کی قابل ذکر نمائندگی کے نام پر طالبان کی کوئٹہ شورٰی اور حقّانی نیٹ ورک کی شمولیت اور افغانستان میں انڈین سرگرمیوں اور مقاصد میں شفافیت پر زور دیا گیا ہے۔
افغانستان میں امریکی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے پاکستانی مفادات کے لئے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے خصوصااس کے سیاسی عنصر کو فوجی حکمت عملی کے زیراثر رکھنے پرشدید تنقید کی ہے ، ایک طرف فوجی حکمت عملی کو طالبان دھڑوں کو امریکی شرائط پر مذاکرات کی میز پر لانے میں ناکام قرار دیا ہے تو دوسری طرف امریکہ کے افغانستان میں طویل قیام پر افغان طالبان اور خطّے کے مملک کی تشویش میں اضافے کا باعث قرار دیا ہے۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان میں موجود عسکری پناہ گاہوں کے خلاف کاروائی پر اصرار اور خود طالبان کے ساتھ مذاکرات کے آغازاور سیاسی مفاہمت کے عمل میں پاکستان کے کردار کو محدود کئے جانے کے رجحان کی نشاندہی کی ہے۔
لیکن ان تمام تحفّظات کے اظہار کے باوجودامریکہ سے تعلق و تعاون کے تسلسل کی اہمیت پر کوئی دو رائے نہیں تھیں البتّہ امریکہ سے اپنی حکمت عملی کی مزید توضیح پراصرارکیا گیا تاکہ طالبان دھڑوں کوشراکت اقتدار کے عمل کی افادیت پر آمادہ کیا جاسکے اور خطّے کے ممالک کو اس عمل میں حائل ہونے سے روک کر تعمیری کردار ادا کرنے پر آمادہ کیا جاسکے۔
اس پراجیکٹ کے تحت چلنے والے مذاکروں اور مباحثوں کے دوران ہی اسامہ بن لادن کی ہلاکت وقوع پذیر ہوئی جس نے افغانستان میں پاکستان کے ممکنہ کردار کے حوالے سے پوری بحث کا رخ ہی تبدیل کردیا گو ہماری خارجہ پالیسی ایلیٹ تا حال اس تبدیلی کو محسوس کرنے سے قاصر رہی اور رپورٹ کے آخر میں چند پیراگراف کا اضافہ کرکے اس حوالے سے بھی عمومی ریاستی مؤقف تحریر کرکے باقی رپورٹ جوںکی توں رہنے دی گئی ہی۔
پوری دنیا بالخصوص افغانستان میں پچھلی تین دہائیوں میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں ، روسی انخلاء، سرد جنگ کے خاتمے مسلّح جتّھوں کی باہمی جھگڑوں،خونریزیوں، طالبان راج، ۱۱ ستمبر سے لے کرآج تک کے نشیب وفراز میں اگر کچھ نہیں بدلاتو وہ ہماری سوچ و رجحانات اور ترجیحات ہیں اور ہم بزعم خود اس پر مصر ہیں کہ دنیا ہماری اس سوچ کے حصار میں رہے توہماری اس خواہش کو’ خیال است، محال است و جنوں‘ ہی قرار دیا جاسکتا ہے (جاری ہے۔
Excellent post, Ali.
One minor correction: حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی شیری رحمان
perhaps you meant baaghi rukan? or the head of PPP (civil society group) 😉
SaaiN! ab meri aur ap ki khahish se tau nahi hoga na, she is PPP MNA and never dissociated herself from the party nor PPP has announced this so far.As AS says about trend in Pakistani liberals, first pursue a cause then, enjoy the individual space provided in the political sphere by PPP and then Change sides.
Though I had assigned her the title of one heading Pakistan Tweeples Party(BB group), i.e Blackberry group.
Excellent. Hope to read on alternates available for policy on external affairs next.
If we keep discussion on ideological issues and the implications, we can avoid indulging in personal conflicts and attacks. PPP is a country wide party and there can be different schools of thought and inclinations within the party; that is democratic but that shall not stop criticism and dialogue.
Well done Ali, once again. You are the best, man! This is why, Pakistan’s mainstream media will not publish you. But you have got a good forum. So who cares!!!!
Love you brother!
Excellent analysis. Put Pakistani establishments efforts of equating Pashtun with Taliban in perspective. Funny thing is, they are forwarding their misguided policies under the deceptive garb of Pashtun interests. If establishment was so concerned with the well being of its populace, it’d spend more on education & health-care. As it is, a day of expenditure on military is more than a year of expenditure on both health & education. Also, since the establishment is so concerned with Pashtun interests & sentiments (that they’d go to the extent of interfering in another country), it must be equally concerned with that of Baluch interests who are asking for independence? How come Humanr Rights Commission, Human Right Watch etc are all crying out loud at the brutalities commited by establishment in Baluchistan?