Democracy hanged till death. Thank you, my Lords! – by Qais Anwar
مبارک ہو؛ عزت مآ ب جج صاحبان؛ آپ نے جمہوریت کے گلے میں پھندہ ڈال دیا
جمہوریت کی شکست اور ایسٹبلشمنٹ کی ایک اور فتح کی کہانی اپنے عروج کی طرف بڑھ رہی ہے ؛
ایسٹبلشمنٹ نے گھات لگا کر اپنا پہلا وار بمبءی حملوں کی صورت میں کیا اور پہلا کھلا اور کامیاب ہلہ لانگ مارچ کی صورت میں بولا تھا ۔ یہ لانگ مارچ ہی تھا جس کے بعد جمہوریت کی پسپاءی شروع ہو گءی تھی ۔ اس پسپاءی کا ابتداءی اظہار اس وقت ہونا شروع ہوا جب رحمان ملک نے بلوچستان کے مسءلے کی جڑیں بھارتی مداخلت میں تلاش کرنا شروع کر دیں تھیں اور اس سے بھی پہلے شاید جب آءی ایس آءی کو سویلین کنٹرول میں دینے کے خلاف ایک نمایاں آواز مسلم لیگ نواز کی طرف سے اٹھی تھی۔
۔اس کے بعد جمہوریت پیچھے ہٹتے ہٹتے اس مقام پر آ پہنچی ہے جہاں ایسٹبلشمنٹ اسے ہمیشہ سے رکھنا چاہتی ہے۔ اس لکیر تک پسپاءی کا اظہار آصف زرداری کی کشمیر میں کی گءی تقریر کے لب و لہجے؛ یوسف رضا گیلانی کے اسمبلی میں حالیہ پالیسی بیان اور شہباز شریف کی آرمی چیفکی تعریف میں دیکھا جا سکتا ہے۔
جمہوریت مزاحمت کر رہی تھی لیکن عزت مآ ب عدلیہ نے ایک بار پھر ہمیشہ کی طرح لٹیروں کے لشکر کی بجاءے لٹے پٹے قافلے والوں میں سے ہی چوروں کی تلاش شروع کردی ۔ کراچی اور پنجاب میں دکھاءے گءے نمونے کے منا ظر والے پیغام کا مقابلہ کر لیا جاتا لیکن یہاں اگر ایستبلشمنٹ ہار بھی جاتی تو عزت مآ ب چیف جسٹس پھندہ ہاتھ میں ڈالے کھڑے ہوءے تھے ۔
این آر او پر مختصر فیصلہ وہ اہم موڑ تھا جب جمہوریت نے ایسٹبلشمنٹ کے سا منے سر تسلیم خم کر دیا ۔ کیا بحال شدہ عدلیہ نے جمہوریت کو سہارا دیا یا جمہوریت کی شکست میں فیصلہ کن کردار ادا کیاا؟ ذیل کی تحریر میں اس سوال کاجواب تلاش کرنے کی کوشش کی گءی ہے ۔
سابقہ الیکشن ایسے حا لات میں منعقد ہوءے جب ایسٹبلشمنٹ اپنی تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہی تھی۔اگرچہ ایسٹبلشمنٹ کءی بار اس طرح کی صورتحال سے دو چار ہو چکی ہے لیکن اس بارصورتحال کو اس سطح تک پہنچانے میں مندرجہ ذیل عوامل کا کردار بڑا اہم تھا:
۰طالبان کے متعلق دو رخی اور دھوکہ دہی کی پالیسی کی وجہ سے بین الاقوامی جنگی ایسٹبلشمنٹ پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کے متعلق بد اعتمادی کا شکار ہو چکی تھی
۰امریکی حمایت کے مسءلے پر پاکستانی ایسٹبلشمنٹ دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی ۔ سابقہ جرنیلوں ؛ آءی ایس آءی ؛ روءیداد خان جیسے نوکر شاہی کے کارندوں ؛ عرصے تک روس اور بھارت دشمنی پر مبنی قومی تحفظ کے نظرءے پر کام کرنے والے سابقہ سفارت کاروں اور مولویوں کے ذیلی گروہوں پر مشتمل حصہ )پاکیستان آرمی پارٹی ضیا ء الحق گروپ (ایسٹبلشمنٹ کےحکمران گروہ ) پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ کے خلاف صف آراء ہو چکا تھا ۔
۰وکلاء تحریک نے پاکستان آرمی پارٹی ضیا ء الحق گروپ ؛ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم مہیا کر دیا تھا اس تحریک کے تسلسل نے پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کی ساکھ کو بری طرح مجروح کر دیا تھا
۰بے نظیر بھٹو کی جارحانہ بین الااقوامی پیروکاری پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کو دفاعی حا لت میں لا چکی تھی۔
۰تحریک آزادی کشمیر کو انتہا پسندوں اور جہادیوں کے ذریعے کنٹرول کرنے کی پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کی پالیسی بری طرح پٹ چکی تھی اور بھارت اس مسءلے پر پاکستان کو بڑی حد تک تنہا کر چکا تھا۔
اس سے پہلےصرف مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کے لیے ایسی شرمناک صورتحال پیدا ہوءی تھی ۔ تاہم اس وقت پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کے ذیلی گروہ اس کی حمایت میں متحد تھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ایک فریق ہونے کا الزام سننے کے باوجود جذباتی انداز میں ایسٹبلشمنٹ کے اقدامات کا دفاع کر رہے تھے ۔ حتی کہ باءیں بازو کے بعض مقبول گروہ بھی بالواسطہ طور پر ایسٹبلشمنٹ کی حمایت میں سرگرم عمل تھے ۔
تاہم دو ہزار سات میں صورتحال بہت مختلف تھی ۔ اس بار پاکستانی ایسٹبلشمنٹ بٹ کر اپنے روایتی حلیفوں سے محروم ہو چکی تھی۔ اسی سارے عرصے میں جب پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کے پاس آپشن کم ہو رہے تھے بے نظیر بھٹو سیاسی مہارت کے ساتھ بین القوامی ایسٹبلشمنٹ کی بے چینی کو اپنے حق میں استعمال کرتے ھوءے پاکستان میں اپنی واپسی کی تیاری کر رہی تھیں۔ اس سارے سلسلے میں امریکہ اور برطانیہ کے حکومتی عہدے دار براہ راست کردار ادا کر رہے تھے۔
یہی وہ وقت تھا جب سمجھوتوں میں جکڑے ہوءے نواز شریف پاکستان واپس آنے کی ناکا م کوششوں میں مصروف تھے۔ ۔پاکستان اور امریکہ کے سیاست دانوں کے درمیان مذاکرات کے لیے استعمال ہونے والے پرانے واسطےاور نواز شریف کے ضمانتی سعودی عرب کی افادیت کم ہو چکی تھی اور وہ مستقبل کے منظر نامے میں نواز شریف کا کردار نہیں بنوا پارہا تھا۔
نواز شریف کی پہلی بار وطن واپسی پر ان کی پارٹی ملک بھر میں سڑکوں پر اتنے لوگ بھی نہیں لا سکی تھی جتنے آصف زرداری کی جیل سے رہاءی کے بعد لاہور آمد پر پیپلز پارٹی لاہور کی سڑکوں پر لے آءی تھی۔ کمزور مشرف ؛ شکستہ حال نواز شریف اور پر اعتماد بے نظیر ؛ یہ وہ صورتحال تھی جس کے گرد مستقبل کا منظر نامہ لکھا جانا تھا ۔
اس وقت نواز شریف کسی بھی تجزیے میں ایک قاید کھلاڑی کے طور پر سامنے نہیں آءے تھے۔ پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ بے نظیر کو حدوں کے اندر رکھنے کی کوششوں میں مصوروف اور انہیں مستقبل کی وزارت عظمی کی ضمانت دینے سے گریزاں تھی۔جبکہ پاکستان آرمی پارٹی ضیا ء الحق گروپ بے نظیر کی صورت میں سامنے آنے والے خطرے کو موت کے کھیل کے ذریعے روکنے کی تیاری کر رہی تھی۔
اور پھر پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ کی مجرمانہ غفلت اور پاکستان آرمی پارٹی ضیا ء الحق گروپ کی منصوبہ بندی کے نتیجے میں بے نظیر کو شہید کر دیا گیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جس کے لیے کسی فریق نے تیاری نہیں کی ہوءی تھی ماسواءے پاکستان آرمی پارٹی ضیا ء الحق کے جو طالبان کے ہر دشمن کو تباہ کرنے پر تلی ہوءی تھی۔
اس مشکل لمحے میں آصف زرداری کو فیصلہ کرنا تھا کہ وہ پرانے معاہدوں کے مطابق پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ کے ساتھ ملکر چلیں یا ایک کمزور فریق نوازشریف کو ساتھ ملا کر پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ سے اقتدارچھین لیں۔ کچھ ایسا ہی فیصلہ نواز شریف کو بھی کرنا تھا کہ وہ پاکستان آرمی پارٹی ضیا ء الحق کے کہنے پر الیکشن کا با ءیکاٹ کر دیں یا سیاسی عمل کو آگے بڑھانے میں پیپلز پارٹی کی اعانت کریں ۔ زرداری اور نواز شریف اس بات پر یقینآ داد کے مستحق ہیں کہ دونوں نے پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کے برسر اقتدار اور اقتدار سے باہر گروہوں کے چارے کو مسترد کرتے ہوءے سیاست کی سربلندی کا راستہ اپنایا ۔نتیجے کے طور پر مرکز اور پنجاب میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی مخلوط حکومتیںبھی قایم ہوگءیں ۔ تاہم آنے والے دنوں میں دو چیزیں دو اہم سیاسی کھلاڑیوں کے تعلقات پر بہت زیادہ اثر انداز ہوءیں پہلی یہ کہ پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کا اپنا اپنا ماضی اور تجربہ تھا۔ دوسری یہ کہ بے نظیر کی شہادت اور آصف زرداری کے قیا دت سنبھالنے سے پیپلز پارٹی کی ادارتی یاد داشت میں تسلسل ٹوٹ چکا تھا اور بہت سے معاملات میں پیپلز پارٹی ’عمل کرکے سیکھنے ’ کا طریقہ کار اپنا رہی تھی۔
پچھلے دو سال میں اگر ہم مختلف مساءل پر پیپلز پارٹی )س عرصے مین ذیادہ وقت آصف زرداری ہی پیپلز پارٹی تھے(کے طریقہ کارکا جاءزہ لیں تو ہمیں مندرجہ ذیل رحجانات بڑے واضح نظر آتے ہیں :
۰پیپلز پارٹی زیادہ تر فیصلے ایسٹبلشمنٹ کی وسیع تر طاقت اور جمہوریت کو ناکام بنانے کی دور رس حکمت عملی کو سامنے رکھتے ہو ےکرتی رہی جس کے نتیجے میں اکثر اوقات پیپلز پارٹی کو دفاعی انداز اپنانا پڑا ۔ اس کی ایک مثال سندھ ہے جہاں پیلپز پارٹی نے ایک بہت بڑی قیمت پر ایم کیو ایم کو اپنے ساتھ رکھا ۔ اس کی ایک وجہ ماضی کے وہ تجربے ہیں جب ایم کیو ایم اور قوم پرستوں کو ساتھ لے کر ایسٹبلشمنٹ نے پیپلز پارٹی کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا تھا ۔ اس بار پیپلز پارٹی میں سندھ میں خود کو بچاءے رکھنے کی خواہش بڑی نمایاں تھی۔
۰حکومت پر ملکی ایسٹبلشمنٹ کے اثرو رسوخ کو کم کرنے کے لیے یپلز پارٹی نے بین الاقوامی ایسٹبلشمنٹ کا سہارا لیا اور امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ خصوصی تعلقات کو بہت زیادہ اہمیت دی جبکہ پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کو ثانوی اہمیت دی۔
۰نظام کے اندر اپنے دوستوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اعلی عہدوں پر اپنے لوگوں کی تقرری کی کوششیں کی گءیں۔ جسٹس ڈوگر کو بحال رکھنے اور جسٹس افتخار چوہدری کا راستہ روکنے کی کوششوں میں اس سوچ کا اہم کردار تھا۔
۰ پیپلز پارٹی ایک عرصے سے پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کے نشانے پر ہے۔ اس لمبے عرصے میں اس نے سیکھا ہے کہ ایسٹبلشمنٹ کے خلاف انفرادی انتقام اور ٹکراءو کی بجاءے درجہ بدرجہ ادارتی اصلاحا ت ہی ایک بہتر طریقہ کار ہے۔ اقتدار ملنے پر پیپلز پارٹی نےا یسٹبلشمنٹ کی طاقت کو کم کرنے کے لیے انفرادی حملوں کی بجاءے ادارتی اقدامات پر زیادہ توجہ مرکوز کی گءی اور متبادل یا لمبے عرصے کےمنصوبوں پر کام کرنے کی کوشش کی ۔ اس کی اہم ترین مثالیں بلوچستان پیکیج؛ آءینی پیکیج اور بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کے کمیشن کا قیام ہے
۰پیپلز پارٹی کو پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ اور بین الاقوامی ایسٹبلشمنٹ کے ساتھ اپنے بنیادی سمجھوتوں کی پاسداری کرنا تھی ۔ اس کی ایک مثال جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی سے مسسل گریز تھا ۔ تاہم اس دوران جب پاکستان آرمی پارٹی ضیا ء الحق نے پیپلز پارٹی کے متعلق ایسٹبلشمنٹ کے حامی ہو جانے کا پراپیگنڈہ کیا تو پیپلز پارٹی اپنا موثر دفاع نہیں کر سکی اور استبلشمنٹ کے متعلق اپنی طویل المدتحکمت عملی کو عوام کے سامنے واضح نہیں کر سکی ۔
۰آصف زرداری کی سیاست کا انداز پیپلز پارٹی کے کارکن کے لیے اجنبی تھا۔ بھٹو اور بے نطیر کے دور میں سیاست ؛ کارکن اور پارٹی لیڈرشپ ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے تھے جبکہ آصف زرداری کے دور میں کارکن کو ذیادہ تر حیران کن فیصلوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ اس سارے عرصے میں پیپلز پارٹی کا رواتی لیڈر اور کارکن زیادہ تر ابہام کا شکار رہا۔ ان کو اکثر ایسے اور تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے فیصلوں کا دفاع کرنا پڑتا تھا جن کی منظق کا انہیں خود بھی پتہ نہیں ہوتا تھا
۰بھٹو دور میں پیپلز پارٹی کی درمیانے درجے کی قیادت میں باءیں بازو اور ٹریڈ یونین سے آیے ہوءے تربیت یافتہ کارکن نمایاں تھے جو فکری سطح پر ’بھٹو ازم’ ؛ پیپلز پارٹی کی پالیسیوں اور عوامی مساءل کے درمیان واسطے کا کام کرتے تھے۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں یہ گروپ کمزور ہوا جبکہ آصف زرداری کے دور میں یہ لوگ مکمل طور پر غاءب ہو گءے ۔
۰نواز شریف کے اقتدار کے آخری دنوں میں اور پرویز مشرف کے پورے دور اقتدار میں بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کو اصل اذیت عدالتی نظام کے ذریعے دی گءی۔ اس وقت برے وقت میں جن لوگوں نے مقدمے لڑنے یا جیتنے میں ان کی معاونت کی
آصف زرداری نے حکومت میں آنے کے بعد انہی لوگوں پر اعتماد جاری رکھا ۔پاکستانی ایسٹبلشمنٹ نے جو ان لوگوں سے نالاں تھی بڑے منظم طریقے سے ان کے خلاف مہم چلاءی ۔پیپلز پارٹی عوامی سطح پر ان لوگوں کا دفاع نہیں کر سکی۔اس سارے دور میں لطیف کھوسہ؛ رحمان ملک ؛ بابر اعوان وغیرہ مسلسل تنقید کی زد میں رہے ۔ چونکہ یہ وہ لوگ تھے جو افتخار چوہدری سمیت دوسرے ججوں کے بے نظیر اور آصف زرداری کے کیسوں میں تعصبات کا سامنا کرتے رہے تھے عدلیہ کی بحالی میں آصف زرداری کی سوچ پر یہی لوگ اثر انداز ہو رہے تھے۔
۰ این آر او کے مسءلے پر پیپلز پارٹی دفاعی انداز اختیار کرتی رہی اور کسی بھی طرح ایک سیاسی معاہدے کے طور پر اس کی افادیت نہیں منوا سکی
اسی طرح اگر ہم مسلم لیگ نواز شریف کے رحجانات کا جاءزہ لیں تو ہمیں مندرجہ ذیل پہلو بہت نمایاں نظر آتے ہیں :
۰ مسلم لیگ نواز چونکہ پرویز مشرف کے دور میں پہلی بار ایسٹبلشمنٹ کے قہر کا شکار ہوءی تھی اس لیے وہ لمبے عرصے کے اقدامات کی بجاءے فوری اور افراد پر مرکوز اقدامات میں زیادہ دل چسپی رکھتی تھی۔ عدلیہ اور آءین وغیرہ میں اصلاحات کی بجاءے مسلم لیگ نواز پرویز مشرف کے خلاف کیس اورمشرف دشمنی کی علامت افتخا ر چوہدری کی بحالی کی خواہاں تھی
۰ تعلیم یافتہ متوسط طبقے کا ایک بڑا حصہ ہمیشیہ سے ہی پیپلز پارٹی کا مخالف رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ضیا ء دور سے لے کر پرویز مشرف کے دور تک اداروں میں جو لوگ بھی بھرتی ہوءے ان کی اکثریت پیپلز پارٹی کے خلاف تھی اس لیے مسلم لیگ نواز کے لیے اداروں کے اندر دوستوں کی کوءی کمی نہیں تھی۔ ان حا لا ت میں انصاف اور میرٹ جیسے نعروں کی حمایت میں مسلم لیگ نواز کا کوءی وقتی نقصان نہیں تھا ۔
۰مسلم لیگ نواز کے کارکن اور لیڈر پیپلز پارٹی مخالف؛ ضیاء حمایت یاجماعت اسلامی کا پس منظر رکھتے ہیں ۔ان لوگوں کے لیے پرویز مشرف اور امریکہ کے خلاف بنی ہوءی فضا میں پرویز مشرف ؛ امریکہ اور امریکہ کے حمایتی کے طور پر پیپلز پارٹی کے خلاف بات کرنا آسان اور ان کے پس منظر کے عین مطاابق تھا۔ اس صورتحال میں مسلم لیگ کے کارکن اپنی پارٹی کا نکتہ نظر بڑی کامیابی کے ساتھ واضح کرنے رہے ۔
۰نواز شریف نے جمہوریت پر زیادہ تر واضح اور دو ٹوک موقف اپنایا لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے ضیا ء الحقی لیڈروں کو امریکہ؛ افغانستان؛ بھارت اور پیپلز پارٹی پر پاکستان آرمی پارٹی ضیا ء الحق کے موقف کو اپنانے اور بیان کرنے کی چھٹی دی۔ یوں اس پارٹی نے اپنے ووٹ کے نءے دعوے داروں مثلآ عمران خان کو پر پھیلانے کے موا قع نہیں دءے اور پاکستان آرمی پارتی ضیا ء الحق کے ووٹوں میں اپنی حمایت برقرار رکھی۔
۰مسلم لیگ نواز نے بین القوامی ایسٹبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات کو توسیع دی اور طالبان پر اپنے موقف کو بڑی حد تک امریکہ اور برطانیہ کے لیے قابل قبول بنایا
۰ مسلم لیگ نواز نے پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کے خلاف عوامی سطح پر ایک جارحانہ موقف اپناتے ہوءے پس پردہ اس کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے سنجیدہ کوششیں کیں۔ ایسٹبلشمنٹ کے لیے ہمیشہ سے قابل قبول شہباز شریف نے پرانے واسطےچوہدری نثار کے ساتھ مل کر اہم ملاقاتیں کیں ۔
۰پرویز مشرف کو براہ راست نشانہ بنانے سے مسلم لیگ نواز نے اپنے متعلق ایک اینٹی ایسٹبلشمنٹ جماعت کا تصور منوا لیا
۰ مسلم لیگ نواز نے جلا وطنی کے دس سالہ معاہدے کو بڑے اعتماد اورجارحانہ انداز میں رد کیا ۔ یوں اس نے اپنی قیادت پرسے بزدلی کا لیبل بڑی کامیابی کے ساتھ ہتا دیا
اوپر بیان کردہ نکات سے واضح ہوتا ہے کہ اپنے ماضی کی بنا پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کا سیاسی لاءحہ عمل اور مساءل سے نپٹنے کا انداز بہت مختلف تھا۔ لیکن کچھ امور ایسے تھے جن پر کسی سمجھوتے پر پہنچنا جمہوریت کی بڑی فتح کے لیے ضروری تھا ۔ لیکن ان مساءل پر اختلافات نے پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ کو وہ خلا ء فراہم کر دیا جہاں وہ اپنے لیے جگہ بنا سکتی تھی:
۰جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے آءی ایس آءی کو محکمہ داخلہ کے ماتحت لانے کا فیصلہ کیا تو فیصلے پر عمل درامد کرانے کے لیے اس کو خفیہ رکھنا مناسب سمجھا۔ تاہم جیسے ہی یہ فیصلہ آیا نواز شریف کو اپنے سیاسی موقف کے برعکس اپنے ضیا ء الحقی لیڈروں کے نکتہ نظر کے سامنے چپ سادھنی پڑی اور مسلم لیگ نوازآءی آیس آءی کے بڑے حمایتی کے طور پر سامنے آءی ۔ یہاں آصف زرداری کی مشاورت نہ کرنے کی غلطی کا جواب نواز شریف نے آءی ایس آءی کی حمایت کی غلطی سے دیا
۰پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے بعد اعتزاز جسٹس افتخار چوہدری کو لے آصف زرداری کے پاس پہنچ گءے تھے ۔افتخار چوہدری کے ماضی کو سامنے رکھتے ہوءے ان سے وقتی طور پر نپٹنا کچھ مشکل نہیں تھا۔ یہ وہ موقع تھا جب آصف زرداری پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ اور امریکہ کے لیے اعتزاز احسن کے ذریعے افتخار چوہدری کے ضمانتی بنکر ان کو بحال کر سکتے تھے۔جب یہ موقع کھو دیا گیا تو نواز شریف نے آصف زرداری کو این آر او کی اسمبلی سے منظوری کی پیشکش کی لیکن معاملے کو لتکاتے ہوءے لانگ مارچ تک پہنچا دیا گیا اور یوں اپنے لیے ضمانت لے کر ایسٹبلشمنٹ نے ججوں کو بحال کروا دیا ۔تاہم اس معاملے کی ابتدا ء میں جب نواز شریف کو ججوں کی نءے حلف کے ذریعے بحالی یا بحالی کے ساتھ ساتھ عدالتی اصلاحات کی پیش کش کی گءی تو انہوں نے افتخار چوہدری کی نوٹی فیکیشن کے ذریعے بحالی کی ضد برقرار رکھی اور جمہوریت کو لمبے عرصے میں درپیش خطرات کا ادراک نہیں کیا
۰ستر ھویں ترمیم کی تنسیخ مسلم لیگ نواز کی بنیادی ترجیحات میں سے ایک ترجیح ہے۔ پیپلز پارٹی کے لیے یہ مسءلہ وسیع آءینی اصلاحات کے ساتھ جڑا یوا ہے۔ جبکہ مسلم لیگ کا موقف یہ ہے کہ اس معاملے کو آءینی اصلاحآت سے دور رکھا جاءے۔اس مسءلے پر اختلاف کے طول نے ایسٹبلشمنٹ کو طاقت میں آنے کے مواقع فراہم کیے ۔
۰ کیری لوگر بل کی متنازعہ دفعات مسلم لیگ نواز کی بیان کردہ پالیسیوں کے عین مطابق تھیں لیکن اس بل کے آنے کے بعد مسلم نواز نے اس کے خلاف اور ایسٹبلشمنٹ کی حمایت میں آواز اتھا کر پیپلز پارٹی کو نہتا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔
بے نظیر کی شہاد ت کے بعد جب قیادت آصف زرداری کے ہاتھ میں آءی تو پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ کے ذہن میں ابتادءی طور پر وہ آصف زرداری تھا جس سے انہوں نے جیل سے رہاءی سے پہلے طویل مذاکرات کیے تھے۔ لیکن آصف زرداری کے تیزی کے ساتھ کیے گءے کامیاب فیصلوں اور ایوان صدر میں داخل ہو نے کی وجہ سے پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کے مشرف کیانی گروپ نے آصف زرداری کو مستقبل کے خطرے کے طور پر لینا شروع کرد یا ۔ پیپلز پارٹی کی مندرجہ ذیل پالیسیوں اور فیصلو ں نے ایسٹبلشمنٹ کے دونوں گروہوں کو پیپلز پارٹی کے خلاف متحدہ مزا حمت پر ماءل کر دیا :
۰آصف زرداری نے مسءلہ کشمیر کے جلد حل کی نوید دے ڈالی جو کہ ان کے ذہن میں ترتیب دیے گءے سیاسی نقشے کی وجہ سے تھی نہ کہ دفتر خارجہ کی کسی بریفنگ کی بنیاد پر۔ اسی طرح انڈین میڈیا سے اپنے خطاب میں انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان آمدورفت کے لیے ویزا کی بجاءے ایک کارڈ کا تصور پیش کر دیا ۔اس طرح کی تجاویزپاکستانی ایسٹبلشمنٹ کے دونوں گروہوں کے لیے قابل قبول نہیں تھیں جن کے لیے مجموعی طور پر طالبان کو بھارت سے بڑا خطرہ سمجھنا کسی بھی طرح قابل قبول نہیں تھا۔
۰ایک عرصے سےپاکستانی ایسٹبلشمنٹ بین القوامی جنگی ایستبلشمنٹ کے ساتھ معاملات کو براہ راست طے کر رہی تھی۔آصف زرداری نے سول گورنمنٹ خصوصا خود کو ایک فریق کے طور پر منواتے ہوءے طالبان کے خلاف واضح کارواءی سے گریزاں پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ کو سوات میں فیصلہ کن کارواءی کے لیے آمادہ کر لیا ۔ پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ کے پاس اس کے علاوہ کوءی چارہ نہیں تھا کہ وہ میڈیا سمیت اپنے دوسرے ذیلی گروہوں کو اس آپریشن کی حمایت میں سامنے لے آیءں ۔
۰ بین القوامی ایسٹبلشمنٹ کے ساتھ سول حکومت کے تعلقات کو ادارتی حیثیت دیتے ہوءے ایسٹبلشمنٹ پر کچھ حدیں لگا کر ان کو کیری لوگر بل میں شامل کرا دیا گیا
۰بے نظیر کی شہادت سے پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ نے دہشت گردوں کے ہاتھوں ہونے والی ایک عام موت کی طرح نپتنے کی کوشش کی جس میں ایک دو دہشت گردوں کو پکڑ کر عدالت کے سامنے پیش کر دیا جاتا۔
اسی طرح پاکستان آرمی پارٹی ضیا ء الحق نے اسے امریکی سازش قرار دے کرخود کو اور اپنے دوست طالبان کو بری الزمہ کرانے کی راہ اختیار کی ۔ کسی بھی حکومتی ایجنسی کی تحقیقات ہر صورت میں متنازعہ قرار پاتیں۔ اس کے علاوہ کسی بھی ملکی تحقیقاتی ایجنسی کے لیے ممکن ہی نہ ہوتا کہ وہ پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ گروپ کی غفلت اور پاکستانی آرمی پارٹی کے اس شہادت میں واضح کردار کو سامنے لا پاتی۔ اس مرحلے پر عالمی تحقیقات کرانا ایک انتہاءی دانش مندانہ اقدام تھا جس سے اس شہادت میں ایسٹبلشمنٹ کا کردار کسی نہ کسی صورت میں سامنے آ جاتا ۔ایسٹبلشمنٹ کے لیے یہ تحقیقات آصف زرداری کی طرف سے لگایا جانے والا بہت بڑا پھندا تھیں ۔
۰طالبان کے ساتھ جنگ میں مصروف عالمی ایستبلشمنٹ کو ایک مستحکم پاکستان کی ضرورت تھی۔ اس ضرورت کو خوبصورتی کے ساتھ استعمال کرتے ہوءے پیپلز پارٹی نے چھوٹے صوبوں کے متعلق وہ فیصلے کیے جن کی عام حالات میں پاکستانی ایسٹبلشمنٹ اجازت نہ دیتی۔ امریکی آ شیر باد کے ساتھ سرحد میں اے این پی کو حکومت دے کر اس صوبے کے نام کے پرانے جذباتی مسءلے پر اے این پی کی کھلم کھلا حمایت کی گءی ۔ اسی طرح بین الاقوامی صورتحال کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوءے بلوچستان کے لیے بھی ایک آءینی پیکیج کا اعلان کیا گیا
پاکستان پیپلز پارٹی کی اس سوچ اور اقدامات کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان آرمی پارٹی ضیا ء الحق کو پہنچا جس کا مقابلہ کرنے کے لیے اس نے بمبءی حملوں کی صورت میں ایک اور کارگل کر دیا۔ حسب توقع بھارت کے بے لگام آزاد ٹی وی چینلز اور داءیں بازو کے انتہا پسندوں نے فورآ اپنی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیا ۔ایسا ہی رد عمل داءیں باازو کی جماعتوں اور ٹی وی چینلز نے پاکستان میں بھی پیدا کردیا ۔ بہت جلد ہی بھارت پاکستان تعلقات کا آصف ذرداری کا یو ٹوپیا ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ اس ساری صورتحال میں جمہوری قیادت کو بڑا واضح پیغام ملا کہ وہ نہ صرف ایسٹبلشمنٹ کے دو ست انتہا پسندوں )لشکر طیبہ وغیرہ( کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھ سکتی بلکہ اسے ان دوستوں کا دفاع بھی کرنا ہو گا۔
اس کے ساتھ ہی پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ کی طرف سے ایک طاقت ور میڈیا مہم تشکیل دی گءی جس کا محور آصف علی ذرداری تھے ۔ اس مہم میں پاکستان آرمی پارٹی ضیا ءالحق گروپ اور مسلم لیگ نواز کے علاوہ صفدر باسی اورناہیدعباسی جیسے پیپلز پارٹی کے مایوس افراد کو بھر پور انداز مین استعما ل کیا گیا ۔ پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گروپ کی طرف سے میڈیا کو کھلم کھلا اشارے مہیا کیے گءے ۔میڈیا کے باا ثر افراد نے آصف ذرداری کو صدارت سے متعلق مخلتف آپشن دینا شروع کر دءیے جن کا ماخذ بڑے واضح انداز میں ایسٹبلشمنٹ کو قرار دیا گیا ۔ ٹی وی اینکرز نے یہ تک کہا کہ ملک کے معروف صنعتکار حکومت کے خلاف اپنی شکایتیں لے کر چیف آف آرمی سٹاف سے ملے ہیں ۔ شماریات کی جادو گری سے آصف زرداری کو انتہاءی غیر مقبول شخصیت ثابت کرنے کی کوشش کی گءی
۔بنگلہ دیش ماڈل کے شوشے کے ذریعے سول سوساءیٹی اور ٹیکنو کریٹس کو مستقبل میں اقتدار میں شمولیت کا لالچ دیا گیا ۔ ۔مسلم لیگ نواز شریف نے اس صورتحال کو پیپلز پارٹی کی مقبولیت کو نقصان پہنچانے کے لیے بہت کامیبای کے ساتھ استعما ل کیا لیکن اس کے ساتھ ہی آصف زرداری کو کسی غیر آءینی طریقے سے ہٹانے میں ایسٹبلشمنٹ کا ساتھ دینے سے بھی انکار کر دیا ۔تاہم اسی دوران جب بھی مسلم لیگ نواز نے پیپلز پارٹی کی حمایت کی کچھ عرس کے لیے اس کے خلاف بھی پراپیگنڈہ شروع کر دیا گیا۔
اس ساری مہم کے دوران کچھ اور اہم تبدیلیاں بھی رو نما ہوءیں ۔پاکستان آرمی گروپ مشرف کیانی گروپ نے بڑی کامیابی کے ساتھ سوات کی کامیابیوں کو پیپلزپارٹی کے ساتھ مشترکہ کامیابی کی بجاءے صرف آرمی کی کامیابی بنا دیا ۔ ایک نءے بڑے کھلاڑی کے طور پر ابھرتے ہوءے نواز شریف نے ایسٹبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر دیا۔
اگرچہ پیپلز پارٹی کے لیے اس طرح کی صورت حال نءی نہیں تھی لیکن اس بار ایسٹبلشمنٹ کو ایک غیر متوقع رد عمل کا سامنا کرنا پڑا ۔ آصف زرداری نے جھکنے سے انکار کر دیا۔ یہ ان لمحوں میں ایک لمحہ تھا جن کا ادراک کرتے ہوءے بیگم نصرت بھٹو نے بے نظیر کے لیے حاکم علی ذرداری کے بیٹے کا انتخاب کیا تھا۔
فاروق لغاری کا کامیاب صدارتی انتخاب اور بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی نا کامی آ صف زرداری کی بھٹو خاندان کے محافظ کے طور پر وہ ابتداءی کامیا بیاں تھیں جن سے آصف زرداری ایسٹبلشمنٹ کی نطروں میں ایک کانٹے کی طرح کھٹکنا شروع ہوءے تھے۔ جواب میں انہیں پاکستان کی تاریخ کی طویل ترین سیاسی قید میں رکھ کرذہنی طور پر توڑنے کی کوشش کی گءی جس کا مقابلہ آصف زرداری اپنی مسکراتی تصویروں اوراخبارات میں شایع ہونے والی جملے بازی کی صورت میں کرتے رہے ۔ آصف زرداری کو اقتدار سے نکالنے کے لیے ایسٹبلشمنٹ کو مندرجہ ذیل مشکلات پیش تھیں:
۰ بین القوامی ایستبلشمنٹ کسی ایسی صورتحال کی حمایت کے لیے تیار نہیں تھی جس سے پاکستان کی توجہ طالبان سے ہٹے
۰مسلم لیگ نواز ایسٹبلشمنٹ کے کسی فوری ایڈونچر کا ساتھ دینے کے لیے تیا ر نہیں تھی
۰آصف زرداری اس ساری صورتحال میں مزاحمت کا عندیہ دے رہے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی کسی بھی ایسے رد عمل سے بچ رہے تھے جو ان کو کسی مسءلے سے دوچار کرد ے
ایسٹبلشمنٹ کی مایوسی اسے اس سطح پر لے آءی کہ پاکستانی افواج کو کیری لوگر بل پر اپنے تحفظات پریس کے ذریعے ظاہر کرنے پڑے آصف زرداری کے خلاف چلاءی جانے والی مہم کی یہ بڑی واضح اور بر وقت حمایت تھی۔ ۔ایم کیو ایم کی طرف سے آ صف زرداری سے قربانی کا مطالبہ اس دباءو کی انتہاءی شکل تھی۔ لیکن آصف زرداری کی طرف سے مزاحمت جاری رکھنے پرآخری حل کے طورسپریم کورٹ کے کردارپر واضح انداز میں بات کرنا شروع کر دی گءی۔ یہ وہ پس منظر تھا جس میں عزت مآ ب عدلیہ نے این آر او کے کیس کو سننے کا فیصلہ کیا۔
عدلیہ بحالی مہم کے دوران اعتزاز ااحسن عوام کو عدلیہ کی بحالی کی صورت میں ان کے سماجی اور معاشی حقوق کے حل کی ضمانت دیتے تھے ۔ اعتزاز احسن کی سیاسی ضرورتوں ؛ اس مہم کے ساتھ ان کی جذباتی وابستگی اور ان کے پرانے فکری کنفیوزن کی بنا پر ان سے اس بات کی توقع کی جا سکتی تھی۔ لیکن حیرت کی بات تھی کہ باءیں بازو ؛ سیکولر ازم اور لبرل ازم کے بہت سے علم بردار انصاف کے نظام میں کوءی بنیادی تبدیلی لاءے بغیر اس مہم سے بہت سی توقعات وابستہ کیے بیتھے تھے۔
اس مہم میںانکی شمولیت کا بنیادی مفروضہ تھا کہ سیاسی؛ سماجی اور معاشی شعور سے بے بہرہ چند شخصیات کی کایا کلپ ہو گءی ہے اور اگر طاقت کا توازن ان کے حق میں کر دیا جاءے تو وہ جمہوری اقدار کا احیاء کر دیں گے۔ یہ سارے مفروضے اس وقت غلط ثابت ہوگءے جب عزت مآب ججوں نے آءی ایس آءی کے کردار سے متعلقہ پرانے مقدمے کو اپنی ترجیحات میں نہیں رکھا۔ اس مقدمے کی شنواءی اس صورتحال کو واضح کرتی جس میں پاکستانی سیاست میں نوٹوں سے بھرا بریف کیس اہم ترین چیزقرار پاءی۔ یہ مقدمہ وہ صورتحال بھی سامنے لاتا جس میں ایمانداری کو اپنا آیدیل سمجھنے والی سیاست دان بے نظیر بھٹو کو ایجسنسیوں کے سیکرٹ فند کی مدد سے شکست دی گءی۔
یہ مقدمہ ضیا ء الحق کے اس کردار کو بھی سامنے لے آتا جس نے سیاست کو کرپشن کی راہ پر ڈال دیا ۔ اگر عزت مآ ب عدالت گمشدہ افراد کے مقدمے کو ہی ترجیحی بنیاد پر سنتی اور تیزی کے ساتھ نپٹاتی تو ایسٹبلشمنٹ پر دباءو برقرار رہتا۔ لیکن عدلیہ نے اس راہ کا انتخاب نہیں کیا ۔
یہ کیوں کیا گیا اس کا اشارہ جسٹس جاوید اقبال کے اس تبصرے سے ملتا ہے جو انہون نے گم شدہ افراد کے مقدمے کی سماعت کے دوران کیا۔ ان کے الفاظ کہ ’ ہم نے ایک بار آءی ایس آءی کے چیف کو بلوایا تھا اور اس کے بعد اٹھارہ ماہ کے لیے عدالت سے باہر رہے’ اس سوچ کی عکاسی کرتے ہیں جو سپریم کورٹ میں ایسٹبلشمنٹ سے متعلق پاءے جاتی ہے۔
پیپلز پارٹی عدلیہ کی بحالی کے بعد مسلسل مفاہمت کے اشارے دے رہی تھی۔ این آر او کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے خلاف کامیاب مہم کے بعدپیپلز پارٹی کو مشورہ دیا گیا کہ وہ عدالت میں اس کی مزاحمت نہ کرے جس کے نتنیجے میں این آر او کے تحت دءے گءے فاءدوں کو قاءم رکھنے؛ مقدموں کو عدالتوں میں واپس بھیجنے اور حکومتی اثر کے تحت نپٹانے اور آصف علی ذرداری کو صدر کے طور پر دءیے گءے استثنا ء کی وجہ سے ان کے وقتی طور پر بچ جانے جیسے فواعد حاصل ہو سکتے تھے۔
لیکن یہ سب ایک خوش فہمی ثابت ہوا اور جو فیصلہ سامنے آیا اس سے عدالتی کایا کلپ کے مفروضے کو ماننے والے عاصمہ جہانگیر؛ عا بد حسن منٹو؛ علی احد کرد جیسوں کو بھی شدید رد عمل کا مظاہرہ کرنا پڑا ۔عدلیہ جمہوریت کی پیٹھ میں چھرا گھونپ چکی تھی۔
اس فیصلے کے بعد ایسٹبلشمنٹ کے سامنے مزاحمت کی کوءی گنجاءش نہیں رہی تھی ۔ایجنسیوں کے زیر اثر وزیر دفاع کو چین جانے سے روکنا ایک بھر پور واررنگ تھی کہ اگر انتظامی اداروں نے سپریم کورٹ کے احکامات ماننا شروع کر دءے تو کیا ہو سکتا ہے؟ یہی وہ دور تھا جب بھارت اور چین میں تھوڑا تناءو پیدا ہوا اور بھارت نے اپنی حربی طاقت اور حکمت عملی کے متعلق بیا نات دیے ۔یہ وہ صورتحال ہوتی ہے جو ہمیشہ پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کی حمایت میں جذباتی ماحول پیدا کر دیتی ہے۔
حالات تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہو گءے ۔ ۔یوسف رضا گیلانی کو اندازہ ہوا کہ ایک بے مہار سپریم کورٹ اس کی حکومت کے ساتھ کیا کرسکتی ہے؟ ایوان صدر میں ہونے والے اجلاس میں مفاہمت کے خلاف پیپلز پارٹی کا بھرپور رد عمل سامنے آیا۔ یوسف رضا گیلانی کو ایک بار پھر ادراک ہوا کہ ان کی اپنی سیاسی حیثیت کیا ہے اور آصف زرداری سے بے وفاءی ان کو کہاں تک لے کر جا سکتی ہے؟ آصف زرداری نے بلاول کی واپسی تک خود کو قتل ہونے سے بچانے کی حکمت عملی پر نظر ثانی کی ۔
اسی مرحلے پر پیپلپز پارٹی کو سوچنے کا موقع ملا کہ اس کی مفاہمت کی پالیسی یہ پیغام دے رہی ہے کہ ان کی سودے بازی کی حیثیت کمزور ہو گءی ہے۔ اور پھر وہ سب کچھ ہوا جو آج ہو رہا ہے ۔ پیپلز پارٹی ایسٹبلشمنٹ کے قومی تحفظ کے نظرءے کے سامنے ہتھیار ڈال چکی ہے اور آصف زرداری؛ یوسف رضا گیلانی اور رحمان ملک کے منہ سے ایسٹبلشمنٹ کے الفاظ نکل رہے ہیں ۔ شہباز شریف ایسٹبلشمنٹ کو مفاہمت کے اشارے دے رہے ہیں ۔ شیر اہنا حصہ لے چکا ہے ؛ اب بین القوامی ایسٹبلشمنٹ کے ساتھ معاملات اورافغانستان اور ہندوستان کے ساتھ تعلق پاکستان آرمی پارٹی مشرف کیانی گرو پ طے کیا کرے گا۔ جو معاملات اس کے علاوہ ہیں وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز شریف ایک دوسرے سے پنجہ آزماءی سے طے کریں گے۔ یہ طے نہیں ہوا کہ ایسٹبلشمنٹ عدلیہ سے کوءی اور بھی کام لینا چاہتی ہے ہا نہیں؟ اگر عدلیہ کا کام ختم ہو چکا تو پھر آنے والے دنوں میں انتطامیہ کے ہاتھوں اس کی تضحیک شروع ہو جاءے گی۔ پیپلز پارٹی اور ایسٹبلشمنٹ کے درمیان معاملات تیزی سے طے ہو رہے ہیں ۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی تحقیقات سے آرمی اور آءی آیس آءی کو نکال کر آرمی کی انا کی تسکین کر دی گءی ہے۔ بلوچستان پیکیج بڑی حد تک نیوٹرل ہو چکا ہے۔آءینی پیکیج سے پہلے سترھرویں ترمیم پر نواز شریف کا اصرار جاری ہے۔ یہ بات اب غیر متعلق ہو گءی ہے کہ آصف زرداری اقتدار میں رہتے ہیں یا نواز شریف آتے ہیں ؛ موجودہ حکومت رہتی ہے یا مڈ ٹرم انتخابات ہوتے ہیں طاقت ایسٹبلشمنٹ کے پاس جا چکی ہے ۔
مبارک ہو ؛ عزت مآ ب جج صاحبان ؛ آ پ نے جمہوریت کے گلے میں پھندہ ڈال دیا ہے
“People who live in glass houses should not throw stones” means that we should not say insulting things to other people because they could easily do the same thing to us. Judge Not Lest Ye Be Judged! and Let He Who is Without Sin Cast the First Stone.”
Dirty Role of Justice (R) Saeed uz Zaman Siddiqui.
The day, the Chief Justice Siddiqi refused to take oath under the PCO, the News and Jang newspapers reported that an investigation is being initiated against former Chief Justice Saeeduzzaman Siddiqui and his wife on charges of corruption under normal laws. DETAILS ARE AS UNDER:
NRO & Dirty Role of Justice (R) Saeed uz Zaman Siddiqui.
http://chagataikhan.blogspot.com/2010/01/nro-dirty-role-of-justice-r-saeed-uz.html
Problem is this that Liars don’t have good memory and that is the case with Jang Group of Newspapers and their “Alleged Islamists” Journalists in particular Ansar Abbasi, read CJ’s affidavit and then read two conflicting news items published in the same newspaper i.e. Jang and News.
“QUOTE”
The ‘other persons’ entered the room immediately. They were: Prime Minster Shaukat Aziz, the Directors General of Military Intelligence (MI), Director General of Inter Services Intelligence (ISI), Director General Intelligence Bureau (IB), Chief of Staff (COS) and another official. All officials (except the IB chief and the COS) were in uniform. “The meeting lasted about 30 minutes. The chiefs of the MI, ISI and IB stayed back, but they too did not show him me a single piece of evidence.” In fact, Justice iftikhar said, no official, except the ISI chief, had any document with him. The officials, however, alleged that Justice Iftikhar had used his influence to get his son admitted in Bolan Medical College, Quetta, when he was serving as a judge of the Balochistan High Court. The ISI and MI heads persisted in their demand for resignation, the CJ said. “I refused, saying that the demand has a collateral purpose.” REFERENCE: CJ says chiefs of MI, ISI asked him to quit: Affidavit on March 9 camp office event By Iftikhar A. Khan May 30, 2007 Wednesday Jamadi-ul-Awwal 13, 1428http://www.dawn.com/2007/05/30/top1.htm
“UNQUOTE”
NOW READ LIES AND PACK OF CONTRADICTIONS IN THE NEWS INTERNATIONAL:
Article Ansar Abbasi on Gen Kayani who had even offered a cup of coffee to CJ is as under:
“QUOTE”
This is also in public knowledge that even during the days when Musharraf was an all powerful dictator, he had also refused to give an affidavit against the incumbent Chief Justice of Pakistan Justice Iftikhar Muhammad Chaudhry following his controversial suspension on March 9, 2007. Perhaps not many know that Musharraf and some of his other Generals misbehaved with the chief justice on March 9 in order to coerce him into tendering resignation, Gen Ashfaq Parvez Kayani, the then ISI chief, was decent and polite with the chief justice. While others were rude towards the CJ, it was Gen Kayani, who had even offered a cup of coffee to Justice Iftikhar Muhammad Chaudhry.Army to stay away
Thursday, July 23, 2009 Kayani treated Iftikhar with respect when Musharraf and aides misbehaved with him By Ansar Abbasihttp://www.thenews.com.pk/top_story_detail.asp?Id=23417
“UNQUOTE”
“QUOTE”
How dictator Musharraf used his colleagues against Justice Iftikhar Friday, December 25, 2009 By Usman Manzoor
http://thenews.jang.com.pk/top_story_detail.asp?Id=26280
http://www.jang.com.pk/jang/dec2009-daily/25-12-2009/main.htm
ISLAMABAD: The detailed judgment in the case of the restoration of the Chief Justice of Pakistan on July 20, 2007 reveals that not only Pervez Musharraf but the then Director General ISI and the DG Military Intelligence (MI) had also insisted that the chief justice resign during his illegal detention at the Army House Rawalpindi on March 9, 2007.
“UNQUOTE”
Where was the so-called Judicial Activism????
Right after the resignation of General Musharraf from the Post of the President of Pakistan, Mr. Athar Minallah the Chief Spokesman of the then defunct Defunct Chief Justice Iftikhar Mohammad Chaudhary in Private Pakistani TV Channel [AAJ], demanded Treason Trial under article 6 of 1973 Constitutiuon of Islamic Republic of Pakistan while shamelssly forgetting that Athar Minallah, also served in the Musharraf cabinet for two years. Shouln’t Mr Athar Minallah be brought to Justice as well because abetting in a crime is tantamount to committing a crime. Athar was appointed Minister for Law, Local Government, Parliamentary Affairs and Human Rights by the Provincial Government of NWFP (2000-2002) by General Musharraf Military Regime. Athar Minallah joined the prestigious Civil Service of Pakistan (CSP) and after serving for 10 years left the post of Additional Collector Customs to join the firm as a partner. Athar Minallah brings not only rich taxation experience but also valuable scholastic input. Athar completed his law degree from the International Islamic University (Islamabad) and his LLM from University of Cambridge, UK. And his areas of interest are taxation, judicial review, Athar was appointed Minister for Law, Local Government, Parliamentary Affairs and Human Rights by the Provincial Government of NWFP (2000-2002). He also was the member of the Task Force constituted by the Federal Government for revamping the Taxation regime in Pakistan. Currently he is the member of the Policy Board of Intellectual Property of Pakistan and Chairman of Alternate Dispute Resolution Committee (ADRC) for Sales Tax constituted by the Central Board of Revenue.
“QUOTE”
The crackdown, announced late Saturday night after General Musharraf suspended the Constitution, was clearly aimed at preventing public demonstrations that political parties and lawyers were organizing for Monday. “They are showing zero tolerance for protest,” said Athar Minallah, a lawyer, and a former minister in the Musharraf government. REFERENCE: Musharraf Consolidates His Control With Arrests By JANE PERLEZ
Published: November 4, 2007 http://www.nytimes.com/2007/11/04/world/asia/04cnd-pakistan.html?_r=1&hp
Asif Zardari, husband of former Prime Minister Benazir Bhutto, has waited for more than 5 years for the start of his trial on charges of killing his brother-in-law, Murtaza Bhutto in 1997. In April 1999, Zardari was tried and convicted separately on corruption charges. In December 2001 Zardari received bail but was not released; the NAB ordered his continued detention on suspicion of corruption. Despite government claims that NAB cases would be pursued independent of an individual?s political affiliation, NAB has taken a selective approach to anti-corruption efforts (see Section 1.d.). The Musharraf Government in 1999 created by ordinance the NAB and special accountability courts to try corruption cases (see Section 1.d.). The NAB was created in part to deal with as much as $4 billion (PKR 208 billion) that was estimated to be owed to the country’s banks (all of which were state-owned at the time; several have since been privatized) by debtors, primarily from among the wealthy elite. The Musharraf Government stated that it would not target genuine business failures or small defaulters and does not appear to have done so. The NAB was given broad powers to prosecute corruption cases, and the accountability courts were expected to try such cases within 30 days. As originally promulgated, the ordinance prohibited courts from granting bail and gave the NAB chairman sole power to decide if and when to release detainees. The ordinance also allowed those suspected by the State Bank of Pakistan of defaulting on government loans or of corrupt practices to be detained for 15 days without charge (renewable with judicial concurrence) and, prior to being charged, did not allow access to counsel. In accountability cases, there was a presumption of guilt, and conviction under the ordinance can result in 14 years’ imprisonment, fines, and confiscation of property. Those convicted also originally were disqualified from running for office or holding office for 10 years. In August 2000, the Government announced that persons with a court conviction would be barred from holding party office. This provision was used during the general election to prevent certain candidates from entering the contest. REFERENCE: Pakistan Country Reports on Human Rights Practices Bureau of Democracy, Human Rights, and Labor 2002 March 31, 2003 http://www.state.gov/g/drl/rls/hrrpt/2002/18314.htm
Pakistan
National Level: The Musharraf Government in 1999 created by Ordinance the NAB (National Accountability Bureau) and special accountability courts to try exclusively corruption cases. These Courts are part of the national judicial system and operate under the Chief Justices of the High Courts of Pakistan. For up-to-date statistics on the number and type of cases files, convicted and acquitted, please refer to the Appendix. The NAB was created in part to deal with as much as $4 billion (PKR 208 billion) that was estimated to be owed to the country’s banks (all of which were state-owned at the time; several have since been privatized) by debtors, primarily from among the wealthy elite. The Musharraf Government stated that it would not target genuine business failures or small defaulters and does not appear to have done so. The NAB was given broad powers to prosecute corruption cases, and the accountability courts were expected to try such cases within 30 days. As originally promulgated, the ordinance prohibited courts from granting bail and gave the NAB chairman sole power to decide if and when to release detainees.
The ordinance also allowed those suspected by the State Bank of Pakistan of defaulting on government loans or of corrupt practices to be detained for 15 days without charge (renewable with judicial concurrence) and, prior to being charged, did not allow access to counsel. In accountability cases, there was a presumption of guilt, and conviction under the ordinance can result in 14 years’ imprisonment, fines, and confiscation of property. Originally, those convicted were set to disqualify from running for office or holding office for 10 years. In August 2000, the Government announced that persons with a court conviction would be barred from holding party office. This provision was applied during the general election to prevent certain candidates from entering the contest. REFERENCE: I. Special Corruption Courts in Asia http://www.u4.no/helpdesk/helpdesk/queries/query19.cfm
The new government’s principal vehicle for detaining former officials and party leaders, however, was the National Accountability Ordinance, a law ostensibly created to bring corrupt officials to account. The ordinance confers sweeping powers of arrest, investigation, and prosecution in a single institution, the National Accountability Bureau (NAB), and permits detainees to be held for up to ninety days without being brought before a court. The law was later amended to facilitate conviction by shifting the burden of proof during trial from the prosecution to the defense.
There were persistent reports of ill treatment in NAB custody, particularly in the case of high profile detainees who were held early in the year in Attock Fort. Persons convicted under the ordinance were prohibited from holding public office for a period of twenty-one years. An amendment to the Political Parties Act in August also barred anyone with a court conviction from holding party office. The combined effect of these acts, as they were applied, was to eliminate the existing leadership of the major political parties. While administration officials said that parties would be allowed to participate in future elections to the Senate and national and provincial assemblies, local government elections, scheduled to be held in December, were to be conducted on a non-party basis.
The Musharraf government also suppressed political activity by conducting raids on party offices, preventing political rallies from being held, and lodging criminal cases against rally organizers under laws governing sedition and the Maintenance of Public Order (MPO) Ordinance. The sedition law, Section 124-A of the Pakistan Penal Code, criminalizes speech that “brings or attempts to bring into hatred or contempt, or excites or attempts to excite disaffection towards, the Central or Provincial Government established by law.” Section 16 of the Maintenance of Public Order Ordinance prohibits speech that “causes or is likely to cause fear or alarm to the public” or any section thereof, or which “furthers or is likely to further any activity prejudicial to public safety or the maintenance of public order.”
Rana Sanaullah Khan, a member of the suspended Punjab provincial assembly from Sharif’s Pakistan Muslim League (PML), was arrested in Faisalabad on November 28, 1999. The arrest came after he criticized the army at a meeting of former legislators and urged his colleagues to launch a protest movement against the military government. He was tortured while in custody, and criminal charges were registered against him under the sedition law and MPO .
On March 15, the government formally curtailed freedom of association and assembly with an order banning public rallies, demonstrations, and strikes. The order’s enforcement against a procession from Lahore to Peshawar that Nawaz Sharif’s wife, Kulsoom Nawaz, had planned to lead, resulted in the arrests of at least 165 PML leaders and activists. On September 21 the ban was also invoked against 250 members of the hardline Sunni Muslim group, Sipah-e-Sahaba, who had planned a march to celebrate a religious anniversary. REFERENCE: Human Rights Developments http://www.hrw.org/legacy/wr2k1/asia/pakistan.html
Case of Hammad Raza
Supreme Court officer murdered By Mohammad Asghar May 15, 2007 Tuesday Rabi-us-Sani 27, 1428 http://www.dawn.com/2007/05/15/top3.htm
ISLAMABAD, May 14: Supreme Court’s additional registrar Syed Hammad Amjad Raza was shot dead by four men who broke into his house before dawn on Monday. Talking to Dawn, a police officer claimed that the murder had been committed by robbers, but Mr Amjad Raza’s widow Shabana, a witness to the killing, said it was a target killing. She alleged that the government and agencies were involved in the murder.
She said that she saw several policemen lurking around in the lawn of her house when she ran out crying for help, but they did nothing to catch the culprits. She vowed to do everything possible to bring those responsible to justice.
Her brother, Abid Hussain Shah, also insisted that it was not a case of robbery, because nothing had been found missing from the house, except two cellphones. “It’s a target killing and a message to judges,” he said.
Soon after the murder, judges of the Supreme Court, including Chief Justice Iftikhar Mohammad Chaudhry, visited Mr Raza’s house and, taking suo motu action, ordered the Inspector General of Police and the Senior Superintendent of Police of Islamabad to appear before the court on Tuesday.
“We will supervise the police investigation and will take care of the family,” Justice Javed Iqbal told reporters.
“Law and order is deteriorating in the country and it is a moment to think for everybody,” he said.
IGP Iftikhar Ahmad told Dawn that a seven-member police team had been constituted to investigate the murder “on different lines”.
Two officers of the British High Commission, Consular Albert David and Helen Rawlins, also visited Mr Raza’s house and talked to the widow who is a British national.
When asked about their meeting with Ms Shabana, the diplomats said that being a British national “she had requested us to provide her security” but gave no details.
According to the family, four people broke into Mr Raza’s official residence through the kitchen window at around 4.15am. They overpowered his parents who lived on the ground floor, tied them up and asked them about Mr Raza.
Syed Amjad Ali Mashedi Rizvi, father of Mr Raza, said the intruders held the teenage housemaid Ashee at gunpoint and forced her to take them upstairs to Mr Raza’s bedroom.
“As my husband responded to the knocks and opened the door, we saw four clean-shaven men in trousers and shalwar kameez. They were aged between 28 and 35. One of them was holding a pistol and another carried a knife. On seeing Hammad, the gunman shot him in the head and fled,” Ms Shabana said.
She said she ran downstairs crying for help and was surprised to see some policemen in the lawn. They did not do anything. However, police officer Shaukat Pervaiz, a neighbour, responded to her screams. SP Pervaiz, who is detailed with the prime minister’s security squad, shouted at a police patrol, standing about 100 feet away from his house, to catch the culprits but by the time the patrol moved the attackers had disappeared.
Security agencies had questioned Mr Raza for four days after the removal of Chief Justice Iftikhar.
Acting Chief Justice Rana Bhagwandas visited the residence of Mr Raza, who served as a DMG officer in Balochistan before being brought to the Supreme Court by Justice Iftikhar.
The acting chief justice directed the registrar of the Supreme Court to make arrangements with regard to burial and other matters and prepare a compensation package for the widow and children of the deceased.
Asif Shahzad adds from Lahore: Mr Raza was buried in Lahore’s Allama Iqbal Town.
Talking to Dawn, Intizar Mehdi, a cousin of the deceased, alleged that it was a target killing. “The moment Hammad opened the door, the intruders shot him in the head without having any argument,” he said, adding that the robbers would not act the way the killers had. There was a lot of jewellery and cash in the house but the gunmen had not touched anything, he said.
The deceased is survived by the wife and three children.
Hammad probe not focussed on ‘targeted killing’ By Mohammad Asghar
May 17, 2007 Thursday Rabi-us-Sani 29, 1428 http://www.dawn.com/2007/05/17/top5.htm
ISLAMABAD, May 16: Investigation into the murder of Supreme Court’s Additional Registrar Syed Hammad Amjad Raza is focussed on several ‘theories.’
“Investigators are looking at several theories in connection with the murder of Supreme Court’s officer, mostly focusing on a `robbery case’ rather than the `target killing and a message to judges’ as his family has claimed,” a senior police official close to the investigation told Dawn on Wednesday.
Supreme Court’s Additional Registrar Syed Hammad Amjad Raza, a father of three, was murdered by a gang of four armed men who had broken into his house through kitchen, held his parents at gunpoint and then going upstairs shot Mr Hammad at point-blank range, killing him on the spot.
As part of the investigation, police are checking the record of history-sheeters and trying to let members of the victim’s family identify the culprits by showing them photographs of the gangs of robbers who are on police record.
“There are different gangs of robbers and they all have different ways of striking. The way the four-member gang struck the Supreme Court officer is being matched with those on police record,” Islamabad’s Deputy Inspector-General of Police Shahid Nadeem Baloch told Dawn.
As part of the investigation, a police officer has been sent to Lahore to seek help from the slain officer’s family.
The parents of the deceased, Mr Baloch said, had been requested to help the police, because they had seen the armed men,” Mr Baloch said.
The police had collected one live round and an empty cartridge and documented finger prints. Sketches of the culprits would be drawn after sharing the record of culprits with the victim’s family, police said.
As part of the investigation, law-enforcement officials have interviewed labourers, electricians, servants and housemaids who had worked at Mr Hammad’s house in the past.
Meawhile, DIG Shahid Nadeem Baloch, SSP Zafar Iqbal and SP (Investigation) Ashfaq Ahmed appeared before Mr Justice Javed Iqbal and Mr Justice Abdul Hameed Dogar on Wednesday.
The judges directed the police officers to ensure that the investigation was conducted fairly, impartially, honestly and expeditiously so that offenders were brought to justice.
The judges were informed that SSP (Investigation) Ashfaq Ahmad was investigating the case and the probe would cover all aspects and every effort would be made not only to trace the culprits, but to do it expeditiously.
The judges directed the police officers to submit daily progress report in writing by 1 pm.
Meanwhile, a meeting of the Pakistan DMG Association was held in Islamabad on Wednesday to condemn the murder of Syed Hammad Raza. The representative body of the DMG officers passed a resolution, demanding a judicial inquiry by a judge of the high court into the murder of Mr Hammad.
They demanded formation of a legal committee to pursue the investigation and judicial inquiry into the murder.
They also decided to wear black armbands every Monday for a month to express their solidarity with Mr Hammad and to express their concern over the murder.
They also called for a memorial reference in Mr Hammad’s memory.
Who killed Hamad Raza? Tuesday, May 15, 2007 Ansar Abbasi http://www.thenews.com.pk/top_story_detail.asp?Id=7833
ISLAMABAD: Who killed Hamad Raza? And why? The answers to these questions may take some time but the batchmates and colleagues of this fine District Management Group (DMG) officer are really in a state of shock. Some of these officers in their background discussions confided to this correspondent that the officer was under immense pressure to stand in the witness box against the chief justice. Raza was not a Supreme Court official but a civil servant appointed to the apex court by Chief Justice Iftikhar Muhammad Chaudhry on deputation. Though he was given the title of additional registrar, he was serving as a personal staff officer of Justice Iftikhar, who is facing a presidential reference today.
A source told this correspondent that the agencies men were asking him to provide them with details like the number of plots the chief justice has. Hamad also shared with his friends and family that he was asked frivolous questions like the character of the chief justice’s son, Dr Arsalan, and his relations with his wife.
Hamad Raza was from 23rd batch of the DMG and has the reputation of an outstanding officer of unimpeachable integrity. According to his colleagues, who had seen him working closely for the last several years, despite having Punjab domicile the officer served with great integrity and grace in Balochistan for almost the first eight years of his service, while for most of the DMGs the province has become a no-go area.
He was director health Balochistan and also served as deputy secretary staff to the chief secretary Balochistan. Raza also served as deputy secretary in the Service and General Administration Department (S&GAD). Considering his outstanding reputation and service orientation and panache for rule of law, the chief justice requisitioned his services for appointment as the additional registrar of the Supreme Court. Everyone in the SC knows that he was in a way personal staff officer to the chief justice and it was for this very reason that he got the third degree in repeated sessions by the agencies.
Raza was a gold medalist from Quaid-i-Azam University, and was among top-10 in batch of 1996 in the CSS examinations. He was extremely well read, had informed views on issues facing the nation and was full of energy and spirit to serve the country selflessly, according to his colleagues, he belonged to Shariqpur and came from a middle-class background.
He told his family and friends during the last two months that on a number of occasions he was summoned by agencies that were trying to get information about the alleged “wrongdoing” of the chief justice. He, according to his friends, was being pressurised to give evidence in support of reference. His contention, according to them, was that yes he would stand witness, but not for any party, only for truth and justice.
“He lived and acted for the rule of law, and died for the rule of law,” a DMG officer said, adding that the circumstances of his death warrant a judicial inquiry by a high court judge. The circumstances of his killing, most of these DMGs believe, suggested that it was a targeted killing masked as dacoity.
His wife is a Pakistan British national, who, the deceased’s friends present there claimed, told the hon’able Supreme Court judges, who visited Hamad’s official residence, that they should be careful about their own lives and security. She termed the incident a target killing. A batchmate of Hamad said that he was a dead honest officer and had just been allotted an official residence in G-10, where he was killed in cold blood.
The officer was living in a semi-furnished house. His batch mate wondered, “Only insane dacoits will try to rob a grade 19 official living in such a run-down neighbourhood, whereas across the road they can find affluent houses of the rich and wealthy.” He said that Hamad’s wife showed the gold bangles she was wearing to visitors and asked if it was a dacoity, then why did they not take this jewellery and other valuables like lap top etc.”
One Law for Nazir Naji and quite another for Justice Ramday:
New list of plot beneficiaries presented in Senate Saturday, January 16, 2010 By our correspondent http://www.thenews.com.pk/daily_detail.asp?id=219055
ISLAMABAD: Housing Minister Rehmatullah Khan Kakar has submitted a new list in the Senate containing the names of 53 former judges, including ex-chief justices of the Supreme Court and high courts, 65 former bureaucrats, 59 journalists and 36 politicians who were given plots during 1985-2001.
The names were forwarded to the Upper House in reply to a written question put forward by one of the senators, who had asked the Ministry of Housing and Works to give the names of all those judges, journalists, politicians, bureaucrats, etc, who were given plots by the ministry since 1985-2001.
The new list contains the names of those beneficiaries who were given plots by the Federal Employees Housing Foundation, the Ministry of Housing and Works. The names of politicians in particular and others in general might surprise the public if they ever came to the surface as majority of them had got residential plots allotted in their names from General Zia to Junejo, Benazir Bhutto to Nawaz Sharif by the Capital Development Authority in the same period and the list might be huge.
The journalists were given plots under the government quota of two per cent, fixed for all those journalists who did not have any house or plot in their names in Islamabad.The nine former judges of the Supreme Court are part of this new list while rest of the judges who got plots belonged to the four provincial higher courts.
Former Chief Justice of Pakistan Saeeduzzaman Siddiqui also got a plot in Islamabad. Justice (retd) Bhagwandas also took a plot in Islamabad when he was serving as a judge of the SHC.Former Attorney General for Pakistan Justice (retd) Malik Qayyum also took a plot in the federal capital when he was working as a judge at the Lahore High Court. Former LHC Chief Justice Chaudhry Iftikhar Hussain also took a plot in Islamabad.
Former NA Speaker Ch Amir Husasin also got one plot in Islamabad from the Ministry of Housing and Works. Akram Zaki, Kunwar Idris, Mohammad Anwar Zahid, Kalim Dil Khan, Saleem Abbas Jilani, F K Bandial, Hassan Zaheer, Aziz Qureshi and Kamran Rasool are among some of the prominent federal secretaries in the list of 65 civil servants who got plots during 1985-2001.
A quick look at the list reveals that majority of the judges got residential plots in Islamabad when they were serving in the high courts.
JUDGES: Following are Supreme Court judges who got plots: Justice (retd) Mir Hazar Khan Khoso, Justice (retd) Manzoor Hussain Sial, Justice Saad Saud Jan, Justice Fazal Elahi Khan, Justice Abdul Hafeez Memon, Justice Mukhtar Ahmed Junejo, Justice Raja Afrasiab Khan, Justice Moahmmad Bashir Jahangiri, Justice Saeeduzzam Siddiqi. Besides, the following judges of the four provincial high courts also got plots.
Justice Dilawar Mahmood (Ministry of Labour), Justice Abdul Karim Khan Kundi (PHC), Justice Mian Ghulam Ahmed (LHC), Justice Agha Saifuddin Khan (SHC), Justice Kazi Hameeduin (PHC), Justice Arif Iqbal Bhatti (LHC), Justice Syed Ibne Ali (PHC), Justice Mohammad Aqil Mirza (LHC), Justice Sheikh Mohammad Zuabir (LHC), Justice Abdul Hafeez Cheema (LHC), Justice Sharif Hussain Bokhari (LHC), Justice Abdul Rehman Khan (LHC), Justice Mohammad Islam Bhatti (LHC), Justice Kamal Mansoor Alam (SHC), Justice Sajjad Ahmed Sipra (LHC), Justice Mahboob Ali Khan (PHC), Justice Ali Mohammad Baloch (SHC), Justice Qazi Mohammad Farooq (PHC), Justice (R) Mohamamd Nasim (LHC), Justice Munir A Sheikh (LHC), Justice Fida Mohammad Khan (Federal Sharaiat Court), Justice Tanveer Ahmed Khan (LHC), Justice Amir Alim Khan (LHC), Justice Ehsanul Haq Ch (LHC), Justice Nazim Hussain Siddiqi (LHC), Justice Mian Nazir Akthar (LHC), Justice Ahmed Ali Mirza (SHC), Justice Raja Mohammad Sabir (LHC), Justice Karamat Nazir Bhandari (LHC), Justice Rashid Aziz Khan (LHC), Justice Munwar Ahmed Mirza (BHC), Justice Bhagwandas (SHC), Justice Mohammad Nawaz Marri (BHC), Justice Nawaz Khan Gandapur (PHC), Justice Nawaz Abbasi (LHC), Justice Falaksher (LHC), Justice Abdul Hameed Dogar (SHC), Justice Khailur Rehman Ramday, Justice Malik Qayyum (LHC), Justice Sardar Mohammad Raza (PHC), Justice Amir Mulk Mengal (BHC), Justice Chaudhry Iftikhar Hussain (LHC), Justice Mohammad Khursheed Khan (Chief Court Northern Areas) and Justice Mohammad Khial (Ombudsman office) also got plots in the federal capital.
POLITICIANS: Senator Faridullah Khan, MNA Ghulam Mohammad Chishti, Senator Malik Mohamamd Ali, MNA Sahibzadi Mehmooda Begum, MNA Begum Nasim Majeed, MNA Rai Mansab Ali Khan, Nawabzada Mazhar Ali, MNA Rai Ahmed Nawaz, MNA Prince Jan Mohammad Yousuf, Asghar Ali Shah, Abdul Rehman Jamali, Mohammad Munir Afirdi, Habibullah Khan Manand, Senator Engineer Mohammad Agha, Senator Amiroom, MNA Malik Mahboob Hussain, Senator Ahmed Miansoomro, MNA Mumtaz Ahmed Javed, MNA Ch Amir Hussain, Senator Sajjad Haider Qureshi, MNA Emanul Zafar, MNA Anwer Ali Cheema, Senator Amin Haider Qureshi, MNA Rajaz Shahid Saeed, Senator Malik Abdul Waheed, Senator Syed Khail Saeed Mian, Senator Brig Abdul Qayum, MNA Islamuddin Sheikh, Senator Jam Karam Ali, MPA Rafiq Khan, MNA Sardar Mohamamd Maher, MNA Malik Umar Din Bangash, MNA Haji Noor Sher Khan, MNA Haji Ghulam Khan, MNA Moulana Mohammad Rahmatullah and Haji Khial Shah.
JOURNALISTS: Sohail Ilyas, Mujeebur Rehman Shami, Abdul Ghani Ch, Zia Shahid, Rukhsana Saulat Saleem, Mohammad Anwar Khalil, Abdul Wadood Qureshi, Mian Ghaffar Ahmed, Rana Tahir Mahmood, Malik Abdul Rehman Hur, Nadeem Fazil Khan, Hamad Raza Shami, Farooq Ahmed, Rana Assar Ali Chohan, Azeem Chaudhry, Aslam Khan, Mohammad Naeem Chaudhry, Mohammad Aniq Zafar, Abdul Saeed Khan Qamar, Mohammad Dilshaad Khan, Naveed Miraj, Tahir Masood Ikram, Sultan Mohammad Sabir, Saghir Khalid, Mazhar Barlas, Maqbool Elahi Malik, Mohammad Arshad Yousuf, Javed Iqbal Qureshi, Haroon Rashid, Malik Shakeelur Rehman Hur, Wajid Rasool, Ashfaq Ahmed, Mohammad Zahid Jhangvi, Tahir Khalil, Khalid Azeem Ch, Mian Khursheeduzaman, Abdul Mohi Shah, Hilal Ahmed, Khalid Sial, Amir Iyas Rana, Zamir Hussain Shah, Aziz Ahmed Alvi, Ahmed Hussain, Rafaqat Ali, Syed Najamul Islam Rizvi, Mohsin Raza Khan, Irfan Ahmed Qureshi, Syed Ibrar Hussain Shah Kunwal, Nasir Aslam Raja, Mohammad Arshad, Ch Iylas Mohammad, Ghazanfar Ali Zaidi, Fazeela Gul, Iftikar Shakeel, Syed Ejaz Shah, Mohammad Ayub Nasir, Mohammad Saleem and Tariq Aziz.
The Next Musharraf – A Westernized, chain-smoking spy could soon become the most powerful man in Pakistan. By Ron Moreau and Zahid Hussain | NEWSWEEK From the magazine issue dated Oct 8, 2007 http://www.newsweek.com/id/41883
“QUOTE”
Musharraf recalls in his memoir, “In the Line of Fire.” Within months Kiyani had unraveled the two plots and arrested most of the participants. He was rewarded in 2004 with a promotion to chief of ISI, and the next year his agency scored big with the arrest of Abu Faraj al-Libbi, the senior Qaeda lieutenant who masterminded the attempts on Musharraf’s life. A former U.S. intelligence official who dealt personally with Kiyani says the ISI “took a lot of bad guys down” under his leadership. Kiyani has earned his boss’s confidence, even serving as Musharraf’s personal envoy in recent talks with exiled opposition leader Benazir Bhutto.
“UNQUOTE”
briliant peace….Yesterday Iwas missing Qais sb…I was searching for his email ID….Thanks he came with an article…
Anothe defeat for PPP….Lets see what the liberal and progressive forces will do…As there is no way except to come to mainstream politics and support democratic process…..
Crossing the ‘red lines’?
Thursday, January 21, 2010
Ikram Sehgal
For Asif Zardari, Lahore’s Governor’s House has bad vibes. He was taken into custody from there on charges of corruption in November 1996 when Benazir Bhutto’s government was thrown out by President Farooq Leghari. Almost a decade-and-a-half later, when the Supreme Court released the detailed judgement that will most probably make him ineligible for presidency on charges of corruption, it is an amazing coincidence that he is staying in the same room at the Governor’s House.
President Reagan was the “Teflon President,” to whom nothing adverse would ever stick. Prime Minister Gilani has beaten him by a mile! Ruling out a constitutional clash with any state institution he confidently told the National Assembly last Monday: “We do not want to transgress into each other’s fields. I want to assure you that we will not do anything that is contrary to the Constitution, that is contrary to the interest of this house and contrary to (the principle of) trichotomy. The Constitution has ‘red lines’ for all the three pillars of the state.” In the next few days the prime minister will be tested as to whether his words about not crossing “red lines” were true or the comment was simply rhetoric.
In March 2007 one of the pillars of the state tried to destroy another state institution in the quest for an individual’s survival. Since President Musharraf was concurrently also Chief of the Army Staff, the two institutions seemed to have ganged up against the Supreme Court represented by Chief Justice Iftikhar Chaudhry. Another institution, the National Assembly (as well as the Shaukat Aziz government thereof), was simply a rubberstamp for Pervez Musharraf. To reinforce the public perception about the army being solidly behind him, Gen Pervez Musharraf wore the uniform and had the director generals of the ISI and Military Intelligence in attendance in a “show of force” when the chief justice was summoned for his resignation.
People believe it was Shaukat Aziz who goaded Musharraf down the Reference path because the chief justice was adjudicating issues like the Steel Mills and the Stock Market scam. With Musharraf’s intelligence chiefs reporting that the chief justice was against his standing again for presidential elections without giving up his uniform, Musharraf needed no convincing. The tragedy is that the army’s fair name was needlessly tarnished in the process.
World democracies do not take kindly to the spurning of superior courts’ orders. Blatant attempts were therefore made by the incumbent president’s inner circle to somehow link the army to the Supreme Court’s short order on the NRO, although nothing can be further from the truth. Moreover, the world is not that gullible! The detailed judgement has confirmed that it is the Presidency and the superior judiciary that are on a collision course, not only over the NRO verdict but mainly because of it.
When he did not prostrate himself before an absolute dictator as others had before him, Chief Justice Iftikhar Chaudhry got the support of both his fellow judges in the courts and the lawyers in the streets. The Supreme Court moved very deliberately to regain public confidence and re-establish its stature as a bastion of justice. The credibility of the judiciary down to the level of the provincial High Courts was consolidated. The detailed judgement on the NRO highlights how far down the road Pakistan has travelled in restoration of rule of law, at least in the upper levels of the judiciary.
Meanwhile, 2009 saw the army regain its image in public perception. The return to professionalism process started when Musharraf shed the uniform in November 2007. For their counterinsurgency successes in the battlefield, extraordinary sacrifices have been rendered by the rank and file. Three infantry divisions were engaged in Swat, another three are now fighting in FATA (I am proud that those in and around South Waziristan include my own unit, 4 Sindh). Mostly five brigade divisions, instead of the usual three, the troops engaged in combat are equivalent to that of eight or nine infantry divisions – i.e., almost one-third of our total fighting strength.
That is a tremendous battle inoculation. Hopefully, other units and formations will be rotated into the battle zone to take good advantage of this adverse situation. Soldiers need to hear shots being fired in anger!
Nobody has disfigured Pakistan’s Constitution more than Sharifuddin Pirzada, the hired legal gun for every adventurer on record. The review of the NRO judgement sought by the government seems to be his brainchild. One feels the old fox was outsmarted by the Supreme Court, which probably war-gamed his possible moves and did not make public the detailed NRO judgement until after the 30 days mandated for Review had elapsed. The government waited until the last day before filing. Most of what has been sought by the government in the Review has been virtually rendered infructuous by the detailed judgement.
Zardari finally left the presidential bunker to visit Pakistan and try and shore up public support for his beleaguered presidency. This is an exercise in futility. It is now simply a question of time. The NRO having been declared void ab initio, the detailed judgment will throw upon the doors of justice to make him ineligible to having become president in the first place. Prime Minister Gilani is a nice man. Some of his ministers are not the sort to listen to nice men, they march to a different drumbeat. After the Supreme Court’s short order, Zardari’s inner circle had already crossed the “red line” many times.
Democracy gave the late Ms Bhutto a thumbs-up by giving her party enough votes to lead the coalition, and that allowed her controversial husband to manoeuvre himself into the Presidency. The army’s neutrality was manifest in that they did not interfere, despite the fact that Zardari is universally hated by the rank and file of the army. And in the face of deliberate provocations, they have kept their cool and stood by their constitutional oath.
In 1993 when the Supreme Court overturned President Ghulam Ishaq Khan’s ill-motivated dismissal of the Nawaz Sharif government, democratic hope had broken loose. However, the restored prime minister found himself politically and administratively hamstrung by presidential manipulation, and was ultimately forced to resign.
Brokering the calming of the resulting political tensions, then-army chief Gen Waheed Kakar did two things for which this nation must always honour him: nudging President Ghulam Ishaq Khan gently out of office to stop further political and bureaucratic manipulation by him and his advisors; and, more importantly, refusing the keys of the Presidency offered on a silver platter. Democracy stayed alive in 1993 despite the best efforts of motivated persons to derail it. What an irony that one of Ishaq’s closest gung-ho advisors, Roedad Khan, is now a holier-than-thou petitioner against the NRO, and a very vocal one at that.
One does not doubt the “red lines” will be crossed and that all the dirty tricks in the world will be used. Notwithstanding the concept of trichotomy, in Third World countries like Pakistan there is a fourth state institution and, as Chairman Mao said, “power flows through the barrel of a gun.” When the “red lines” are crossed the Supreme Court will need such assistance under Article 190 of the Constitution. The question is, will the court be able to fine-tune this before the country goes up in flames?
http://thenews.com.pk/daily_detail.asp?id=219827
Ye kaisa mazmoon hai? Pakistan tabaahi ke gaRhay pe khaRa hai lekin ba’z log siyaasat ke daldal se nikalnay ke liye tayyaar nahee.n.
“Establishment” kis khet ki mooli ka naam hai? Musannif ke liye ye ek aisaa label hai jo us ke haqeeqi aur farzi mukhaalifeen pe chipkaaya ja sakta hai. Aksar logo.n ke liye “establishment” ka ek aham juzv hakoomat hoti hai jo fil-vaqt PPP ke haatho.n mei.n hai.
PPP ke muhibb-e-vatan afraad ko Zardari aur doosray “mulzimaan” ko samjhaana chaahiye ke adaliye ke saath mahaaz aaraa’ee se parhez kare.n. Insha Allah, in “mulzimaan” ke ba’d doosray mujrim siyaasatdaano.n, faujiyo.n aur naukar shaahi ke afsaro.n ki baari aaye gee. Afsos ke PPP ki hakoomat ne sab se baRay mujrim Musharraf ke khilaaf ab tak ko’ee qadam nahee.n uthaaya.
Baraah-e-mehrbaani aaj ke Jang mei.n Dr Safdar Mahmood ka mazmoon paRh le.n.
http://www.jang.com.pk/jang/jan2010-daily/21-01-2010/col3.htm
We have now installed Google transliteration plugin on LUBP. You will find, beneath the comment box, a check box labelled ‘Enable Google Transliteration’. Check this box, if you want to write in Urdu. Press Ctrl+g OR leave the box unchecked if you want to write in English.
یہ ایک تجرباتی تبصرہ ہے. اب آپ اردو میں بھی لکھ سکتے ہیں. اس سے ہمارے اردو دان قاریوں کو سہولت میسر آے گی
excellent analysis, qais sahib.
Adbul Nishapuri Sahib,
I find it very convenient to use my Mac Airbook most of the time. I am afraid I cannot see the kind of check box that you mention. I wonder if this facility is available only where a PC is loaded with MS Windows software.
I look forward to the day when most Pakistani websites will be in Urdu and the kind of transliteration plugin you mention will not be needed.
(Yet another delicious irony: when Zardari was dragging his feet over the restoration of CJ Iftikhar, he gave an interview to the BBC in which he spoke bitterly of how “he went to Chaudhry Iftikhar five times” seeking bail in the BMW case but had to spend two years in jail.)
http://www.cyrilalmeida.com/2010/01/21/dawn-they%E2%80%99ve-got-him-they%E2%80%99ve-got-him-not-by-cyril-almeida/
Confounding his critics, though, Zardari may actually have played his cards well in recent weeks in response to his immense, or immensely uncertain, legal woes. Believing that law and politics are once again intertwined in a very unholy way, Zardari has tried to fight back politically. He’s done at least two things: one, forced Gilani to break from his conciliatory let’s-all-be-friends approach to friend and foe alike; and two, marched out of his bunker and into the arms of the PPP in Sindh and Punjab.
If there ever was or is now a ‘minus-one’ strategy at work against Zardari, those two moves of his have made the possibility of a ‘surgical strike’ more difficult. If his enemies do strike now, it will be messy and there will be plenty of collateral damage. Zardari seems to be saying: you want me? Come and get me. But I won’t go down alone.
That, in the bare-knuckled politics of Pakistan, may actually be a good survival strategy.
http://www.cyrilalmeida.com/2010/01/21/dawn-they%E2%80%99ve-got-him-they%E2%80%99ve-got-him-not-by-cyril-almeida/
Abbas Ather’s article in Daily Express:
aap sab ko bhi bohat mubarak ho!!
jo jamhooriyat aamriyat se bhi bad-tar ho, uss ke galay mein phanda hi dalna chahiye tha!!
khair mubarak dost, khair mubarak!!
A comment by Khalid Wasti (source: pkpolitics)
زرداری میرے لیئے کبھی بھی پسندیدہ شخصیت نہیں رہا اور نہ اب ہے ۔ پیپلز پارٹی البتہ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں میری اولین ترجیح ہے ۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں ۔
بھٹو کی شخصیت ، اس کا فلسفہ ، کیڑے مکوڑوں کی طرح بے حقیقت سمجھنی جانے والی ، صدیوں سے مظلوم ومحکوم اکثریت کے اندر ایک انقلاب عظیم لے آنا ، سب سے پہلے انبیں اُن کے ہونے کا احساس دلا نا ، پھر انہیں یہ شعور عطا کرنا کہ وہ وڈیروں ، چوہدریوں ، خانوں ، سرداروں ، پیروں ، امیروں اور معاشرے کے دیگر مراعات یافتہ لوگوں کی طرح جیتے جاگتے انسان ہیں ، ان کی عزت ِ نفس ہے اور نہ صرف یہ کہ ان کے حقوق ہیں بلکہ انہیں اپنے حقوق کے حصول کے لیئے جدوجہد اور مزاحمت کا بھی حق حاصل ہے ۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی پیدائش کس گھرانے اور کیسے ماحول میں ہوئی ، اس کا براٹ اپ ، اس کی تعلیم اور اس کی جدوجہد کی داستان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے باپ کا انجام ، جو ایک معمولی باپ بھی نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بھائیوں کا قتل ، اس کی ماں کا اپنے ہوش و حواس کھو دینا ۔۔۔۔ اس کا جیلیں کاٹنا ۔۔۔۔ اس کا پاکستان واپس آنا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا پاکستان آنا ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسےختم کر دیا جائے گا ۔۔۔۔۔ اور پھر موت کا یقین ہونے کے باوجود اس سے گریز کرنے کی بجائے اسے بڑھ کر گلے لگانا جیسا کہ اس کا باپ جانتا تھا کہ سفید ہاتھی میرے خون کے پیاسے ہیں اور یہ انکشاف اس نے راجہ بازار راولپنڈی میں سر ِ عام کر دیا تھا اور جس نے ہنری کیسنجر کی دھمکی کو درخور اعتنا نہ سمجھا کہ جو شخص ہمارے مفادات کے رستے آئے ہم اسے عبرتناک مثال (ہوریبل ایگزامپل) بنا دیتے ہیں ۔
اور تیسری وجہ پیپلز پارٹی کا ورکر ہے ۔ تاریخ میں بہت کم ایسی مثالیں ملیں گی وفا ، ایثار اور قربانی کی ، اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کردینے کی ۔ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ وابستہ رہنے کی ۔ تمام تر حکومتی ہتھکنڈوں کے باوجود ساتھ نہ چھوڑنے ، ایجنسیوں کی سازشوں کو بے اثر کر دینے کی
ضیاءالحق کس بات سے خوفزدہ تھا ؟ پیپلز پارٹی کی عوامی قوت سے ۔
اس مرد مومن نے تو اس طاقت کے خوف سے اپنے ذاتی عقیدوں کو بھی پامال کر ڈالا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نوے دن میں الیکشن کرانے کے وعدوں سے منحرف ہو گیا جسے اس کے اپنے عقیدے کے مطابق فاسق کہا جاتا ہے ۔ جس نے کہا کہ اسلام میں سیاسی جماعتوں کا کوئی تصور نہیں اور پھر مرضی کی پارلیمینٹ بن جانے کے بعد جونیجو کر سربراہی میں سیاسی پارٹی بھی تشکیل کرا دی اس عمل کو اس کے اپنے عقیدے کے مطابق منافقت کہا جاتا ہے ۔ اس نے ریفرینڈم میں سوال پوچھا کہ کیا آپ اسلامی نظام کے حق میں ہیں ؟ ہاں کی صورت میں جواب کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ مجھے پانچ سال کے لیئے صدر منتخب کر رہے ہیں ۔ وہ جانتا تھا کہ اگر صاف صاف ، سیدھا سیدھا اور سچا سچا سوال پوچھا گیا کہ کیا آپ جنرل محمد ضیاءالحق کو آئندہ پانچ سال کے لیئے صدر کے طور پر قبول کرتے ہیں تو جواب نہیں میں ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ قرآن ِ پاک کا حکم ہے قولوا قولا سدیدا یصلح لکم اعمالکم ۔ کہ صاف صاف اور سچی سچی بات کرو ، لیکن جو کچھ اس نے کیا اس کے اپنے عقیدے کے مطابق یہ قرآنی حکم کی خلاف ورزی ہے ، جھوٹ اور فریب ہے ، دھوکہ دہی ہے اور تہتر کے آئین میں گھسیڑے ہوئے اس کے من پسند اور بے معنی آرٹیکل ٦٢ سے بھی متصادم ہے ۔
مجھے اعتراف ہے کہ بات بہت طویل ہو گئی ۔ اس کے لیئے معذرت خواہ بھی ہوں لیکن ایک رنگ میں ضروری بھی تھا کہ اپنی سوچ کو کھل کر بیان کردوں تاکہ اگر واقعتا کوئی سنجیدہ شخص مجھے زرداری کا تنخواہ دار ایجینٹ سمجھتا ہے تو اس کی غلط فہمی دور ہو سکے ۔ جہاں تک عقیدوں کو تبدیل کردینے کا تعلق ہے تو اس کے لیئے ایک غیر معمولی قوت قدسیہ کی ضرورت ہوتی ہے جو عام انسانوں کے بس کا روگ نہیں ۔
مدعی ، منصف ، گواہ وغیرہ کی عدم موجودگی کا اشارہ این آر او کیس کی جانب نہیں ہے ۔ یہ اشارہ فیصلے کے اس پہلو کی جانب ہے جس سے عوام الناس میں یہ تائثر پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کی نظر میں واقعی آصف زرداری کا غیرقانونی سرمایہ سوئٹزرلینڈ میں پڑا ہے ۔ اور معاشرے میں عمومی طور پر مارکوس اور زرداری کی مشابہت کا پراپیگنڈہ کرنے کے لیئے مواد فراہم ہو گیا ہے ۔ میرا مقصد اس جانب اشارہ کرنا تھا کہ یہ کیس تو سپریم کورٹ میں چلا ہی نہیں اس پر آنرایبل کورٹ کا فیصلہ کیسے آگیا ۔
زرداری صاحب کے بارہ میں اگر میری ذاتی پسند ناپسند کے حوالے سے کوئی کثر رہ گئی ہو تو جاتے جاتے عرض کرتا چلوں کہ جس طرح دو سال زرداری صاحب نے گزارے ہیں اگر مزید تین سال بھی اسی طرح گزر گئے تو پیپلز پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے جو کام پاکستان کے بیرونی ‘‘مہربان،، ، جنرل ضیاءالق اور اس کے سیاسی وارث، غلام اسحاق خان ، اسلم بیگ ، حمید گل ، آئی جے آئی اور دیگر ایجنسیاں مل کر بھی نہیں کر سکی تھیں وہ تنہا جناب آصف زرداری کے ہاتھوں پایہءتکمیل تک پہنچ جائے گا ۔ اور اگر مستقبل کا موئرخ انکشاف کرے کہ حقیقی معنوں میں عوام کی حکمرانی سے خوفزدہ قوتوں کے “گرینڈ پلان،، کا یہ بھی ایک حصہ ہے تو اس پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیئے ۔
کل کے حسب حال میں آفتاب اقبال نے بہت کھل کر ایسٹبلشمنٹ کے کردار پر بات کی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ زرداری صاحب نے کچھ دفاعی سودوں میں دخل اندازی کی کوشش کی تھی جس کو اسٹبلشمنٹ نےپسند نہیں کیا ۔
Advocate Naeem Bokhari is perhaps the only lawyer sticking to guns. His criticism against the judiciary is evergreen. Bravo! At least the man has the courage of his convictions. A quality you will not find among our lawyers today. Abdul Hafeez Pirzada who was the lead counsel for Mubashir Hassan’s NRO case plays it both ways. Today he’s leading the chorus on Zardari’s possible disqualification while simultaneously defending the government for a whopping fee against the petition challenging promotions in the bureaucracy.
Then there’s attorney Ashtar Ausaf. He’s Nawaz Sharif’s lawyer. According to him the Supreme Court can put Zardari on trial while an ‘acting president’ can run the show. What’s he hinting at? Does he want Mian Sharif to slip into Zardari’s shoes?
Aitzaz Ahsan, Hamid Khan, Ali Ahmad Kurd, Tariq Mahmud, and Athar Minallah – our real heroes are back, but with dissenting views. How sad!
Anjum Niaz
http://thenews.jang.com.pk/daily_detail.asp?id=220315
قیس انور صاحب
بنام زرداری
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوے یار سے نکلے تو سوے دار چلے
oakley glasses cheap,oakley cheap sunglasses,
Oakley Sunglasses Outlet