مڈل ایسٹ کو ” آزاد ” کرانے کی مغربی خواہش خام ہی رہی ہے ہمیشہ کی طرح –رابرٹ فسک – ترجمہ وتلخیص : عامر حسینی
posted by Guest Post | March 16, 2016 | In Original Articles, Urdu Articlesنوٹ : رابرٹ فسک نے اپنے اس آرٹیکل میں تاریخی حوالوں سے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کیسے مغربی طاقتیں اپنے تئیں ہمیشہ سے مڈل ایسٹ کو ” آزاد ” کرانے کی مہم جوئی کرتا رہا اور یہ مہم جوئی ہمیشہ ہی ناکامی پہ منتج ہوئیں – اس آرٹیکل میں 1941ء میں 20000 ہندوستانی ، آسٹریلوی اور فری فرنچ آرمی اور برٹش سپاہیوں پہ مشتمل ایک فوج نے سر ہنری ایم ولسن کی کمانڈ میں لیبیا ، شام اور برٹش مینڈیٹ آف فلسطین کے تحت حملہ کردیا اور اس مقصد بظاہر لبیا ، شام اور عراق کی آزادی تھا – رابرٹ فسک اس دور کے مڈل ایسٹ میں مغرب کے آزادی مشن کی جدید دور میں مغرب کے مڈل ایسٹ کو آزاد کرانے کے مشن میں مماثلت تلاش کرتا ہے اور اس کے تازہ آرٹیکل کے لکھنے کی وجہ انگریزی میں پہلی مرتبہ شایع ہونے والی فرانسیسی سینٹ سائر ملٹری انسٹی ٹیوٹ کے ایک بڑے نامور مورخ کی کتاب ” شام کی جنگ 1941ء ” بنی ہے جو فرانسیسی آرکائیوز سے ترتیب پائی ہے – اس میں وچی فرانسیسی رجیم کا زکر ہوا ہے ، اس بارے تفصیل سے پڑھنے کے لئے وکیپیڈیا کا لنک
https://en.wikipedia.org/wiki/Vichy_France
دیکھا جاسکتا ہے ، مختصر طور پہ دوسری جنگ عظیم کے دوران وجود میں آنے والی فرنچ ریاست تھی جس کا درالحکومت
Vichy
شہر میں تھا اور اس کی بنیاد مارشل فلپ پیٹن نے رکھی تھی ، یہ وہ زمانہ تھا جب فرانس کے ایک بڑے حصّے پر اٹلی اور جرمنی نے قبضہ کررکھا تھا ، وچی فرانس ریاست کو معلوم تھا کہ اس کو اپنی بقا کے لئے جرمن کو خوش رکھنا پڑے گا اور اسی وچی فرانس کا لیبیا ، شام ، عراق پہ قبضہ تھا اور جنرل ڈینز بھی وچی فرانس کا مقرر کردہ ان علاقوں میں کمانڈر تھا جس کا تذکرہ رابرٹ فسک نے اس آرٹیکل میں کیا ہے – رابرٹ فسک نے اپنےخاص اسلوب میں اشاروں اور استعاروں میں بات کی ہے ، لیکن مرے پڑھنے والوں میں بہت سے ایسے لوگ ہونگے جو اس مضمون میں زکر کردہ تاريخی کرداروں سے ویسے واقف نہیں ہوں گے اس لئے میں زرا وضاحت سے اسے بیان کرڈالا – رابرٹ فسک بین السطور یہ کہنا چاہتا ہے کہ جیسے 1941ء میں ڈی گال سمیت فرانس ، برطانیہ کے حکمرانوں نے لبنان ، شام ، عراق کے اندر موجود افواج بارے غلط اندازے لگائے تھے ، شامیوں ، لبنانیوں بارے ان کی جو رائے تھی وہ غلط ثابت ہوئی تھی آج بھی انہوں نے جب ” شام کی آزادی ” کا پروجیکٹ چلایا تو انہوں نے شامی ، علاوی اور ديگر کے بارے میں جو اندازے لگائے تھے اور اس مشن کو جتنا آسان خیال کرلیا تھا وہ انتہائی غلط اور سادگی پہ مبنی ثابت ہوا ہے ،اس آرٹیکل کے فوری بعد جو تازہ ترین آرٹیکل رابرٹ فسک کا شایع ہوا برطانوی اخبار ڈیلی انڈی پینڈنٹ میں اس میں رابرٹ فسک نے مغرب کے مغالطوں اور اپنے پرانے آرٹیکل میں تجریدی اور اشارے تک محدود کہی گئی باتوں کو مزید کھول کر بیان کیا ہے – یہ آرٹیکل اس آرٹیکل کے ساتھ ملاکر پڑھنے سے مزید فہم تاریخ مڈل ایسٹ میں اضافہ ہوگا – اصل آرٹیکل کے ساتھ کافی مفید تصاویر اور ایک ويڈیو کلپ بھی ہے ، جسے اس لنک پہ جاکر دیکھا جاسکتا ہے
(ع-ح)
1941ء میں جنرل ڈی گال نے مڈل ایسٹ کے لئے اپنا پلان ترتیب دیا- اس نے مشہور زمانہ فقرہ لکھا کہ ” پیچیدہ مشرق کی جانب میں نے اپنے سادہ خیالات کے ساتھ اڑان بھری ” –انھوں نے سب کیا – نپولین قاہرہ کو “آزاد ” کرانے جارہا تھا جبکہ بش و بلئیر عراق کو اور اوبامہ شام کو “آزاد” کرانے چلے تھے
فرانسیسی سینٹ سائر ملٹری اسکول کے مورخ آنرے ڈی ویلے نے ایک شاندار کتاب ” شام پہ حملہ 1941ء ” لکھی جو حال ہی میں پہلی مرتبہ انگریزی میں شایع ہوئی ہے – اور کس وقت پہ یہ شایع ہوئی ہے – سٹالن گراڈ محاصرے کے دوران جتنی ہلاکتیں آج شام کی سول وار میں ہوچکیں ہیں ، یہاں وہ کہانی ہمارے سامنے آتی ہے جس میں پتہ چلتا ہس کہ کیسے فرانسیسی اور برٹش نے گمان گرلیا تھا کہ وہ ” ماڈرن / نیا لبنان اور شام محض اس سرحد کو وہاں سے عبور کرکے جہاں آج فلسطین ہے اور شام کو شکستہ خوردہ 35000وچی دستوں سے چھین سکتے ہیں جو کہ 1940ء کی گرمیوں سے مارشل پیٹن کی جرمن نواز رجیم کے لئے سروسز سرانجام دیکر تھک چکے تھے
اس کا نتیجہ قدرے مختلف نکلا ، لیکن کچھ چیزیں اہل مغرب کی نظر میں کبھی تبدیل نہ ہوئیں – مثال کے طور پر یہاں وچی جنرل ٹونی البرڈ مقامی علاویوں پر اور لبنانی سپاہی پر ہے جن کی کمانڈ اس کے پاس تھی- علاوی بہرحال بالکل وہی شیعہ فرقہ ہے جس سے شام کے صدر بشارالاسد کا تعلق ہے
البرڈ نے لکھا تھا ” علاوی سپاہی باصلاحیت ہے ، “شامی سپاہی سادہ اور ڈسپلن میں رہنے والے مگر اینٹی اتھارٹی ہیں ، آسانی سے اپ سیٹ ہونے والے اور غیر مہذب ” – اس کی مارشل سپرٹ کم ہوچکی ہے – لبنانی فوجی وردی میں فرض شناس دھشت گرد سویلین ہیں – لبنانی اور شامی مڈل کلاس کے اندر فوج میں آنے کے لئے درکار بھاپ نہیں ہے ؛ ان کے بیٹوں کو قانون دان ہونا چاہئیے
تو ان کو ابھی ایسا ہی ہونا چاہئیے – لیکن 1941ء میں ڈی گال کی مختصر سی فری فرنچ آرمی کے لئے چیزیں بہت بری ثابت ہوئیں – ” لیونٹ آرمی ” سرکاری طور پر وچی فرانس کے لئے لڑرہی تھی اس نے سرنڈر نہ کیا – اپریل اور مئی میں نازی مارچ سے پہلے فرانسیسی فوج کے گرنے کی شرمندگی سے بچنے کے لئے لیونٹ آرمی ڈی گال کی ریگ – ٹیگ آرمی ، برٹش اور آسٹریلوی فوج جو ان کے ساتھ شریک تھیں بہادری سے لڑیں
آسٹریلوی اور وچی سپاہی دونوں ڈی گال کے آدمیوں سے نفرت کرتے تھے اور برٹش بھی فری فرنچ پر اعتماد نہ کرتے تھے – تقریبا ساری وچی فورس – فرانس کی آن بچانے کے لئے جن کو ڈی گال کی فورسز میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی اپنے نصف قبضہ شدہ ملک کو حاصل کرنے کی جدوجہد کا حصّہ بننے کا انتخاب کرنے والی بن گئی اور ان میں سے اکثر ایسے جہاز میں سوار تھے جن پر لکھا تھا
Vive Petain
پہلی مرتبہ ہمارے پاس یہ المیہ کہانی موجود ہے جو کہ برٹش نہیں بلکہ فرنچ آرکآئیوز کی مدد سے لکھی کئی ہے – جس میں ہم کو ان 37000 سپاہیوں کا معلوم ہوتا ہے جو کہ وچی کے لئے لڑ رہے تھے ، 32380 سپاہیوں نے
Petainist France
طرف واپسی اختیار کی جبکہ صرف 5848 نے فری فرنچ آرمی جائن کی – لیکن 66 فیصد ان میں افریقی دستے تھے جن کو یورپی جنگ میں کوئی دلچسپی نہ تھی
ڈی گال کو جوائن کرنے والوں میں اکثریت ان کی تھی جنھوں نے لبنانی نژاد کرسچن عورتوں سے شادی کرلی تھی اور مقامی طور پر خاندان بنالیے تھے جن کو وہ چھوڑ نہیں سکتے تھے – حیران کن طور پر سو سے زائد فری فرنچ سپاہی ڈی گال کو چھوڑ گئے اور نصف ان میں سے وچی کامریڈز کے ساتھ اپنے گھروں کو فرانس چلے گئے جو کہ ان علاقوں میں شامل تھے جن پر نازیوں نے قبضہ جما رکھا تھا
اور یہاں پر ایک قابل زکر اتفاق بھی ہے – جب میں ڈی ویلے کی کتاب پڑھ رہا تھا تو مجھے ٹام ینگ کی کال موصول ہوئی – یہ وہی مصور ہے جس کی بیروت کے ٹمانی ” پنک ہاؤس کو بچانے کی کوششوں بارے میں نے دو ماہ قبل کے کالم میں لکھا تھا – اس نے مجھے بتایا کہ اب وہ 1873ء میں تعمیر شدہ عظیم الشان بیروت میں کرسچن آبادی کے علاقے میں بوستانی ہاؤس کو بچانے کی کوشش کررہا ہے – اسے سالم بوستان نامی ایک لبنانی بینکر نے تعمیر کیا تھا جس کی بیوی ایڈیلی لبنان میں پہلے پیانو کی مالک (یہ ابھی تک محفوظ ہے ) –چھے بچوں کی ماں تھی اور ان میں سے ایک خوبصورت بیٹی بھی تھی جس کا نام
Georhrette
تھا
اب ایک مرتبہ پھر ہم 1941 ء میں لبنان کے متحدہ حملے کی طرف آتے ہیں – برٹش افواج میں سارجنٹ میجر فرینک آرمر بھی تھا جو کہ سکاٹش کمانڈو یونٹ میں لڑ رہا تھا اور حملے کے پہلے کی مرحلوں میں وہ یونٹ بری طرح سے نشانہ بنا – وہ اور اس کے ساتھی افسران ” آزاد لبنان ” پہنچے اور وہ سالم بوستانی کے اوپر والی دو منزلوں پہ ٹھہرے تھے ، اور گزشتہ ہفتے میں ان کے کمروں میں گیا جس میں کھڑکیوں کے فریم اطالوی فن کا شاہکار تھے اور میں نے وہاں سے میڈٹیرین کا نظارہ کیا اور زیتون کے درختوں کا ایک عظیم الشان باغ اور کیلوں کے درختوں سے بھرا نظارہ اگلے دروازے پہ کیا
لیکن فرانسیسی سپاہیوں کی طرح جنھوں نے کرسچن لبنانی عورتوں سے شادی کرلی اور وہاں ٹھہرنا پسند کیا ، فرینک آرمر جس کا باپ سکاٹ اور اس کی ماں روسی نژاد تھی وہ پرکشش جارجیٹی کی محبت میں مبتلا ہوگیا اور اس سے شاد کی اور اپنی بقیہ ساری زندگی اس نے عثمانی طرز تعمیر کے شاہکار اس عمارت میں گزار دی – اس عمارت کے پچھواڑے میں ایک باغ اور اس کے عقب میں ایک فونیشین مقبرہ ہے
فرینک جلد ہی فوت ہوگیا کیونکہ سول وار ابھی تک اس گھر کے آس پاس پھوٹی ہوئی تھی اور جارجیٹی بھی ایک عشرے قبل فوت ہوگئی – پھر یہ گھر ایک کویتی کو اور اس سے آگے ایک شامی نادر کلائے شامی موبائل فون کمپنی سیریا ٹیل کا سی ای او ، اور آپ اندازہ لگا سکتے ہو شامی صدر بشار الاسد کا یار غار کو فروخت کردیا گیا
لیکن آپ کو مڈل ایسٹ میں بہت محتاط ہونا پڑتا ہے ( کسی پیشن گوئی کے لئے ) – بشار روسی ملٹری سپورٹ کو قبول کرچکا اور ہوسکتا ہے کہ وہ بچ جآئے – جنرل ڈینز لبنان میں وچی کمانڈر جرمن ائر فورس
Luftwaff
کے طیاروں کو لینڈ کی اجازت دینے پہ مجبور ہوا تاکہ لبنان اور شام میں فرانسی ہوائی اڈوں پر ان کو ری فیول کیا جاسکے یہ وہی ائر فیلڈ ہیں جن کو نصرہ فرنٹ کے باغی لوگ حملہ کرتے رہتے ہیں –اور عراق میں نازی نوازوں کو اسلحہ دینے پر مجبور ہوا لیکن 1944ء میں اس کو ڈی گال کی عدالتوں نے موت کی سزا سنادی تھی ( اس سزا کو ڈی گال نے عمر قید میں بدل دیا تھا اور قید میں ہی اس جنرل ڈینیز کا انتقال ہوگيا تھا )
ایک سینٹ سائر کا تریب یافتہ اور پرعزم اینٹی نازی کے طور پر اس نے فرانس کی آن کو بلند رکھنے کی کوشش کی لیکن ایک سپاہی کے طور پر اس نے مارشل پیٹین کی تابعداری کی اور صرف ڈی گال نے اسے پھانسی سے بچایا – ڈینز کی فوج اتحادیوں کے خلاف بھی لڑی جس کو آج تک اس دور کی تواریخ میں فرنچ ، برٹش اور آسٹریلین اس کے خلاف استعمال کررہے ہیں