مقتولوں کے ورثا نے‘ ملکی قانون کے مطابق خون بہا حاصل کر کے قاتل کو معاف کر دیا۔ عدالت نے اس فیصلے کی توثیق کی۔ دوسری عدالت نے ناجائز اسلحہ رکھنے کے جرم میں جرمانے کی سزا سنائی‘ جو ادا کر دیا گیا۔ اس کے بعدریمنڈ ڈیوس کے خلاف کسی قسم کا کوئی مقدمہ موجود نہیں تھا۔ جاسوسی کا الزام لگانے کا اختیار حکومتی اداروں کو ہوتا ہے۔ پاکستان میں آئی ایس آئی سے بڑا کوئی ادارہ نہیں‘ جو غیر ملکیوں کی نگرانی کرتا ہو۔ آئی ایس آئی نے باضابطہ طور پر ایسا کوئی الزام نہیں لگایا۔ زبانی کلامی الزام تراشی الگ بات ہے لیکن قانونی طور پر کوئی بھی الزام ثابت کرنے کے لئے ٹھوس ثبوتوں اور شہادتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ثبوت موجود ہوتے تو آئی ایس آئی یقینی طور پر مقدمہ قائم کر سکتی تھی۔ ظاہر ہے جب اس کی طرف سے ایسا کوئی اقدام نہیں ہوا‘ تو جاسوسی کا جرم ثابت کرنے کے لئے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہو گا۔ اسلام آباد کے چند آسودہ حال اور فراغت کی فراوانی کے ستائے ہوئے‘ دانشور وقت گزاری کے لئے روز کوئی نہ کوئی نیا شوشہ تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس ان کے ہاتھ لگا تو وہ اس کے حوالے سے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں۔ جاسوسی کے الزام میں صرف ان کے کہنے پر تو کوئی مقدمہ بن نہیں سکتا۔ ایک نئی آواز یہ اٹھی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان سووموٹو کارروائی کرتے ہوئے‘ اس عدالت سے جواب طلبی کریں‘ جس نے مقتولوں کے ورثا کے بیانات سن کر دیت کے فیصلے کی تصدیق کی اور دوسرے نے ناجائزہ اسلحہ کے الزام پر جرمانے کی سزا سنائی۔ دونوں مجسٹریٹوں نے قانون کے مطابق اپنے فرائض ادا کئے‘ چیف جسٹس کس بات کا نوٹس لیں؟ یہ عدلیہ کو دباؤ میں لانے کا حربہ نہیں تو کیا ہے؟
جولوگ پاکستان کو ہر قیمت پر امریکہ کے خلاف محاذ آرائی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں‘ انہیں خوش ہونا چاہیے کہ امریکہ نے ان کی آرزوئیں پوری کرنے کے لئے ایک اور عذر فراہم کر دیا ہے۔ یہ لوگ خاطر جمع رکھیں‘ آنے والے دنوں میں ایسے عذر کثرت سے فراہم ہوں گے۔ وہ سارے سیاستدان‘ جو انتخابی گاڑی میں بیٹھنے سے رہ گئے تھے یا جنہیں عوام نے ووٹ نہیں دیئے‘ انہیں اپنا وجود ثابت کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے اور ایسا کرتے ہوئے‘ انہیں ملکی مفادات کو نقصان بھی پہنچانا پڑے‘ تو اس سے گریز نہیں کیا جاتا۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں دہشت گردوں اور بیگناہوں کے قاتلوں کی وکالت کرنے والے موجود ہیں۔ انہیں خود کش بمباروں اور بزدلانہ دھماکوں میں مرنے والے بیگناہوں سے کوئی ہمدردی نہیں۔ مساجد اور امام بارگاہوں میں عبادت گزاروں کے جسموں کے پرخچے اڑنے پر بھی انہیں کوئی دکھ نہیں ہوتا۔ وہ ہر المیے کے بعد دہشت گردوں کے حق میں دلائل دینا شروع کر دیتے ہیں اور ان کی واحد دلیل یہ ہوتی ہے کہ امریکہ کے ڈرون حملے انہیں تشدد پر مجبور کرتے ہیں۔ ڈرون حملے چند سال کی بات ہے۔ لیکن پاکستان میں دہشت گردی تو بہت پہلے سے ہو رہی ہے۔ اس وقت اس جرم کا کیا جواز تھا؟ درحقیقت ان لوگوں کی سیاست کا واحد مقصد ہر طریقے اور ہر حربے سے اقتدار پر فائز ہونا یا اقتدار میں حصہ لینا ہوتا ہے۔ اس قبیل کے لوگ یحییٰ خان کے ساتھ بھی شریک اقتدار ہو گئے تھے اور اس وقت صوبائی حکومت کا حصہ بننے میں بھی انہیں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوئی تھی‘ جب مشرقی پاکستان کے عوام کا قتل عام کیا جا رہا تھا۔ مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کر کے‘ یہ باقی ماندہ مغربی پاکستان میں پھر سرگرم ہو گئے حالانکہ مشرقی پاکستان میں انہوں نے انسانیت اور وطن کے خلاف جو بھیانک جرائم کئے تھے‘ ان کے بعد انہیں سیاست سے کنارہ کش ہو جانا چاہیے تھا۔ مگر ہمارے ہاں ایسا کب ہوتا ہے؟ اس کے بعد ضیاالحق آیا تو یہ اس کے ساتھ شریک اقتدار ہو گئے اور پرویز مشرف ٹولہ جو بغیر کسی عذر اور جواز کے اقتدار پر قابض ہو گیا تھا‘ یہ اس کے بھی ساتھی بن بیٹھے تھے۔ اب عام انتخابات کے بعد منتخب حکومتیں قائم ہوئی ہیں‘ تو یہ ان میں کوئی جگہ حاصل نہیں کر سکے اور انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ جمہوری نظام میں یہ کبھی اقتدار کے حصے دار نہیں بن سکتے۔ اسی لئے یہ کوئی نہ کوئی سازش‘ کوئی نہ کوئی فساد اور کوئی نہ کوئی بحران برپا کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے مابین طاقتوں کا کوئی توازن نہیں اور جہاں تک دہشت گردوں کے مراکز کا تعلق ہے‘ ان کے بارے میں ساری دنیا کا یہ مطالبہ ہے کہ آپ ان کے خلاف کارروائی کریں۔ امریکہ یہاں سے ہونے والی دہشت گردی کا براہ راست نشانہ بنتا ہے۔ وہ افغانستان پر کس طرح قابض ہوا اور کس طرح نہیں؟ ہمیں اس سے غرض نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ ہم چاہیں بھی تو امریکہ اور اتحادیوں کو شکست دے کر افغانستان سے نہیں نکال سکتے۔ وہ اقوام متحدہ کی اجازت سے وہاں داخل ہوئے ہیں۔ سوویت افواج کے خلاف ہم اس لئے لڑ سکے کہ امریکہ کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اب امریکہ سے کس کی مدد کے ساتھ لڑیں گے؟
مجھے معلوم ہے کہ پاکستانی فضائیہ حملہ آور‘ ڈرون طیاروں کو گرا سکتی ہے اور اب وہ فضا پیدا ہو رہی ہے جس میں یہ ایڈونچر کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے بعد کیا ہو گا؟ اس کے لئے ہمیں تیار رہنا پڑے گا۔ امریکیوں کا کہنا یہ ہے کہ وہ یہ حملے ایسے دہشت گردوں پر کرتے ہیں‘ جو افغانستان میں ان کے فوجیوں کے خلاف کارروائیاں کرتے ہوئے‘ انہیں ہلاک کرتے ہیں اور جواباً وہ ہاٹ پرسوٹ کاحق استعمال کرتے ہوئے‘ انہیں نشانہ بناتے ہیں۔ ڈرون حملوں سے بہت پہلے امریکیوں نے ہم سے مسلسل مطالبات کئے تھے کہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے مراکز کو ہم خود غیر موثر کر دیں۔ لیکن پاک فوج اپنی مجبوریوں کی بنا پر ایسا نہیں کر سکی۔ تیسرا طریقہ کیا ہے؟ شمالی وزیرستان سے آنے والے دہشت گرد پاکستان کو بھی معاف نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں تو وہ معصوموں اور بیگناہوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ پاک فوج اور پولیس کے جوانوں کو نشانہ بناتے ہیں‘ جو اپنے وطن کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ہمیں اس سوال کا جواب دینا پڑے گا کہ ہم دہشت گردوں کے مراکز کیوں ختم نہیں کر رہے؟ اگر ہم خود ختم نہیں کر سکتے‘ تو دوسروں سے مدد کیوں نہیں مانگتے؟ دنیا ہماری اس دلیل کو کیوں مانے؟ کہ ہماری فوج دوسرے محاذوں پر مصروف ہونے کی وجہ سے شمالی وزیرستان میں کارروائی نہیں کر سکتی اور کسی دوسرے کو ہم ایسا کرنے نہیں دیں گے۔ نہ ہی کسی سے مدد مانگیں گے۔ دنیا دہشت گردوں کی ان سرگرمیوں کو برداشت کرے۔ وہ شمالی وزیرستان سے سرحد پار جا کر‘ امریکی فوجوں کو مارتے رہیں۔ ہماری سرزمین پر بیٹھ کر دنیا کے دوسرے ملکوں میں دہشت گردی کے منصوبے بنائیں۔ غیر ملکیوں کو دہشت گردی کی تربیت دیں اور کوئی انہیں کچھ نہ کہے؟ ہمارے ریٹائرڈ عسکری مفکرین اور ان کے حمایت یافتہ ”تانگہ پارٹی سیاستدان “ پاکستان کو کس طرف لے جانا چاہتے ہیں؟
امریکہ پاکستان کے خلاف کوئی عزائم نہیں رکھتا۔ اسے ہماری سرزمین میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جو سٹریٹجک مفادات وہ حاصل کرنا چاہتا ہے‘ ہماری حکومتوں کے ذریعے کر لیتا ہے اور اگر ہم چاہیں‘ تو امریکہ کے ساتھ سٹریٹجک رابطوں سے علیحدہ بھی ہو سکتے ہیں۔ پھر ہم امریکہ کے ساتھ محاذ آرائی کو دعوت دینے پر کیوں بضد ہیں؟ ہماری سرزمین پر دہشت گردی کے جو اڈے ہیں‘ ان کا مسئلہ تو حل کرنا ہو گا۔ ہم اسے خود حل کر لیں تو دنیا بھر کی شکایتیں ختم ہو جائیں گی اور اگر دہشت گردی کے مراکز کو ہم خود نہیں چھیڑیں گے‘ تو اس کے بیرونی متاثرین کچھ نہ کچھ تو ضرور کریں گے۔ کسی کو پتہ ہے کہ ڈرون حملوں پر ہمارے احتجاج کے جواب میں امریکی کیا کہتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں ہمارے سپاہیوں پر حملہ کرنے والوں کو آپ خود روک لیں۔ جب ہم انہیں روک لیں گے تو پھر کسی کو ڈرون حملوں کی کیا ضرورت ہے؟ مسئلے کا حل ہمارے پاس ہے اور ایک سپر پاور سے تصادم کی طرف جانا ضروری ہے‘ تو کس نے روکا ہے؟بھارت کو ہم ناکوں چنے چبوا رہے ہیں‘ ہم امریکہ سے بھی نمٹ لیں گے۔اسرائیل تو ہمارے اہداف کی پرانی فہرست میں ہے۔
فیصلہ ہمی کو کرنا ہے …سویرے سویرے …نذیرناجی
مقتولوں کے ورثا نے‘ ملکی قانون کے مطابق خون بہا حاصل کر کے قاتل کو معاف کر دیا۔ عدالت نے اس فیصلے کی توثیق کی۔ دوسری عدالت نے ناجائز اسلحہ رکھنے کے جرم میں جرمانے کی سزا سنائی‘ جو ادا کر دیا گیا۔ اس کے بعدریمنڈ ڈیوس کے خلاف کسی قسم کا کوئی مقدمہ موجود نہیں تھا۔ جاسوسی کا الزام لگانے کا اختیار حکومتی اداروں کو ہوتا ہے۔ پاکستان میں آئی ایس آئی سے بڑا کوئی ادارہ نہیں‘ جو غیر ملکیوں کی نگرانی کرتا ہو۔ آئی ایس آئی نے باضابطہ طور پر ایسا کوئی الزام نہیں لگایا۔ زبانی کلامی الزام تراشی الگ بات ہے لیکن قانونی طور پر کوئی بھی الزام ثابت کرنے کے لئے ٹھوس ثبوتوں اور شہادتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ثبوت موجود ہوتے تو آئی ایس آئی یقینی طور پر مقدمہ قائم کر سکتی تھی۔ ظاہر ہے جب اس کی طرف سے ایسا کوئی اقدام نہیں ہوا‘ تو جاسوسی کا جرم ثابت کرنے کے لئے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہو گا۔ اسلام آباد کے چند آسودہ حال اور فراغت کی فراوانی کے ستائے ہوئے‘ دانشور وقت گزاری کے لئے روز کوئی نہ کوئی نیا شوشہ تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس ان کے ہاتھ لگا تو وہ اس کے حوالے سے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں۔ جاسوسی کے الزام میں صرف ان کے کہنے پر تو کوئی مقدمہ بن نہیں سکتا۔ ایک نئی آواز یہ اٹھی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان سووموٹو کارروائی کرتے ہوئے‘ اس عدالت سے جواب طلبی کریں‘ جس نے مقتولوں کے ورثا کے بیانات سن کر دیت کے فیصلے کی تصدیق کی اور دوسرے نے ناجائزہ اسلحہ کے الزام پر جرمانے کی سزا سنائی۔ دونوں مجسٹریٹوں نے قانون کے مطابق اپنے فرائض ادا کئے‘ چیف جسٹس کس بات کا نوٹس لیں؟ یہ عدلیہ کو دباؤ میں لانے کا حربہ نہیں تو کیا ہے؟
جولوگ پاکستان کو ہر قیمت پر امریکہ کے خلاف محاذ آرائی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں‘ انہیں خوش ہونا چاہیے کہ امریکہ نے ان کی آرزوئیں پوری کرنے کے لئے ایک اور عذر فراہم کر دیا ہے۔ یہ لوگ خاطر جمع رکھیں‘ آنے والے دنوں میں ایسے عذر کثرت سے فراہم ہوں گے۔ وہ سارے سیاستدان‘ جو انتخابی گاڑی میں بیٹھنے سے رہ گئے تھے یا جنہیں عوام نے ووٹ نہیں دیئے‘ انہیں اپنا وجود ثابت کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے اور ایسا کرتے ہوئے‘ انہیں ملکی مفادات کو نقصان بھی پہنچانا پڑے‘ تو اس سے گریز نہیں کیا جاتا۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں دہشت گردوں اور بیگناہوں کے قاتلوں کی وکالت کرنے والے موجود ہیں۔ انہیں خود کش بمباروں اور بزدلانہ دھماکوں میں مرنے والے بیگناہوں سے کوئی ہمدردی نہیں۔ مساجد اور امام بارگاہوں میں عبادت گزاروں کے جسموں کے پرخچے اڑنے پر بھی انہیں کوئی دکھ نہیں ہوتا۔ وہ ہر المیے کے بعد دہشت گردوں کے حق میں دلائل دینا شروع کر دیتے ہیں اور ان کی واحد دلیل یہ ہوتی ہے کہ امریکہ کے ڈرون حملے انہیں تشدد پر مجبور کرتے ہیں۔ ڈرون حملے چند سال کی بات ہے۔ لیکن پاکستان میں دہشت گردی تو بہت پہلے سے ہو رہی ہے۔ اس وقت اس جرم کا کیا جواز تھا؟ درحقیقت ان لوگوں کی سیاست کا واحد مقصد ہر طریقے اور ہر حربے سے اقتدار پر فائز ہونا یا اقتدار میں حصہ لینا ہوتا ہے۔ اس قبیل کے لوگ یحییٰ خان کے ساتھ بھی شریک اقتدار ہو گئے تھے اور اس وقت صوبائی حکومت کا حصہ بننے میں بھی انہیں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوئی تھی‘ جب مشرقی پاکستان کے عوام کا قتل عام کیا جا رہا تھا۔ مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کر کے‘ یہ باقی ماندہ مغربی پاکستان میں پھر سرگرم ہو گئے حالانکہ مشرقی پاکستان میں انہوں نے انسانیت اور وطن کے خلاف جو بھیانک جرائم کئے تھے‘ ان کے بعد انہیں سیاست سے کنارہ کش ہو جانا چاہیے تھا۔ مگر ہمارے ہاں ایسا کب ہوتا ہے؟ اس کے بعد ضیاالحق آیا تو یہ اس کے ساتھ شریک اقتدار ہو گئے اور پرویز مشرف ٹولہ جو بغیر کسی عذر اور جواز کے اقتدار پر قابض ہو گیا تھا‘ یہ اس کے بھی ساتھی بن بیٹھے تھے۔ اب عام انتخابات کے بعد منتخب حکومتیں قائم ہوئی ہیں‘ تو یہ ان میں کوئی جگہ حاصل نہیں کر سکے اور انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ جمہوری نظام میں یہ کبھی اقتدار کے حصے دار نہیں بن سکتے۔ اسی لئے یہ کوئی نہ کوئی سازش‘ کوئی نہ کوئی فساد اور کوئی نہ کوئی بحران برپا کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے مابین طاقتوں کا کوئی توازن نہیں اور جہاں تک دہشت گردوں کے مراکز کا تعلق ہے‘ ان کے بارے میں ساری دنیا کا یہ مطالبہ ہے کہ آپ ان کے خلاف کارروائی کریں۔ امریکہ یہاں سے ہونے والی دہشت گردی کا براہ راست نشانہ بنتا ہے۔ وہ افغانستان پر کس طرح قابض ہوا اور کس طرح نہیں؟ ہمیں اس سے غرض نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ ہم چاہیں بھی تو امریکہ اور اتحادیوں کو شکست دے کر افغانستان سے نہیں نکال سکتے۔ وہ اقوام متحدہ کی اجازت سے وہاں داخل ہوئے ہیں۔ سوویت افواج کے خلاف ہم اس لئے لڑ سکے کہ امریکہ کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اب امریکہ سے کس کی مدد کے ساتھ لڑیں گے؟
مجھے معلوم ہے کہ پاکستانی فضائیہ حملہ آور‘ ڈرون طیاروں کو گرا سکتی ہے اور اب وہ فضا پیدا ہو رہی ہے جس میں یہ ایڈونچر کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے بعد کیا ہو گا؟ اس کے لئے ہمیں تیار رہنا پڑے گا۔ امریکیوں کا کہنا یہ ہے کہ وہ یہ حملے ایسے دہشت گردوں پر کرتے ہیں‘ جو افغانستان میں ان کے فوجیوں کے خلاف کارروائیاں کرتے ہوئے‘ انہیں ہلاک کرتے ہیں اور جواباً وہ ہاٹ پرسوٹ کاحق استعمال کرتے ہوئے‘ انہیں نشانہ بناتے ہیں۔ ڈرون حملوں سے بہت پہلے امریکیوں نے ہم سے مسلسل مطالبات کئے تھے کہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے مراکز کو ہم خود غیر موثر کر دیں۔ لیکن پاک فوج اپنی مجبوریوں کی بنا پر ایسا نہیں کر سکی۔ تیسرا طریقہ کیا ہے؟ شمالی وزیرستان سے آنے والے دہشت گرد پاکستان کو بھی معاف نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں تو وہ معصوموں اور بیگناہوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ پاک فوج اور پولیس کے جوانوں کو نشانہ بناتے ہیں‘ جو اپنے وطن کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ہمیں اس سوال کا جواب دینا پڑے گا کہ ہم دہشت گردوں کے مراکز کیوں ختم نہیں کر رہے؟ اگر ہم خود ختم نہیں کر سکتے‘ تو دوسروں سے مدد کیوں نہیں مانگتے؟ دنیا ہماری اس دلیل کو کیوں مانے؟ کہ ہماری فوج دوسرے محاذوں پر مصروف ہونے کی وجہ سے شمالی وزیرستان میں کارروائی نہیں کر سکتی اور کسی دوسرے کو ہم ایسا کرنے نہیں دیں گے۔ نہ ہی کسی سے مدد مانگیں گے۔ دنیا دہشت گردوں کی ان سرگرمیوں کو برداشت کرے۔ وہ شمالی وزیرستان سے سرحد پار جا کر‘ امریکی فوجوں کو مارتے رہیں۔ ہماری سرزمین پر بیٹھ کر دنیا کے دوسرے ملکوں میں دہشت گردی کے منصوبے بنائیں۔ غیر ملکیوں کو دہشت گردی کی تربیت دیں اور کوئی انہیں کچھ نہ کہے؟ ہمارے ریٹائرڈ عسکری مفکرین اور ان کے حمایت یافتہ ”تانگہ پارٹی سیاستدان “ پاکستان کو کس طرف لے جانا چاہتے ہیں؟
امریکہ پاکستان کے خلاف کوئی عزائم نہیں رکھتا۔ اسے ہماری سرزمین میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جو سٹریٹجک مفادات وہ حاصل کرنا چاہتا ہے‘ ہماری حکومتوں کے ذریعے کر لیتا ہے اور اگر ہم چاہیں‘ تو امریکہ کے ساتھ سٹریٹجک رابطوں سے علیحدہ بھی ہو سکتے ہیں۔ پھر ہم امریکہ کے ساتھ محاذ آرائی کو دعوت دینے پر کیوں بضد ہیں؟ ہماری سرزمین پر دہشت گردی کے جو اڈے ہیں‘ ان کا مسئلہ تو حل کرنا ہو گا۔ ہم اسے خود حل کر لیں تو دنیا بھر کی شکایتیں ختم ہو جائیں گی اور اگر دہشت گردی کے مراکز کو ہم خود نہیں چھیڑیں گے‘ تو اس کے بیرونی متاثرین کچھ نہ کچھ تو ضرور کریں گے۔ کسی کو پتہ ہے کہ ڈرون حملوں پر ہمارے احتجاج کے جواب میں امریکی کیا کہتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں ہمارے سپاہیوں پر حملہ کرنے والوں کو آپ خود روک لیں۔ جب ہم انہیں روک لیں گے تو پھر کسی کو ڈرون حملوں کی کیا ضرورت ہے؟ مسئلے کا حل ہمارے پاس ہے اور ایک سپر پاور سے تصادم کی طرف جانا ضروری ہے‘ تو کس نے روکا ہے؟بھارت کو ہم ناکوں چنے چبوا رہے ہیں‘ ہم امریکہ سے بھی نمٹ لیں گے۔اسرائیل تو ہمارے اہداف کی پرانی فہرست میں ہے۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=514752