Ansar Abbasi appreciates Nawaz Sharif’s decision to part ways from PPP

Related articles: Rauf Klasra’s article on PML-N’s opportunistic politics

Sharif brothers are patronizing corrupt politics

PPP gains confidence, PML-N loses nerves

March in March – by Ahsan Abbas Shah

Editor’s note: There has to be something wrong with Nawaz Sharif’s decision to part ways from the PPP in Punjab if known Taliban apologists such as Ansar Abbasi are supporting his decision to replace reconciliation with confrontation. Mian sahib is better advised to exercise caution and eat some maghz in addition to (if not instead of) siri paye to improve his decision making skills.


مفاہمتی سیاست کا ڈرامہ

انصار عباسی

پاکستان پیپلز پارٹی دُہائیاں دیتی رہ گئی کہ اس کو پنجاب حکومت سے باہر مت دھکیلیں۔ نام نہاد مفاہمت کی پالیسی کے واسطے بھی دیئے گئے۔ حتّیٰ کہ صدر آصف علی زرداری کے نمائندے اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی تک بھی آخر دم تک منّتیں ترلے کرتے رہے کہ پیپلز پارٹی کے وزراء کو مسلم لیگ ن، پنجاب حکومت سے خیرباد نہ کہے۔ مزید وقت لینے کے لیے تمام تر کوششیں کی جاتی رہیں مگر آخر کار ن لیگ نے وہ فیصلہ کر لیا جو کافی عرصہ قبل ہو جانا چاہئے تھا۔

تین سال گزرنے کے بعد میاں نواز شریف کو بلآخر احساس ہو ہی گیا کہ ان کو اور ان کی پارٹی کو کس خوبصورتی سے صدر زرداری بے وقوف بناتے رہے۔ ایک ایسے وقت پر جب ملک معاشی تباہی کے دھانے تک پہنچ چکا ہے، میاں صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور انہوں نے بھی اس بات کا تہیہ کیا کہ اب ان کے لیے حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کا وقت آ چکاہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے عوام کو اپنے گلوں شکووں، صدر زرداری کی وعدہ خلافیوں اور حکومت کی کرپشن اور نااہل حکمرانی کی روداد سنائی اور اس امر کا اظہار کیا کہ معاملات مزید اس انداز میں نہیں چل سکتے۔

دیر آید درست آید۔ مگر یہاں یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہئے کہ صدر زرداری صاحب نے کس چالاکی سے ن لیگ کی اصول پسند سیاست کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ صدر صاحب نے ہر وعدہ،ہر معاہدہ اور ہر نعرہ حکومت میں اپنی گرفت کو مضبوط کرنے کے لئے استعمال کیا۔ اگر اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صدر کے اختیارات وزیراعظم کو منتقل کئے گئے تو اسی ترمیم کے ذریعے اپنے آپ کو زرداری صاحب نے بحیثیت پارٹی قائد اس حد تک مضبوط کر لیا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی تمام آئینی اختیارات کے باوجود بااختیار نہ بن سکے اور تمام تر اہم فیصلوں کا مرکز ایوان صدر ہی رہا۔ سیاست میں اختیارات کی جنگ اور اس کے لئے سیاسی داؤپیچ میں صدر زرداری نے اپنے تمام مخالفین اور اتحادیوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔

اگر اس سب کا مقصد عوام کی فلاح اور ملک و قوم کی ترقی ہوتا تو یہ سب قابل تحسین ہوتا مگر گزشتہ تین سال میں صدر زرداری اور ان کے حواریوں کی سیاست کا واحد مقصد اپنے ذاتی مفادات کا حصول رہا۔ کرپشن اور بدعنوانی کے پرانے تمام ریکارڈ توڑ دیئے گئے۔ حکومتی، آئینی اور قانونی اختیارات کو اپنے پیاروں اور یار دوستوں کو نوازنے کے لئے اس حد تک استعمال کیا جاتا رہا کہ خراب حکمرانی اور کرپشن کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے لئے بدترین ممالک میں شمار کیا جانے لگا۔ تمام تر توجہ لوٹ مار، بدعنوانی، اقرباپروری اور سیاسی چالاکیوں پر رہی۔ مہنگائی ، بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ، بیروزگاری اور قومی و عوامی مسائل کی طرف حکومتی سرد مہری نے عوام پر زندگی تنگ کر دی۔ کجا یہ کہ عوامی مسائل کو حل کرنے کے لئے کوئی توجہ دی جاتی، عوام کو لوٹنے والوں، حج کرپشن میں شامل افراد، این آئی سی ایل کے ملزمان، پاکستان اسٹیل کے اربوں اڑانے والوں اور قومی دولت سے اپنی جیبیں بھرنے والے بڑے بڑے چور ڈاکوؤں کو حکومتی تحفظ دیا گیا۔ نیب اور ایف آئی اے میں اپنے من پسند افراد کو اعلیٰ عہدوں پربٹھا کر اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ لوٹ مار کرنے والے بلاخوف و خطراس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا اور عوام کا خون چوستے رہیں۔

ان حالات میں مسلم لیگ(ن) اور اس کے قائد میاں نوازشریف پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ ایک حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے ہر وہ قانونی اور جمہوری حربہ استعمال کرتے جس کے نتیجے میں وہ سرکاری خزانے کی لوٹ مار اور عوامی مسائل میں بے تحاشا اضافہ کا سبب بننے والی حکومت کے راستے کی رکاوٹ بنتے۔ مگر میاں صاحب نے ججوں کے بحالی میں اپنے قابل تحسین اور مثبت کردار کے بعد صدر زرداری اور ان کے حواریوں کیلئے میدان کھلا چھوڑ دیا کہ وہ جس انداز میں چاہیں، حکمرانی کریں۔ کبھی کبھار جب میاں صاحب کا خون کھولتا تو وہ ایک آدھ سخت پریس کانفرنس کر دیتے مگر عملی طور پر نہ تو صدر زرداری اور نہ ہی

وزیراعظم گیلانی کو کسی قسم کی مشکل یا پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی مخلوط حکومت دونوں کے درمیان ایک مضبوط بندھن کے طور پر قائم رہی۔ جب کبھی محسوس کیا گیا کہ نوازشریف کوئی حتمی اقدام اٹھا سکتے ہیں تو بڑی ہوشیاری سے ان کو مفاہمت کی سیاست کی لوریاں سنا کر سلا دیا جاتا رہا۔ ان کو یہ بھی ڈراوا دیا جاتا رہا کہ اگر مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے درمیان مفاہمت کی سیاست ختم ہوگئی تو فوج اس صورتحال کا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ جمہوریت کے نام پر مسلم لیگ (ن) کو بیوقوف بنایا جاتا رہا۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کو اپنی کرپشن اور نااہل حکمرانی کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ ان حالات میں کرپشن اور نااہل حکمرانی کے خلاف صرف میڈیا اور سپریم کورٹ حکومت کے لیے اصل رکاوٹ بن کر اُبھرے مگر ڈھٹائی کی حدوں کو پار کرتے ہوئے حکمرانوں نے عدالت عظمی کے

فیصلوں کے دھجیاں اُڑانی شروع کر دیں اور میڈیا کے بازو بھی مروڑنا شروع کر دیے۔ ان حالات میں حقیقی اپوزیشن کی غیر موجودگی کی وجہ سے حکمران اپنے ایجنڈے پر بلا خوف عمل پیرا رہے۔ اب جبکہ مسلم لیگ(ن) نے پاکستان پیپلزپارٹی سے اپنی راہیں جدا کرلی ہیں اور اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ ن لیگ اب حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی، تو انتہائی ضروری ہے کہ میاں صاحب ایک ایسی حکمت عملی مرتب کریں جس کے ذریعے حکومت کو لوٹ مار کرنے سے روکا جا سکے۔ دوسرے اہم کاموں کے علاوہ حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ جلد ازجلد ایک خودمختار احتساب کمیشن اور بااختیار الیکشن کمیشن قائم کریں۔ صدر زرداری ایسی اصلاحات کے لیے تیار نہیں ہوں گے کیونکہ اس سے وہ ان مقاصد کو حاصل نہیں کرسکتے جن کا حصول ان کی خواہش ہے۔ بااختیار احتساب کمیشن سے نہ صرف این آر او کا فائدہ حاصل کرنے والوں کیلئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں بلکہ موجودہ حکومت میں لوٹ مار کرنے والوں کو پکڑا جا سکتا ہے۔ ایک خودمختار الیکشن کمیشن کے بننے سے انتخابات میں دھاندلی کرنے میں رکاوٹیں پیدا ہوسکتی ہیں۔

دیکھنا یہ ہے کہ آیا میاں صاحب ججوں کی بحالی کیلئے اپنا ادا کیا گیا کردار دہراتے ہیں یا نہیں۔ میاں صاحب کو چاہیے کہ اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کرحکومت کو اپنے مطالبات پیش کریں جن کی تکمیل کیلئے لانگ مارچ اور وسط مدتی انتخابات کے آپشنز پر بھی غور کیا جائے۔

Source: Jang, 28 Feb 2011

Comments

comments

Latest Comments
  1. Bukhari
    -
  2. Saleem Ahmed
    -
  3. Saleem Ahmed
    -
  4. Saleem Ahmed
    -
  5. Saleem Ahmed
    -
  6. Saleem Ahmed
    -
  7. Saleem Ahmed
    -
  8. Saleem Ahmed
    -
  9. Saleem Ahmed
    -
  10. Saleem Ahmed
    -
  11. Saleem Ahmed
    -
  12. Saleem Ahmed
    -
  13. Saleem Ahmed
    -
  14. Saleem Ahmed
    -
  15. Saleem Ahmed
    -
  16. Saleem Ahmed
    -
  17. Saleem Ahmed
    -
  18. Saleem Ahmed
    -
  19. Saleem Ahmed
    -
  20. Saleem Ahmed
    -
  21. ahmed iqbalabadi
    -
  22. Raza
    -