Nasim Zehra’s resignation: Rind ke rind rahey hath se jannat na gai – by Danial Lakhnavi

Related post: Nasim Zehra’s resignation, a proper class act

نیوز چینلز پر ٹاک شوز کی میزبانی کے لئے ٹی وی کیمرے کے سامنے بیٹھنے والے فن کاروں کو کئی طرح کے فرائض انجام دینے ہوتے ہیں، جیسے اٹھارہ کروڑ عوام کی نمائندگی کے بھاری بھرکم بوجھ کو کندھے پر اٹھائے رکھنے، سیاست و معیشت سمیت ہر موضوع پر طبع آزمائی کی صلاحیت کا اظہار کرنے اور سیاسی اور انتخابی عمل میں پے درپے پسپائیوں، ناکامیوں اور شکستوں کے نتیجے میں غیر متعلقہ قرار پانے والے سیاسی شعبدے بازوں کو زندہ رکھنے اور مسلح افواج میں فرائض کی انجام دہی سے سبکدوش عناصر میں سے دفاعی تجزیہ کار برآمد کرنے کے ساتھ ساتھ بعض اوقات کسی کرخت صورت و لب و لہجے کے حامل مولوی یا رنگ برنگی ٹوپیاں اور کمانڈوز جیکٹ زیب تن کئے کسی جوکر سے کسی خاتون فلمی اداکارہ یا انسانی حقوق کی تنظیموں سے وابستہ سماجی ورکر کی تضحیک کروانے جیسے معاملات بھی نپٹانے ہوتے ہیں۔

انہی اداکاروں، جنہیں عرف عام میں اینکرز کہا جاتا ہے، کے بیچ چند نام کچھ پیشہ ور اور منجھے ہوئے صحافیوں کے بھی ہیں، جو سیاست و صحافت کے میدان میں کام کرنے کے بعد آج اینکروں کے اس قبیلے کا حصہ ہیں۔ جن میں سے اکثر ریاست اور اس کے پالیسی ساز اداروں سے اپنے قریبی روابط کے باعث مخصوص معاملات پر نظریہ سازی اور اوپینین بلڈنگ کا کام کرتے ہیں۔

ان معتبر ناموں میں سے ایک نام نسیم زہرہ کا ہے۔ جو کہ مقتدرہ یعنی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے ربط کے ساتھ ساتھ ایلیٹ کلاسز کےارکان پر مشتمل سول سوسائٹی کا ایک موثر حصہ ہیں اور جو پاکستان پیپلز پارٹی کی سینئر ممبر  اور امریکہ میں پاکستانی سفیر شیری رحمان کی حمایت وہمدردی کا تاْثر دیتے ہوئے انہی کے کندھے پر بندوق رکھ کر پاکستان پیپلز پارٹی کو قانون توہین رسالت، اقلیتوں اور خواتین سے امتیازی سلوک روا رکھنے والے دیگر قوانین میں سیاسی دباوْ، گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی المناک شہادت کے بعد پیدا شدہ حالات  اور پارٹی کے اندر موجود رجعت پسند عناصر کی مخالفت کے باعث ترامیم کرنے میں ناکامی اور پسپائی پر سٹیزن فار ڈیموکریسی نامی کاغذی تنظیم کے فورم سے شدید تنقید کرتی رہیں۔

لیکن جب جناح انسٹیٹیوٹ نے امریکہ کے سامنے افغانستان میں پاکستانی کردار کے تعیْن کے حوالے سے وش لسٹ سامنے آئی تو اس مطالباتی فہرست کے مرتْبین میں نسیم زہرہ کا نام بھی شامل تھا۔ اور اس رپورٹ کے مندرجات کی تائید و حمایت کے لئے انہوں نے کئی ٹاک شوز بھی کئے۔پاکستانی وش لسٹ میں اسٹیبلشمنٹ کے منظورنظر انتہا پسند طالبان اور حقْانی گروپ کے لئے سیاسی بندوبست میں حصْہ مختص کرنے کےساتھ پاکستان میں پائے جانے والے دہشت گردی کے مراکز کے خلاف کاروئی سے معذوری کا اظہار بھی شامل تھا۔ اقلیْتوں کے حقوق کے لئے پرائیویٹ میلنگ لسٹس میں جرْات رندان کا اظہار کرنے والی نسیم زہرا کو انسانی حقوق کے ورسٹ ایبیوزرز اور افغانستان میں ہزاروں شیعہ ہزارہ افراد کے قتل عام کے ذمّہ دار طالبان کی حمایت کرتے ذرْہ برابر شرمندگی نہ ہوئی۔

  اسی طرح سلمان تاثیر کی ایک مذہبی جنونی کے ذریعے قتل کرائے جانے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے محتاط برتاوْ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتی داد عیش دیتی ہوئی نسیم زہرہ کے منہ کو اس وقت تالے لگ گئے جب اپنے ٹاک شوز میں مولویوں کے ذریعے سلمان تاثیر کے قتل کے فتوے دلوانے والی مہر بخاری نے سماء ٹی وی چھوڑ کر نسیم زہرہ کی ناک کے نیچھے دنیا ٹی وی کو جوائن کرلیا۔ لیکن نسیم زہرہ بدستور دنیا ٹی وی کا حصّہ رہتے ہوئے کام کرتی رہیں۔

    اچانک ملک ریاض کا مبشّر لقمان اور مہر بخاری کے ساتھ دنیا ٹی وی پر نشر کردہ انٹرویو سامنے آگیا، وہ بحث جو چیف جسٹس کے ہونہار بیٹے ارسلان افتخاراور اس کی دلچسپیوں سے حیران کن طور پر بے خبر قاضی القضاۃ یعنی چیف جسٹس صاحب کے گرد گھوم رہی تھِی ارسلان گیٹ، سی جے گیٹ ، فیملی گیٹ سے مڑ کر اینکرگیٹ اور میڈیا گیٹ میں تبدیل ہوگئی۔ نسیم زہرہ کی رگ ستائش پھڑکی اور انہوں نے دھڑلے سے دنیا ٹی وی سے استعفٰی کا اعلان کردیا، میڈیا اور جرنلزم سے وابستہ وہ افراد جوبڑے ہوکر اینکر بننا چاہتے ہیں، وہ اینکر گیٹ کے باعث خفّت کا شکار تھے انہیں مضحکہ آرائی اور طنز کے بیچ نسیم زہرا کی صورت میں ایک ہیروئک کردارمیسّر آگیا اور مہر بخاری اور لقمان کو طعنوں اور کوسنوں کے بیچ دادو تحسین کے ڈونگرے برسائے جانے لگے۔

ابھی یہ تماشہ تھمنے نہ پایا تھا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے وزیراعظم کو رخصت کئے جانے کے باعث نئی بحث میں لوگ مہر بخاری، مبشّر اور نسیم زہرا کو فراموش کر گئے اب بھلا “توجّہ کی طالب” نسیم زہرا اس بے توجّہی کو کیسے برداشت کرتیں، سوحسب عادت ایک نیا ٹوسٹ آگیا، نسیم زہرا صاحبہ کا استعفٰی نامنظور ہوا، انہوں نے اچانک میڈیا کے لئے ضابطہ اخلاق کی باتین شروع کردیں، اور دادوتحسین کے ڈونگرے برساتے پرستار اور انجمن ستائش باہمی” کے ارکان اس دور اندیشی کے مظاہرے پر پھر گل پاشی میں مصروف ہوئے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

صبح کو مے پی شام کو توبہ کرلی

رند کے رند رہے ہاتھ سے جنّت نہ گئی

مآخذ: دانیالیات

Comments

comments

Latest Comments
  1. Khaled
    -
  2. truth
    -
  3. shakeel arain
    -
  4. android tablets
    -