Jamhooriat ka manzar bam’a jamhooriat ke saath kia ho ga – by Qais Anwar
جمہوریت کا منظر بمعہ جمہوریت کے ساتھ کیا ہوگا
بروزن ۔۔۔۔۔ موت کا منظر بمعہ مرنے کے بعد کیا ہوگا ۔۔۔
—
کچھ بیس تیس سال پہلے ؛ دیواروں پر؛ جنسی معالجوں کے اشتہاروں کے درمیان ایک کتاب کا اشتہار بھی لکھا ہوتا تھا۔۔۔۔ موت کا منظر معہ مرنے کے بعد کیا ہو گا۔۔۔۔ کتاب میں مصنف نے قبر کے عذاب کا ایک ہیبت ناک نقشہ کھینچا ہے ۔کتاب پڑھنے کے بعد قاری کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں یا تو قبر کے عذاب سے اتنا ڈر جاءے کہ مبلغین کے گروہ میں شامل ہو جاءے یا سرے سے موت کے بعد کے عقیدوں سے ہی انکاری ہو جاءے ۔اس کتاب نے اس گروہ کے فروغ میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اس گروہ کے ارکان اکثر جب تبلیغ کے لیے نکلتے ہیں تو اپنے ساتھیوں کا تعارف اس طرح کراتے ہیں
بھاءی ۔۔۔۔۔۔ ہمارے ساتھ شامل ہونے سے پہلے ایک بدکردار اور رشوت خور افسر تھے۔ ہماری تبلیغ سے متاثر ہونے کے بعد انہوں نے سب کام چھوڑ دءے ہیں اور آجکل سارا وقت اللہ کی راہ میں لگاتے ہیں۔
نیکی کی راہ میں نکلنے والے ان نءے مسافروں کی عمر عمومآ ساٹھ سے زیادہ ہوتی ہے اور صاف پتہ چلتا ہے کہ بلی نو سو چوہے کھا چکی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اس گروہ کے لوگ جب کبھی ہماری یونیورسٹی کے ہاسٹل میں آیا کرتے تھےتو طلبہ کو کہانیاں سنا یا کرتے تھے کہ ایک بھاءی امتحان کی رات بھی پہلا پہر تبلیغ کرتے رہے خدا کی قدرت کہ رات کے آخری پہر انہیں خواب میں پورا امتحانی پرچہ نظر آگیا۔
میرے ممدوح ڈاکٹر شاہد مسعود کا بھی ایک ایسے ہی قبیل سے تعلق ہے ۔ ان کی کتاب کا نام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جمہوریت کا منظر بمعہ جمہوریت کے ساتھ کیا ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کتاب بھی جمہوریت کا کچھ ایسا ہیبت ناک نقشہ کھینچتی ہے کہ نوجوان ذہن یا تو جمہوریت سے ڈرنے لگتا ہے یا جمہوریت کے تصور سے ہی باغی ہو جاتا ہے۔ اس گروہ کے مبلغین میں کثیر تعداد ان بزرگوں کی ہے جن کی جوانی جمہوریت دشمنی میں گزری۔
اس میں روءیداد خان جیسے اسی سالہ تجربہ کار بابے بھی شامل ہیں یہ وہ پہنچے ہوءے بزرگ ہیں کہ پندرہ بیس سال پہلے جب کسی نوآموز سیاسی کارکن کو سمجھانا ہوتا تھا کہ اسٹبلشمنٹ کیا ہے تو یوں شروع کیا جاتا تھا کہ یہ پاکستان میں ایک نہ نظر آنے والی قوت ہے جس میں روءیداد خاں ؛ غلام اسحاق خان اور ۔۔۔۔۔۔۔۔جیسے عہدے دار شامل ہوتے ہیں۔ اسی تبلیغی گروہ میں ہارون ارشید جیسے جہاں دیدہ بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی بھٹو دشمنی کا خواب کبھی مرنے نہیں دیا اور مولانا مودودی؛ جنرل ضیا ءا لحق اور پھر عمران خان کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے رکھا۔ اس گروہ میں شامل ہو نے والے ایک بزرگ کا نام حمید گل ہے۔ وہ ساری عمر امریکہ کی خدمت کرتے رہے لیکن آخر کار قدرت نے ان کی راہنماءی کی اور وہ آخری عمر میں بہت بڑے امریکہ دشمن ہو گءے ۔
میرے محترم شاہد مسعود ہر جمعہ ؛ ہفتہ اور اتوار کی رات صراط مستقیم اختیار کرنے والے ان بزرگوں کے ساتھ سہ روزہ تبلیغ پر نکلتے ہیں۔ اس تبلیغ میں سب سے پہلے جمہوریت کے تاریک مناظر دکھاءے جاتے ہیں ۔ اس کے بعد سارے بزرگ باری باری بتاتے ہیں کہ اگر جمہوریت جاری رہی تو لوگوں کا کیا انجام ہو گا۔
ڈاکٹر شاہد مسعود اس امید پرزندہ ہیں کہ جس طرح طالب علم کو تبلیغ کے صلے میں آخر شب پرچہ خواب میں نظر آگیا تھاانہیں بھی اس تبلیغ کے صلے میں نءے بندوبست میں ارشاد حقانی؛ مبشر لقمان اور نجم سیٹھی کی طرح ایک نگران وزارت مل جاءے گی۔
آج کے پروگرام میں بھی میرے ہیرو نے اپنے مخصوص انداز سے نہیں ہٹے ۔ آغاز حسب معمول دھوکا دہی کی منطق) ڈیسیپٹو لاجک(کو استعمال کرتے ہوءے ماءیکل جیکسن اورپاکستانی سیا ست دانوں کی امیج بلڈنگ کی کوششوں کے تقابلی جاءزے سے کیا ۔
دور حاضر کے عظیم دانشور ڈاکٹر شاہد مسعود نے حسب معمول اپنے خاص انداز میں فیاضی کے تصور کو اپنی بیان کردہ تعریف تک محدود کر دیا۔ حالانکہ فیاضی کی تشہیر موجودہ معاشرے کا ہی ایک عمل نہیں بلکہ دولت کی نا منصفانہ تقسیم اور فیاضی پہلو بہ پہلو ظہور پزیر ہوءے۔ سلطنتوں کی توسیع اور لگان کی وصولی کے دوران لاکھوں افراد کو قتل کرنے والوں کی فیاضی کی داستانیں درباری مورخوں نے بڑی تفصیل سے بیان کی ہیں۔ان میں سے بہت سے وہ ہیں جن کو میرے محترم شاہد مسعود جیسے لوگ ہیرو کے طور پر پوجتے ہیں ۔
پھر میرے عظیم میزبان نے اپنے پسندیدہ افراد کو بلایا ۔امیج بلڈنگ کی ایک تعریف متعین کی اور پھر اس محدود تعریف کے اندر ہی لوگوں سے سوال پوچھنا شروع کیے۔ امیج بلڈنگ کو صرف اخباری اشتہاروں اور تصویروں کے ساتھ مشروط کردینا ہی کافی نہیں ہے۔یہ ایک وسیع تصور ہے اس میں پس پردہ لابنگ سب سے بڑا کردار ادا کرتی ہے یہ وہ کام ہے جس میں میڈیا میں میرے محترم شاہد مسعود جیسے لوگ بھی سرانجام دیتے ہیں ۔۔
ہر سوال سے پہلے یا سوال کے دوران میرے عظیم میزبان نے اس کا تعلق آصف زرداری یا پیپلز پارٹی سے بنانے کی بھی بھر پور کوشش کی۔ جیسے ڈاکٹر صفدر محمود سے بات سے پہلے امیج بلڈنگ کی تعریف ایسے متعین کی ’میرے دوروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرو’ ۔ مزے کی بات یہ تھی ڈاکٹر صفدر محمود بھی بڑے واضح طور پر کرپشن کے سکینڈل کو اور پیپلز پارٹی کے ووٹرکے رویے کو ہی اپنے تجز یے کی بنیاد بنا رہے تھے ۔
اور پھر آخر میں حسب توقع اور حسب معمول عمران خان کو بلا کر امیج بلڈنگ اور این آر او میں ایک تعلق بناتے ہوءے پروگرام ختم کیا ۔
سرمایہ دارانہ نظام اور میڈیا
— — — — —- — — — — — — — —
آ ءیے دیکھتے ہیں کہ اگر میرا عظیم دانش ورجیو کا نمک خوار ڈاکٹر شاطر موساد ایک دو رخی زندگی نہ گزار رہا ہو تا تو امیج بلڈنگ پر کیسا پروگرام کرتا ۔
اس کے پروگرام کا موضوع سرمایہ دارانہ نظام اور میڈیا ہو تا ۔ وہ اس پروگرام میں ناظرین کو بتا تا کہ کس طرح سرمایہ دار اشتہاری مہموں کے ذریعے صارفین سے پیسہ بٹورتا ہے ۔ وہ ناظرین کو بتا تا کہ جس پیپسی اور کوکا کولا کے اشتہار اس کے ٹی وی پر دکھاءے جاتے ہیں وہ صحت کے لیے کتنے نقصان دہ ہیں ۔ وہ تحقیق کرکے ناظرین کو بتا تا کہ پاکستان کے لوگ روزانہ سافٹ ڈرنک کی کتنی بوتلیں پیتے ہیں اور ہر بوتل سے کتنا پیسہ با ہر کے ملک کا سرمایہ دار لے جاتا ہے ۔ میرا دانش ورناظرین کو موباءل فون کمنیوں کا روزانہ منفع بھی بتاتا ۔
وہ لوگوں کی امریکہ کے ساتھ نفرت کو امریکی مصنوعات کے باءیکاٹ کے ساتھ جوڑتا اور منافع کے بیرونی انخلا کو روک دیتا جس سے ملک کی حالت مہینوں میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتی ۔
لیکن میرا ہیرو شاہد مسعود ایسا نہیں کرے گا ۔ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتا کیونکہ اس کا ٹی وی اسے تنخواہ ہی اس رقم سے دیتا ہے جو اسے کثیر القومی کمپنیوں کے اشتہاروں سے ملتی ہے۔ یہ میرے ہیرو کی مجبوری بھی ہے اور ذمہ داری بھی کہ وہ عوام کی توجہ سرمایہ دارانہ نظام کی قباحتوں سے ہٹا کر سطحی مساءل کی پر مرکوز کردے ۔اسے یہ بتاءے کہ تمہارے مساءل کی اصل جڑ تمہارے لیڈر ہیں
۔ یہ بھی میرے ہیرو کی ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست کو بدنام اور کمزور کرے ۔ اگر ریاست کمزور ہوگی تو کثیر الاقوامی کمپنیوں کا راستہ کوءی نہیں روکے گا۔ میرا ہیرو کتنا ذہین ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ دار کے پیسے پر پلتا ہے اور لوگوں کو کامیابی کے ساتھ باور کراتا ہے کہ وہ امریکہ کا دشمن ہے
Note: It is a 3-4 months old article, which is being reposted because of its relevance in the current scenario.
Comment by Khalid Wasti (pkpolitics):
اینکر اور شیطان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہتے ہیں کہ ایک بزرگ سرِ بازار شیطان سے ملے تو گلہ کیا کہ وہ ہر وقت زمین میں فساد پھیلاتا ہے۔ شیطان نے کہا سَر جی میرا تو کوئی قصور نہیں ہوتا، واقعات خود ہی ایسا رُخ اختیار کر جاتے ہیں۔ اپنی بات کے عملی ثبوت کے طور پر شیطان نے پاس پڑی پرات میں انگلی ڈبوئی اور دیوار پر مل دی۔ اس پرات میں دراصل چینی کا شیرہ تھا جو دکان پر بیٹھا حلوائی جلیبیاں تلنے میں استعمال کر رہا تھا۔ جہاں شیطان نے شیرے سے لتھڑی انگلی ملی تھی وہاں ایک مکھی آ کر بیٹھ گئی جسے کھانے کو ایک چھپکلی لپکی۔ چھپکلی کو دیکھ کر حلوائی کی بلی بھاگی آئی لیکن پیر پھسلا تو حلوائی کی گرم گرم تیل سے بھری کڑاہی میں جا گری۔ حلوائی نے جلدی میں کڑاہی اُلٹی توسارا تیل پاس بیٹھے کتے پر گر گیا، کتا تو موقع پر فرائی ہو گیا لیکن اسکے مالک نے غصے میں آ کر حلوائی کو قتل کر دیا۔ دوسرے دکاندار موقع پر اکھٹے ہو گئے اور کتے کے مالک کو بھی مار ڈالا۔ شومئی قسمت کہ مرنے والا ایک سپاہی تھا جسکی فوج شہر سے باہر عارضی پڑاؤ ڈالے ہوئی تھی ۔ لشکر کو اطلاع پہنچی تو فوج نے شہر پر ہلہ بول دیا اور انتقاماً پورے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
Future of democracy
Prime Minister Gilani and Punjab Chief Minister Shahbaz Sharif ruled out the possibility of mid-term elections, terming the polls harmful to the stability of the political process and inimical to the interests of the country. The two leaders also stressed the need for stronger collaboration between the PPP and the PML-N. It seems as if the PML-N leadership has had a change of heart in recent days and after some rethinking it may have come to the conclusion that by playing into the hands of undemocratic forces, there will be a repeat show of the 90s political scenario. In the past few days we saw a ‘good cop, bad cop’ routine being played out by the PML-N. The Sharif brothers were the good cops who kept on harping about ‘saving democracy’ while their close aide, Chaudhry Nisar, played the bad cop and kept giving the federal government a hard time. Though some sceptics might be of the opinion that Shahbaz Sharif is still playing the same game, the optimist might think that this time he may really mean what he said about not wanting mid-term polls. Whether this is true or not, only time will tell. What is of essence is that the prime minister and the Punjab chief minister have reiterated what saner voices have been saying all along. Mid-term elections will spell a great deal of trouble and unintended consequences for the country and the democratic system.
For the past few months, we have witnessed a concerted campaign against President Zardari and the PPP-led government by the opposition, a section of the media, and some lawyers. They ignored all democratic norms; the subtext in this propaganda was to ask for an extra-constitutional and anti-democratic intervention to remove the incumbent president and government. Those who orchestrated this insidious campaign need to brush up on their history and learn some lessons while they are at it. In the past we have seen that such ‘interventions’ have ended up as disasters. It is because of this that the democratic system in Pakistan has not been able to take root, develop and mature. Democracy’s wings are clipped every time it is ready to take off, with the result that whenever a democratically elected government comes to power, it has to start from square one. With each such cycle of extra-constitutional and anti-democratic intervention in our history, we slide further and further back to minus square one. If democracy is allowed to sustain itself, despite our discontents, state institutions will be strengthened, thereby making the country strong.
In the wake of this coalition of vested interests tilting against the president and the government, the closing of ranks of the PPP is a sensible move indeed. It will boost the morale of the PPP workers who felt besieged till now and will also pour cold water on the aspirations of those who wanted to drive imaginary wedges between the prime minister and the president. PPP-backed candidates have won key offices in district bar associations across the country. Thus the party has decided to reactivate its lawyers’ wing to defend the party and its leadership. Of course, this does run the risk of leading to a confrontation between the pro-PPP and anti-PPP forces. In the long run, it does not bode well for the future of a reconciliatory approach to politics that has so far been adopted by all political parties. For a stable democratic system, it is imperative that political confrontations are avoided at all costs. If polarisation between the PPP and the PML-N grows, the future of democracy would be left hanging in the balance.
http://dailytimes.com.pk/default.asp?page=2010\01\25\story_25-1-2010_pg3_1
Asadullah Ghalib’s article “Aur Mahaaz Khamosh Ho Gaya’. The anti-democracy media jihadis have conceded their defeat?