شیعہ مسلمانوں کی نسل کشی، ہیٹ اسپیچ اور عدالتوں و ریاستی اداروں کا دہرا معیار۔ خرم زکی
غور فرمائیں جناب! شیعہ مسلمانوں پر عرصہ حیات کس طرح تنگ کیا جا رہا ہے۔ ایک جانب تو تکفیری دیوبندی دہشتگرد شیعہ مسلمانوں کا قتل عام اور نسل کشی کر رہے ہیں، کھلے عام ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر شیعہ مسلمانوں کے خلاف مغلظات بکی جا رہی ہیں، ان کی تکفیر کی جا رہی ہے، کھلے عام تکفیری دیوبندی دہشتگرد گروہ شیعہ مسلمانوں کے خلاف ریلیاں نکال رہے ہیں، جلسے جلوس کر رہے ہیں، اور حکومت، فوج، رینجرز، پولیس سب تماشائی بنے بیٹھے ہیں
اور دوسری طرف اب شیعہ مسلمانوں سے ان کا آئینی، جمہوری، مذہبی حق بھی چھینا جا رہا ہے یعنی کوئی شیعہ مسلمان اپنے عقیدے کا اظہار بھی نہیں کر سکتا، اپنے عقیدے کی تبلیغ بھی نہیں کر سکتا اور اگر ایسا کرنے کی ہمت کرے تو یہی قانون نافذ کرنے والے ادارے اور یہی عدالتیں جن کی کالعدم تکفیری دیوبندی دہشتگرد گروہوں کے سامنے گھگی بندی ہوئی ہوتی ہے، جو شیعہ مسلمانوں کے قتل عام پر، شیعہ مسلمانوں کی نسل کشی پر، ان کے خلاف نعرے بازیوں پر کان بند اور دم سادھ کے بیٹھ جاتے ہیں، فوری حرکت میں آتے ہیں اور یہی کورٹس جو لدھیانوی، فاروقی، مینگل جیسے دہشتگردوں کے خلاف کوئی فیصلہ کرنے کی جرات نہیں کرتیں، ملک اسحق دیوبندی جیسے دہشتگرد کو ہر کیس میں بری کرتی رہیں، فوری فیصلے سنانے لگتی ہیں۔
کیا یہ وہی کورٹس نہیں جنھوں نے کچھ دنوں قبل ہی کالعدم تکفیری دیوبندی دہشتگرد گروہ اہل سنت والجماعت (سابقہ کالعدم انجمن سپاہ صحابہ) کے دہشتگرد مفتی تنویر کو غیر قانونی اسلحہ, بھاری ہتھیار رکھنے اور ہیٹ اسپیچ کے اسی سنگین جرم میں محض 6 مہینے کی سزا سنائی تھی؟ تو ایک شیعہ مسلمان کو 13 سال کی سزا کیوں؟ یہ دہرا طرز عمل کیوں؟ میں واضح کر دوں، اور حکومت اور تمام حکومتی اداروں سمیت، تمام کورٹس اور ججز کان کھول کر سن لیں، شیعہ مسلمان اس ملک کے کوئی دوسرے درجے کے شہری نہیں اور یہ ملک کوئی تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کے باپ کا نہیں اور نہ ہی اس ملک پر کسی ایک مسلک کی اجارہ داری ہے۔
اس ملک کا بانی ایک شیعہ مسلمان تھا۔ احسان فراموشی کی بھی حد ہوتی ہے، بے غیرتی کی بھی حد ہوتی ہے۔ شیعہ مسلمانوں کو پورا آئینی اور مذہبی حق ہے کہ اصحاب کے متعلق اپنے نظریہ اور عقیدے کی تبلیغ و وضاحت کریں۔ شیعہ مسلمانوں پر کسی اور مسلک کے عقیدے کو تھونپا نہیں جا سکتا اور نہ ہی ان سے اپنے عقیدے کی تبلیغ و اشاعت کے حق کو چھینا جا سکتا ہے۔ اگر اس غیر آئینی و مذہبی سزا کو ختم نہ کیا گیا تو ہم بھی احتجاج کے آئینی و قانونی حق کو استعمال کریں گے اور سعودی عرب کی “نظریاتی سرحدوں” کے خلاف پوری اور بھرپور مزاحمت کریں گے، آخری دم تک، ان شاءاللہ، آمین۔
اگر اصحاب پر تنقید کرنا، ان کے غلط افعال کو غلط کہنا اتنا بڑا جرم ہے تو پھر کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والدین ماجدین، حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ (ہماری جانیں ان پر قربان)، کو جہنمی کہنا(اللہ کی پناہ)، امام علی کے والد حضرت ابو طالب کو کافر کہنا کیوں جرم نہیں ؟ کیا یہ سچ نہیں کہ خود صحیح مسلم اور دیگر کتب اہل سنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والدین تک کو کافر لکھا گیا ہے ؟ اگر صحابہ کے غلط کاموں پر تنقید اتنا بڑا جرم ہے تو رسول اللہ کے والدین کو کافر کہنا کتنا بڑا جرم ہونا چاہیئے ؟ پھر صحیح مسلم چھاپنے اور پڑھانے والوں پر مقدمہ کیوں درج نہیں کیا جاتا ؟
باقی میں حیران ہوں ان نام نہاد دیسی کمرشل لبرل اور سیکولر حضرات پر جو کل تک المانہ فصیح دیوبندی کے امام علی کو گالی دینے کے حق کی تو بھر پور حمایت کر رہے تھے لیکن آج شیعہ مسلمانوں کے خلاف اس ریاستی جبر کے خلاف ان کو سانپ سونگھا ہوا ہے۔ یہ کیوں آج اس ظلم و ستم کے خلاف باہر نہیں نکلتے، کیوں آواز نہیں اٹھاتے ؟ کیا آزادی اظہار رائے کا حق صرف المانہ فصیح دیوبندی کو حاصل تھا ؟ کیا آزادی اظہار رائے کا حق صرف فرانس کے میگزین چارلی ہیبڈو کو حاصل تھا ؟ یہ کون سا دہرا اور منافقانہ معیار ہے ان کمرشل لبرلز کا کہ دنیا بھر میں کہیں آزادی اظہار رائے کا مسلہ ہو تو شور مچاتے ہیں لیکن جب کوئی شیعہ مسلمان اسی ملک پاکستان میں ریاستی جبر کا شکار ہوتا ہے تو ان سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے ؟
سپریم کورٹ اس صورتحال کا فوری نوٹس لے۔ عدالت عظمی کے ججوں سے عرض ہے کہ صرف اس ملک کے مسیحی حضرات کے ساتھ ہی اس قانون کا غلط استعمال نہیں ہو رہا بلکہ شیعہ مسلمان بھی اس کے غلط استعمال کا نشانہ بن رہے ہیں۔ کسی ایک گروہ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ دیگر مسالک و مکاتب پر اپنا عقیدہ تھونپے۔
اگر یہ سزا ختم نہیں کی جاتی تو ہم بھی میدان احتجاج میں آنے کے لیئے تیار ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین جو ہر شخص کو اپنے مذہب کی تبلیغ و اشاعت کی اجازت دیتا ہے
why these things are not the part of media discussion these days.