Stop it, General Kayani – by Lala Jie
Related posts: Good riddance, General Pasha!
Mehran Gate reveals ISI’s dirty role in Pakistani politics – by Saleem Safi and Hasan Nisar
بس کریں جنرل صاحب بس
۱۵ مارچ ۲۰۱۲ء کو ہمارے سپہ سالارِ اعظم(بقول ہمارے منصفِ اعظم) نے نہایت شفقت فرمائی اور قوم کو چند نصیحتوں سے فیض یاب فرمایااور کچھ حقائق بھی بیان فرمائے۔ ان کی گفتگو کا لُبِ لباب یہ تھا
قومی اداروں کے کردار پر تنقید نہیں ہونی چاہئے۔ ان اداروں کو بننے میں سالوں کی محنت لگتی ہے۔دوسرے ملکوں میں خفیہ ایجنسیوں کے کردار پر اتنی شدت سے تنقید نہیں کی جاتی جتنی پاکستان میں ہوتی ہے۔انہوں نے موساد، را اور سی آئی اے کی مثالیں دیں۔ ایسی تنقید سے فوج کا مورال گرتا ہے۔ ہمارے جوان منفی ۲۰ سینٹی گریڈ پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
مہران بنک کیس کے حوالے سے انہوں نے فرمایا کہ یہ تاریخ سے لڑنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے مزید فرمایا “ہمیں ماضی سے سیکھنا چاہئے ، حال میں زندہ رہنا چاہئے اور مستقبل پر نظر رکھنی چاہئے”۔
فوج کی سرگرمیوں نے بلوچستان کے لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنایا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں غائب افراد کی تعداد صرف 47 ہے۔
جنرل صاحب سے نہایت مودبانہ طور پر کچھ گزارشات ہیں۔ امید ہے ناگوار نہیں گزریں گی۔
قومی اداروں کی تعمیر
جناب جنرل صاحب گزارش یہ ہے کہ آپ نے بجا فرمایا کہ ادارے سالوں کی محنت سے بنتے ہیں۔ مگر آپ یہ بھول جاتے ہیں کہ صرف ایک ادارہ ملک چلانے کے لئے کافی نہیں ہوتا۔ پارلیمنٹ بھی ایک ادارہ ہے، عدلیہ بھی ایک ادارہ ہے۔ ہمیں ان اداروں کو بھی بنانا ہے۔ پارلیمنٹ آئی ایس آئی سے ہزار گنا زیادہ اہم ادارہ ہے۔ اگر آپ کا ادارہ مہربانی فرمائے تو ہم ان اداروں کو بھی بنا لیں۔ اگر آپ کی آئی ایس آئی ذرا شفقت فرمائے اور میمو گیٹ جیسے تماشے کھیلنا بند کردے تو عین نوازش ہوگی۔
قومی اداروں پر تنقید
جو ادارہ اپنے کام کے علاوہ دنیاء کا ہر کام کر رہا ہو اُس پر تنقید نہ ہو تو اور کیا ہو۔ جو ادارہ گالف کلب، کھاد، بنک، شادی ہال اور سامان کی ترسیل جیسے کام تو کرے مگر چند دہشت گرد گروہوں کو قابو کرنے میں ناکام ہو جائے اس کو جھک جھک کر سلام کیسے کیا جائے۔ جس ادارے کو اپنی ہی ٹریننگ اکیڈمی کے پاس ایک قلعہ نما مکان میں رہنے والے دنیا کے سب سے زیادہ مطلوب فرد کا پتہ نہ ہو اُسے ۲۱ توپوں کی سلامی کیسے دی جائے؟جس ادارے کے اپنے ہیڈ کوارٹر پر دہشت گرد حملے کریں اور پھر بھی وہ ان دہشت گردوں کو قومی اثاثہ قرار دے اس ادارے کو گلے لگا کر چومنے کی ہمت کون کرے۔ موساد، را اور سی آئی اے پر یقیناً اتنی تنقید نہیں ہوتی اور اُن کے کردار پر کھلے عام میڈیا میں بحث نہیں کی جاتی مگر وہ عام معاملات میں ٹانگ بھی تو نہیں اڑاتے۔ اگر آپ کا ادارہ میرے ووٹ چوری کرے، میرے لئے لیڈر منتخب کرے توپھر بھی میں اُس کے معاملات پر بحث بھی نہ کروں۔
اداروں کا مورال
رہی بات مورال کی تو حضور دیگر اداروں کا مورال بھی ملحوظ رکھا کریں نا۔ کیا مورال صرف فوج کا ہوتا ہے۔ جب آپ لوگ ہمارے سفیر پر منصور اعجاز جیسے جانوروں کا غول چھوڑ دیتے ہیں تو ہمارے تمام سفارت کاروں کو مورال نہیں گرتا۔ ویسے یہ بھی اپنی جگہ ایک دلچسپ بات ہے کہ مجرم کو سزا دینے سے ایک ادارے کا مورال ہی گر جاتا ہے۔ ہم بد بخت سولین سمجھتے تھے کہ مجرم کو سزا ملنے سے قانون پر عمل کرنے والے شہریوں کا مورال بلند ہو جاتا ہے اور دوسرے مجرموں کا مورال گر جاتا ہے۔ اب اس سےزیادہ ہم کچھ نہیں کہتے کہ ایسا نہ ہوغائب افراد کی تعداد اڑتالیس ہو جائے۔
منفی ۲۰ سنٹی گریڈ
یہ بجا ہے کہ ہمارے جوان منفی ۲۰ سنٹی گریڈ پر خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ ہمیں اُن جوانوں پر فخر ہے۔ مگر اُن کی قربانیوں کے بدلے میں ہمارے ٹیکسوں سےبنے گالف کورس میں گالف کھیلنے والے جرنیلوں کو کیوں کرمعاف کردیں۔ یہ بھی مت بھولیں کہ سیاچن کے میدانِ جنگ میں تبدیل ہونے کے پیچھے بھی آپ جرنیلوں کی نااہلی تھی جس کی وجہ سے ہمارے جوانوں کو اتنی شدید سردی میں خدمات انجام دینا پڑرہی ہیں۔ اگر ضیاع الحق کے دور میں ہماری فوج اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں چھوڑ کر حکمرانی کے شوق پورا کرنے میں نہ لگی ہوتی تو سیاچن میدان جنگ بننے سے بچ سکتا تھا۔ آپ کے بزرگ جنرل ضیاع الحق نے فرمایا تھا کہ سیاچن میں تو گھاس بھی نہیں اُگتی۔ اب اُسی مقام پر ہمارے جوانوں کو ڈیوٹی دینا پڑتی ہے۔
تاریخ سے لڑنا
حضور تاریخ سے کون لڑ سکتا ہے۔ مگر کیا آپ یہ فرما رہے ہیں کہ گناہ پرانا ہو جائے تو گناہ نہیں رہتا؟ جرم کئے دس بیس سال گزر جائیں تو مجرم کو اکیس توپوں کی سلامی دینی چاہئے؟ اگر ایسا ہی ہے تو برائے مہربانی چیپ جسٹس صاحب کو بھی حکمت کے اس موتی سے نواز دیجئے جو گزشتہ تین چار برس سے صدر صاحب کے خلاف ایک پندرہ سال پرانا مقدمہ کھلوانے پر بضد ہیں۔ اوہو…معاف کیجئے گا میں بھول گیا تھا کہ صدر صاحب تو بلڈی سولین ہیں۔ یہ اصول اُن پر لاگو نہیں ہوتا۔ یہ تو جنرل اسلم بیگ کے لئے ہے نا۔ سوری سر۔۔۔
ماضی سے سبق سیکھنا
رہی بات ماضی سے سبق سیکھنے کی۔ عالی جاہ، جب ایوب خان اور یحیٰی خان کے لگ بھگ ۱۳ سالہ دور کے بعد مشرقی پاکستان سے ہاتھ دھوچکے تھے تو ۱۹۷۷ اور ۱۹۹۹ کا پنگا کیوں لیا۔ چلیں یہ بھی ماضی کا قصہ سمجھ کو چھوڑ دیتے ہیں۔ مگر آج تو باز آجائیں نا۔ اب تو آپ جیسا دانش ور آرمی کا چیف ہے (ویسے تو ہر چیف ہی اپنے آپ کو دانشور سمجھتا ہے)۔ مگر حالات و واقعات یہ نہیں بتاتے کہ ماضی سے سبق سیکھ لیا گیا ہے۔ اوہ…سوری… میں بلڈی سولین پھر غلطی کر گیا۔ یہ نصیحت تو سولین کے لئے ہے نا… جرنیلوں کے لئے تو نہیں۔ سوری…بس کیا کروں…ہم کم بخت سولین کبھی سدھر نہیں سکتے۔
بلوچستان کے لوگوں کا معیارِ زندگی
بلوچستان کے لوگ بھی نا۔ پاک فوج نے اُن کا معیارِ زندگی اتنا بلند کر دیا ہے کہ وہ اونچے اونچے پہاڑوں پر رہنے لگے ہیں۔ نیچے ہی نہیں آتے۔ نیچے صرف اُن کی مسخ شدہ لاشیں ہی آتی ہیں۔ ویسے جناب عالی..!یہ تو بتائیے کہ فوجی سرگرمیوں کے نتیجے میں عوام کا معیار زندگی کیسے بلند ہوتا ہے۔ کیا چھاؤنیاں بنانے کو ترقیاتی کام سمجھنا چاہئیے۔ پھر تو کیوں نا ہم دفاعی بجٹ کو بھی ترقیاتی بجٹ کا حصہ قرار دے دیں۔ سارے پاکستان کے عوام کا معیارِ زندگی ایک دم سے بہت بلند ہو جائے گا۔ ویسےترقیاتی بجٹ میں اچانک اتنا بڑا اضافہ شاید عوام سے ہضم نہ ہو پائے۔ایک چھوٹی سی بات اور…ہم بد بخت سولین سمجھتے تھے کہ لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنا فوج کا کام نہیں ہوتا۔ فوج کا کام ہوتا ہے ملک کا دفاع کرنا۔ ایک بار پھر سوری سر…
غائب کئے گئے افراد
غائب افراد بھی صرف سینتالیس ہیں۔ ہمیں شکر ادا کرنا چاہئیے کہ ہمارے ملک میں غائب کئے گئے افراد کی تعداد اتنی کم ہے۔ سنتالیس افراد کا غائب ہونا تو کوئی تشویش ناک بات نہیں۔ ہمیں چاہئیے کہ یہ احتجاج وغیرہ چھوڑ کر اپنے اپنے کاموں میں لگ جائیں۔ ان سینتالیس افراد کی مسخ شدہ لاشیں بھی جلد ہی مل جائیں گی۔ تب اُٹھا کر دفنا دیں گے۔ پہلے سے کیا چیخم دھاڑ کرنا۔
بڑی مہربانی جنرل صاحب
Caviar to the general —Marvi Sirmed
Even if the agencies in other countries play this ‘august’ role of interrupting the democratic process in their countries, does it justify ISI’s doling out money to keep a certain political party of the people’s choice out of government?
“Tacitly registering his concern over the debate in the media on the role of the army and the Inter-Services Intelligence (ISI), Chief of Army Staff (COAS) General Ashfaq Kayani on Wednesday said, ‘The national institutions should not be undermined’”, said a news item in an English language daily newspaper on March 15. What merited this royal annoyance was open to discussion in the media about the re-eruption of a long simmering ‘Mehrangate’ that should be best described as ISI-gate. According to this case, some Rs 140 million had been doled out to politicians to rig the elections in 1990. The rest of the money out of Rs 350 million, as claimed by one Younas Habib, Zonal Manager of Habib Bank at that time, who was allegedly asked by the ISI to generate these funds, eventually went to the coffers of ISI and its officials and General Aslam Beg, the then army chief.
The reports of kingly displeasure came when the ‘Chief’ (as is he called by the ranks) was informally talking to a group of editors at the farewell dinner hosted by Prime Minister Yousaf Raza Gilani for the outgoing Air Chief Rao Qamar Suleman. ‘Oh, the Chief is not happy,’ was the buzz that quickly took over the atmosphere, if a fly on the wall is to be believed. Curious, as these media persons are normally quite committed to ‘freedom of press’ kind of slogans and usually hit the politicians hard if such a suggestion comes from them, I dared to speak with a couple of them and tried to get a sense if any discontent existed on the Chief’s remarks. There was. With understandable care and qualifying statements to justify the Chief’s unhappiness. Understandable, quite understandable.
To be fair to the Chief, there is little reason to disagree with him. This is perhaps the rarest agreement between us — the bloody civilians and the almighty generals. Indeed, the national institutions should not be undermined. National institutions are undermined when individuals take them for a ride. Institutions are emasculated when individuals responsible for them are allowed to get away with the biggest crimes committed under the guise of ‘national interest’. Institutions are ruined when they are allowed to overstep their jurisdictions with impunity and arrogate to themselves the right to demolish and weaken every other institution of the country. The institutions are, indeed, annihilated when they manipulate the people’s mandate and accord themselves the right to tamper with the country’s law and constitution. In strong agreement with the General, none of us should let the institutions be undermined and weaken themselves.
Now comes the worrying part of the General’s remarks: “The debate (on TV channels) does not support national institutions as it works to de-motivate soldiers performing their duties in 20° Celsius below freezing point. We need to motivate our soldiers instead of demoralizing them by such debates.” What are we being told? These oft- repeated reminders of ‘soldiers doing their duty in 20 minus Celsius’ are not only misplaced but are also hackneyed now to the point of engendering instant yawning. Soldiers on duty in extreme weather conditions are not even the topic of ISI-gate. The nation stands behind these soldiers and salutes them for their sacrifices. What about those who use their soldiers as human bait or as mere pawns to fight the wars created by a few generals? The talk shows discussing ISI-gate are hardly about these poor soldiers. They are, rather, about a handful of generals who subverted the constitution of the country, made an important institution — ISI — an unprofessional one, made this institution a moneymaking machine, put it on a dangerous and anti-state path of undermining the democratic process, filled their bank accounts and walked away. One is flabbergasted at the army’s ability to distinguish between friends and foes. How come nabbing the culprits is akin to ‘undermining’ the institution is an enigma, the answer to which is only known to the almighty generals.
The discussion did not end here. Senior editors were reminded of other countries, including India, USA and Israel, who never talked about their ‘intelligence’ agencies the way the ISI was discussed in Pakistan. Well sir, memory fails me to count the instances when spy agencies of these countries were caught distributing money among politicians to rig elections, kill their prime ministers and torture ‘uncontrollable’ elements of the media to death. “They are never caught,” reminds my friend, a senior editor with another daily, who happened to be present in the said informal media talk. What happened with Al Gore and later Hillary Clinton prompted another senior anchor, as evidence of the CIA’s overstepping the civilian mandate.
They, however, could not come up with a ready reference when I asked about such examples from neighbouring India and other countries, although, “There were many examples of RAW’s overstepping in India as well,” they claimed. While this scribe is not aware of any RAW-hatched conspiracy against their own politicians, the efficiency or lack thereof of IB and NIA is widely discussed in the Indian media. Their ‘soldiers working under 20 Celsius’ don’t mind too much, as professionalism in other countries is the focus of these institutions. We perhaps need to take extra measures to safeguard our soldiers’ morale, which inter alia includes clear demarcation of the role of spy agencies and making sure they don’t make or break democratic governments and people who suffer at their hands do not malign them.
Even if the agencies in other countries play this ‘august’ role of interrupting the democratic process in their countries, does it justify ISI’s doling out money to keep a certain political party of the people’s choice out of government? Now that’s dangerous, if the army thinks whatever happened in 1990 was justifiable and is an established way of agencies’ working around the world, it should worry every law-abiding citizen of Pakistan. If the army is insisting on being right when it dictates the democratic process, we need to worry about our future. In this case we really need to reflect what has really changed despite the army’s lip service that they don’t want to mingle in politics.
About ‘Mehrangate’, the General said, it happened 20 years earlier and discussing it now was fighting history. “We should learn from the past, live in the present with a focus on the future,” he goes on. If indeed it happened 20 years ago, then most of the current soldiers (who the General thinks are losing morale) were not even born. These young soldiers must see that the culprits of serious crime of undermining the constitution of Pakistan are not exempt from the law by virtue of whatever office they might have held in the past. These brave sons of ours, the soldiers, must be taught that whosoever takes the law into their own hands and compromises the professionalism of Pakistan’s army, must face the grip of the law. Giving them a practical example of how important it is to safeguard the army’s own professionalism should not be considered detrimental or negative.
Lastly, if we don’t have to ‘fight history’, the military leadership needs to investigate who from its ranks reportedly met with a retired judge and requested to pass on the message to the ‘right authorities’ to keep lynching the government on the NRO judgment and contempt cases. The ‘Do-Not-Fight-History’ doctrine is not selective sir, is it? Something seems badly rotten in the state that rests within a state.
The writer is a human rights activist, a student of International Relations and History, writes on social / political issues and foreign policy, is based in Islamabad, tweets at @marvisirmed and can be reached at marvisirmed@me.com
http://dailytimes.com.pk/default.asp?page=2012%5C03%5C19%5Cstory_19-3-2012_pg3_5
Rare public statement: Kayani deflects criticism over missing persons
By Tanveer Qaiser Shahid
Published: March 15, 2012
COAS says army helped improve situation in Balochistan. PHOTO: REUTERS/ FILE
ISLAMABAD:
Chief of Army Staff Gen Ashfaq Parvez Kayani made a rare public statement on Wednesday, saying that the Mehran Bank scandal was a 20-year old issue and “if you want to fight with history in this context, it’s your choice to do so. However, establishing institutions require a lot of hard work and the media should be careful … that their words do not undermine these [institutions].”
Speaking to senior journalists at a farewell reception given in honour of Air Chief Marshal Rao Qamar Suleman at the Prime Minister House, he said that he will not hold a meeting with any senior US military officer including Gen Mattis before the joint session of Parliament scheduled for March 17. He categorically said only Parliament will decide about the resumption of Nato supplies.
The COAS also said that no further cantonments are going to be established in Balochistan. He said that only the Frontier Constabulary is performing its duties there. He added that about 10,000 young people were recruited into the armed forces from Balochistan who were about to complete their training.
Replying to a question regarding the alleged involvement of intelligence agencies in missing persons cases, he said that institutions are not made easily – adding, however, that they are also not above criticism. Gen Kayani added that one should be careful that while criticising one must not undermine national institutions or organisations.
The COAS also said that only 47 people are missing in Balochistan. He defended the army, saying its activities had helped improve the standard of living for the people of Balochistan. “Even now, there are Baloch who have seen a 10 rupee currency note for the first time in their lives,’ a sombre Kayani told journalists.
Using the US as an example, the COAS said that the American army was not criticised by its people as harshly as the Pakistan Army was criticised by Pakistanis. The US media is careful in reporting events of US casualties in Afghanistan, for example. He said that the ruthless criticism of ISI in Pakistan was far higher than any criticism made on RAW, Mosad or the CIA in India, Israel or USA.
Published in The Express Tribune, March 15th, 2012.
http://tribune.com.pk/story/350294/rare-public-statement-kayani-deflects-criticism-over-missing-persons/
گزشتہ ہفتے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ٹی وی ٹاک شوز میں خفیہ اداروں کے کردار پر اٹھائے جانے والے سوالات پر اظہار ناپسندیدگی کیا اور کہا کہ بھارت اور اسرائیل میں خفیہ اداروں پر ایسی تنقید نہیں ہوتی۔ جنرل صاحب نے کہا کہ اس تنقید سے سرحدوں کا دفاع کرنے والے جوانوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
آرمی چیف کے اس بیان کے بعد خفیہ اداروں کے سربراہان کی مدح میں کتابیں تحریر کرنے والے ایک صاحب دھونس اور دھمکی پر اتر آئے۔ اوقات ان کی صرف اتنی ہے کہ لاہور کے تین سینئر کالم نویسوں کو ساتھ لے کر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے دربار میں پہنچتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ وہ کالم لکھنے کے ساتھ ساتھ ٹھیکیداری بھی کرتے ہیں اور راوی کے پار ایک ہاؤسنگ سکیم بنا رہے ہیں۔ موصوف نے کمال ڈھٹائی سے تقاضا کیا ان کی سکیم میں سرکاری خزانے سے ترقیاتی کام کئے جائیں تاکہ زمین کی قیمت میں اضافہ ہو جائے۔ میرٹ کا ڈھنڈورا پیٹنے والے وزیر اعلیٰ صاحب نے فوری طور پر سنیٹر پرویز رشید کو حکم دیا کہ سرکاری خزانے سے ٹھیکیدار صاحب کا کام کر دیا جائے۔ کام شروع ہو گیا تو تقاضے بڑھ گئے۔ سنیٹر صاحب نے مجبوریوں کا اظہار کیا تو ٹھیکیدار نے اپنے قلم کو ڈنڈا بنا لیا اور اپنی ناتمام خواہشوں کی تکمیل نہ ہونے پر پنجاب حکومت کے خلاف چارج شیٹ بنا ڈالی۔ غلط کاموں کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔ شہباز شریف نے کالم نویس اور ٹھیکیدار میں فرق نہیں سمجھا لہٰذا اب بھگتیں لیکن جناب ہمارا اوڑھنا بچھونا صرف صحافت ہے۔ کوئی کسی غلط فہمی میں نہ رہے۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا اور جو جنرل احمد شجاع پاشا یا جنرل کیانی کی خوشنودی کے لئے ہمیں بھارت و اسرائیل کا ایجنٹ کہے گا ہم اسے بتائیں گے کہ وہ راولپنڈی کے کس علاقے کے کس گھر میں کس کس کے ساتھ آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں کو کس کس حالت میں ملتا رہا؟ منافقوں سے پہلے کبھی ڈرے تھے نہ آئندہ کبھی ڈریں گے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اگلے دن لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت میں آئی ایس آئی کے وکیل کو بالکل ٹھیک کہا کہ ہم فوج کا احترام کرتے ہیں لیکن قانون شکنی کی اجازت نہیں دے سکتے بتایا جائے کہ خفیہ اداروں کی تحویل میں تین نوجوان کیسے مارے گئے؟ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے آواز اٹھانے سے ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔ جرنیل صاحبان سرحدوں کی حفاظت کرنے والے جوانوں کی قربانیوں کی آڑ لینے کی کوشش نہ کریں۔ قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ ٹھیک ہے 1990ء میں یونس حبیب نے جو کیا اس سے آپ کا کوئی تعلق نہیں لیکن 2012ء میں خفیہ اداروں کی تحویل میں لوگ کیسے مارے جا رہے ہیں؟ سپریم کورٹ آپ کے وکیلوں کے دعوؤں کو سچ تسلیم کرنے کے لئے کیوں تیار نہیں؟ کیا آپ اور آپ کے خوشامدی ہمارے چیف جسٹس کو بھی انہی القابات سے نوازنے کی ہمت رکھتے ہیں جو ہمیں دیئے جا رہے ہیں؟ ہم تو وہی پوچھ رہے ہیں جو چیف جسٹس صاحب نے پوچھا!
http://jang.com.pk/jang/mar2012-daily/19-03-2012/col4.htm
Sorry to have disappointed you General Kayani
General Kayani is disappointed in us.
He has castigated the media and the nation for its ruthless criticism of the Army and ISI.
First he started off with a history lesson saying:
“if you want to fight with history in this context, it’s your choice to do so. However, establishing institutions require a lot of hard work and the media should be careful … that their words do not undermine these [institutions].”
Well now, if only some politician had uttered these words someone would have been hauled before the Supreme Court for contempt, but not in this case. I only wish he had continued to explain who had scuttled the “hard work” of building institutions in the past and explained why they are so fragile today?
On the other hand it was good to note that the COAS appreciated the power of words, for where coups, jumping over walls are not available as an option, words do count.
He is later quoted as saying:
Gen Kayani added that one should be careful that while criticising one must not undermine national institutions or organisations.
I mean, come on now, why would anyone think that organizations financed by the state and tax payers money and debt that will have to be financed by our grandchildren should be above criticism? How silly!
The COAS also said that only 47 people are missing in Balochistan.
Only 47!
Why didnt someone tell me. Ill immediately retract my liberal fascist-RAW-CIA-Mossad funded blog posts.
So how many people need to be added to the “missing persons” list before criticism will be acceptable without undermining national institutions?
Perhaps the following is my favourite quip:
“Even now, there are Baloch who have seen a 10 rupee currency note for the first time in their lives”.
So is the Army, that is not present in Balochistan as stated earlier, in the business of distributing Rs. 10 notes? And why are there in this position to begin with? I mean, its not as if the region has suffered repeated military operations over the past 6 decades has it? Opps…
But thats not all. General Kayani is a keen follower of the foreign press. I mean he doesn’t have anything better to do right?
Using the US as an example, the COAS said that the American army was not criticised by its people as harshly as the Pakistan Army was criticised by Pakistanis. The US media is careful in reporting events of US casualties in Afghanistan, for example. He said that the ruthless criticism of ISI in Pakistan was far higher than any criticism made on RAW, Mosad or the CIA in India, Israel or USA.
Wow! Justifying the ISI’s actions by pointing to our supposed enemies equivalent organizations lack of public condemnation is just the way to go. Talk about setting really low standards!
Also in the US the military chiefs appear before congressional committees and have to justify their budgets, priorities and expenses. We dont even bother with the pretence. Three lines in the budget document is more than enough to satisfy the underlings.
What if President Zardari said the same thing: Even US, Israel and India don’t criticise their Presidents as much as Pakistanis do.
What if an IG Police said: Even in US, Israel and India the media doesn’t criticise their policeman to undermine them.
Would people expect to restrain their criticism?
———————————————————————————————————————–
When people criticise the Pakistan Army or the ISI, they are not critical of policy choices made by generals not individual soldiers. The generals however, hide behind their institutions when defending their positions.
The individual is just a replaceable bureaucrat sitting in a chair for a while. The institution should always be bigger than the person who sits in it. Thats so that the individual can be hold accountable without tarnishing the image of the institution as a whole. In Pakistan however, the opposite is true. The generals equate any criticism of their performance to criticism of the rank and file soldier. If the person before whom the buck stops is not willing to take responsibility then who will? Using the efforts of jawans and junior officers to emotionally blackmail critics to justify their policies is hardly a testament to their leadership.
The good General made no effort to delve into explaining why people are criticising the Army or ISI and what he plans to do about it. Instead he began a compare and contrast exercise with other “agencies” to justify the status quo.
But why all the hallabalo? I mean is our military and ISI so fragile that a few comments by some liberal fascists who dont love Pakistan, will undermine it?
Well actually they do. In an ongoing case the ISI responded by saying:
Therefore, the allegations leveled against ISI are baseless and aimed to demoralise its officials and defame the organization.
Denying accusations is one thing, but claiming that across the board, each and every person who is critical of the Army and ISI is out to demoralise them is the most overly simplistic propaganda around. The fact that it actually works is even more telling.
———————————————————————————————————————–
Another article recently appear in the DAWN titled: Braving “hell” to keep militants at bay. Such articles pop up now and then highlighting the true cost of perpestant violence, beyond the rhetoric. The theme is always very similar. Soldiers asking why the US thinks that Pakistan does not pulls its weight? Why have Pakistani security forces been targeted with lethal efficiency in cross border attacks by ISAF forces and rightly so!
Another common theme that comes up in such pieces, particularly this one and a previous one that was published some time back about injured and maimed soldiers recovering in MH Rawalpindi.
All shared the same sentiment that;
Some Pakistani politicians may call it “America’s War,” but Tanvir disagreed.
“This is my country. I am a Pakistani. I don’t see that anyone who destroys our schools, our masjids (mosques), kills people, is good for my country,” he said. “… If they were working for a better Pakistan, we wouldn’t be sitting in this post. The people would be supporting them against us.”……
……“They are the enemy. They are not working for Pakistan. They are telling us that we have to do everything their way,” he said.
Now who exactly are these people who share these sentiments and dare disagree with a brave young officer manning a post on the border?
Why are the political actions and affiliations of individuals with organizations that consort with militants and religious radicals and their wider supporters not considered agents whose aim is to “undermine” national institutions.
They are not criticised because they fit in with the status quo which doesn’t challenge the dominant position of the military and their interests.
Once in a while (thankfully)I receive messages by individuals who usually prefer to stay “anonymous” who make alot of effort to write really long essays about the sacrifices of the Army and how their privileges is a small token of gratitude that we as a nation can pay, and words such as mine, which will be read by a handful of people, are treasonous. I am sure the people who write these emails feel that they have performed their patriotic duty, and if they feel they have then more power to them.
Now what constitutes patriotism or nationalism changes with the time. But I personally believe that is more patriotic to point out illegal acts, shortcomings in policy and demand individual accountability as patriotic, as this would help save lives and support those on the grounds. it
Now what constitutes patriotism or nationalism changes with the time. But I personally believe that it is more patriotic to point out illegal acts, shortcomings in policy and demand individual accountability, as this would help save lives and support those on the grounds.
The generals better get used to criticism, which I appreciate is tough, given decades spent, being told and made to believe that they are better than everyone else and are entitled to their positions of authority and privileges.
So General Kayani and the senior high command, I believe as professional soldiers, a few words here and there wont bite. And if they start do, then perhaps look around and ask why the “ruthless criticism”is coming up? Even if its only a matter of 47 missing persons.
Posted by Nadir El-Edroos
http://liberalfacist.blogspot.co.uk/2012/03/sorry-to-have-disappointed-you-general.html
Fantastic piece of writing
Could Kangroo Judge Iftikhar Ch take a sue moto action against Army Chief?
No way
If Saleem Safi would not defend ISI and army, who would?
Share
یہ فوج اور یہ ایجنسیاں… جرگہ…سلیم صافی
سب ایک جیسے نہیں ہوتے اور سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنا مناسب نہیں۔ ہم اہل صحافت کی صفوں میں وہ بھی ہیں جنہوں نے ملک و قوم اور قلم کی حرمت کی خاطر زندگیوں کو داؤ پر لگائے رکھا اور وہ بھی ہیں جو بکتے ‘جھکتے اور بلیک میل ہوتے ہیں یا بلیک میل کرتے ہیں۔ سیاستدان سب شیطان ہیں اور نہ سب فرشتے۔ یہی اصول عدلیہ اور فوج پر بھی صادق آتا ہے۔
جنرل ایوب‘ جنرل یحییٰ‘ جنرل ضیاء اور جنرل مشرف بھی فوجی تھے جنہوں نے غداری (آئین توڑنا) کا ارتکاب کرکے پاکستانی قوم کو کئی سال تک غلام بنائے رکھا اور وہ بھی فوجی تھے جنہوں نے پینسٹھ ‘ اکہتر اور کارگل کی جنگوں میں اس قوم کی خاطر خون بہایا۔وہ بھی کوئی فوجی ہوگا جس کے حکم پر پاکستانیوں کو اٹھا کر غائب کردیا جاتا ہے لیکن وہ بھی فوجی ہی ہے جو اپنا گھر بار چھوڑ کر قبائلی علاقوں کے دشوار گزار ‘ بلوچستان کے سنگلاخ اور سیاچن کی برف پوش پہاڑوں میں ڈیوٹیاں دے رہا ہے۔ قوم کی دولت کو سیاسی اتحادوں کی تشکیل پر صرف کرنے والے جنرل اسلم بیگ‘ جنرل حمید گل اور جنرل اسددرانی بھی اسی فوج کے جرنیل تھے اور جنرل وحیدکاکڑ بھی جنہوں نے موقع پاکر بھی اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھا۔ یقینا اس فوج کے بہت سے جرنیل ریٹائرمنٹ کے بعد اربوں کھربوں میں کھیلتے نظر آتے ہیں لیکن لیفٹیننٹ جنرل (ر) سید افتخار حسین شاہ جیسے جرنیل بھی اسی فوج سے تعلق رکھتے ہیں جو آئی ایس آئی کے افغان ڈیسک اور کشمیر ڈیسک کے انچارچ رہنے کے بعد کئی سال تک خیبر پختونخوا کے چیف ایگزیکٹیو اور گورنر رہے لیکن آج بھی ایک عام مڈل کلاس انسان کی طرح زندگی گزار تے اور بسراوقات کے لئے عمر کے اس حصے میں بھی نوکری کرتے نظرآتے ہیں۔
صحافیوں کو دھمکانے اور شہریوں کو اٹھا کر غائب کرانے والے بھی خفیہ ایجنسیوں کے لوگ ہیں لیکن قبائلی علاقوں میں جن دو اہلکاروں کے جسموں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے سڑک پر پھیلا دیئے گئے تھے‘ وہ بھی خفیہ ایجنسی کے اہلکار تھے ۔ اگربریگیڈیئر امتیاز جیسے لوگ بھی آئی ایس آئی سے وابستہ رہے تو دوسری طرف میجر محمد عامر بھی اسی آئی ایس آئی کے آفیسر تھے جنہوں نے نہ صرف ’را‘ کے جی بی اور موساد کے درجنوں ناپاک منصوبوں کو ناکام بنایا بلکہ اپنی زندگی داؤ پر لگانے کے ساتھ ساتھ ایک آپریشن میں اپنے اکلوتے بیٹے عمار کو بھی موت کے منہ میں لے گئے۔ اس لئے سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنااور سب کو برا کہنا مناسب نہیں، فوج ہماری فوج ہے ۔ جیسی بھی ہے اس ملک کی حفاظت اسی کو کرنی ہے ۔ وہ کمزور ہوگی تو ہم کمزور ہوں گے۔ دنیا میں کہیں یہ نہیں ہوتا کہ فوج کی طرف سے وزیراعظم کو ہدایت ملے کہ امریکی سیکرٹری خارجہ کے ساتھ ملاقات میں فلاں فلاں وزیر موجود نہیں ہونے چاہئیں لیکن کہیں یہ بھی نہیں ہوتا کہ کسی ملک کی فوج کے ہر ماہ درجنوں افسر اور جوان شہید ہورہے ہوں لیکن اس کی سیاست اور صحافت میں ان کی قربانیوں کا کوئی تذکرہ نہ ہو۔ غلطیاں بعض جرنیلوں کی ہیں یا سیاسی رہنماؤں کی لیکن پختونوں اور بلوچوں کی طرح ہم نے اپنی افواج اور ایجنسیوں کو بھی آزمائش سے دوچار کررکھا ہے ۔ کیا قبائلی علاقوں‘ بلوچستان اور سوات میں تعینات فوجی اپنی مرضی سے وہاں گیا ہے؟
کیا اس کا جی نہیں چاہتا کہ وہ اپنے گھر میں اپنے بال بچوں کے ساتھ رہے؟ قبائلی علاقوں اور سوات کے پھاٹکوں پر ڈیوٹی دینے والے فوجی کی مشکلات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔اس پربرقعے میں بھی خودکش حملے ہوچکے ہیں اور فوج کی وردی میں ملبوس فرد بھی اس کے سامنے آکر اپنے آپ کو اڑا چکا ہے ۔ ایک طرف اسے اپنی طرف آنے والے ہر مرد وعورت سے خوف آتا ہے اور دوسری طرف جب وہ کسی کے ساتھ نامناسب رویہ اپنالیتا ہے تو ہماری تنقید کی زد میں آتاہے۔ دس سال ہوگئے کہ اسے وزیرستان میں بھی اپنے شہریوں کے ساتھ جنگ کی ناخوشگوار ڈیوٹی پر لگادیا گیا ہے اور بلوچستان میں بھی۔ اسے کہا جارہا ہے کہ ہم امریکہ اور افغانستان کے اتحادی ہیں لیکن اسے ان دونوں سے بھی خطرہ ہے۔ ایک طرح کی داڑھی‘ ایک طرح کی پگڑی اور ایک طرح کا لباس لیکن قبائلی علاقوں میں اسے کہا جارہا ہے کہ ایک طرح کے پگڑی بردار کو بچانا اور دوسری طرح کے پگڑی بردار کو مارنا ہے۔ بلوچستان میں بھی اسے اس مخمصے کا شکار بنادیا گیا ہے۔ اسے کہا جارہا ہے کہ ایک طرح کے بلوچ وڈیرے کو پالنا اور دوسرے طرح کے بلوچ کو مارنا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ قبائلی علاقوں اور سوات میں جاری آپریشن کے دوران فوجی افسران کی ہلاکتوں کی شرح عام جنگوں میں افسران کی ہلاکتوں کی شرح سے بہت زیادہ ہے۔ ایجنسیوں سے وابستہ لوگ جب اپنے بارے میں سوچتے ہیں تو ان کے سامنے اپنے اداروں کا یہی پہلو ہوتا ہے اور اس لئے ان کو تنقید کرنے والے صحافیوں‘ ججوں اور سیاستدانوں پر غصہ آتا ہے اور جب صحافی‘ جج یا سیاستدان فوج اور آئی ایس آئی کے بارے میں لب کشائی کرتے ہیں تو ان کے سامنے ان کا اول الذکر (سیاسی کردار اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا) پہلو ہوتا ہے۔یہی چیزہے جو سول اور ملٹری تناؤ کا موجب بن رہی ہے اور یہ تناؤ اب تصادم کی طرف بڑھتا نظرآرہا ہے ۔ ایک طرف ملک کے اندر فوج اور آئی ایس آئی سے شکایتیں بڑھ گئی ہیں اور دوسری طرف اس وقت یہی دو ادارے عالمی قوتوں کے نشانے پر بھی ہیں۔ یوں جب داخلی محاذ پر داخلی حوالوں سے تنقید ہوتی ہے تو بھی فوج اور آئی ایس آئی کے وابستگان کو اس کے پیچھے وہی بیرونی ہاتھ نظر آتے ہیں،یوں ان کا غصہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
سول سوسائٹی کو یہ حقیقت مدنظر رکھنی چاہئے کہ فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیاں جیسی بھی ہیں‘ ہمارے تحفظ کے ذمہ دار ادارے ہیں وہ کمزور ہوں گے تو ملک کمزور ہوگا، اپنی فوج نہیں ہوگی تو پھر کسی غیر فوج کی غلامی قبول کرنی ہوگی اور عسکری قیادت کو بھی یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ فوج تب مضبوط ہوتی ہے جب اس کی پشت پر قوم کھڑی ہو۔ قوم ساتھ نہ ہواور اپنے شہری فوج کو اپنا نہ سمجھے تو ایسی فوج قوم تو کیا اپنا بھی دفاع نہیں کرسکتی۔ حالات کا تقاضا ہے کہ بڑے پیمانے پر سول ملٹری مکالمے کا اہتمام ہو جس میں ملٹری لیڈرشپ قومی سلامتی کے اپنے تصورات سیاسی قیادت کے سامنے رکھے۔ان پرسیاسی قیادت کو قائل کردے یا پھر سیاسی قیادت کے مشورے سے اپنے تصورات میں تبدیلی لے آئے اور سیاسی قیادت بھی صرف اقتدار کی کھینچاتانی پر اکتفاکرنے کی بجائے دفاع اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرے۔ سیاسی قیادت جب من پسند افراد کو اہم مناصب دیتی یا لوٹ مار کرتی ہے تو وہاں پر فوج تو کیا سپریم کورٹ سے بھی ٹکرا جاتی ہے لیکن جب قومی سلامتی کے معاملات ہوں‘ بلوچستان یا قبائلی علاقوں کے تو اپنی بے بسی اور لاتعلقی کا اظہار اور یہ عذر پیش کرتی نظر آتی ہے کہ سب کچھ فوج کے ہاتھ میں ہے اور ہم تو کچھ کرنہیں سکتے ۔
یہ ڈرامہ بازی اب اسے بھی ختم کرنی ہوگی یا تو وہ فاٹا‘ وزیرستان اور خارجہ پالیسی کے معاملات کو اون( Own)کرلیں یا پھر منظر سے ہٹ جائیں ۔جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل ظہیرالاسلام سے گزارش ہے کہ وہ داخلی محاذ پر فوج اور آئی ایس آئی کے امیج کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کریں اور ان چیزوں کا تدارک کریں جن کی وجہ سے فوج اور آئی ایس آئی پر تنقید ہورہی ہے اور سول سوسائٹی یا اہل صحافت کو چاہئے کہ وہ تنقید کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ چند افراد کی غلطیوں کی نشاندہی کے وقت پورا ادارہ بدنام نہ ہو۔ ہر فوجی جنرل اسلم بیگ ‘جنرل اسد درانی اور بریگیڈیئر امتیاز نہیں جبکہ ہر تنقید کرنے والا صحافی بھی غدار اور دشمن کا ایجنٹ نہیں۔ِ
http://jang.com.pk/jang/mar2012-daily/20-03-2012/col2.htm
Army has done a lot for our country and has committed mistakes also. We need to appreciate the good work and point out the mistakes.
I have good reason to vigorously reject Saleem Safi’s writing on politico-strategic matters of Pakistan for one very good reason. HE SAYS HE BELIEVES THAT OSAMA BIN LADEN WAS RESPONSIBLE FOR THE 9/11 EVENT. Well, I know it would serve him well to be on the right side of American Neo-Cons, as journalists who support their conspiracy stand to get handsome private benefits.But questioning the integrity of Gen. Kayani when the rest of the men in power give every appearence of afflicted with moral leprosy, appears to be monstrous!!
Lala Ji has resorted to false accusations i his article. To start with his first point that memo gate has been invented by Army is false and baseless. In fact Army appears to be clearly indicating that civil government will function as per routine without any interfernce
i dont agree with the author.Author has made false accusations in his article.The way author has expressed views shows his biased nature.He has totally targeted the Army as an institution.I totally agree with Gen Kayani and strong supporter of pak army.Pak army is a national institution defending our homeland,both on estern and easterrn front.it is army not the author who was there to help the food victims.too be more specified the author should have a realistic practical approach then his theoritical one.