Pakistan army too should learn to forgive bloody civilians

Editor’s note: We provide below extracts from two Urdu articles (from BBC Urdu and Top Story Online) in order to remind the Deep State that while Pakistani nation forgave or was forced to forgive military dictators (Generals Ayub, Zia, Musharraf) we, the bloody civilians too, deserve to be forgiven once in a while. We really hope that Pakistan army generals and their accomplices in judiciary and media will refrain from any misadventure against the democratic government or its officials on the pretext of Mansoor-Ijaz-gate. (End note)

وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

امریکی حکومت کے نام متنازعہ مراسلے کی وضاحت کے لیے طلب کیے گیے واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹویٹر پر اپنے دفاع میں اشعار بھیجے ہیں۔ اتوار کی صبح پاکستانی وقت کے مطابق پونے سات بجے حسین حقانی نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں فیض احمد فیض کی مشہور غزل ‘تم آئے ہو، نہ شبِ انتظار گزری ہے’ کا یہ شعر لکھا ہے۔

جنوں میں جتنی بھی گزری بہ کار گزری ہے
اگرچہ دل پہ خرابی ہزار گزری ہے

اگلے ہی پیغام میں انہوں نے افتخار عارف کی غزل ’حامی بھی نہ تھے منکرِ غالب بھی نہیں تھے‘ کا یہ شعر تحریر کیا ہے۔

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔

ایک اور شخص عمر طارق نے جذباتی انداز میں لکھا کہ ‘میں امید کرتا ہوں کہ کوئی جنرل بھی کسی دن ٹی وی پر آکے روئے اور سویلین قبرستانوں میں دفن اپنے مرحوم رشتے داروں کا ذکر کرکے اپنی حب الوطنی ثابت کرے گا‘۔
حسین حقانی نے ان کے اس پیغام کو ری ٹویٹ کیا ہے۔ یعنی انہوں نے اس پیغام پر پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔

مسٹر حقانی ’جو بظاہر اپنی بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں‘ کے پیغامات سے صاف ظاہر ہے کہ انھیں اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات اور ان کی بنیاد میں وضاخت کے لیے اسلام آباد طلب کیے جانے پر شکایت ہے۔‘ ظاہر ہے انہوں نے اپنے ان پیغامات میں تو یہ نہیں بتایا کہ انہیں یہ شکوہ کس سے ہے لیکن انہوں نے ان اشعار کے ذریعے اپنا مافی الضمیر ضرور بتانے کی کوشش کی ہے

Source: BBC Urdu

کیا فوجی قیادت بھی کبھی درگزر کا مظاہرہ کرے گی؟

تبصرہ : ندیم سعید

پاکستان کے عوام کو مہنگائی، بجلی کے بحران، بے روزگاری، قدرتی آفات اور بلوچستان میں جاری زیادتیوں پر اتنی شد ومد کے ساتھ خبریں، تجزیے اور مباحثیں سننے اور پڑھنے کو نہیں ملتے جتنے امریکہ، بھارت اور سکیورٹی موضوعات پر ، وجہ اس کی ظاہر ہے کہ فوج کا ملک کا سب سے مضبوط اور طاقتور ادارہ ہونا ہے جس کے اثرات سے کوئی بھی نہیں بچا اور میڈیا کو بھی اس سے استثناء حاصل نہیں ہے۔ ان امور پر ہمیشہ عسکری قیادت کی تشریح کو مانا جاتا ہے اور جمہوری اور سویلین قیادت کو اس حوالے سے ’سکیورٹی رسک‘ سمجھا جاتا ہے۔
نام نہاد ’میمو گیٹ‘ نے ایک بار پھر عسکری اور سویلین قیادت کے درمیان پائے جانے والے اس عدم توازن کو نمایاں کیا ہے۔

اسامہ بن لادن کی ابیٹ آباد میں ایک امریکی کارروائی میں ہلاکت کے بعد پاکستان میں اندرونی طور پر بحرانی کیفیت پیدا ہونا قدرتی امر تھا، ایک تو اسامہ فوجی شہر ابیٹ آباد میں پایا گیا اور اوپر سے امریکیوں نے آپریشن سے پہلے پاکستانی حکام کو اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھا تھا، ڈر ان کو یہ تھا کہ کہیں یہ بات قبل از وقت اسامہ تک نہ پہنچ جائے۔ امریکہ میں تو کامیابی کے ڈھول بجائے جا رہے تھے جبکہ پاکستان میں شکست خوردگی اور رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کی شرمندگی کے
بادل چھائے ہوئے تھے۔

لیکن اگر منصور اعجاز کے مائیک ملن کو دس مئی دو ہزار گیارہ کو بھیجے گئے خط اور ان کی امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کے درمیان بعد میں ہونے والی بلیک بیری مسیجنگ کو پڑھا جائے توپتہ چلتا ہے کہ اسامہ آپریشن کے بعد پس پردہ عسکری اور سویلین قیادت کے درمیان زبردست کشیدگی چل رہی تھی۔ حسین حقانی کے ساتھ اپنی مبینہ بلیک بیری مسیجنگ میں منصور اعجاز بتاتے ہیں کہ انہیں امریکی انٹیلیجنس حکام سے پتہ چلا ہے کہ ’مسٹر پی‘ نے سینئر عرب رہنماؤں سے زرداری کو فارغ کرنے کی اجازت لے لی ہے، اور دوسری طرف اگر منصور اعجاز کی بات پر ہی یقین کیا جائے تو سویلین حکومت امریکی حکام سے مدد کی درخواست کر رہی تھی کہ اسے ممکنہ ’فوجی انقلاب‘ سے بچایا جائے۔

اندرونی معاملات میں کسی دوسرے ملک کو ملوث کرنا یقیناًقابل قبول نہیں ہونا چاہیے لیکن یہ اصول فوجی اور سویلین دونوں حکام کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔ جیسا کہ لگتا ہے کہ ’مسٹر پی‘ آئی ایس آئی کے جنرل احمد شجاع پاشا ہی ہو سکتے ہیں تو’منصور اعجاز لیکس‘کی روشنی میں حسین حقانی کی طرح ان سے بھی پوچھا جانا چاہیے کہ کیا انہوں نے عرب رہنماؤں سے حکومت گرانے کے لیے رابطے کیے۔

منصور اعجاز اس سارے تنازعہ میں ایک دلچسپ کردار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ دس اکتوبر کو برطانوی اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ میں اپنے مضمون میں جہاں انہوں نے پہلی مرتبہ انکشاف کیا کہ پاکستانی حکومت نے اپنے ایک سینئر ڈپلومیٹ کے ذریعے ان سے رابطہ کر کے امریکی حکام سے مدد کی درخواست کی تھی، وہیں انہوں نے اسی مضمون میں فوج اور آئی ایس آئی کو کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ لیکن یہی منصور اعجاز کچھ دنوں بعد ان کے اپنے اعتراف کے مطابق لندن میں آئی ایس آئی چیف جنرل پاشا کے سامنے ’میمو گیٹ‘ سے متعلق سارے ثبوت رکھ دیتا ہے۔
ایک شخص جو برملا کہتا ہے کہ وہ امریکی ہے اور اسے امریکہ کا مفاد دیکھنا ہے اور ساتھ ہی پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی کو دہشتگردی کا سپانسر سمجھتا ہے لیکن وہ ایک ایسے سفارتکار کے خلاف جنرل پاشا کو ثبوت دیتا ہے جو حکومتی معاملات میں فوجی عمل دخل کی کھلم کھلا مخالفت کرتا آ رہا ہے۔
چنانچہ منصور اعجاز کے معاملات اتنے سیدھے نہیں جتنے سمجھے جا رہے ہیں۔ وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فنانشل ٹائمز کے ان کے مضمون کو جھٹلانے کی کوشش کی گئی ہے جس پر وہ اپنی ساکھ بچانے کے لیے غصے میں آگئے ہیں۔لیکن ’سپائی گیمز‘ میں غصے میں آنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، اگرچہ اداکاری کی جاسکتی ہے جو وہ خوب کر رہے ہیں بلکہ اب تو وہ یہ کہہ کر کہ وہ ultra rich ہیں دھمکا رہے ہیں کہ لندن، نیویارک، واشنگٹن اور جنیوا کے نامی گرامی وکلاء کو لیکر ہر اس بندے کو عدالت میں گھسیٹ لائیں گے جو ان کے خلاف بات کرے گا۔

معروف صحافی حامد میر نے سنیچر کو دنیا ٹی وی کے پروگرام ’پالیسی میٹرز‘ میں منصور اعجاز کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جنرل مشرف کے دور میں یہ (منصور اعجاز) آرمی ہاؤس تواتر سے آیا جایا کرتے تھے۔ آرمی ہاؤس چیف آف آرمی سٹاف کی راولپنڈی میں سرکاری رہائشگاہ ہے۔ حامد میر کے مطابق منصور اعجاز کے ماضی میں آئی ایس آئی سے بھی رابطے رہے ہیں اور انہوں نے ایک دو دفعہ انہیں بھی پھانسے کی کوشش کی تھی۔

پاکستان بننے سے لیکر اب تک سویلین حکومتیں جرنیلوں کے پھیلائے ہوئے گند کو صاف کرنے کی کوششیں کرتی آئی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اکہتر کی بدترین شکست کے بعدنوے ہزار فوجی قیدیوں کو بھارتی جیلوں سے رہائی دلائی، بینظیر بھٹو نے اس کے باوجود کہ ان کے والد کو فوجی دور میں پھانسی چڑھایا گیا اقتدار میں آتے ہی فوج کو تمغہ جمہوریت دیا اور نواز شریف نے کارگل کی برفیلی دلدل سے نکالا۔

جرنیلوں کی غلطیوں کی تعداد اور ان کے اثرات کے مقابلے میں پاکستان کی بدنام زمانہ سیاسی قیادت کے گناہ بہت کم ہیں۔

سویلین قیادت کی فراخدلی کا جواب فوجی قیادت نے کبھی بھی ویسا نہیں دیا۔ اگر یہ درست بھی تسلیم کر لیا جائے کہ امریکی حکام سے مدد کے لیے کوئی خط لکھا گیا تھا تو کیا فوجی قیادت سویلین رہنماؤں کے طرف سے کی گئی مہربانیوں کے بدلے میں جمہوری نظام کے تسلسل کی خاطر پہلی دفعہ نرمی کا مظاہرہ نہیں کر سکتی؟

Source: Top Story

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Ghafoor
    -
  2. Mussalman
    -
  3. Haider Toori
    -
  4. Haqqani Network
    -
  5. anon
    -
  6. اعلی
    -
  7. Salma
    -
  8. Irfan Urfi
    -
  9. Shaheryar Ali
    -