Independence of judiciary and military boots – by Bawa
عدلیہ کی آزادی اور فوجیوں کے بوٹ
عدلیہ کی بحالی سے عدلیہ کی آزادی تک
مصنف: باوا
ایک طویل جدوجہد کے بعد اٹھارہ سو پینسٹھ میں امریکی آئین میں تیرھویں ترمیم کے ذریعے امریکہ میں غلامی کا خاتمہ کر دیا گیا. افریقن امریکن ‘کالے’ آزادی کا جشن مناتے گلیوں، سڑکوں اور پارکوں میں نکل آئے. وہ اچھل کود کر رہے تھے، ایک دوسرے کے گلے مل رہے تھے اور ہوا میں مکے لہرا رہے تھے. کبھی کبھی کوئی مکہ کسی راہگیر کو لگ جاتا تو وہ مجمع سے دور فٹ پاتھ پر کھڑے ہوکر کالوں کا جشن آزادی دیکھنے لگ جاتا. عین اسی وقت واشنگٹن کی ایک گلی میں ایک کالا اسی طریقے سے جشن آزادی منا رہا تھا اور ہوا میں مکے لہرا رہا تھا کہ اچانک اسکا مکا ایک گورے امریکن کے ناک پر جا لگا. گورا بہت متعصبی اور مغرور تھا. وہ اب بھی خود کو اس ملک کا مالک اور کالوں کو اپنا غلام سمجھتا تھا. اس سے یہ برداشت نہ ہو سکا کہ کوئی کالا اسکی ناک پر مکہ مارنے کی جرات کرے. اس نے غصے میں دھوبی پٹکا مارا اور کالے کو زمین پر گرا لیا. زمین پر گراتے ہی اس نے کالے کے منہ پر تین چار زوردار تھپڑ رسید کیے اور پوچھا کہ تم نے میری ناک پر مکہ مارنے کی جرات کیسے کی؟ کالا زمین پر لیتے لیتے کراہتے ہویے بولا کہ میں تو آزادی کا جشن منا رہا تھا. اب ہم غلام نہیں ہیں ہم آزاد میں اور سب کچھ کر سکتے ہیں. گورا امریکی کالے کے کان اپنے گھٹنے سے رگڑتے ہوئے بولا کہ یاد رکھو تمہیں غلامی سے نجات ملی ہے آزادی نہیں. تمہاری آزادی ایک محدود آزادی ہے اور یہ آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے ہم گوروں کی ناک شروع ہوتی ہے. اسکے بعد گورا اسکو چھوڑ کر اپنے گھر کی طرف چل دیا. کالا سمجھ گیا کہ ابھی اسکو غلامی سے نجات ملی ہے اور آزادی کی منزل ابھی بہت دور ہے. آزادی کے حصول کے لیے ابھی انکو بہت قربانیاں دینی ہیں اور خود کو آزادی کا اہل ثابت کرنا ہے. چناچہ وہ زمین سے اٹھا، اپنے کپڑے جھاڑے اور بھاگتا ہوا ساتھ والے پارک میں موجود کالوں کے جلوس میں شامل ہوگیا اور اسی جوش و خروش سے نعرے لگاکر غلامی کے خاتمے کا جشن منانے لگا. غلامی کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ ہی گوروں کا رویہ کالوں کے ساتھ مزید سخت ہو گیا. ان پر ملازمت کے حصول کے دروازے بند کر دیے گئے. انکو ہر شعبہ زندگی میں نسلی تعصب اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا. انکے بچوں کے سکول الگ تھے. انکی بسیں الگ تھیں انکے چرچ الگ تھے. انکے ریسٹورنٹس اور ہوٹلز الگ تھے. اکثر ہوٹلوں اور پارکوں میں لکھا ہوتا تھا کہ یہاں کتوں اور کالوں کا داخلہ ممنوع ہے.غرض ان سے مکمل نسلی امتیاز برتا جاتا رہا لیکن کالوں نے ہمت نہیں ہاری اور ثابت قدم رہ کر آزادی کی منزل کی جانب بڑھتے رہے. کوئی ایک سو سال کی مزید جدوجہد کے بعد کالے مکمل آزادی یعنی گوروں کے برابر حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے. کالوں کی جدوجہد آزادی جنوری دوہزار نو کو اسوقت اپنے عروج پر پہنچ گئی جب ایک کالا امریکی صدر کی حیثیت سے ملک کے سب سے بڑے عہدے پر فائز ہوا یعنی صدر امریکہ بنا.
اس تمہید کا مقصد آپکو کالوں کی جدوجہد آزادی سے روشناس کروانا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ غلامی سے نجات کا مطلب آزادی ہرگز نہیں ہوتا. غلامی کے خاتمے اور آزادی کے حصول کے درمیان ایک طویل فاصلہ ہوتا ہے اور یہ فاصلہ سالوں سے لیکر صدیوں تک محیط ہو سکتا ہے. یہ فاصلہ طے کرتے وقت قدم قدم پر ثابت کرنا پڑتا ہے کہ فاصلہ طے کرنے والا آزادی حاصل کرنے کے اہل ہے. قائد اعظم رحمت الله علیہ نے ہمیں ہندووں اور انگریزوں کی غلامی سے نجات تو دلا دی لیکن انکی بے وقت وفات نے انہیں آزادی کی منزل تک ہماری رہنمائی کرنے کی مہلت نہ دی. انکی وفات کے بعد ہمیں کوئی ایسا رہنما نہ مل سکا جو آزادی کی منزل تک لے جاتا. بحیثیت پاکستانی قوم ہم نے بھی غلامی سے نجات اور آزادی کے حصول تک کا سفر طے کرنے کی کوشش نہیں کی اور نتیجتا ہم ہندوؤں اور انگریزوں کی غلامی سے نکل کر امریکہ اور اسٹبلشمنٹ کی غلامی میں آگئے. آزادی کی منزل کی طرف پیشقدمی کرنے کی بجائے ہم نے اپنے ہی ہمسفر بھائیوں کو غلام بنانا شروع کر دیا اور وہ خود کو غلاموں کے غلام سمجھنے لگے. ہمارے بھائی ہمارے ساتھ قدم سے قدم ملا کر آزادی کی منزل کی طرف مارچ کرنے کی بجائے غلاموں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے میں مشغول ہوگئے. پھر وہ وقت آیا کہ ہمارے قافلے میں شامل آدھے سے زیادہ لوگوں نے ہم سے اپنے راستے ہی الگ کر لیے. ہم نے غلامی سے نجات تو شاید حاصل کر لی لیکن ہم اب تک آزادی کے لیے بھٹک رہے ہیں.
آجکل ہماری عدلیہ بھی اپنی آزادی کا جشن منانے میں مصروف ہے. ہر طرف عدلیہ کی آزادی کے نعروں کی گونج سنائی دے رہی ہے. عدلیہ اپنی مکمل آزادی اور خود مختاری کا دعوا کرتی ہے لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ عدلیہ کی آزادی دراصل عدلیہ کی بحالی ہے اور بحالی بھی وہ جو فوج کی طرف سے خیرات میں ملی ہے. عدلیہ کی بحالی اور آزادی کے درمیان بھی وہی طویل فاصلہ ہے جو سالوں سے لیکر صدیوں تک محیط ہو سکتا ہے. یہ فاصلہ طے کرتے ہوئے عدلیہ کو بھی ہر قدم پر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ آزادی کے اہل ہے. اب رہا یہ سوال کہ کیا ہماری آزاد عدلیہ صحیح سمت میں قدم بڑھا رہی ہے یا اپنے آپ کو آزادی کے اہل ثابت کر رہی ہے؟ اسکا جواب عدلیہ بحالی تحریک میں شامل لوگوں سے ہی لیا جاسکتا ہے. سب سے پہلے عدلیہ بحالی تحریک کے سرخیل علی احمد کرد نے اسکا جواب نفی میں سر ہلا کر دیا. اسکے بعد دبی دبی آوازیں اعتزاز احسن اور دوسرے وکلاء کی جانب سے آنے لگیں. وقت کے ساتھ ساتھ ان آوازوں میں سابق ججوں، سول سوسایٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں اور صحافیوں کی آوازوں کا اضافہ ہوگیا جن میں خاص طور پر جسٹس طارق، جسٹس فخر الدین جی ابراہیم، عاصمہ جہانگیر، ثمر من الله، ابصار عالم، مظہر عباس وغیرہ قابل ذکر ہیں. اب تو ٹی وی شوز کے شرکاء کھل کر کہ رہے ہیں کہ عدلیہ اسٹبلشمنٹ کے کھیل میں شامل ہو چکی ہے. عدلیہ کی موجودہ آزادی عام لوگوں یا سیاستدانوں تک محدود ہے. عدلیہ کی آزادی وہاں جا کر ختم ہو جاتی ہے جہاں سے فوجیوں کے بوٹ شروع ہوتے ہیں. جی ہاں جہاں سے فوجیوں کے بوٹ شروع ہوتے ہیں. فوجیوں کی یونیفارم اور ٹوپی تو بہت دور کی بات ہے. اگر کسی کو یقین نہیں آ رہا تو مجھے ایک بھی ایسا فیصلہ بتا دیں جہاں عدلیہ فوجیوں کے بوٹوں سے آگے بڑھی ہو. عدلیہ کو اسی وقت آزاد و خود مختار سمجھا جائے گا جب اسکا دست انصاف فوجیوں کے گریباں تک بھی پہنچے گا ورنہ عدلیہ کی آزادی محدود ہی ہوگی بیشک عدلیہ اپنی آزادی اور غیر جانبداری کا جتنا مرضی شور مچائے. عدلیہ کو آزادی کی منزل تک پہنچنے کے لیے ابھی بہت طویل سفر کرنا ہے. عدلیہ کو آزادی کی منزل کی طرف رواں اس قافلے میں شامل لوگوں سے قدم سے قدم ملا کر چلنا چاہئیے. اسٹبلشمنٹ کی غلامی عدلیہ کو آزادی کی منزل سے بہت دور لے جائے گی.
عدلیہ کے سامنے اسوقت دو مثالیں ہیں. ایک کالوں کی کامیاب جدوجہد آزادی کی اور دوسری پاکستانی قوم کی ناکام جدوجہد آزادی کی. اب یہ عدلیہ پر منحصر ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کی غلامی میں جانا چاہتی ہے یا اپنے ہمسفروں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر مکمل آزادی کآ حصول چاہتی ہے. مکمل آزادی کا حصول کوئی آسان کام نہیں ہے. یہ ایک طویل سفر ہے اور اس راستے پر چلتے ہوئے ہر قدم پر عدلیہ کو ثابت کرنا ہے کہ وہ آزادی کے اہل ہے. یہ تب ہی ممکن ہوگا جب عدلیہ بلا تفریق سب کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گی اور اسکا دست انصاف کرپٹ سیاستدانوں، بیوروکریٹس، کاروباری لوگوں، سرکاری افسران کے علاوہ فوج اور اسٹبلشمنٹ کے گریباں تک بھی جائے گا. یہ کام اور آزادی کا یہ راستہ کٹھن ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے. یہ منزل تب ہمیں ملے گی جب عدلیہ فوج کو پاکستانی آئین پر عمل کرنے پر مجبور کر دے گی اور فوج کی روایتی اجارہ داری ختم ہوجائے گی. یہ منزل انشااللہ ضرور آئے گی
سو مت جانا جاگنے والو اسکے بعد اجالے ہیں
شکریہ: پی کے پالیٹکس
Our judiciary is not only independent but also free of all norms of constitutional and legal bindness. These people have no ethics or law. Under the garb of interpretation of Constitution these frequently draft their own and blackmail other institutions with the weapon of Contempt of Court. Five so calleed honourable judges of The Darbar e Uzma threw away the decision of their fellow judge Rehmat Hussain Jaffery against Mian Nawaz Sharif terming it preposterous and without sufficient evidence and based on malice. But not only the same condemned judge is sitting on the bench but the very website of The Darbar e Uzma Pakistan i.e. http://www.supremecourt.gov.pk says about him and the very same decision
Honourable Mr. Justice Rahmat Hussain Jafferi
Born in well-known Jafferi family of Larkana, Sindh on 22.11.1945- Early education at Larakana-later at Government College Larkana from where he obtained degree in B.A.- Degree of LL.B from Sindh Law College Karachi. Enrolled as an Advocate at Larkana Bar Association- Worked under the able guidance of his father Mr.Fakir Muhammad Jafferi, who was District Public Prosecutor Larkana from pre-partitioned days to 1965 when he retired and started private practice. He joined Sindh Judiciary as Civil Judge and First Class Magistrate in the year 1972. In the year 1974 he married with the daughter of Mr.Justice Z.A.Channa, who is known as an honest, intelligent and hard working judge and had also served as Secretary, Ministry of Law, Justice & Human Rights Division, Islamabad. Later on promoted as Senior Civil Judge, Additional Sessions Judge and District & Sessions Judge. He served in various districts of Sindh in the above capacities and was appointed as Registrar, High Court of Sindh. He had taken training at Federal Sharia Academy and obtained certificate from there. He worked on the separation of Judiciary from Executive and was successful in separating the Magistracy from the Executive during his posting as District & Sessions Judge Hyderabad in the year 1992 to 1995. He was appointed as Administrative Judge, Anti-Terrorism Courts Karachi Division on 07.05.1999. He was also appointed as Administrative Judge, Accountability Courts Sindh, Karachi. During the tenure of his service he has decided various important cases by delivering judgements and deciding very important legal questions. One of such cases is commonly known as Plane Hijacking Case against the Ex-Prime Minister of Pakistan Mian Muhammad Nawaz Sharif along with two Chief Ministers, out of them one was of Punjab and another was of Sindh province and four other high ranking officers. The trial of the case was recognised unanimously to be one of the open, fair and impartial, not only in this country, but the world at large. Trial was attended by Foreign Diplomats, Journalists of Pakistan and foreign media, high-ranking government officials, Ex-Governors, Speaker National and Provincial Assemblies, Ministers, Senators and M.N.As.
He was elevated to High Court of Sindh as an Adhoc Judge on 27.8.2002 and confirmed as a permanent Judge on 27.8.2003.
Elevated to Supreme Court of Pakistan on 7th September 2009.