پاراچنار دھماکہ اور پاکستانی میڈیا کا شرمناک کردار – خرم زکی

vhHgA7fUAXo_imPRc4tMFzl72eJkfbmt4t8yenImKBVvK0kTmF0xjctABnaLJIm9-1

گزشتہ روز پاراچنار میں کالعدم تکفیری دیوبندی دہشتگرد گروہ اہل سنت والجماعت کے ہاتھوں 26 سنی شیعہ مسلمانوں کے قتل عام کے بعد جہاں میڈیا کا طرز عمل شرمناک و افسوسناک تھا اور مین سٹریم نیوز چینل نے اس اندوہناک خبر کا مسلسل بائیکاٹ کر رکھا تھا وہیں بعض انسانی حقوق کے نام نہاد عالمی چیمپئینز کا رد عمل بھی بھیناک حد تک ظالمانہ، منافقانہ اور اس قتل عام اور بربریت کی توجیہ پیش کرنے کے مترادف تھا۔

دیسی کمرشل لبرلز کا تو حوالہ ہی کیا پیش کروں کہ جن کا کام ہی امریکی لائن (تزویراتی اہداف) کی پیروی ہوتا ہے لیکن جب وہ افراد، جو اپنے آپ کو غیر جانبدارعلمی اسکالرز، انسانی حقوق کے داعی اور تجزیہ نگار بنا کر پیش کرتے ہیں، جب دانستہ طور پر اس طرح کے قتل عام اور نسل کشی کا خود ساختہ اور بے بنیاد جواز تراشنے کی کوشش کرتے ہیں تو عام عوام کنفیوژن کا شکار ہوتے ہیں اور دہشتگردی کے خلاف نیریٹو(بیانیہ) متاثر ہوتا ہے۔

قتل و غارت گری اور دہشتگردی کی توجیہات و جواز پیش کرنے کا یہ عمل حقیقت میں اسی امریکی و سعودی ایجینڈے کا حصہ ہے جس کے تحت دہشتگردوں اور دہشتگردی کو دو گروہوں میں، اچھے دہشتگرد اور برے دہشتگرد میں تقسیم کر دیا گیا ہے اور تکفیری دیوبندی و وہابی دہشتگردوں کی جانب سے بلا تخصیص مذہب و ملت، ہر قوم مذہب و ملت کے افراد کے قتل عام کو، چاہے پیرس ہو یا پارا چنار، شیعہ سنی مصنوعی ثنویت (بائنری) یا سعودی عرب و ایران پراکسی وار کی صورت میں پورٹرے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

گویا یہ بتانے کی کوشش ہر رہی ہے کہ داعش، طالبان، انجمن سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی کی دہشتگردی کا نشانہ جب پیرس و لندن میں بسنے والے لوگ بنتے ہیں تو وہ تو دہشتگردی ہے لیکن جب انہی دہشتگردوں کا نشانہ پارا چنار کے عوام ہوتے ہیں تو وہ شام میں بشار الاسد کی جانب سے روا رکھی جانے والی پالیسیز کا رد عمل ہے یا ایران سعودی عرب پراکسی جنگ کا ایک جزو۔ حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیئے کی جانے والی اس میڈیا جنگ میں یوں تو کئی نامی گرامی چہرے شامل ہیں لیکن یہاں میں حوالہ دوں گا معروف علمی شخصیت پروفیسر ولی نصر اور دوسرا ہیومن رائٹس واچ کے ڈائیریکٹر کینیتھ روتھ کا۔

یہ بات سب کے لیئے واضح ہے کہ شام اور عراق میں ایک عالمی دہشتگرد گروہ بنام داعش نہ صرف ان دونوں ملکوں کے عوام کا قتل عام کر رہا ہے بلکہ دیگر ممالک کے لوگوں کو بھی اپنے دہشتگرد حملوں کا نشانہ بنا رہا ہے۔ پیرس اور امریکہ میں حال ہی میں ہونے والے دہشتگرد حملے اس گروہ کی رسائی اور اہداف کی ایک مثال ہیں۔ انہی حملوں کے بعد فرانس نے شام پر براہ راست حملے کیئے اور داعشی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ اسی دہشتگرد گروہ کا الحاق و اتحاد پاکستان میں کالعدم اہل سنت والجماعت و لشکر جھنگوی سے ہے جو پاکستان کے طور و عرض میں سنی، صوفی، بریلوی و شیعہ مسلمانوں کو گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنے دہشتگرد حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

اس ملک کے عام عوام اور خصوصا شیعہ مسلمان ان دہشتگردوں کے مسلسل حملوں کی زد میں ہیں اور یہ سلسلہ اس ملک میں 1963 سے جاری و ساری ہے جب 6 جون 1963 کو سندھ کے شہر خیرپور کے علاقے ٹھیری میں 114 شیعہ مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، ان کو ذبح کیا گیا۔ جنرل ضیاء کے دور میں شیعہ مسلمانوں کی نسل کشی عروج پر پہنچ گئی جب ملک کے طول و عرض میں ان کی آبادیوں پر حملے کیئے گئے، ان کو تاراج کیا گیا اور گگلت سے کراچی تک شیعہ مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی۔ کینیتھ روتھ اور ولی نصر کہتے ہیں کہ پاراچنار میں کل ہونے والا دہشتگرد حملہ شام میں بشار الاسد کی پالیسیسز اور پاراچنار سے بعض غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق کچھ شیعہ نوجوانوں شام جا کر شیعہ مقدس مقامات کے دفاع کا رد عمل ہے۔

کینیتھ روتھ جو ایک عرصہ دراز سے شام میں داعش کی جانب سے ہونے والی دہشتگردی کا جواز بشار الاسد کی پالیسیز کو اور عراق میں اسی دہشتگرد گروہ کے حملوں کا جواز نور المالکی کی پالیسیز کو ٹہراتے رہے ہیں اور پروفیسر ولی نصر جو ان تکفیری دہشتگردی کو شیعہ سنی فرقہ وارانہ جھگڑا اور سعودی ایران جنگ قرار دیتے ہیں اپنے اس تجزیہ میں یہ بنیادی حقیقت فراموش کر گئے کہ کالعدم اہل سنت والجماعت (لشکر جھنگوی گروپ) جس نے پارا چنار کے حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے گزشتہ 25 سال سے پاکستان میں کھلے عام شیعہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے میں مصروف ہے،

اور اس جماعت سے تعلق رکھنے ریاض بسرا، ملک اسحق، اکرم لاہوری، حق نواز جھنگوی ، رمضان مینگل، رفیق مینگل اور انہی جیسے دیگر دہشتگرد کسی ایک نہیں بلکہ سینکروں اور ہزاروں دہشتگردی کے واقعات میں ملوث ہیں جس میں ان کے حملوں کا نشانہ صرف شیعہ مسلمان ہی نہیں بلکہ سنی، صوفی، بریلوی، مسلح افواج، پولیس و رینجرز سب بنتے رہے ہیں۔ اور یہ سب کچھ شام کی موجودہ صورتحال سے کم از کم 20 سال پہلے کی بات ہے۔ اسی لشکر جھنگوی نے پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان میں بھی شیعہ ہزارہ مسلمانوں پر دہشتگرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

خود پارا چنار میں اس نسل کشی کا آغاز حالیہ سالوں میں 2007 میں ہوا تھا جب اس تکفیری ٹولے نے 12 ربیع الاول کے موقع پر جان بوجھ کر اشتعال انگیزی کی تھی اور قتل عام کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا تھا جس کے نتیجے میں 5000 سے زائد افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔ کیا میں پوچھ سکتا ہے اس عرصے میں جن شیعہ مسلمانوں کی گردن کاٹی گئی، جن کے ہاتھ و پاؤں ان کے جسم سے جدا کیئے گئے وہ کون سا بشار الاسد کا دفاع کر رہے تھے ؟ وہ کون سا کسی زینبی لشکر کا حصہ بن کر مقدس مقامات کا دفاع کر رہے تھے ؟ کیا میں پوچھ سکتا ہوں کینیتھ روتھ اور پروفیسر ولی نصر سے کہ پچھلے سال 16 دسمبر کو آرمی پبلک اسکول پشاور میں اس تکفیری دیوبندی دہشتگرد گروہ نے جن 150 کے قریب معصوم طلبہ و اساتذہ کو قتل کیا، ذبح کیا، وہ کب کبھی شام گئے تھے یا انہوں نے بشار الاسد اور داعش کے درمیان ہونے والی جنگ کا حصہ بننے کی حامی بھری تھی ؟ کیا پروفیسر سبط جعفر جن کو 2013 میں اسی تکفیری دیوبندی دہشتگرد گروہ نے شہید کیا یا پروفیسر ڈاکتر شکیل اوج جن کو 2014 میں شہید کیا گیا نے کب بشار الاسد کی حمایت میں کوئی بیان دیا تھا ؟

یہ تکفیری دہشتگرد گروہ تو پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کے قتل عام کا جواز فاٹا میں امریکی ڈرون اٹیکس کو بھی قرار دیتا رہا ہے تو کیا کبھی کینیتھ روتھ اور پروفیسر ولی نصر میں شیعہ مسلمانوں پر حملے کی وجہ امریکی ڈرون اٹیکس بھی ٹہرائی ہے ؟ یا یہ مہربانی صرف مقدس مقامات کے دفاع جیسے جرم کے لیئے مخصوص ہے ؟ جی ہاں ایکسپریس ٹریبیون نے پاراچنار پر اس تکفیری دیوبندی دہشتگرد گروہ کے حملوں سے محض ایک دن پہلے ایک اسٹوری چلائی جس میں کہا گیا کہ پارا چنار سے شیعہ مسلمان شام جا رہے ہیں۔ یہ ایکسپریس ٹریبیون جس نے آج تک داعش، کالعدم اہل سنت والجماعت، لشکر جھنگوی کی مشترکہ دیوبندی وہابی جماعت کو مینشن کرنا ضروری نہ سمجھا (یا اس کی ہمت نہیں کی) وہ کھلے عام پارا چنار سے شام جانے والے لڑکوں کی شیعہ شناخت بیان کرنا ضروری سمجھتا ہے،

جی ہاں لیکن گزشتہ دو سالوں میں انہی قبائلی علاقوں اور صوبہ خیبر پختون خواہ سے سینکڑوں، ہزاروں دہشتگرد شام جا کر داعش میں شمولیت اختیار کرتے ہیں لیکن اسی ایکسپریس ٹریبیون کی کبھی ہمت نہیں ہوئی کہ داعش کو جوائن کرنے والے ان تکفیری دہشتگردوں کی مشترکہ مذہبی شناخت دیوبندی کو واضح کرے۔ میں سوال کرتا ہوں ایکسپریس ٹریبیون کے ایڈیٹر و مالکان سے پاکستانی شیعہ مسلمانوں کے ساتھ یہ متعصبانہ رویہ کیوں ؟ کیا شیعہ اس ملک کے دوسرے درجے کے شہری ہیں کہ آپ اس طرح کی اسٹوریز چلا کر ان کے قتل کا جواز مہیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ؟ کیا پہلے ہی ان تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کے پاس شیعہ نسل کشی کے خود ساختہ جوازات کی کمی ہے ؟

ایکسپریس ٹریبیون کا پاکستانی شیعہ مسلمانوں کے خلاف یہ اسٹوری چلانا، پارا چنار میں کالعدم اہل سنت والجماعت (لشکر جھنگوی گروپ) کی جانب سے دہشتگرد حملہ اور پروفیسر ولی نصر اور کینیتھ روتھ کا اس دہشتگرد حملے کو شام سے منسلک کرنا بظاہر ایک سوچی سمجھی مربوط حکمت عملی کا نتیجہ ہے جس کا مقصد داعش کے لیئے لڑنے والوں اور داعش کے خلاف لڑنے والوں کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کرنا ہے۔ گویا یہ کہنا کہ قاتل و مقتول، دہشتگرد و دہشتگردی سے متاثر ہونے والے دونوں برابر ہیں۔ کیا ترکی و یورپ سے شام آ کر داعش میں شمولیت اکتیار کرنے والے وہابی نوجونوں کی مذہبی شناخت بیان کرنے کی کوشش کی جائے گی ؟ کیا یہ بتانے کی کوشش کی جائے گی کہ داعش کے خلاف جدو جہد صرف شیعہ مسلمان ہی نہیں، بلکہ کتنے ہی سنی قبائل، کرد، ایزدی اور امریکہ سے آنے والے مسیحی افراد بھی کر رہے ہیں۔

تو پھر کیا وجہ ہے کہ شام جا کر داعش کے حملوں سے مقدس مقامات کا دفاع کرنے والے پاکستانیوں کی مذہبی شناخت کو واضح کرنا ضروری سمجھا گیا ؟ کیا ایکسپریس ٹریبیون کو معلوم ہے کہ اسی شام و عراق میں سنی کرد بھی داعش سے مقابلے کے لیئے دنیا بھر سے جنگجو اکھٹا کر رہے ہیں اور اس حوالے سے لائنز آف روجاوا (روجاوا کے شیر) کے نام سے ایک فیس گروپ پہلے ہی موجود ہے ؟ سوال یہ ہے کہ پھر ایکسپریس ٹریبیون نے زینبی لشکر اور شیعہ مسلمانوں کو ہی کیوں کر خصوصی طور پر نشانہ بنایا ؟ کیا یہ پاراچنار کے عوام ہی نہیں جو ایک عرصے سے اس تکفیری دہشتگرد فکر کا نشانہ بن رہے ہیں اور نوبت یہ آ گئی تھی کہ پارا چنار سے پاکستان آنے لیئے ان کو پہلے افغانستان جانا پڑتا تھا ؟

کیا رہاست اور ریاستی ادارے ان کے بنیادی آئینی حقوق بشمول زندہ رہنے کے حق کا تحفظ کرنے میں کامیاب ہو سکے یا ان کو افغانستان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ؟ تو آج اگر اس علاقے کے کچھ نوجون جا کر تمام مسلمانوں کے (ہاں تمام مسلمانوں کے کیوں کہ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اور امام حسین تمام مسلمانوں کے ہیں) مقدس مقامات کا دفاع کر رہے ہیں تو اور اس عالمی دہشتگرد گروہ کے مقابل ڈھال بن کر کھڑے ہیں تو یہ کون سا قانونی، اخلاقی یا مذہبی جرم ہے۔ بعض تکفیری اور کمرشل لبرلز اس پر یہ جواب دیتے ہیں کہ پھر آپ کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیئے اگر ہم پاکستان کی جیلیں توڑ کر یہاں سنگین جرائم میں مطلوب مجرموں کو سعودی خوشنودی کے لیئے شام بھجوا دیں۔ حضور مجھے تو کوئی اعتراض نہیں، آپ سارے ہی تکفیریوں کو شام بھجوا دیں لیکن یہ تو بتا دیں کہ ایک دہشتگرد گروہ سےلڑنے والے اور اسی دہشتگرد گروہ کی طرف سے لڑنے والے کیسے برابر ہو سکتے ہیں ؟ شام ایک خود مختار ملک ہے، آپ کس عالمی قانون کے تحت وہاں لوگوں کو بھجوا سکتے ہیں جو وہاں کی حکومت کے خلاف، وہاں کے عوام کے خلاف دہشتگردی میں ملوث ہوں جب کہ ہماری حکومت شام کی حکومت کو تسلیم کرتی ہے ؟

میں یہ سمجھتا ہوں کہ امریکی و مغربی استعمار کے ایجینٹ یہ چاہتے ہیں کہ تکفیری دیوبندی و وہابی دہشتگرد فکر کی شرق و غرب میں دہشتگرد کاروائیوں کے نتیجے میں جواس تکفیری فکر سے نفرت پیدا ہو رہی ہے اور لوگ ایسی نام نہاد مذہبی تعلیم سے دور ہو رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ دوری ان کو اسلام کی حقیقی، اصلی و پر امن تعلیمات و مکتب اہل بیت کی فکر کے قریب لے جانے کا مؤجب بن جائے اور لوگ اس تکفیری فکر کو چھوڑ کر اہل بیت کی تعلیمات اختیار کر لیں اسی لیئے جہاں وہ دیکھتے ہیں کہ ان کی پروردہ تکفیری وہابی و دیوبندی فکر بدنام ہو رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ مکتب اہل بیت کو بھی بدنام کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور عموما یہ کام جھوٹی نیوٹریلٹی (غیر جانبداری) کے پردے میں کیا جاتا ہے کہ یہ تاثر دیا جاسکے کہ دیکھیں جناب اگر ہم ایک فکر کی دہشتگردی کو غلط کہتے ہیں تو دوسری جانب بھی (بلا وجہ ہی سہی) انگلی ضرور اٹھاتے ہیں یعنی گویا اپنی نام نہاد دانشوری اور غیر جانبداری کی آڑ میں ظالم و مظلوم کو ایک ہی صف می لا کھڑا کرتے ہیں اور مظلوم کے دفاعی رد عمل کو ظالم کے اقدامی اور جارحانہ عمل کے برابر قرار دے کر دونوں کو ایک جیسا قرار دے دیتے ہیں۔

آخر میں ایکسپریس ٹریبیون اور انہی جیسے دیگر میڈیا آؤٹلیٹس سے ایک معصومانہ سوال:

کیا آج پنجاب یونیورسٹی سے جو دو پروفیسرز کالعدم تکفیری دیوبندی دہشتگرد گروہ اہل سنت والجماعت( سابقہ کالعدم انجمن سپاہ صحابہ) سے تعلق کے جرم میں پکڑے گئے ہیں ان کی مشترکہ دیوبندی شناخت بھی ایکسپوز کی جائے گی ؟

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.