Failure to learn from disastrous lessons of dictatorship
گملے میں لگایا ہوا پودا کتنا بڑھ سکتا ہے؟
اگرپودےکو بڑھانا مقصود ہو،تو اسے گملے سے نکال کر زمین کے کشادہ سینے میں منتقل کرناہوتا ہے، ورنہ گملے میں لگاہوا پودا ایک حد تک بڑھنے کے بعد نشوونما کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ اور اسکے برگ و بار گلنے سڑنے لگتے ہیں۔
پاکستان کا پودا گملے میں لگا نے کے بعد ہم بھول گۓ کہ اسکو ہم نے کشادہ زمین کے سینے میں منتقل کرنا ہے۔ اب اس پودے کینمی اور سانس رکنےلگی ہے۔ سورج کی روشنی بھی اب اسکے لۓ بیکار ہوتے جارہےہیں۔
پاکستان جو آدھی صدی سےگزرکر آدھی صدی کی کہانی بیان کرنے والا ہے، اس کے پاس کہنے کوکیا ہے؟ مرکز کے اختیارات اور صوبائ خود اختیاری سوال، پارلیمانی یا صدارتی نظام کی بحث، ریاست اور مذہب کے تعلق کی نوعیت، بار بار آیئین کی پامالی، اقساط میں خودکشی کرتی ہوئ جمہوریت، لمبی طویل فوجی بوٹوں کی چاپ، پاکستان کے ٹوٹ کر آدھا ہو جا نے کا نوحہ، نمائندہ رہنماؤں کی جلاوطنی، قائد عوام کا قتل، سڑکوں پر بہتا شہید جمہوریت کا خون، ایجنسیوں، بیوروکریسی اور اپوزیشن کی سازشیں، سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے تضادات، عوام کا بے سمت ہجوم ۔ مگ افسوس ہم نے آج بھی کچھ نہیں سیکھا۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے غیر نمائندہ ریاستی اداروں نے آ ج تک بین الاقوامی اصولوںاور بنیادی اقدارکی نفی کی ہے اور انسانی ذندگی کی عضمت کوپامال کیا ہے۔ اجتمای مفاد کی بجاۓ انفرادی مفاد کو سامنے رکھا ہے۔ جس سے ہمارے نظام کامجموی ڈھانچہ ریت کے ٹیلوں کی طرح بکھرتے بکھرتے صحرا بن چکا ہے، جہاں ہر طرف سراب نظر آتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ بحرانوں اور جرنیلوں کی تاریخ رہی ہے، جس میں ججوں اور جرنلسٹوں کا بطور آلہ کار ایک کلیدی کردار رہا ہے۔ ہر موڑ پر ایک نیا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نۓ سائن بورڈ کے ساتھ کھڑا دکھائ دیتا ہے۔ جس میں کسی پر اسلامی جمہوریت، کسی پر بنیادی جمہوریت اور کسی پر حقیقی جمہوریت لکھاہواتھا۔
جمہوریت کے راستے سے ہٹانے والے ان سائن بورڈز کی منزل تباہی و بربادی کی گہری کھائ تھی ۔ ان غیر نمائندہ حکمرانوں نے جمہوریت کی نشو ونما روکنے کے لۓ سیاسی قیادت کو ہمیشہ گملوں میں رکھنے کی سازش کی ہے۔ اگر کسی سیاستدان نے اپنی جڑیں کشادہ زمیں میں منتقل کرنے کی کوشش کی ہے تو اسے نشان عبرت بنا دیا گیا ہے۔ قید وبند کی صعوبتیں، زہنی جسمانی اذیتیں اور شہادت اس کی قسمت میں لکھ دی گئ ہیں ہم آج بھی جمہویت کی تلاش میں ہیں۔ اور آج بھی خطرہ ہے کہ ہمیں منزل سے بھٹکا کراندھیرے راستے پر ڈالنے کی سازش ہورہی ہے۔ این ار او اور میمو اس سلسے کی کڑیاں ہیں۔
وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں کہا کہ انیس سو ننانوے میں نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بینظیر بھٹو نے ان سے کہا تھا کہ ’یہ سیج ہمارے لیے نہیں سجایا گیا اور یہاں نہ ہم آئیں گے اور نہ وہ (نواز شریف)‘۔
وزیرِ اعظم نے حزبِ اختلاف کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’ اگر اب بھی کوئی سیج سجایا گیا تو وہ نہ آپ کے لیے ہوگا نہ ہمارے لیے‘۔
جو معاشرے تبدیل ہونے کی صلاحیت اور قوت کھو دیتے ہیں وہ گناہگار ہوجاتے ہیں اور انسانی معاشرے کا سب سے بڑا گناہ ‘جمود’ ہے۔ فرخ خان پتافی اپنے ‘روزنامہ ایکسپریس’ میں شائع ہونے والے آرٹیکل ‘ہم نے کیا سیکھا؟’ میں یہ سوال کرنے کے ساتھ ساتھ یہ تجزیہ بھی دے رہے ہیں کہ ہماری فوج، عدالت، میڈیا اور سیاسی جماعتیں ماضی سے سیکھنے میں ناکام رہی ہیں۔
Dictatorship is now always bad.
Long live Musharraf.
http://www.youtube.com/watch?v=56dH_vmDuEE