بس کر او یار- از عمار کاظمی
مینار آسمان تک لے جانے ہیں جیسے آخری منزل کی کھڑکی کھولتے ہی حور کے کمرے میں داخل ہو جائے گا۔ مگر کسی غریب کی ایک کمرے کی چھت نہیں ڈالنی کہ اس کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔ اگر ویسلہ بے معنی تھا تو خدا سے کہتے کہ ہر انسان پر الگ الگ وحی نازل کر دیتا نبی کی کیا ضرورت تھی؟ جب ہر بندے کے ساتھ دو فرشتے ہر وقت نیکیاں اور بدیاں لکھنے کے لیے موجود ہیں تو وہ وحی بھی پہنچا سکتے تھے۔ معاشرے میں خود کُش پیدا کر کے جنت تلاشتے ہیں مگر شرف آدمیت سے بھی واقف نہیں۔
ڈسکو گانوں کی طرزوں پر نعتیں اور داتا صاحب پر قوالیاں سنتے لاکھوں اُڑا دینے ہیں مگر کسی غریب کی مدد نہیں کرنی۔ یعنی داتا صاحب ان کا وسیلہ بنین مگر یہ کسی کا وسیلہ نہ بنیں۔
زوالجنا کی زیارت کو زیور پہنا دینا ہے مگر کسی غریب کی بیٹی کو زیور نہیں دینا۔ وسیلے پر یقین رکھنا ہے مگر آدمی کو آدمی کا وسیلہ نہیں بنانا۔ تم دینداروں سے تو وہ سیدھے سادے پنجابی بزرگ ہی بہتر تھے جو کہہ گئے کہ “بندہ ہی بندے کا دارو ہوتا ہے”۔ بس کر او یار میں سباں کولوں رجیآ۔