کوک سٹوڈیو میں شہید امجد صابری کی آخری پرفارمنس
مجھے کوک سٹوڈیو کے اس سیزن میں امجد صابری اور راحت فتح کی اس پرفارمنس کا سب سے شدت سے انتظار تھا۔ سوچا تھا بار بار سنوں گا اور امجد صابری کو یاد کروں گا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں بمشکل ایک بار اسے مکمل سن پایا۔ دل بیٹھتا ہوا محسوس ہوا بالکل اسی طرح جیسے ریلوے اسٹیشن پر کسی بہت ہی پیارے اور عزیز انسان کو الوداع کہتے ہوئے محسوس ہوتا ہے، دل چاہتا ہے یہ مت جائے لیکن ٹرین چل پڑتی ہے۔
میں نے سوچا تھا میں بھی امجد صابری کیلئے لکھوں گا کہ آج امجد صابری عرش پر جھوم جھوم پر کلام خسرو پڑھتا ہوگا، قوالی گاتا ہوگا، منقبت پڑھتا ہوگا لیکن یہ سن کر بس یہی خیال آیا کہ یہ اتنا قیمتی انسان کیسے سر راہ مار دیا گیا۔ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کا واسطہ دیتا رہا لیکن بچ نہ پایا۔ کیسی شہادت اور کونسی شہادت؟ ساڑھے چار سو سال پر محیط عہد قوالی کی شہادت؟
امیر خسرو کا یہ لازوال کلام بہت سوں نے پڑھا، امجد صابری کے والد اور راحت فتح کے استاد اور چچا نصرت فتح نے چالیس برس پہلے ایک ساتھ پڑھا اور کچھ عرصہ قبل اسے ساحر علی بگا نے بھی انتہائی خوبصورتی سے گایا۔ یقینا دل کو چھو جانے والا کلام ہے مگر امجد صابری نے کچھ عجیب انداز میں دل کو چھوا، اس نے جتنی بار ” آج رنگ ہے اے ماں رنگ ہے ری” کہا، میرے ذہن میں اسکی “خون میں رنگی” لاش اور اسکی ماں کا چہرہ گھوم گیا جو اپنے شیر جوان بیٹے کے قاتلوں سے پوچھنا چاہتی ہے کہ اسکے بیٹے کا کیا قصور تھا۔
میں امجد صابری کی یہ پرفارمنس دوبارہ نہیں دیکھوں گا، میں اسکے قتل پر شہادت اور داد و تحسین کا غلاف ڈال کر اپنے ڈوبتے ہوئے دل کو دھوکا نہیں دونگا۔بس آپ سے اتنی درخواست کروں گا کہ اس کلام کو سنتے ہوے جب آپ کی آنکھیں نام ہو جایں تو امجد صابری کو گستاخ اور کافر قرار دے کر قتل کرنے والے دیوبندی طالبان کے لئے بد دعا ضرور کیجئے گا اور ان کے حمایتیوں اور وکیلوں کے نام لے کر انکو بےنقاب ضرور کریں – شکریہ