Raymond Davis – by Shoaib Adil

Related articles: In Pakistan, everybody hates Raymond? – by Brandon Wallace

Lahore shooting by a US national and “the legal issues to settle”: Some questions for Ejaz Haider

Curious case of Raymond Davis – by Sindhyar Talpur

Civil society demands Raymond Davis’s execution and Aafia Siddiqui’s release

شعیب عادل پاکستان کے ان چند لکھاریوں میں سے ہیں جو سستی جذباتیت اور خود ساختہ نظریاتی معیارات سے اٹھ کر دلیل و منطق اور معروضیت کو بنیاد بناکر لکھتے ہیں، وہ ماہنامہ نیا زمانہ کے عنوان سے روشن خیال اور لبرل صحافتی قدروں کی آبیاری کرنے کے لئے کوشاں ہیں،اور روزنامہ آج کل کے لئے بھی لکھتے ہیں، پاکستان کی موجودہ رومانوی فضا میں حقائق کو پرکھ کر انہیں قارئین کے سامنے رکھنے کی روایت معدوم پڑتی جارہی ہے ایسے میں ان جیسے لکھاریوں کا دم غنیمت ہے، ہم لیٹ اس بلڈ پاکستان کے لئے ان کی اس تحریر پر ممنون ہیں اور آئندہ بھی امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے رشحات قلم ہمارے قارئین کے لئے پیش کرتے رہیں گے۔۔علی ارقم

ریمنڈ ڈیوس۔۔۔۔۔۔۔ از شعیب عادل

پچھلے پندرہ دنوں سے الیکٹرانک میڈیا پر ریمنڈ ڈیوس کی طرف سے دو پاکستانیوں کے قتل سے متعلق جاری بحث و مباحثہ جذباتیت کی آخری حدوں کو چھو رہاہے۔شام ہوتے ہی تمام چینلز اپنی اپنی عدالتیں سجا لیتے ہیں اور ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ ریمنڈ ڈیوس کو پھانسی پر لٹکا دیں۔مذہبی جماعتیں اپنا ہجوم اکٹھا کیے ہوئے ہیں جو عدالتوں سے اپنی مرضی کا فیصلہ لینا چاہتی ہیں۔میڈیا اور مذہبی جماعتیں ایک جانب اس امریکی کو پھانسی دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں جس نے اپنے دفاع میں دو افراد کو ہلاک کیا جبکہ دوسری طرف ہم اس قاتل کو رہا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جس نے حق بات کہنے والے کی جان لے لی۔ان حالات میں اگر کوئی یہ کہے کہ مرنے والے ڈاکو تھے جو پہلے بھی شہریوں سے رقم اور موبائل چھیننے کی وارداتوں میں ملوث رہے تھے تو اسے امریکی ایجنٹ یا ملک دشمن کے خطاب سے نوازا جاتا ہے ۔ ہمارا میڈیا ان چار ہزار افراد کے بارے میں خاموش ہے جو خودکش حملوں کا نشانہ بنے ہیں اور ان افراد کے بارے میں بھی خاموش ہے جو آئے روز پولیس کے ہاتھوں تشدد کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں ان کے پیاروں پر کیا گزرتی ہے؟ ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں۔

قارئین اگر جذباتیت سے باہر نکلیں تو انھیں یاد ہو گا کہ حادثہ پیش آنے کے فوراً (تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے ) بعد تمام ٹی وی چینلز نے اپنی نشریات میں اس حادثے کے متعلق عینی شاہدین کے جو تاثرات دکھائے اس میں انھوں نے واضح طور پر بتایا کہ دو موٹرسائیکل سواروں نے کارسوار گورے پر پستول تان رکھا تھے۔اگلے دن کے اخبارات (خاص کر انگریزی ) میں قتل ہونے والے دونوں نوجوانوں کے متعلق چھپا کہ یہ اپنے علاقے کے چھوٹے موٹے بدمعاش تھے اوروہ مختلف وارداتوں میں ملوث رہے ہیں۔ ان کے قتل ہونے کے بعداخبارا ت میں جب ان کی تصاویر چھپیں تو دو مختلف افراد نے ان کو پہچانتے ہوئے پولیس کو باقاعدہ درخواست دی کہ انھوں نے چند گھنٹے یاچند دن پہلے ہم سے بھی رقم اور موبائل چھینے تھے۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ ان ڈاکوؤں کے ہاتھ ایک گوراآگیا جسے دونوں نوجوان پستول دکھا کر لوٹنا چاہتے تھے لیکن خلاف توقع گورا کمانڈو بھی تھا جسے دہشت گردی جیسے واقعات سے نبٹنے کی تربیت بھی حاصل ہے اور اس نے اپنے دفاع میں ان دونوں کو مار ڈالا ۔

لیکن آنے والے دنوں میں حقائق کی بجائے الیکٹرانک میڈیا نے ہمیشہ کی طرح جھوٹا جذبہ حریت پروان چڑھانا شروع کر دیا ۔ٹاک شوز میں کچھ نئے’’ عینی شاہدین ‘‘کا اضافہ ہو گیا۔ چند دنوں میں ہی مرنے والے ڈاکوؤں کو ہیرو بنا دیا گیا ان کے والدین نے ٹی وی چینلزپر وہی ’’رٹے رٹائے‘‘ بیان دینا شرو ع کر دیئے جو پہلے ڈاکٹر عافیہ سے متعلق دیئے جاتے رہے ہیں۔وفاقی حکومت نے پہلے دن ہی یہ کہا کہ اس کے پاس ڈپلومیٹک پاسپورٹ ہے اور ویزہ بھی۔ لیکن میڈیا نے کنفیوژن پھیلانا شروع کر دی کہ پاسپورٹ تو ڈپلومیٹک ہے مگر ویزہ نہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ امریکی ڈپلو میٹ کے پردے میں جاسوس تھا۔ وہ اسلحہ لے کر گھوم رہا تھا؟ اس کے پاس کیمرہ تھا وغیرہ وغیرہ۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان سمیت ہر ملک سفارت کاروں کے پردے میں اپنے سفارت خانوں میں خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار بھی تعینات کرتا ہے۔ پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے میں امریکی ایجنسیاں ملک میں القاعدہ اور اس کی حمایتی انتہا پسند تنظیموں کے روابط اور ان کے ممکنہ حملوں کے متعلق تفتیش میں مصروف ہیں اور یہ سب کچھ ایک معاہدے کے تحت ہی ہورہا ہے جس میں ہماری سیکیورٹی ایجنسیاں بھی شامل ہیں۔ کوئی سات آٹھ ماہ قبل کراچی سے جب طالبان رہنما مُلا برادر اور اس کے ساتھیوں کو پکڑا گیا تو اس میں ملکی اور غیر ملکی ایجنسیوں کی مشترکہ کاوش شامل تھی۔وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے واضح طور پر کہا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کا ڈپلومیٹک پاسپورٹ ہے اور ڈپلو میٹک ویزا رکھتا ہے اور پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیوں نے تمام تحقیقات کے بعد ہی اسے ویزہ جاری کیا تھا۔

پاکستان اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے اور یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی اداروں کو جس طرح یہ جنگ لڑنی چاہیے وہ نہیں لڑ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیٹو افواج ڈرون حملوں کا سہارا لینے پر مجبور ہیں اور یہ سب کچھ پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی رضامندی سے ہورہا ہے۔ وزیرستان سے تعلق رکھنے والے افراد نے ان حملوں کی حمایت کی ہے اور انگریزی پریس میں ان حملوں کی افادیت پر کئی مضامین شائع ہو چکے ہیں مگر ہمار ا میڈیا غیر جمہوری قوتوں کے ایما پر مسلسل حکومت کو مطعون کرتا چلا آرہا ہے اور ڈرون حملوں کی آڑ میں پورے ملک میں حکومت کے خلاف مہم چلا رکھی ہے۔

ظاہر ہے جو ملک بھاری فوجی امداد دے گا تو وہ ڈکٹیشن بھی دے گا اگر آپ اتنے ہی باغیرت ہیں کہ ڈکٹیشن نہیں لینا چاہتے توپھر ہر چھ ماہ بعد سٹریٹجک ڈائیلاگ کے نام پر جھولی پھیلانا بھی بند کرنا ہو گا جو کہ ہم نہیں کر سکتے ۔ حالت یہ ہے کہ تیل خریدنے کے پیسے نہیں اور اگر قرضے کی قسط نہ ملے تو ہماری بجلی اور بند ہو جاتی ہے۔ توانائی کے بحران اور خودکش حملوں کی وجہ سے سرمایہ کاری ختم ہو تی جارہی ہے۔ ہم نے اسلحہ کے ڈھیر لگا لیے ہیں جو بھوکے عوام کا پیٹ نہیں بھر سکتے۔ ہر سال عوام کی بڑی تعداد سطح غربت سے نیچے جارہی ہے۔لیکن ہم ہیں کہ پوری دنیا کو فتح کرنے کی بڑھکیں مارنے میں مصروف ہیں۔قاتلوں کو ہیرو بنا رہے ہیں۔ مُلک پر قابض ڈکٹیٹروں نے ہمارا نصاب ہی ایسا بنایا ہے جس میں حملہ آوروں اور لوٹ مار کرنے والوں کو ہیرو بنایا گیا ہے اور یہی کچھ ہم آج کر رہے ہیں۔


Comments

comments

Latest Comments
  1. Mussalman
    -
  2. Javed Sheikh
    -
  3. Umar
    -
  4. Hoss
    -
  5. Abdul Nishapuri
    -
  6. Nour
    -
  7. Khalid Aziz
    -
  8. Mussalman
    -
  9. Khalid Aziz
    -
  10. Akhtar
    -