مابعد دھرنا صورت حال- چند معروضات – عامر حسینی
پارہ چنار کے عوام کا آٹھ روزہ دھرنا اپنے اختتام کو پہنچا۔اس دھرنے نے کرم ایجنسی بارے پاکستانی ریاست اور اس کے اداروں عسکری و سویلین اداروں کے رویوں ، کردار اور پالیسی بارے بہت کچھ کہنے کا موقعہ فراہم کیا۔اس دھرنے کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس نے بہت کھل کر اور بے باک انداز سے پاکستانی ریاست کی 80ء کی دہائی سے شروع ہونے والی تزویراتی گہرائی،افغان جہاد پروجیکٹ، طالبانائزیشن کو گود لینے سے لیکر کرم ایجنسی کے اندر فرقہ وارانہ جنگ تک پہنچانے والی افغان ،پنجابی ، پشتون، ہندکو بیلٹ سے تعلق رکھنے والی تکفیر نواز گروپوں کی آبادکاری اور اس کے انتہائی منفی اثرات اور افغانستان و پاکستان و بھارت کے مابین موجود پراکسیز کی لڑائی میں سینڈوچ بنی کرم ایجنسی کی عوام کی حالت زار پہ تفصیلی بات کرنے کا موقعہ فراہم کیا۔یہ درست ہے کہ اس دوران پاکستان کے مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پہ ایسے لوگوں کے تبصروں، تجزیوں اور مضامین کی بھرمار بھی رہی جو کرم ایجنسی میں شیعہ پشتون نسل کشی مڈل ایسٹ میں شام اور عراق کے آئینوں میں دیکھنے اور دکھانے میں مصروف پائے گئے۔حقائق کو مسخ کیا گیا۔پارہ چنار کی شیعہ اکثریت کو سنی آبادی کا دشمن اور شام و عراق میں سنّی مسلمانوں کی نسل کشی کا ذمہ دار تک بناکر دکھانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ایف سی کے ایک متعصب ، تکفیری و جہادی دوست کمانڈنٹ کو خوامخواہ ‘سنّی عوام ‘ کا محسن بناکر پیش کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔
یہ پروپیگنڈا ابھی بند نہیں ہوا۔یہاں تک کہ ہم جیسے سنّی پس منظر کے حامل ( فرحت تاج، ڈاکٹر عالم محسود،رحمت شاہ آفریدی و دیگر ) لوگوں کے تجزیوں کو بھی ایرانی ایجنٹوکریسی کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی گئی۔گویا سنی اسلام کی نمائندگی کا ٹھیکہ سپاہ صحابہ پاکستان/اہلسنت والجماعت سمیت تکفیری دیوبندی۔سلفی وہابی نیٹ ورک اور اس کے حامیوں نے اٹھا رکھا ہے اور جو ان کے تکفیری وہابی برانڈ سے اتفاق نہیں کرتا وہ ‘صف سنیت ‘ سے خارج کردیا جاتا ہے۔ثبوت کے طور پہ قلم کار، مکالمہ ، نکتہ نظر سجاگ پہ میرے شایع ہونے والے آرٹیکلز ، فرحت تاج اور مجھ سمیت سنّی پس منظر کے حامل سوشل میڈیا ایکٹوسٹ لکھاریوں کی فیس بک وال پہ کی جانے والی پوسٹوں کے نیچے تکفیری دیوبندی-سلفی وہابی عناصر کے تبصرے اور کمنٹس پڑھے جاسکتے ہیں جن میں سے اکثر کو میرے یا دوسرے سنّی پس منظر کے حامل لکھت کاروں کے بارے میں الف ب کا بھی پتا نہیں ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دیوبندی پس منظر کے اعتدال پسند، منصف مزاج لوگوں نے ہمارے تجزیوں کو نہیں سراہا، بلکہ بہت سے لوگوں نے اس نکتہ نظر کی تائید کی جو ہم نے پیش کیا۔
کرم ایجنسی پہ لکھتے ہوئے سنّی پشتون سکالرز کی طرح میرا فوکس جہاں شیعہ نسل کشی رہا وہیں ہم نے بین السطور کرم ایجنسی کے سنّی علاقوں کی ماہیت قلبی بدل ڈالنے اور ان علاقوں کے مقامی پرامن سنّی پشتون آبادی کے اندر زیادہ ریڈیکل جہادی، تکفیری اور وہابیت زدہ انتہا پسند دیوبندی مہاجرین کی آبادکاری اور اس کے نتائج و عواقب کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی۔ سنّی اسلام کا جمہور جو عمومی طور پہ صلح کل، تصوف کا حامی اور شیعہ۔سنّی تعاون اور ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کی تاریخ رکھتا آیا تھا اسے کیسے افغان جہاد پروجیکٹ نے بدلا اور پھر پوسٹ کولڈ وار میں کابل کے اندر اپنی کٹھ پتلی حکومت لانے کے چکر میں طالبانائزیشن تک پہنچ جانے اور اس کے بعد کابل سے طالبان کے سقوط اور امریکی جنگ کے دوران ‘اچھے ،برے طالبان’ کی گول مول پالیسیوں نے کیسے پاکستانی ریاست کو سعودی فنڈڈ ریڈیکل دیوبندی ازم کا قیدی بناکر رکھ دیا اس پہ بات کی گئی۔
اس سے بہرحال آگاہی اور علم کی نئی جہات دریافت کرنے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔پشتون معاشرہ جس میں سنّی دیوبندی اسلام کا کبھی بھی اینٹی شیعہ اور صوفی طرز زندگی کے خلاف ‘وجودی خطرہ’ بنکر نہیں ابھرا تھا وہ 80ء کی دہائی سے ریڈیکل تبدیلیوں سے دوچار ہونا شروع ہوا اور اس نے کرم ایجنسی کی سنّی دیوبندی آبادی کی کایا کلپ کرنے میں ریاست کی مدد بہت ہی خطرناک کردار ادا کرنا شروع کردیا۔فرحت تاج نے اپنی کتاب ” حقیقی پشتون سوال ۔۔۔۔۔” اور اپنے ایک تحقیقاتی مقالے ‘ کیا کرم ایجنسی میں شیعہ –سنّی ‘ اکٹھے رہ سکتے ہیں میں جو تفصیلات فراہم کیں وہ چشم کشا ہیں اور ان کو بار بار پڑھنے کی ضرورت ہے۔خاص طور پہ سنّی پشتون آبادی کی دیوبندی سیکشن کو اس پہ غور وفکر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
کرم ایجنسی میں منگل ، مقبل ، زازئی ، بنگش (سنّی ) قبائل کن تبدیلیوں سے گزرے ہیں اور ان کی آبادی کے علاقوں میں افغان،پنجابی ، دوسرے پشتون علاقوں سے ریڈیکل دیوبندی عناصر کی آبادکاری نے کیسی ڈیموگرافک تبدیلیوں کو جنم دیا ہے اس بارے بات کرنا اشد ضروری ہے۔اور مجھے انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس پہ بات کرنے کا ٹھیکہ صرف اور صرف تکفیری فاشزم کے اپالوجسٹ ، عذر خواہوں، سہولت کاروں، حامیوں اور نظریہ سازوں نے اٹھا رکھا ہے اور سنّی پشتون آبادی کی ترجمانی کے سارے حقوق انھوں نے اپنے نام کروارکھے ہیں۔
مجھ سے بار بار پوچھا جارہا ہے کہ میرا دھرنے کے بعد آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں بیان کردہ نکات بارے کیا خیال ہے اور کیا دھرنا کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا یا مکمل طور پہ رائیگاں چلا گیا۔
آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز پڑھ کر بڑے سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ایف سی سے پارہ چنار شہر کی سیکورٹی لیکر پاکستان آرمی کے ریگولر دستوں کے حوالے کی جارہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ طوری ملیشیا کے لوگوں کی زیادہ سے زیادہ واپسی کی یقین دھانی کرائی گئی ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی کرم ایجنسی کے ساتھ افغان باڈر پہ ایف سی کو تعینات کئے جانے کا کہا گیا ہے۔
ایف سی میں مقامی لوگوں کی زیادہ سے زیادہ بھرتی جبکہ پارہ چنار سٹی کی چیک پوسٹوں پہ مقامی طوری و بنگش قبیلے کے لوگوں کی تعیناتی کا بھی کہا گیا ہے۔یہ ایک بڑی پیش رفت خیال کی جارہی ہے۔پارہ چنار کی حد تک تو آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں یہ سیکورٹی اقدامات بظاہر تسلی بخش نظر آتے ہیں لیکن ایک کروڑ کا سوال پھر جواب کے بغیر رہ گیا ہے۔اور وہ سوال یہ ہے کہ کرم ایجنسی کے اندر خاص طور پہ سنّی اکثریت کے علاقوں میں جو تحریک طالبان افغانستان،حقانی نیٹ ورک،سپاہ صحابہ پاکستان ،جماعت الاحرار سمیت تکفیری دیوبندی نیٹ ورک ہے جس کا بڑا حصّہ اسی کی دھائی سے مسلسل باہر سے آنے والے لوگ بنے ہوئے ہیں ان سے نمٹنے اور سنّی علاقوں میں تکفیری نیٹ ورک کو سنّی قبائل پہ اثرانداز ہونے سے روکے جانے کے حوالے سے کیا سٹریٹجی تیار کی گئی ہے؟
ابھی عید پہ ٹل ہنگو ڈسٹرکٹ میں نماز عید کے موقعہ پہ جو تحریک طالبان افغانستان کے امیر کا پیغام جہاد جس طرح سے تقسیم کیا گیا اس سے جو تاثر ملا اس کو کیسے زائل کیا جآئے گا؟کرم ایجنسی کے سنّی اکثریتی علاقوں میں جماعت الاحرار،داعش ، لشکر جھنگوی العالمی ،سپاہ صحابہ پاکستان/اہلسنت والجماعت کے نظریاتی ہمدردوں کی تعداد میں بہت اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔اور شیعہ اکثریت کے علاقے اور سنّی اکثریت پہ مشتمل کرم ایجنسی کے علاقوں کے درمیان جو فاصلے اور دوریاں موجود ہیں اس کو پاٹنے اور کرم ایجنسی میں سنّی اور شیعہ قبائل کے درمیان ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے کے حوالے سے پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ اور سیاسی اسٹبلشمنٹ کیا سٹریٹجی بنائے گی ؟اس بارے ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔یہ سب سے کمزور پوآئنٹ ہے اور ایک بہت بڑا سوال یہ ہے کہ کرم ایجنسی میں دیوبندی انتہا پسندی شیعہ آبادی کے لئے ایک وجودیاتی خطرے کے طور پہ موجود ہے اور یہ تکفیری دیوبندی ازم ہی کرم ایجنسی کے اندر فرقہ وارانہ شدید تناؤ کا سبب بن رہا ہے۔کیا پاکستانی ریاست اس کی آئیڈیالوجیکل جہتوں کے خلاف کوئی غیر فرقہ وارانہ بیانیہ سامنے لیکر آئے گی ؟
اس سوال کا جواب نفی میں ملتا ہے۔کیونکہ ایک طرف پاکستان کی سویلین اور فوجی قیادت سعودی فوجی اتحاد میں شامل ہے۔پاکستان کی فوج کا سابق سربراہ پاکستانی ریاست کے جاری کردہ این او سی اور اشیر باد کے ساتھ سعودی فوجی اتحاد کی سربراہی کررہا ہے اور پاکستان کے اندر کالعدم فرقہ پرست جماعتوں کی مین سٹریمنگ کا عمل جاری ہے جبکہ پارہ چنار سمیت فاٹا کے اندر سیکولر جمہوری سیاسی جماعتوں کے لئے کام کرنا انتہائی مشکل ہے جبکہ اسٹبلشمنٹ کے قریب سمجھی جانے والی مذہبی جماعتوں کے لئے فضا بہت سازگار نظر آرہی ہے۔اور اگر دیکھا جائے تو کرم ایجنسی کے لوگوں کی عملی طور پہ نمائندگی شیعہ اکثریتی علاقوں میں اسٹبلشمنٹ نواز شیعہ مذہبی جماعتوں اور سنّی اکثریت علاقوں میں اسٹبلشمنٹ نواز سنّی دیوبندی انتہا پسند گروپوں اور جماعتوں کے ہاتھ میں نظر آتی ہے اور یہ خود رو عمل نہیں بلکہ باقاعدہ سوشل انجینرنگ کا نتیجہ نظر آتا ہے۔
ریاست کی پالیسی کرم ایجنسی کے اندر فرقہ پرست اظہار کی صورت میں نکل کر باہر آتی ہے۔جبکہ کرم ایجنسی میں پاکستان پیپلز پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی وغیرہ کو اگر کام کرنے کا موقعہ ملے تو کرم ایجنسی میں موجود فرقہ وارانہ خلیج کو پاٹنا مشکل نہیں ہوگا اور تکفیری ،انتہا پسند عناصر کو تنہا کیا جاسکتا ہے۔مجھے نجانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ اپنی حامی مذہبی و سیاسی قوتوں کے بل بوتے پہ سیاسی جمہوری سیکولر طاقتوں کی مکمل ناکامی و نااہلی کے تصور کو پختہ کرناچاہتی ہے اور اسے اپنے حق میں موجودہ صورت حال آئیڈیل لگتی ہے۔