وھابیوں کا یمن پر حملہ – عامر حسینی
دیکھئے یہ اصطلاح میں نے نہیں استعمال کی بلکہ فلسطین کے ایک سنی بلاگر نے استعمال کی ہے یہ سنی بلاگر
https://uprootedpalestinians.wordpress.com/…/the-wahhabis-…/
Uprooted Palestinians
کے عنوان سے مستقل بلاگ ورڈپریس پر لکھتا ہے
Uprooted
کی اصطلاح سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ عرب دنیا میں یہ وہ مخلوق ہے جسے تاحال اس کا وطن نہیں مل سکا ہے اور فلسطینی 99 فیصد سنی ہیں اس کے باوجود مڈل ایسٹ میں سنیوں کی قیادت کا دعوے دار سعودی عرب اور اس کے حکمران آل سعود نے آج تک کبھی فلسطین کو آزاد کروانے اور ان پر صہیونیت کے ظلم وستم کو روکوانےکے لئے ویسا کوئی فوجی اتحاد قائم نہیں کیا جیسا اتحاد وہ یمن میں اپنے پٹھو ھادی عبدربہ المنصور کو اقتدار دلوانے کے لئے قائم کرچکا ہے
اپنی دھرتی سے محروم کردئے گئے اس فلسطینی نے 25 مارچ 2015 ء کوبڑے یقین سے لکھا تھا کہ سعودی عرب یمن پر حملہ نہیں کرے گا ، اس کا کہنا ہے کہ افسوس صد افسوس کہ یہ اس کی توقع غلط ثابت ہوگئی ، آل سعود نے مڈل ایسٹ میں پھیل جانے والی آگ کے عواقب ونتائج کی پرواہ کئے بغیر یمن پر دھاوا بول دیا
یمن پر سعودی عرب نے 1500 جیٹ بمبار طیاروں سے چڑھائی کی ہے جبکہ ایک لاکھ پچاس ہزار اس کے فوجی یمن کی سرحد پر کیل و کانٹے سے لیس ہوکر آن کھڑے ہوئے ہیں اور کوئی وقت جاتا ہے جب وہ یمن پر دھاوا بول دیں گے
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب نے یمن پر جو دھاوا بولا کیا یمن کے حوثی قبائل نے سعودی عرب پر حملہ کرنے کا کوئی عندیہ ظاہر کیا تھا ؟ کیا یمن کی جانب سے سعودی عرب کی سرحد کی خلاف ورزی ہوئی تھی ؟ کیا حوثی قبائل نے
امریکہ مردہ باد کے ساتھ کہیں سعودیہ عرب مردہ باد کا نعرہ تک بھی امریکی پٹھو صدر ھادی کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے لگایا تھا ؟ کیا حوثی قبائل کی ملٹری قیادت کرنے والوں نے کسی ایک مقام پر بھی یمن میں بسنے والے کسی غیر فوجی شہری کو اس کے عقیدے کی بنیاد پر کوئی نقصان پہنچایا ؟
کیا حوثی قبائل کی فوج نے کسی سلفی وھابی مسجد یا مدرسے یا اس کے کسی آبادی پر حملہ کیا ؟ اس کے برعکس گذشتہ جمعہ ان کی دو مساجد پر خوفناک حملہ ہوا جس میں تین سو سے زیادہ لوگ شہید ہوئے یمن میں حوثی قبائل کے خلاف ، وہاں کے شافعی و حنفی سنی آبادی کے خلاف سلفی وھابی تنظیموں نے مسلسل دہشت گردی کا ارتکاب کیا اور سعودیہ عرب اپنے پیسوں سے وھاں پر زبردستی وھابیت پھیلانے کی کوشش میں لگا رہا اور پھر یمن آل سعود کے اولین دور سے وھابی حملوں اور لوٹ مار کا شکار رہا ، یمن کے حوثی قبائل نے اب اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب کی جارحیت کے بعد 1934 ء میں جو طائف سرحدی معاہدہ ہوا تھا اسے منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے ، کیونکہ یمن کا یہ دعوی رہا ہے کہ نجران ، اثیر اور جزان تینوں علاقے یمن کا حصہ تھے اور تاریخی اعتبار سے یہ بات درست بھی ہے ، 1932 ء میں ابن سعود نے برطانوی سامراج کی پشت پناہی سے ان علاقوں کو زبردستی اپنی اس ریاست کا حصہ بنالیا تھا جو حجاز و طائف و نجد پر زبردستی اور برطانوی سامراج کی مدد سے وجود میں آئی تھی اور اس وقت سعودی عرب کی ریاست قائم کرنے کے لئے ابن سعود نے ایک طرف تو اسرائیل کے قیام کو تسلیم کیا تھا تو دوسری طرف سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کروانے میں بھی برطانیہ کا مکمل ساتھ دیا اور بدلے میں اہل حجاز وطائف کے لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی ، عراق پر چڑھائی کی اور حجاز میں اسلام کی مین سٹریم مذاھب اربعہ اور سنی اسلام کو وھابیت سے بدل ڈالا تھا
This was forced transformation of Hijazulmaqdas
سعودی عرب ایک امریکی پٹھو ھادی کی بحالی کے لئے اسقدر اتاولا اس لئے ہورہا ہے کہ اس کو معلوم ہے کہ یمن میں ایک عوامی امریکی اثر سے آزاد حکومت اور اس کے لے پالک آل سعود سے نفرت کرنے والے یمنیوں کی حکومت کا مطلب کیا بنتا ہے ؟
فلسطینی بلاگر لکھتا ہے کہ سعودی عرب کے یمن پر حملے کو سعودی -ایران پراکسی وار کے تناظر میں دیکھنا غلط ہے اور وہ اس حوالے سے اوپر بھی بتاتا ہے کہ حوثی قبائل کے خلاف 2009ء میں بھی سعودی عرب نے ایک پراکسی وار لڑی تھی جس میں اس نے منہ کی کھائی بڑا نقصان اٹھایا تھا
وہ یہ بھی کہتا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے دیگر اتحادیوں کا یمن پر حملہ یمن میں رھنے والوں کو قبائلی اور مسلکانہ فرق سے ہٹ کر متحد ہونے پر مجبور کردے گا اور ایسا ہوتا بھی نظر آرہا ہے ، یمن پر حملہ اس بلاگرز کی نظر میں سنی فورسز کا شیعہ پر حملہ نہیں ہے بلکہ یہ وھابیت ہے جو یمن پر حملہ آور ہوئی ہے ، وہ دو ماہرین کی رائے اس حوالے سے درج کرتا ہے
While the chief combatants in the civil war are certainly playing the sectarian card to some degree, there is reason to think that Yemen will not necessarily become part of some regional sectarian conflict. Regardless of their foreign ties, both the Shiite Houthis and their Sunni opponents are deeply rooted in Yemen, and they are motivated primarily by local issues.The main danger now is that the Western powers, Saudi Arabia or Egypt will overreact and seek to intervene, ostensibly to counter Iranian influence or to quash the efforts of Al Qaeda in the Arabian Peninsula to gain territory. Yet foreign intervention could very well be the worst approach now—further regionalizing what is still a local fight, injecting a stronger sectarian tone into the conflict while threatening to push Yemen closer to implosion.
As Pat Lang concludes:
The Houthi descendants of my old acquaintances are not servants of Iran. They are not dangerous to Western interests. They are dangerous to AQAP. Get it? Salih will return.
اس کا کہنا ہے کہ امریکی حمایت یافتہ سعودی مہم اس وقت ان کے وھابی برادر القاعدہ عرب جزیرہ کی مدد کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور یہ یمنی بھائیوں کی نجات کی مہم نہیں ہے
Seen like this the U.S. supported Saudi campaign is actually in support of their Wahhabi Al-Qaeda brethren, not in support of the majority of Yemenis. It is stupid (but typical) for the U.S to support such a move. The fight will, like the British dirty campaign against Yemen in the 1960s which Adam Curtis describes, not result in any progress or success for any of its participants.
پاکستانی میڈیا پر اس وقت جتنے بھی نیوز آئٹم ہیں اور جتنے بھی پروگرام اور شوز سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے یمن پر ہوائی حملوں کے حوالے سے ہوئے ، ان میں میں نے یمن کے تناظر اور یمن کے موقف کو کہیں سامنے آتے نہیں دیکھا ، کسی نے یہ نہیں بتایا کہ ھادی عبدربہ المنصور اور امریکیوں کا باہمی رشتہ کیا ہے ، کسی نے یمن میں سعودی عرب کی پراکسی وار بارے نہیں بتلایا ، قطر کی جانب سے یمنی اخوان پر بے تحاشا پیسہ خرچ کرنے بارے کوئی تبصرہ سننے کو نہیں ملا
سعودی عرب کی بطور ریاست قائم رہنے کے لئے جس سنی ازم کے جواز کو سامنے لایا جارہا ہے وہ بہت بھونڈا جوا ہے ، سعودی عرب ایک ایسی ریاست ہے جس میں سنیوں کے مذاھب اربعہ کسی سرکاری نصاب کا حصہ نہیں اور نہ ہی حجاز میں مالکی ، شافعی ، حنفی اور جمہور حنبلی مذھب کا کوئی مدرسہ موجود نہیں ہے ، وہاں اہلسنت غیر وھابی کو اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کا حق نہیں ہے ، وہاں پر زبردستی وھابی ازم نافذ ہے ، ایسی ریاست کو سنی اسلام کا مرکز کہنا خود اہلسنت کی توھین ہے
یہ پوری اسلامی دنیا کو شیعہ سنی کے چکر میں ڈال کر یمن پر حملہ کروا دیںگے
اور ادھر ان کی اپنی بادشاہت ختم ہو جائیگی .
آجکل کوئی کسی ملک پر قبضہ نہیں کرسکتا.
کوئی سعودی عرب یا مکہ پر قبضہ نہ کرنا چاہتا ہے نہ کوئی ہونے دیگا
بلکہ دنیا تو اسے آزاد کرنا چاہتی ہے بادشاہت سے. اور جمہوریت لانا چاہتی ہے
اٹلی میں بھی ایسا ہوچکا ہے.
اٹلی پوری عیسائی دنیا پر صرف ویزے کے احسان جتاتا تھا
اور ہر ایک سے مراعات لینے کے بعد نخرے الگ کرتا تھا
اب ویٹیکن سٹی ایک آزاد ریاست ہے روم کے اندر اور دنیا بھر کے عیسائی بغیر اٹلی کی چھڑی پکڑے اپنے پاپا کے گھر جا سکتے ہیں. وہ بھی الله کی مرضی سے ہوا تھا .
اور اب مکہ اور مدینہ بھی الله کے حکم سے بادشاہت سے آزاد ریاست بن جائینگے .
کسی ملک یعنی سعودیہ کا احسان نہیں لینا پڑیگا وہاں جانے اور حج کرنے کے لیے .
بس ایک بہت مناسب انتظام ہوگا . شروع میں لوگ سمجھ نہیں سکیںگے مگر بعد میں اندازہ ہوگا کہ کیا نعمت الله نے دیدی مسلمانوں کو .
بھر حال الله بہتر جانتا ہے کے اس کے گھر کی حفاظت کیسے ہونی ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم میرے ذھن میں یہ آتا ھے کہ فرض کریں مثال کے طور پر کسی
اک شخص کو اسی سال استطاعت نصیب ہوتی ھے اور کیوں کہ اس پر اس سر زمیں تک آنا مالکِ کل جہاں کا حکم ہے وہ حج کے لۓ جانا چاھتا ہے اور اللہ کے حکم کوبجا لانا اطاعت الۂیہے اور ہمیں کسی اور شرط کا پابند نہیں کیا گیا مگر صرف اور صرف یہ کہ ہم صاحبِ استطاعت ہوں اور حج واجب ہو چکا ہو ، نہ تو کسی ویکسیںں لگانے کی شرط لازم قرار دی گئ ہے کہ اگر فلاں ویکسیںن نہ لگی تو حج قبول نہ ہو گا اور نہ کسی بھی مسلمان کو کوئ واجب کی ادائیگی سے کوئ دوسرا مسلمان روک سکتا ہےجیسے کوئ کسی نمازی کو نماز سے اس لئے نہیں روک سکتا کہجونکہ یہ مسجد ہم نے بنائ ہے اس لئے پہلے اندر جانے کی ہم سے اجازت لو، ارے بھائ ! مسجد اللہ کا گھر ہے بندہ جانے اُسکا رب جانے ، بنانے والے کا کام صرف اللہ کے لیے گھر بنانا ہے بنانے والے اشخاص اپنے گھروں کے لیےتو اجازت دینے کے لیے آزاد ہیں لیکن اللہ جسے اپنے گھر آنے کی دعوت دے اُسکو اللہ کے گھر کے لیے اپنی اجازت کا پابند نہیں کیا جا سکتا نا؟ اب فرض کریں اُس شخص کا ویزہ اس بنیاد پر ریجیکٹ ہو جاتا ہے کہ اس سال اس ملک سے ہم یے صرف اتنی ہی تعداد میں ویزے اِیشو کرنے ہیں اور تم اس تعداد میں نہیں آتے اور وہ بیچارہ اگلے سال تک دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو اس کے اس واجب کا بوجھ کس پر ہو گا ؟ دوسرے یہ کہ حاجی صاحباں کاانتظام اور بندوبست وغیرہ حکومت کو مشکلات میں ڈال سکتا یے تو اس لیے معیں تعداد ھی نلائ جاتی ہے تو پہلے تو بلانے والے آپ نہیں جو بلا رھا ہے وہ مسبب الاسباب یے جس کے مہمان ہےوہ میزباں کشائش والا ہے اور جن جن کو آنے کا حکم لازم قرار دیا ہے وہ بھی جایتا ہے ورنہ وہ ایسا حکم ہی ںہ دیتا اللہ کسی پر اُسکی قوتِ برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا، بس زرا سوچیں کہ اگر اللہ کے بناے نظامِ اقتصاد سےاگر سب مسلمان صاحباںِ استطاعت ہو جاتے ہیں اور ارادۂ حج کرتے ہیں تو منظر کیا ہو گا اور لگتا ہے اصل خوف اسی چیز کا ہے کی اتنی بڑی تعداد میں حاجی اگر اُمنڈ آے تو مکہ پھیل کر جغرافیائ طور پر کہاں تک جا ے گا شاید سارا عریبیہ اس میں شامل ہو جاۓ