Democracy hanged till death. Thank you, my Lords! – by Qais Anwar


مبارک ہو؛ عزت مآ ب جج صاحبان؛ آپ نے جمہوریت کے گلے میں پھندہ ڈال دیا

جمہوریت کی شکست اور ایسٹبلشمنٹ کی ایک اور فتح کی کہانی اپنے عروج کی طرف بڑھ رہی ہے ؛

ایسٹبلشمنٹ نے گھات لگا کر اپنا پہلا وار بمبءی حملوں کی صورت میں کیا اور پہلا کھلا اور کامیاب ہلہ لانگ مارچ کی صورت میں بولا تھا ۔ یہ لانگ مارچ ہی تھا جس کے بعد جمہوریت کی پسپاءی شروع ہو گءی تھی ۔ اس پسپاءی کا ابتداءی اظہار اس وقت ہونا شروع ہوا جب رحمان ملک نے بلوچستان کے مسءلے کی جڑیں بھارتی مداخلت میں تلاش کرنا شروع کر دیں تھیں اور اس سے بھی پہلے شاید جب آءی ایس آءی کو سویلین کنٹرول میں دینے کے خلاف ایک نمایاں آواز مسلم لیگ نواز کی طرف سے اٹھی تھی۔

۔اس کے بعد جمہوریت پیچھے ہٹتے ہٹتے اس مقام پر آ پہنچی ہے جہاں ایسٹبلشمنٹ اسے ہمیشہ سے رکھنا چاہتی ہے۔ اس لکیر تک پسپاءی کا اظہار آصف زرداری کی کشمیر میں کی گءی تقریر کے لب و لہجے؛ یوسف رضا گیلانی کے اسمبلی میں حالیہ پالیسی بیان اور شہباز شریف کی آرمی چیفکی تعریف میں دیکھا جا سکتا ہے۔

جمہوریت مزاحمت کر رہی تھی لیکن عزت مآ ب عدلیہ نے ایک بار پھر ہمیشہ کی طرح لٹیروں کے لشکر کی بجاءے لٹے پٹے قافلے والوں میں سے ہی چوروں کی تلاش شروع کردی ۔ کراچی اور پنجاب میں دکھاءے گءے نمونے کے منا ظر والے پیغام کا مقابلہ کر لیا جاتا لیکن یہاں اگر ایستبلشمنٹ ہار بھی جاتی تو عزت مآ ب چیف جسٹس پھندہ ہاتھ میں ڈالے کھڑے ہوءے تھے ۔

این آر او پر مختصر فیصلہ وہ اہم موڑ تھا جب جمہوریت نے ایسٹبلشمنٹ کے سا منے سر تسلیم خم کر دیا ۔ کیا بحال شدہ عدلیہ نے جمہوریت کو سہارا دیا یا جمہوریت کی شکست میں فیصلہ کن کردار ادا کیاا؟ ذیل کی تحریر میں اس سوال کاجواب تلاش کرنے کی کوشش کی گءی ہے ۔

سابقہ الیکشن ایسے حا لات میں منعقد ہوءے جب ایسٹبلشمنٹ اپنی تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہی تھی۔اگرچہ ایسٹبلشمنٹ کءی بار اس طرح کی صورتحال سے دو چار ہو چکی ہے لیکن اس بارصورتحال کو اس سطح تک پہنچانے میں مندرجہ ذیل عوامل کا کردار بڑا اہم تھا:

۰طالبان کے متعلق دو رخی اور دھوکہ دہی کی پالیسی کی وجہ سے بین الاقوامی جنگی ایسٹبلشمنٹ پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کے متعلق بد اعتمادی کا شکار ہو چکی تھی

۰امریکی حمایت کے مسءلے پر پاکستانی ایسٹبلشمنٹ دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی ۔ سابقہ جرنیلوں ؛ آءی ایس آءی ؛ روءیداد خان جیسے نوکر شاہی کے کارندوں ؛ عرصے تک روس اور بھارت دشمنی پر مبنی قومی تحفظ کے نظرءے پر کام کرنے والے سابقہ سفارت کاروں اور مولویوں کے ذیلی گروہوں پر مشتمل حصہ )پاکیستان آرمی پارٹی ضیا ء الحق گروپ (ایسٹبلشمنٹ کےحکمران گروہ ) پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ کے خلاف صف آراء ہو چکا تھا ۔

۰وکلاء تحریک نے پاکستان آرمی پارٹی ضیا ء الحق گروپ ؛ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم مہیا کر دیا تھا اس تحریک کے تسلسل نے پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کی ساکھ کو بری طرح مجروح کر دیا تھا

۰بے نظیر بھٹو کی جارحانہ بین الااقوامی پیروکاری پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کو دفاعی حا لت میں لا چکی تھی۔

۰تحریک آزادی کشمیر کو انتہا پسندوں اور جہادیوں کے ذریعے کنٹرول کرنے کی پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کی پالیسی بری طرح پٹ چکی تھی اور بھارت اس مسءلے پر پاکستان کو بڑی حد تک تنہا کر چکا تھا۔

اس سے پہلےصرف مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کے لیے ایسی شرمناک صورتحال پیدا ہوءی تھی ۔ تاہم اس وقت پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کے ذیلی گروہ اس کی حمایت میں متحد تھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ایک فریق ہونے کا الزام سننے کے باوجود جذباتی انداز میں ایسٹبلشمنٹ کے اقدامات کا دفاع کر رہے تھے ۔ حتی کہ باءیں بازو کے بعض مقبول گروہ بھی بالواسطہ طور پر ایسٹبلشمنٹ کی حمایت میں سرگرم عمل تھے ۔

تاہم دو ہزار سات میں صورتحال بہت مختلف تھی ۔ اس بار پاکستانی ایسٹبلشمنٹ بٹ کر اپنے روایتی حلیفوں سے محروم ہو چکی تھی۔ اسی سارے عرصے میں جب پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کے پاس آپشن کم ہو رہے تھے بے نظیر بھٹو سیاسی مہارت کے ساتھ بین القوامی ایسٹبلشمنٹ کی بے چینی کو اپنے حق میں استعمال کرتے ھوءے پاکستان میں اپنی واپسی کی تیاری کر رہی تھیں۔ اس سارے سلسلے میں امریکہ اور برطانیہ کے حکومتی عہدے دار براہ راست کردار ادا کر رہے تھے۔

یہی وہ وقت تھا جب سمجھوتوں میں جکڑے ہوءے نواز شریف پاکستان واپس آنے کی ناکا م کوششوں میں مصروف تھے۔ ۔پاکستان اور امریکہ کے سیاست دانوں کے درمیان مذاکرات کے لیے استعمال ہونے والے پرانے واسطےاور نواز شریف کے ضمانتی سعودی عرب کی افادیت کم ہو چکی تھی اور وہ مستقبل کے منظر نامے میں نواز شریف کا کردار نہیں بنوا پارہا تھا۔

نواز شریف کی پہلی بار وطن واپسی پر ان کی پارٹی ملک بھر میں سڑکوں پر اتنے لوگ بھی نہیں لا سکی تھی جتنے آصف زرداری کی جیل سے رہاءی کے بعد لاہور آمد پر پیپلز پارٹی لاہور کی سڑکوں پر لے آءی تھی۔ کمزور مشرف ؛ شکستہ حال نواز شریف اور پر اعتماد بے نظیر ؛ یہ وہ صورتحال تھی جس کے گرد مستقبل کا منظر نامہ لکھا جانا تھا ۔

اس وقت نواز شریف کسی بھی تجزیے میں ایک قاید کھلاڑی کے طور پر سامنے نہیں آءے تھے۔ پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ بے نظیر کو حدوں کے اندر رکھنے کی کوششوں میں مصوروف اور انہیں مستقبل کی وزارت عظمی کی ضمانت دینے سے گریزاں تھی۔جبکہ پاکستان آرمی پارٹی ضیا ء الحق گروپ بے نظیر کی صورت میں سامنے آنے والے خطرے کو موت کے کھیل کے ذریعے روکنے کی تیاری کر رہی تھی۔

اور پھر پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ کی مجرمانہ غفلت اور پاکستان آرمی پارٹی ضیا ء الحق گروپ کی منصوبہ بندی کے نتیجے میں بے نظیر کو شہید کر دیا گیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جس کے لیے کسی فریق نے تیاری نہیں کی ہوءی تھی ماسواءے پاکستان آرمی پارٹی ضیا ء الحق کے جو طالبان کے ہر دشمن کو تباہ کرنے پر تلی ہوءی تھی۔

اس مشکل لمحے میں آصف زرداری کو فیصلہ کرنا تھا کہ وہ پرانے معاہدوں کے مطابق پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ کے ساتھ ملکر چلیں یا ایک کمزور فریق نوازشریف کو ساتھ ملا کر پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ سے اقتدارچھین لیں۔ کچھ ایسا ہی فیصلہ نواز شریف کو بھی کرنا تھا کہ وہ پاکستان آرمی پارٹی ضیا ء الحق کے کہنے پر الیکشن کا با ءیکاٹ کر دیں یا سیاسی عمل کو آگے بڑھانے میں پیپلز پارٹی کی اعانت کریں ۔ زرداری اور نواز شریف اس بات پر یقینآ داد کے مستحق ہیں کہ دونوں نے پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کے برسر اقتدار اور اقتدار سے باہر گروہوں کے چارے کو مسترد کرتے ہوءے سیاست کی سربلندی کا راستہ اپنایا ۔نتیجے کے طور پر مرکز اور پنجاب میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی مخلوط حکومتیںبھی قایم ہوگءیں ۔ تاہم آنے والے دنوں میں دو چیزیں دو اہم سیاسی کھلاڑیوں کے تعلقات پر بہت زیادہ اثر انداز ہوءیں پہلی یہ کہ پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کا اپنا اپنا ماضی اور تجربہ تھا۔ دوسری یہ کہ بے نظیر کی شہادت اور آصف زرداری کے قیا دت سنبھالنے سے پیپلز پارٹی کی ادارتی یاد داشت میں تسلسل ٹوٹ چکا تھا اور بہت سے معاملات میں پیپلز پارٹی ’عمل کرکے سیکھنے ’ کا طریقہ کار اپنا رہی تھی۔

پچھلے دو سال میں اگر ہم مختلف مساءل پر پیپلز پارٹی )س عرصے مین ذیادہ وقت آصف زرداری ہی پیپلز پارٹی تھے(کے طریقہ کارکا جاءزہ لیں تو ہمیں مندرجہ ذیل رحجانات بڑے واضح نظر آتے ہیں :

۰پیپلز پارٹی زیادہ تر فیصلے ایسٹبلشمنٹ کی وسیع تر طاقت اور جمہوریت کو ناکام بنانے کی دور رس حکمت عملی کو سامنے رکھتے ہو ےکرتی رہی جس کے نتیجے میں اکثر اوقات پیپلز پارٹی کو دفاعی انداز اپنانا پڑا ۔ اس کی ایک مثال سندھ ہے جہاں پیلپز پارٹی نے ایک بہت بڑی قیمت پر ایم کیو ایم کو اپنے ساتھ رکھا ۔ اس کی ایک وجہ ماضی کے وہ تجربے ہیں جب ایم کیو ایم اور قوم پرستوں کو ساتھ لے کر ایسٹبلشمنٹ نے پیپلز پارٹی کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا تھا ۔ اس بار پیپلز پارٹی میں سندھ میں خود کو بچاءے رکھنے کی خواہش بڑی نمایاں تھی۔

۰حکومت پر ملکی ایسٹبلشمنٹ کے اثرو رسوخ کو کم کرنے کے لیے یپلز پارٹی نے بین الاقوامی ایسٹبلشمنٹ کا سہارا لیا اور امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ خصوصی تعلقات کو بہت زیادہ اہمیت دی جبکہ پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کو ثانوی اہمیت دی۔

۰نظام کے اندر اپنے دوستوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اعلی عہدوں پر اپنے لوگوں کی تقرری کی کوششیں کی گءیں۔ جسٹس ڈوگر کو بحال رکھنے اور جسٹس افتخار چوہدری کا راستہ روکنے کی کوششوں میں اس سوچ کا اہم کردار تھا۔

۰ پیپلز پارٹی ایک عرصے سے پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کے نشانے پر ہے۔ اس لمبے عرصے میں اس نے سیکھا ہے کہ ایسٹبلشمنٹ کے خلاف انفرادی انتقام اور ٹکراءو کی بجاءے درجہ بدرجہ ادارتی اصلاحا ت ہی ایک بہتر طریقہ کار ہے۔ اقتدار ملنے پر پیپلز پارٹی نےا یسٹبلشمنٹ کی طاقت کو کم کرنے کے لیے انفرادی حملوں کی بجاءے ادارتی اقدامات پر زیادہ توجہ مرکوز کی گءی اور متبادل یا لمبے عرصے کےمنصوبوں پر کام کرنے کی کوشش کی ۔ اس کی اہم ترین مثالیں بلوچستان پیکیج؛ آءینی پیکیج اور بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کے کمیشن کا قیام ہے

۰پیپلز پارٹی کو پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ اور بین الاقوامی ایسٹبلشمنٹ کے ساتھ اپنے بنیادی سمجھوتوں کی پاسداری کرنا تھی ۔ اس کی ایک مثال جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی سے مسسل گریز تھا ۔ تاہم اس دوران جب پاکستان آرمی پارٹی ضیا ء الحق نے پیپلز پارٹی کے متعلق ایسٹبلشمنٹ کے حامی ہو جانے کا پراپیگنڈہ کیا تو پیپلز پارٹی اپنا موثر دفاع نہیں کر سکی اور استبلشمنٹ کے متعلق اپنی طویل المدتحکمت عملی کو عوام کے سامنے واضح نہیں کر سکی ۔

۰آصف زرداری کی سیاست کا انداز پیپلز پارٹی کے کارکن کے لیے اجنبی تھا۔ بھٹو اور بے نطیر کے دور میں سیاست ؛ کارکن اور پارٹی لیڈرشپ ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے تھے جبکہ آصف زرداری کے دور میں کارکن کو ذیادہ تر حیران کن فیصلوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ اس سارے عرصے میں پیپلز پارٹی کا رواتی لیڈر اور کارکن زیادہ تر ابہام کا شکار رہا۔ ان کو اکثر ایسے اور تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے فیصلوں کا دفاع کرنا پڑتا تھا جن کی منظق کا انہیں خود بھی پتہ نہیں ہوتا تھا

۰بھٹو دور میں پیپلز پارٹی کی درمیانے درجے کی قیادت میں باءیں بازو اور ٹریڈ یونین سے آیے ہوءے تربیت یافتہ کارکن نمایاں تھے جو فکری سطح پر ’بھٹو ازم’ ؛ پیپلز پارٹی کی پالیسیوں اور عوامی مساءل کے درمیان واسطے کا کام کرتے تھے۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں یہ گروپ کمزور ہوا جبکہ آصف زرداری کے دور میں یہ لوگ مکمل طور پر غاءب ہو گءے ۔

۰نواز شریف کے اقتدار کے آخری دنوں میں اور پرویز مشرف کے پورے دور اقتدار میں بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کو اصل اذیت عدالتی نظام کے ذریعے دی گءی۔ اس وقت برے وقت میں جن لوگوں نے مقدمے لڑنے یا جیتنے میں ان کی معاونت کی

آصف زرداری نے حکومت میں آنے کے بعد انہی لوگوں پر اعتماد جاری رکھا ۔پاکستانی ایسٹبلشمنٹ نے جو ان لوگوں سے نالاں تھی بڑے منظم طریقے سے ان کے خلاف مہم چلاءی ۔پیپلز پارٹی عوامی سطح پر ان لوگوں کا دفاع نہیں کر سکی۔اس سارے دور میں لطیف کھوسہ؛ رحمان ملک ؛ بابر اعوان وغیرہ مسلسل تنقید کی زد میں رہے ۔ چونکہ یہ وہ لوگ تھے جو افتخار چوہدری سمیت دوسرے ججوں کے بے نظیر اور آصف زرداری کے کیسوں میں تعصبات کا سامنا کرتے رہے تھے عدلیہ کی بحالی میں آصف زرداری کی سوچ پر یہی لوگ اثر انداز ہو رہے تھے۔

۰ این آر او کے مسءلے پر پیپلز پارٹی دفاعی انداز اختیار کرتی رہی اور کسی بھی طرح ایک سیاسی معاہدے کے طور پر اس کی افادیت نہیں منوا سکی

اسی طرح اگر ہم مسلم لیگ نواز شریف کے رحجانات کا جاءزہ لیں تو ہمیں مندرجہ ذیل پہلو بہت نمایاں نظر آتے ہیں :

۰ مسلم لیگ نواز چونکہ پرویز مشرف کے دور میں پہلی بار ایسٹبلشمنٹ کے قہر کا شکار ہوءی تھی اس لیے وہ لمبے عرصے کے اقدامات کی بجاءے فوری اور افراد پر مرکوز اقدامات میں زیادہ دل چسپی رکھتی تھی۔ عدلیہ اور آءین وغیرہ میں اصلاحات کی بجاءے مسلم لیگ نواز پرویز مشرف کے خلاف کیس اورمشرف دشمنی کی علامت افتخا ر چوہدری کی بحالی کی خواہاں تھی

۰ تعلیم یافتہ متوسط طبقے کا ایک بڑا حصہ ہمیشیہ سے ہی پیپلز پارٹی کا مخالف رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ضیا ء دور سے لے کر پرویز مشرف کے دور تک اداروں میں جو لوگ بھی بھرتی ہوءے ان کی اکثریت پیپلز پارٹی کے خلاف تھی اس لیے مسلم لیگ نواز کے لیے اداروں کے اندر دوستوں کی کوءی کمی نہیں تھی۔ ان حا لا ت میں انصاف اور میرٹ جیسے نعروں کی حمایت میں مسلم لیگ نواز کا کوءی وقتی نقصان نہیں تھا ۔

۰مسلم لیگ نواز کے کارکن اور لیڈر پیپلز پارٹی مخالف؛ ضیاء حمایت یاجماعت اسلامی کا پس منظر رکھتے ہیں ۔ان لوگوں کے لیے پرویز مشرف اور امریکہ کے خلاف بنی ہوءی فضا میں پرویز مشرف ؛ امریکہ اور امریکہ کے حمایتی کے طور پر پیپلز پارٹی کے خلاف بات کرنا آسان اور ان کے پس منظر کے عین مطاابق تھا۔ اس صورتحال میں مسلم لیگ کے کارکن اپنی پارٹی کا نکتہ نظر بڑی کامیابی کے ساتھ واضح کرنے رہے ۔

۰نواز شریف نے جمہوریت پر زیادہ تر واضح اور دو ٹوک موقف اپنایا لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے ضیا ء الحقی لیڈروں کو امریکہ؛ افغانستان؛ بھارت اور پیپلز پارٹی پر پاکستان آرمی پارٹی ضیا ء الحق کے موقف کو اپنانے اور بیان کرنے کی چھٹی دی۔ یوں اس پارٹی نے اپنے ووٹ کے نءے دعوے داروں مثلآ عمران خان کو پر پھیلانے کے موا قع نہیں دءے اور پاکستان آرمی پارتی ضیا ء الحق کے ووٹوں میں اپنی حمایت برقرار رکھی۔

۰مسلم لیگ نواز نے بین القوامی ایسٹبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات کو توسیع دی اور طالبان پر اپنے موقف کو بڑی حد تک امریکہ اور برطانیہ کے لیے قابل قبول بنایا

۰ مسلم لیگ نواز نے پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کے خلاف عوامی سطح پر ایک جارحانہ موقف اپناتے ہوءے پس پردہ اس کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے سنجیدہ کوششیں کیں۔ ایسٹبلشمنٹ کے لیے ہمیشہ سے قابل قبول شہباز شریف نے پرانے واسطےچوہدری نثار کے ساتھ مل کر اہم ملاقاتیں کیں ۔

۰پرویز مشرف کو براہ راست نشانہ بنانے سے مسلم لیگ نواز نے اپنے متعلق ایک اینٹی ایسٹبلشمنٹ جماعت کا تصور منوا لیا

۰ مسلم لیگ نواز نے جلا وطنی کے دس سالہ معاہدے کو بڑے اعتماد اورجارحانہ انداز میں رد کیا ۔ یوں اس نے اپنی قیادت پرسے بزدلی کا لیبل بڑی کامیابی کے ساتھ ہتا دیا

اوپر بیان کردہ نکات سے واضح ہوتا ہے کہ اپنے ماضی کی بنا پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کا سیاسی لاءحہ عمل اور مساءل سے نپٹنے کا انداز بہت مختلف تھا۔ لیکن کچھ امور ایسے تھے جن پر کسی سمجھوتے پر پہنچنا جمہوریت کی بڑی فتح کے لیے ضروری تھا ۔ لیکن ان مساءل پر اختلافات نے پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ کو وہ خلا ء فراہم کر دیا جہاں وہ اپنے لیے جگہ بنا سکتی تھی:

۰جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے آءی ایس آءی کو محکمہ داخلہ کے ماتحت لانے کا فیصلہ کیا تو فیصلے پر عمل درامد کرانے کے لیے اس کو خفیہ رکھنا مناسب سمجھا۔ تاہم جیسے ہی یہ فیصلہ آیا نواز شریف کو اپنے سیاسی موقف کے برعکس اپنے ضیا ء الحقی لیڈروں کے نکتہ نظر کے سامنے چپ سادھنی پڑی اور مسلم لیگ نوازآءی آیس آءی کے بڑے حمایتی کے طور پر سامنے آءی ۔ یہاں آصف زرداری کی مشاورت نہ کرنے کی غلطی کا جواب نواز شریف نے آءی ایس آءی کی حمایت کی غلطی سے دیا

۰پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے بعد اعتزاز جسٹس افتخار چوہدری کو لے آصف زرداری کے پاس پہنچ گءے تھے ۔افتخار چوہدری کے ماضی کو سامنے رکھتے ہوءے ان سے وقتی طور پر نپٹنا کچھ مشکل نہیں تھا۔ یہ وہ موقع تھا جب آصف زرداری پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ اور امریکہ کے لیے اعتزاز احسن کے ذریعے افتخار چوہدری کے ضمانتی بنکر ان کو بحال کر سکتے تھے۔جب یہ موقع کھو دیا گیا تو نواز شریف نے آصف زرداری کو این آر او کی اسمبلی سے منظوری کی پیشکش کی لیکن معاملے کو لتکاتے ہوءے لانگ مارچ تک پہنچا دیا گیا اور یوں اپنے لیے ضمانت لے کر ایسٹبلشمنٹ نے ججوں کو بحال کروا دیا ۔تاہم اس معاملے کی ابتدا ء میں جب نواز شریف کو ججوں کی نءے حلف کے ذریعے بحالی یا بحالی کے ساتھ ساتھ عدالتی اصلاحات کی پیش کش کی گءی تو انہوں نے افتخار چوہدری کی نوٹی فیکیشن کے ذریعے بحالی کی ضد برقرار رکھی اور جمہوریت کو لمبے عرصے میں درپیش خطرات کا ادراک نہیں کیا

۰ستر ھویں ترمیم کی تنسیخ مسلم لیگ نواز کی بنیادی ترجیحات میں سے ایک ترجیح ہے۔ پیپلز پارٹی کے لیے یہ مسءلہ وسیع آءینی اصلاحات کے ساتھ جڑا یوا ہے۔ جبکہ مسلم لیگ کا موقف یہ ہے کہ اس معاملے کو آءینی اصلاحآت سے دور رکھا جاءے۔اس مسءلے پر اختلاف کے طول نے ایسٹبلشمنٹ کو طاقت میں آنے کے مواقع فراہم کیے ۔

۰ کیری لوگر بل کی متنازعہ دفعات مسلم لیگ نواز کی بیان کردہ پالیسیوں کے عین مطابق تھیں لیکن اس بل کے آنے کے بعد مسلم نواز نے اس کے خلاف اور ایسٹبلشمنٹ کی حمایت میں آواز اتھا کر پیپلز پارٹی کو نہتا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔

بے نظیر کی شہاد ت کے بعد جب قیادت آصف زرداری کے ہاتھ میں آءی تو پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ کے ذہن میں ابتادءی طور پر وہ آصف زرداری تھا جس سے انہوں نے جیل سے رہاءی سے پہلے طویل مذاکرات کیے تھے۔ لیکن آصف زرداری کے تیزی کے ساتھ کیے گءے کامیاب فیصلوں اور ایوان صدر میں داخل ہو نے کی وجہ سے پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کے مشرف کیانی گروپ نے آصف زرداری کو مستقبل کے خطرے کے طور پر لینا شروع کرد یا ۔ پیپلز پارٹی کی مندرجہ ذیل پالیسیوں اور فیصلو ں نے ایسٹبلشمنٹ کے دونوں گروہوں کو پیپلز پارٹی کے خلاف متحدہ مزا حمت پر ماءل کر دیا :

۰آصف زرداری نے مسءلہ کشمیر کے جلد حل کی نوید دے ڈالی جو کہ ان کے ذہن میں ترتیب دیے گءے سیاسی نقشے کی وجہ سے تھی نہ کہ دفتر خارجہ کی کسی بریفنگ کی بنیاد پر۔ اسی طرح انڈین میڈیا سے اپنے خطاب میں انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان آمدورفت کے لیے ویزا کی بجاءے ایک کارڈ کا تصور پیش کر دیا ۔اس طرح کی تجاویزپاکستانی ایسٹبلشمنٹ کے دونوں گروہوں کے لیے قابل قبول نہیں تھیں جن کے لیے مجموعی طور پر طالبان کو بھارت سے بڑا خطرہ سمجھنا کسی بھی طرح قابل قبول نہیں تھا۔

۰ایک عرصے سےپاکستانی ایسٹبلشمنٹ بین القوامی جنگی ایستبلشمنٹ کے ساتھ معاملات کو براہ راست طے کر رہی تھی۔آصف زرداری نے سول گورنمنٹ خصوصا خود کو ایک فریق کے طور پر منواتے ہوءے طالبان کے خلاف واضح کارواءی سے گریزاں پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ کو سوات میں فیصلہ کن کارواءی کے لیے آمادہ کر لیا ۔ پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ کے پاس اس کے علاوہ کوءی چارہ نہیں تھا کہ وہ میڈیا سمیت اپنے دوسرے ذیلی گروہوں کو اس آپریشن کی حمایت میں سامنے لے آیءں ۔

۰ بین القوامی ایسٹبلشمنٹ کے ساتھ سول حکومت کے تعلقات کو ادارتی حیثیت دیتے ہوءے ایسٹبلشمنٹ پر کچھ حدیں لگا کر ان کو کیری لوگر بل میں شامل کرا دیا گیا

۰بے نظیر کی شہادت سے پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ نے دہشت گردوں کے ہاتھوں ہونے والی ایک عام موت کی طرح نپتنے کی کوشش کی جس میں ایک دو دہشت گردوں کو پکڑ کر عدالت کے سامنے پیش کر دیا جاتا۔

اسی طرح پاکستان آرمی پارٹی ضیا ء الحق نے اسے امریکی سازش قرار دے کرخود کو اور اپنے دوست طالبان کو بری الزمہ کرانے کی راہ اختیار کی ۔ کسی بھی حکومتی ایجنسی کی تحقیقات ہر صورت میں متنازعہ قرار پاتیں۔ اس کے علاوہ کسی بھی ملکی تحقیقاتی ایجنسی کے لیے ممکن ہی نہ ہوتا کہ وہ پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ گروپ کی غفلت اور پاکستانی آرمی پارٹی کے اس شہادت میں واضح کردار کو سامنے لا پاتی۔ اس مرحلے پر عالمی تحقیقات کرانا ایک انتہاءی دانش مندانہ اقدام تھا جس سے اس شہادت میں ایسٹبلشمنٹ کا کردار کسی نہ کسی صورت میں سامنے آ جاتا ۔ایسٹبلشمنٹ کے لیے یہ تحقیقات آصف زرداری کی طرف سے لگایا جانے والا بہت بڑا پھندا تھیں ۔

۰طالبان کے ساتھ جنگ میں مصروف عالمی ایستبلشمنٹ کو ایک مستحکم پاکستان کی ضرورت تھی۔ اس ضرورت کو خوبصورتی کے ساتھ استعمال کرتے ہوءے پیپلز پارٹی نے چھوٹے صوبوں کے متعلق وہ فیصلے کیے جن کی عام حالات میں پاکستانی ایسٹبلشمنٹ اجازت نہ دیتی۔ امریکی آ شیر باد کے ساتھ سرحد میں اے این پی کو حکومت دے کر اس صوبے کے نام کے پرانے جذباتی مسءلے پر اے این پی کی کھلم کھلا حمایت کی گءی ۔ اسی طرح بین الاقوامی صورتحال کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوءے بلوچستان کے لیے بھی ایک آءینی پیکیج کا اعلان کیا گیا

پاکستان پیپلز پارٹی کی اس سوچ اور اقدامات کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان آرمی پارٹی ضیا ء الحق کو پہنچا جس کا مقابلہ کرنے کے لیے اس نے بمبءی حملوں کی صورت میں ایک اور کارگل کر دیا۔ حسب توقع بھارت کے بے لگام آزاد ٹی وی چینلز اور داءیں بازو کے انتہا پسندوں نے فورآ اپنی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیا ۔ایسا ہی رد عمل داءیں باازو کی جماعتوں اور ٹی وی چینلز نے پاکستان میں بھی پیدا کردیا ۔ بہت جلد ہی بھارت پاکستان تعلقات کا آصف ذرداری کا یو ٹوپیا ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ اس ساری صورتحال میں جمہوری قیادت کو بڑا واضح پیغام ملا کہ وہ نہ صرف ایسٹبلشمنٹ کے دو ست انتہا پسندوں )لشکر طیبہ وغیرہ( کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھ سکتی بلکہ اسے ان دوستوں کا دفاع بھی کرنا ہو گا۔

اس کے ساتھ ہی پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ کی طرف سے ایک طاقت ور میڈیا مہم تشکیل دی گءی جس کا محور آصف علی ذرداری تھے ۔ اس مہم میں پاکستان آرمی پارٹی ضیا ءالحق گروپ اور مسلم لیگ نواز کے علاوہ صفدر باسی اورناہیدعباسی جیسے پیپلز پارٹی کے مایوس افراد کو بھر پور انداز مین استعما ل کیا گیا ۔ پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ کی طرف سے میڈیا کو کھلم کھلا اشارے مہیا کیے گءے ۔میڈیا کے باا ثر افراد نے آصف ذرداری کو صدارت سے متعلق مخلتف آپشن دینا شروع کر دءیے جن کا ماخذ بڑے واضح انداز میں ایسٹبلشمنٹ کو قرار دیا گیا ۔ ٹی وی اینکرز نے یہ تک کہا کہ ملک کے معروف صنعتکار حکومت کے خلاف اپنی شکایتیں لے کر چیف آف آرمی سٹاف سے ملے ہیں ۔ شماریات کی جادو گری سے آصف زرداری کو انتہاءی غیر مقبول شخصیت ثابت کرنے کی کوشش کی گءی

۔بنگلہ دیش ماڈل کے شوشے کے ذریعے سول سوساءیٹی اور ٹیکنو کریٹس کو مستقبل میں اقتدار میں شمولیت کا لالچ دیا گیا ۔ ۔مسلم لیگ نواز شریف نے اس صورتحال کو پیپلز پارٹی کی مقبولیت کو نقصان پہنچانے کے لیے بہت کامیبای کے ساتھ استعما ل کیا لیکن اس کے ساتھ ہی آصف زرداری کو کسی غیر آءینی طریقے سے ہٹانے میں ایسٹبلشمنٹ کا ساتھ دینے سے بھی انکار کر دیا ۔تاہم اسی دوران جب بھی مسلم لیگ نواز نے پیپلز پارٹی کی حمایت کی کچھ عرس کے لیے اس کے خلاف بھی پراپیگنڈہ شروع کر دیا گیا۔

اس ساری مہم کے دوران کچھ اور اہم تبدیلیاں بھی رو نما ہوءیں ۔پاکستان آرمی گروپ مشرف کیانی گروپ نے بڑی کامیابی کے ساتھ سوات کی کامیابیوں کو پیپلزپارٹی کے ساتھ مشترکہ کامیابی کی بجاءے صرف آرمی کی کامیابی بنا دیا ۔ ایک نءے بڑے کھلاڑی کے طور پر ابھرتے ہوءے نواز شریف نے ایسٹبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر دیا۔

اگرچہ پیپلز پارٹی کے لیے اس طرح کی صورت حال نءی نہیں تھی لیکن اس بار ایسٹبلشمنٹ کو ایک غیر متوقع رد عمل کا سامنا کرنا پڑا ۔ آصف زرداری نے جھکنے سے انکار کر دیا۔ یہ ان لمحوں میں ایک لمحہ تھا جن کا ادراک کرتے ہوءے بیگم نصرت بھٹو نے بے نظیر کے لیے حاکم علی ذرداری کے بیٹے کا انتخاب کیا تھا۔

فاروق لغاری کا کامیاب صدارتی انتخاب اور بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی نا کامی آ صف زرداری کی بھٹو خاندان کے محافظ کے طور پر وہ ابتداءی کامیا بیاں تھیں جن سے آصف زرداری ایسٹبلشمنٹ کی نطروں میں ایک کانٹے کی طرح کھٹکنا شروع ہوءے تھے۔ جواب میں انہیں پاکستان کی تاریخ کی طویل ترین سیاسی قید میں رکھ کرذہنی طور پر توڑنے کی کوشش کی گءی جس کا مقابلہ آصف زرداری اپنی مسکراتی تصویروں اوراخبارات میں شایع ہونے والی جملے بازی کی صورت میں کرتے رہے ۔ آصف زرداری کو اقتدار سے نکالنے کے لیے ایسٹبلشمنٹ کو مندرجہ ذیل مشکلات پیش تھیں:
۰ بین القوامی ایستبلشمنٹ کسی ایسی صورتحال کی حمایت کے لیے تیار نہیں تھی جس سے پاکستان کی توجہ طالبان سے ہٹے

۰مسلم لیگ نواز ایسٹبلشمنٹ کے کسی فوری ایڈونچر کا ساتھ دینے کے لیے تیا ر نہیں تھی

۰آصف زرداری اس ساری صورتحال میں مزاحمت کا عندیہ دے رہے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی کسی بھی ایسے رد عمل سے بچ رہے تھے جو ان کو کسی مسءلے سے دوچار کرد ے

ایسٹبلشمنٹ کی مایوسی اسے اس سطح پر لے آءی کہ پاکستانی افواج کو کیری لوگر بل پر اپنے تحفظات پریس کے ذریعے ظاہر کرنے پڑے آصف زرداری کے خلاف چلاءی جانے والی مہم کی یہ بڑی واضح اور بر وقت حمایت تھی۔ ۔ایم کیو ایم کی طرف سے آ صف زرداری سے قربانی کا مطالبہ اس دباءو کی انتہاءی شکل تھی۔ لیکن آصف زرداری کی طرف سے مزاحمت جاری رکھنے پرآخری حل کے طورسپریم کورٹ کے کردارپر واضح انداز میں بات کرنا شروع کر دی گءی۔ یہ وہ پس منظر تھا جس میں عزت مآ ب عدلیہ نے این آر او کے کیس کو سننے کا فیصلہ کیا۔

عدلیہ بحالی مہم کے دوران اعتزاز ااحسن عوام کو عدلیہ کی بحالی کی صورت میں ان کے سماجی اور معاشی حقوق کے حل کی ضمانت دیتے تھے ۔ اعتزاز احسن کی سیاسی ضرورتوں ؛ اس مہم کے ساتھ ان کی جذباتی وابستگی اور ان کے پرانے فکری کنفیوزن کی بنا پر ان سے اس بات کی توقع کی جا سکتی تھی۔ لیکن حیرت کی بات تھی کہ باءیں بازو ؛ سیکولر ازم اور لبرل ازم کے بہت سے علم بردار انصاف کے نظام میں کوءی بنیادی تبدیلی لاءے بغیر اس مہم سے بہت سی توقعات وابستہ کیے بیتھے تھے۔

اس مہم میںانکی شمولیت کا بنیادی مفروضہ تھا کہ سیاسی؛ سماجی اور معاشی شعور سے بے بہرہ چند شخصیات کی کایا کلپ ہو گءی ہے اور اگر طاقت کا توازن ان کے حق میں کر دیا جاءے تو وہ جمہوری اقدار کا احیاء کر دیں گے۔ یہ سارے مفروضے اس وقت غلط ثابت ہوگءے جب عزت مآب ججوں نے آءی ایس آءی کے کردار سے متعلقہ پرانے مقدمے کو اپنی ترجیحات میں نہیں رکھا۔ اس مقدمے کی شنواءی اس صورتحال کو واضح کرتی جس میں پاکستانی سیاست میں نوٹوں سے بھرا بریف کیس اہم ترین چیزقرار پاءی۔ یہ مقدمہ وہ صورتحال بھی سامنے لاتا جس میں ایمانداری کو اپنا آیدیل سمجھنے والی سیاست دان بے نظیر بھٹو کو ایجسنسیوں کے سیکرٹ فند کی مدد سے شکست دی گءی۔

یہ مقدمہ ضیا ء الحق کے اس کردار کو بھی سامنے لے آتا جس نے سیاست کو کرپشن کی راہ پر ڈال دیا ۔ اگر عزت مآ ب عدالت گمشدہ افراد کے مقدمے کو ہی ترجیحی بنیاد پر سنتی اور تیزی کے ساتھ نپٹاتی تو ایسٹبلشمنٹ پر دباءو برقرار رہتا۔ لیکن عدلیہ نے اس راہ کا انتخاب نہیں کیا ۔

یہ کیوں کیا گیا اس کا اشارہ جسٹس جاوید اقبال کے اس تبصرے سے ملتا ہے جو انہون نے گم شدہ افراد کے مقدمے کی سماعت کے دوران کیا۔ ان کے الفاظ کہ ’ ہم نے ایک بار آءی ایس آءی کے چیف کو بلوایا تھا اور اس کے بعد اٹھارہ ماہ کے لیے عدالت سے باہر رہے’ اس سوچ کی عکاسی کرتے ہیں جو سپریم کورٹ میں ایسٹبلشمنٹ سے متعلق پاءے جاتی ہے۔

پیپلز پارٹی عدلیہ کی بحالی کے بعد مسلسل مفاہمت کے اشارے دے رہی تھی۔ این آر او کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے خلاف کامیاب مہم کے بعدپیپلز پارٹی کو مشورہ دیا گیا کہ وہ عدالت میں اس کی مزاحمت نہ کرے جس کے نتنیجے میں این آر او کے تحت دءے گءے فاءدوں کو قاءم رکھنے؛ مقدموں کو عدالتوں میں واپس بھیجنے اور حکومتی اثر کے تحت نپٹانے اور آصف علی ذرداری کو صدر کے طور پر دءیے گءے استثنا ء کی وجہ سے ان کے وقتی طور پر بچ جانے جیسے فواعد حاصل ہو سکتے تھے۔

لیکن یہ سب ایک خوش فہمی ثابت ہوا اور جو فیصلہ سامنے آیا اس سے عدالتی کایا کلپ کے مفروضے کو ماننے والے عاصمہ جہانگیر؛ عا بد حسن منٹو؛ علی احد کرد جیسوں کو بھی شدید رد عمل کا مظاہرہ کرنا پڑا ۔عدلیہ جمہوریت کی پیٹھ میں چھرا گھونپ چکی تھی۔

اس فیصلے کے بعد ایسٹبلشمنٹ کے سامنے مزاحمت کی کوءی گنجاءش نہیں رہی تھی ۔ایجنسیوں کے زیر اثر وزیر دفاع کو چین جانے سے روکنا ایک بھر پور واررنگ تھی کہ اگر انتظامی اداروں نے سپریم کورٹ کے احکامات ماننا شروع کر دءے تو کیا ہو سکتا ہے؟ یہی وہ دور تھا جب بھارت اور چین میں تھوڑا تناءو پیدا ہوا اور بھارت نے اپنی حربی طاقت اور حکمت عملی کے متعلق بیا نات دیے ۔یہ وہ صورتحال ہوتی ہے جو ہمیشہ پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کی حمایت میں جذباتی ماحول پیدا کر دیتی ہے۔

حالات تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہو گءے ۔ ۔یوسف رضا گیلانی کو اندازہ ہوا کہ ایک بے مہار سپریم کورٹ اس کی حکومت کے ساتھ کیا کرسکتی ہے؟ ایوان صدر میں ہونے والے اجلاس میں مفاہمت کے خلاف پیپلز پارٹی کا بھرپور رد عمل سامنے آیا۔ یوسف رضا گیلانی کو ایک بار پھر ادراک ہوا کہ ان کی اپنی سیاسی حیثیت کیا ہے اور آصف زرداری سے بے وفاءی ان کو کہاں تک لے کر جا سکتی ہے؟ آصف زرداری نے بلاول کی واپسی تک خود کو قتل ہونے سے بچانے کی حکمت عملی پر نظر ثانی کی ۔

اسی مرحلے پر پیپلپز پارٹی کو سوچنے کا موقع ملا کہ اس کی مفاہمت کی پالیسی یہ پیغام دے رہی ہے کہ ان کی سودے بازی کی حیثیت کمزور ہو گءی ہے۔ اور پھر وہ سب کچھ ہوا جو آج ہو رہا ہے ۔ پیپلز پارٹی ایسٹبلشمنٹ کے قومی تحفظ کے نظرءے کے سامنے ہتھیار ڈال چکی ہے اور آصف زرداری؛ یوسف رضا گیلانی اور رحمان ملک کے منہ سے ایسٹبلشمنٹ کے الفاظ نکل رہے ہیں ۔ شہباز شریف ایسٹبلشمنٹ کو مفاہمت کے اشارے دے رہے ہیں ۔ شیر اہنا حصہ لے چکا ہے ؛ اب بین القوامی ایسٹبلشمنٹ کے ساتھ معاملات اورافغانستان اور ہندوستان کے ساتھ تعلق پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گرو پ طے کیا کرے گا۔ جو معاملات اس کے علاوہ ہیں وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز شریف ایک دوسرے سے پنجہ آزماءی سے طے کریں گے۔ یہ طے نہیں ہوا کہ ایسٹبلشمنٹ عدلیہ سے کوءی اور بھی کام لینا چاہتی ہے ہا نہیں؟ اگر عدلیہ کا کام ختم ہو چکا تو پھر آنے والے دنوں میں انتطامیہ کے ہاتھوں اس کی تضحیک شروع ہو جاءے گی۔ پیپلز پارٹی اور ایسٹبلشمنٹ کے درمیان معاملات تیزی سے طے ہو رہے ہیں ۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی تحقیقات سے آرمی اور آءی آیس آءی کو نکال کر آرمی کی انا کی تسکین کر دی گءی ہے۔ بلوچستان پیکیج بڑی حد تک نیوٹرل ہو چکا ہے۔آءینی پیکیج سے پہلے سترھرویں ترمیم پر نواز شریف کا اصرار جاری ہے۔ یہ بات اب غیر متعلق ہو گءی ہے کہ آصف زرداری اقتدار میں رہتے ہیں یا نواز شریف آتے ہیں ؛ موجودہ حکومت رہتی ہے یا مڈ ٹرم انتخابات ہوتے ہیں طاقت ایسٹبلشمنٹ کے پاس جا چکی ہے ۔

مبارک ہو ؛ عزت مآ ب جج صاحبان ؛ آ پ نے جمہوریت کے گلے میں پھندہ ڈال دیا ہے

Comments

comments

Latest Comments
  1. Aamir Mughal
    -
  2. Aamir Mughal
    -
  3. Aamir Mughal
    -
  4. Aamir Mughal
    -
  5. Aamir Mughal
    -
  6. Aamir Mughal
    -
  7. Aamir Mughal
    -
  8. Aamir Mughal
    -
  9. Aliarqam
    -
  10. Sakib Ahmad
    -
  11. Sakib Ahmad
    -
  12. Abdul Nishapuri
    -
  13. Rabia
    -
  14. Sakib Ahmad
    -
  15. Abdul Nishapuri
    -
  16. Abdul Nishapuri
    -
  17. Abdul Nishapuri
    -
  18. Mudassar
    -
  19. Abdul Nishapuri
    -
  20. Qais Anwar
    -
  21. Abdul Nishapuri
    -
  22. Abdul Nishapuri
    -