ہزاروں کی تعداد میں طالبان دہشت گرد گلگت بلتستان کی حدود میں داخل ہوگیے
ایڈیٹر نوٹ : تعمیر پاکستان کے سورسز کے مطابق غذر میں خفیہ پہاڑی راستوں سے داخل ہونے والے افراد شمالی وزیرستان میں آرمی آپریشن کے بعد بھاگنے والے طالبان دہشت گرد ہیں جو پہلے چلاس اور دیامر کے مختلف علاقوں میں دیوبندی مدرسوں میں پناہ لئے ہوے تھے لیکن دیامر میں پاکستانی فوج کی کاروائی کے بعد وہ بھاگ کے گلگت بلتستان کی حدود میں داخل ہو چکے ہیں –
اس سے پہلے بھی وزیرستان اور قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے افراد کے روپ میں طالبان دہشت گردوں کی ایک بہت بری تعداد دیامر اور چلاس کے علاقوں میں پہنچ چکی ہے – جو گزشتہ سالوں میں گلگت بلتستان جانے والے شیعہ مسافروں کو شناخت کرنے کے بعد سینکڑوں کی تعداد میں شہید کر چکے ہیں
ہمارا پاکستانی فوج سے یہ مطالبہ ہے کہ غذر کی سرحدی حدود کی سیکورٹی کی زما داری پاکستانی فوج اپنے ہاتھ میں لے اور ان بھاگنے والے دہشت گردوں کو اپنے انجام تک پہنچا کر آپریشن ضرب عضب کو پاے تکمیل تک پہنچایا جائے
غذر میں سینکڑوں مشکوک افراد نے کیمپ لگا دیا تفصیلات کے مطابق شمالی وزیر ستان اور دیامر میں فوجی آپریشن کے بعد ضلع غذر کے پہاڑی راستوںکے ذریعے بڑی تعداد میں مشکوک افراد کے داخلے کی اطلاعات موصول ہوچکی ہیں ۔ضلعی انتظامیہ ، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے لمبی تان کر سوگئے باوثوق ذائع سے معلوم ہوا ہے کہ پہاڑی راستوں کے ذریعے ضلع غذر کی تحصیل یاسین اور گوپس میں مشکوک افراد داخل ہوچکے ہیں جو خود کو تبلیغی جماعت سے منسلک کررہے ہیں
حلانکہ تبلیغی جماعت کے لوگ آج تک پہاڑ ی راستوں سے ضلع غذر میں داخل نہیں ہوئے معلوم ہوا ہے کہ تحصیل یاسین اورگوپس کے علاوہ پونیال میں ان مشکوک افراد کی بڑی تعداد موجود ہے جو کہ علاقے میں کسی بھی وقت کوئی بڑی تخریب کاری کا موجب بن سکتے ہیں ۔ذرائع کے مطابق تحصیل یاسین کے علاوہ گوپس کے نالہ جات ہندرپ، لنگر اور خوخش میں بھی کئی مشکوک افراد نے کیمپ لگایا ہے جن کا تعلق براہ راست کے پی کے سے ہے اور خدشہ ہے کہ یہ لوگ شمالی وزیر ستان میں آپریشن کے بعد نالہ جات کے راستے سے ان علاقوں میں داخل ہوچکے ہیں جہاں ایسے افراد کے داخلے کی اطلاع بھی مقامی لوگوں نے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو قبل ازوقت دے دیا ہے
دوسری جانب ضلع غذر گلگت بلتستان کا سب سے حساس ترین ضلع ہے جہاں کئی سرحدیں کے پی کے، افغانستان ،اور دیامر سے مل جاتی ہیں باﺅجود اس کے علاقے میں سیکورٹی کا کوئی بندوبست نہیں ہے تمام حساس باﺅنڈریز پر دو یا تین سپاہی تعینات ہیں جبکہ داخلی اور خارجی راستے سب کے لیے کھلے ہیں پولیس مشکوک افراد پر نظر رکھنا تو درکنار ان کا شناختی کارڈ تک چیک نہیں کرتی یہی حالت ضلع غذر میں گیٹ وے کی حیثیت رکھنے والے چیک پوسٹ شیر قلعہ کی ہے جہاں سیکورٹی کی انتہائی ناقص صورتحال کے باعث علاقے میں جرائم پیشہ افراد بغیر کسی روک ٹوک کے داخل ہوجاتے ہیں پولیس سوتی رہتی ہے اور کسی گاڑی یا مشکوک شخص کی شناخت تک نہیں کی جاتی ہے
اس کے برعکس ضلع غذر کے کسی بھی ضلعے میں داخل ہونے کے لیے عام لوگوں کو بھی سخت پاپٹ جھیلنے پڑتے ہیں اور بڑی چیکنگ کے بعد ان اضلاع میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے مگر ضلع غذر میں پولیس کا وجود ہی نظر نہیں آتا ایسا لگتا ہے کہ پولیس خود علاقے کے حالات خراب کرانے کی سازشوں میں مصروف ہے جبکہ سپیشل برانچ اور دیگر خفیہ ادارے بھی بدمست ہاتھی کی طرح آرام فرمارہے ہیں جس سے علاقے میں لوگوں کے درمیان شدید خوف وہراس پھیل گیا ہے ضلع غذر کے عوامی حلقوں نے چیف سیکرٹری ،آئی جی پی گلگت بلتستان اور دیگر ذمہ دار حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ ضلع غذرمیں مشکوک افراد کے داخلے پرفوری کاروائی کرتے ہوئے ان لوگوں کی نشاندہی کی جائے اورناقص سیکورٹی کے ذمہ دارپولیس آفیسران و اہلکاروں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی عمل میں لائی جائے
Source :