پاک چین دوستی اور معاشی معاہدے – از عمار کاظمی
بیگم کی پھپھو کے بیٹے نے ایک بار ٹویوٹا ہائی لکس جیسی ایک چائنیز برانڈ کی نئی گاڑی خرید لی۔ چھ ماہ کے اندر اندر اس کا انجن ختم ہو گیا۔ بیچارے کو تنگ آ کر ٹویوٹا کا گئیر باکس اور انجن امپورٹ کر کے گاڑی میں رکھوانا پڑا۔ اس سے نئی گاڑی کی قیمت تو اسی فیصد کم ہوگئی ہاں البتہ چائنیز کھوکھا چلنے کے قابل ہوگیا۔
چائینا نے پاکستان کو جو سستے ریلوے انجن دیے تھے ان میں سے آدھے بغیر چلے ہی خراب ہوگئے تھے بعد میں پاکستان کو چین سے ہی اور انجن امپورٹ کرنا پڑے۔ یعنی ایک کی قیمت سے تھوڑا زیادہ دو انجن مگر در حقیقت ایک مہنگا انجن جو کسی طور کسی مغربی ملک کی ہائی ٹیک ٹیکنالوجی کا مقابلہ نہیں کرتا۔
چائینا کی ائیرگن مارکیٹ میں ہمارے بچپن سے موجود ہے مگر آج تک وہ گن کسی بھی مغربی ملک کی ائیر گن کے مقابلے میں انتہائی غیر معیاری اور کم پائیدار تصور کی جاتی ہے۔ جبکہ مغربی ممالک کی گنز نسلوں تک چلتی ہیں۔
باقی چین کے دیے طیارے اور اسلحہ چلتا ہے یا نہیں اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ چین اپنا اسلحہ آزمانے کے لیے امریکنوں کی طرح جنگیں بھی نہیں چھیڑتا۔
جہاں تک ہم پاکستانیوں کا سوال ہے تو پتا نہیں پاکستانی ریاست اور مسلمانوں نے جناب رسالت ماب کی حدیث سے کیا مراد لیا ہوا ہے؟ علمائے اکرام اس پر بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں مگر مجھے جہاں تک سمجھ آتی ہے “علم حاصل کرو چاہے تمھیں چین جانا پڑے” اس حدیث کے ممکنہ طور پر یہ تین مفہوم ہو سکتے ہیں۔
پہلا یہ کہ چین کے راستے بہت دشوار گزار تھے، ذرائے آمد و رفت آج جیسے تیز رفتار نہیں تھے تو چین جانے کو ایک مشکل ترین سفر کی مثال کے طور پیش گیا گیا۔ دوسرا یہ کہ چائینیز زبان سیکھنا بہت مشکل تھی لہذا اس میں علم حاصل کرنے کو مشکل ترین کے استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ تیسرا یہ کہ چائینیز شاید ناپسندیدہ ترین اقوام میں شامل تھے جو نہ کسی الہامی کتاب کے پیرو کار تھے اور نہ ہی اپنے رہن سہن اور کھانے پینے [ سانپ، مینڈک، بندر، بچھو، چھپکلی وغیرہ کا کھانا ] کے معاملے میں کوئی بہت صاف ستھری اقوام میں شمار کیے جاتے تھے۔ لہذا شاید ان کو بد ترین کافر سمجھنے کے باوجود حصول علم کو فوقیت دی گئی۔
باقی جہاں تک موجودہ حکمرانوں کا سوال ہے تو ان کی سابقہ کرپشن کی روایات کے مطابق کوئی مذہبی حوالہ تو نہیں دیا جا سکتا تاہم ان کے کردار دیکھتے ہوئے یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ۔ بڑی سے بڑی کمیشن حاصل کرو چاہے تمھیں ۔
ان حالیہ معاہدوں کے بعد ایک بات واضع طور پر کہی جا سکتی ہے کہ چین جس حد تک پاکستان میں گھس چکا ہے اسے ہم ایسٹ انڈیا کمپنی کا چائنیز ورژن بھی کہہ سکتے ہیں۔ چین کی ان مہربانیوں اور ان دیو قامت معاہدوں کے بعد اگر کبھی کچھ غلط ثابت ہو بھی گیا تو ہم اسے ملک سے نکال نہیں سکیں گے۔