کرنل شجاع خانزادہ کے قاتل کون ؟ ہم نہیں شواہد بولتے ہیں
شجاع خانزادہ اور ڈی ایس پی شوکت شاہ کی خودکش بم دھماکے سے چند لمحوں قبل لی گئی تصویر
رپورٹ : داعش کے نام پر لشکر جھنگوی ، طالبان ، ازبک ، تاجک بھگوڑے دیوبندی تکفیریوں کے پاس پنجاب میں پناہ لئے ہوئے ہیں اور انہی بھگوڑوں نے کرنل شجاع خانزداہ کی جان لی – رپورٹ ڈیلی ڈان
انگریزی روزنامہ ڈان کے راولپنڈی میں سٹاف رپورٹر محمد اصغر نے خبر دی ہے کہ اتوار کے روز ایک خود کش حملے میں پنجاب کے صوبائی وزیر داخلہ شجاع خانزادہ اور دیگر افراد کی اٹک میں شہادت نے اس علاقے میں خود ساختہ خلافت قائم کرنے والی تنظیم داعش کی ممکنہ موجودگی کے بارے میں پریشان کردینے والے سوالات کھڑے کردئے ہیں
انسداد دھشت گردی ڈیپارٹمنٹ پنجاب – سی ٹی ڈی کے مطابق حالیہ ہفتوں میں یہ محکمہ اٹک اور اس کے گردو نواح میں داعش کے سیل کی موجودگی کی اطلاعات کی تصدیق کرنے کی کوشش کررہی تھی جب شجاع خانزادہ کو نشانہ بنایا گیا
سی ٹی ڈی کے لوگوں نے مذکورہ نمائندہ کو یہ بتایا کہ ابتدائی تحقیقات سے یہ اندازہ قائم کیا گیا ہے کہ شجاع خاںزادہ پر خود کش حملہ داعش نے تحریک طالبان پاکستان کی مدد سے کیا ہے
انٹیلی جنس اہلکار نے بتایا کہ خفیہ ایجنسیاں اور سی ٹی ڈی ملک اسحاق اور اس کے تیرہ ساتھیوں کی ہلاکت کے ردعمل میں لشکر جھنگوی اور دیگر گروپوں کی جانب سے انتقامی اور بدلے کی کاروائی کے طور پر حملوں بارے پیش بینی کرنے میں مصروف تھے اور اس حوالے سے کئی سیاسی اور انتظامی لوگوں کو ” الرٹ ” بھی جاری کئے گئے تھے لیکن ان پیشگی خبردار کرنے کے پیغامات میں کوئی خصوصی الرٹ شجاع خانزادہ صوبائی وزیر داخلہ پنجاب کو جاری نہیں کیا گیا تھا
نوٹ : یہ حیرت انگيز بات ہے کہ صوبائی وزیر داخلہ پنجاب کرنل (ر) شجاع خانزادہ جوکہ ایک طرف تو پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان کے انچارج تھے تو دوسری طرف وہ سی ٹی ڈی کی پنجاب میں انٹیلی جنس بیسڈ کاروائیوں کی نگرانی بھی کررہے تھے اور انھوں نے ہی سب سے پہلے یہ انکشاف کیا کہ ملک اسحاق اور اس کے ساتھیوں کی ہلاکت نیشنل ایکشن پلان کا حصّہ ہے تو ان کو ہی سی ٹی ڈی یا کسی اور انسداد دھشت گردی کے زمہ دار صوبائی محکمے یا ونگ نے کوئی پیشگی خبردار کرنے والا الرٹ جاری نہ کیا اور اگر ہم اے آر وآئی نیوز کو دئے گئے رانا ثناء اللہ صوبائی وزیر قانون کے اس بیان کو دیکھیں کہ ” کرنل شجاع خانزادہ خود فوج کے آدمی تھے ، ان کو اپنی سیکورٹی بارے خود بہت پتہ تھا ” بہت عجیب بیان لگتا ہے اور بین السطور اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پنجاب حکومت نے شجاع خاںزادہ کی سیکورٹی خود ان کی صوابدید پر چھوڑ رکھی تھی ، اب تک ڈھونڈنے سے بھی یہ تفصیل پتہ نہیں چل سکی کہ پنجاب حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کے انچارج اور اپنے صوبائی وزیر داخلہ کی سیکورٹی کا کیا اہتمام کیا ہوا تھا – ان کے سیاسی ڈیرے اور رہائش گاہ کے گرد جیمرز کیوں نہیں تھے ؟ کم از کم ایک جیمرز پر مبنی گاڑی وہآں ہونی چاہئیے تھی اور اٹک پولیس ، سی ٹی ڈی ، سیکورٹی برانچ نے ان کی حفاظت کے لئے کیا اقدامات اٹھائے ہوئے تھے ؟ شجاع خانزادہ اکتوبر 2014ء میں سانحہ ماڈل ٹآؤن کے بعد پنجاب کے وزیر داخلہ بنے تھے اور ان کے وزیر داخلہ بننے پر پنجاب مسلم لیگ کے اندر کیا ہوا تھا ، اس بارے میں روزنامہ ڈان ہی کے ایک اور رپورٹر انتخاب حنیف نے ” کرنل (ر ) شجاع خاںزادہ کے حوالے سے اپنے ایک مضمون میں انکشاف کیا ہے
Col Khanzada was a relatively new face in the party, and there were rumours that some of those who enjoyed closeness with Chief Minister Shahbaz Sharif were not happy with his rise to prominence. Not too long ago, the former colonel was quoted by an Urdu paper as saying that some in the party grudged him his position.
Source :http://www.dawn.com/news/1200919/colonel-calm-departs
اب ایک بات تو طے کہ شہباز شریف کے قریبی مسلم لیگیوں میں سب سے زیادہ قریبی گروپ تو رانا ثناء اللہ گروپ ہے اور رانا ثناء اللہ کے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ وہ ہوم منسٹری چھن جانے پر نالاں تھے اور یہ بھی ایک بڑا انکشاف ہے کہ ایک اور سابقہ کرنل نے ہی انکشاف کیا تھا کہ شجاع خانزادہ کی موجودہ پوزیشن سے پارٹی کے اندر کچھ لوگ خار کھارہے تھے ، رانا ثناء اللہ مسلم لیگ نواز میں کس قدر طاقت ور ہوگئے ہیں اس کا اندازہ میاں شیر علی والد عابد شیر علی اور سمدھی میاں نواز شریف کے بیان سے لگایا جاسکتا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے رانا ثناء اللہ کی مجرمانہ اور دھشت گردوں سے روابط کے ثبوت میاں محمد نواز شریف کو دئے جس پر انھوں نے شہباز شریف کو رانا ثناء اللہ کے خلاف کاروائی کرنے کو کہا لیکن کچھ نہ ہوا -یہ بہت سنگین الزام ہے اور اس کی سچائی یا جھوٹ کو واضح کرنا خود چیف منسٹر شہباز شریف کی زمہ داری بھی بنتی ہے
ڈان کے رپورٹر محمد اصغر نے بتایا کہ ایک سئنیر پولیس آفیسر نے یہ تصدیق کی ہے کہ اٹک میں داعش کی موجودگی کی مصدقہ اطلاعات ملی تھیں اور اس پر کئی جگہوں پر چھاپے بھی مارے گئے لیکن اس حوالے سے کوئی بھی گرفتاری عمل میں نہيں آسکی کہ جس کا تعلق داعش کے اٹک میں موجود سیل سے ہوسکتا تھا
پنجاب ہوم ڈیپارٹمنٹ نے ایک لیٹر تمام ضلعی و ڈویژنل و ریجنل پولیس ہیڈ آفسز کو اکتوبر 2015ء میں ارسال کیا تھا جس میں پولیس اور اس کے متعلقہ ونگز کو خبردار کیا گیا تھا کہ آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے ازبک ، تاجک اور دیگر دھشت گرد فرار ہوکر پنجاب کے علاقوں ميں مقامی انتہا پسند گروپوں کی مدد سے پناہ لے سکتے ہیں اور اس لیٹر میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ مقامی فرقہ پرست دھشت گرد داعش کے شیعہ مخالف موقف کی وجہ سے داعش میں شامل ہوسکتے ہیں جبکہ اس خط میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ملک میں بعض دھشت گرد گروپ داعش کے قیام کی مزاحمت کررہے ہیں جبکہ داعش کے لئے کئی مقامی دھشت گروپوں کی جانب سے کئی دھشت گرد تنظیموں کی حمائت کے حصول کی کوششوں کا زکر بھی اس خط میں کیا گیا تھا
محمد اصغر نے بتایا کہ کئی دن پہلے ٹیکسلا میں فوجی علاقے کے اندر ایک الیکٹرک پول پر داعش کا جھنڈا بھی لگا پایا گیا تھا
نوٹ : سانحہ صفورا گوٹھ ، سوشل ایکٹوسٹ صبین محمود کا قتل اور کراچی ، حیدر آباد میں پولیس ، رینجرز پر ہونے والے حملوں کی انوسٹی گیشن کرنے والے سی آئی ڈی کے ایس پی عمر خطاب کے مختلف ميڈیا آؤٹ لیٹس کے رپورٹرز کو دئے گئے بیانات کا ایک جائزہ لیا جائے تو وہ کچھ یوں بنتا ہے کہ کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں میں دھشت گردی کے مذکورہ بالا واقعات میں ” داعش ” کا نام سیکورٹی اداروں اور ایجنسیوں کو دھوکہ دینے کے لئے استعمال کیا گیا جبکہ ان وارداتوں مين ” القائدہ برصغیر ہند ” کا پاکستانی ونگ ملوث ہے اور القائدہ برصغیر الہند اصل میں لشکر جھنگوی ، تحریک طالبان پاکستان کے کئی سپلنٹرز گروپس کے اراکین سے مل کر بنی ہے اور عمر خطاب یہ بھی کہتا ہے کہ ان لوگوں کی جو ممبر شپ ہے وہ دوہری ، تہری ہے یعنی ایک شخص القائدہ برصغیر الہند کا رکن بھی ہے تو ساتھ ہی وہ طالبان کا رکن بھی ہے تو اس کے ساتھ ہی وہ لشکر جھنگوی کا رکن بھی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ جماعت اسلامی ، سپاہ صحابہ پاکستان یا جے یوآئی ایف کی رکنیت بھی رکھتا ہو
اس لیے ہم کہتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان سے لیکر داعش تک سب کی ریکروٹمنٹ کا مرکز پاکستان کے اندر دیوبند میں تکفیری آئیڈیالوجی کے پیش رو ، پیرو ، ہمدرد ہیں اور اس میں ایک حصّہ ان تکفیریوں کا بھی ہے جو اس راستے تک جماعت اسلامی کے امیر سید مودودی اور اخوان المسلمون کے مرشد عام سید قطب کی تحریروں میں پائے جانے والے تکفیری خیالات کے زریعے سے یہاں تک پہنچے ہيں اور ان کا سراغ لگانا اور ان کا خاتمہ کرنا اشد ضروری ہے
RAWALPINDI: The suicide attack in Attock which claimed the lives of Punjab Home Minister Shuja Khanzada and others on Sunday has raised troubling questions about the possible presence of the self-styled Islamic State (IS) group in the area.
According to sources, the Counter-Terrorism Department (CTD) has in recent weeks been trying to verify reports that IS has set up a cell in Attock.
Officials privy to findings of the preliminary investigation into the attack said it had been carried out by the IS with help of the banned Tehreek-i-Taliban Pakistan.
Retired Colonel Khanzada was instrumental in setting up the CTD in Punjab to curb the spread of extremism and terrorism.
According to an intelligence official, law-enforcement and intelligence agencies were on the lookout for possible backlash in the wake of the killing of Malik Mohammad Ishaq, the leader of the banned Lashkar-i-Jhangvi, and had issued “alerts” about the possibility of attacks on important political leaders and government installations.
However, he said, they had not issued any specific alert regarding threats to Mr Khanzada’s life.
The suicide attack came about two weeks after the death of Ishaq and his two sons in a mysterious encounter with CTD personnel.
A senior police officer had confirmed the presence of IS in Attock area in the past and said: “We received confirmed reports about its presence in the area and conducted several raids and search operations but failed to lay hands on any member of the organisation.”
In October last year, the Punjab home department had warned police that Chechen and Uzbek militants expelled from Waziristan during military operations were trying to get shelter under the IS, also known by its Arabic acronym Daesh.
In a letter to divisional police chiefs of Punjab and the CTD, the home department said some local militant groups were reportedly joining Daesh because of its anti-Shia policies.
However, it said that some militant groups were resisting attempts to establish IS in the country.
It quoted intelligence reports as saying a particular group had been attracted to Daesh which might be trying to secure support of jihadi outfits and militant groups in the country.
The home department directed law-enforcement agencies to keep an eye on individuals associated with banned outfits and check their activities.
Earlier, IS flags were found on electric poles in the sensitive area of Taxila.
Officially, Federal Interior Minister Chaudhry Nisar Ali Khan has been denying the presence of the IS in the country.
Published in Dawn, August 17th, 2015
http://www.dawn.com/news/1200970/questions-arise-about-is-presence-in-attock