ہم بھیڑ بکریوں پر رحم کرو – عمار کاظمی
غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق پچاس ہزار روپے ماہوار تنخواہ کے عوض پاکستانی جہادی بمعہ اہل و عیال عراق اور شام جا رہے ہیں۔ جو نہیں جا رہے ان کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ فوجی آپریشن والے علاقوں سے نکل کر ملک کے مختلف حصوں میں ڈکیتیاں مار رہے ہیں۔ اس پر روز آئی ایس پی آر کے بیان کہ وزیرستان آپریشن میں ستر دہشت گرد مارے گئے – بھائی، ان کی تصویریں پیش کرو ورنہ صبح دوپہر شام ٹی وی پر دہشت گردوں کے مارے جانے کی خبروں پر کوئی یقین نہیں کرتا۔ دہشت گرد نہ ہوئے کوئی گنے کا کھیت ہوگیا جو ہمیشہ ایک ہی جگہ موجود رہتا ہے کہ آپ جب چاہیں جا کر گنے توڑ لیں
دوسری طرف لاہور اس وقت جنگل کا منظر پیش کر رہا ہے۔ لاہور میں رائیونڈ روڈ سے جاتی عمرہ والی سڑک پر جاتی عمرہ اور شریف ہسپتال سے کچھ پہلے سڑک کے دونوں طرف آرمی ویلفیر سوسائٹی ہے۔ بڑے بھاءی نے کوئی چھ سات ماہ پہلے ہی وہاں بینک لون سے اپنا گھر مکمل کیا ہے۔ سوساءٹی میں ابھی صرف سو کے قریب گھر بنے ہیں۔ تاہم سکیورٹی کے اعتبار سے اسے اچھا سمجھا جاتا تھا کہ راءیونڈ روڈ سے مڑتے ہی پولیس کا پہلا ناکہ ہے اور سوساءٹی کے مین گیٹ سے چند گز کے فاصلے پر ہی میاں صاحب کے محل سے پہلے دوسرا ناکہ موجود ہے۔ یہاں سے دو رویہ سڑک کا ایک حصہ جو میاں صاحب کے گھر کے سامنے سے گزرتا ہے اسے بیریر لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔ سوساءٹی کے انچارج ریٹاءرڈ کرنل نواز صاحب ہیں۔ سوساءٹی کے اندر کی سکیورٹی ریٹاءرڈ میجر اقبال صاحب کے سپرد ہے۔ ان کے نیچے 2 ریٹاءرڈ صوبیداروں سمیت 27 کے قریب سکیورٹی اہلکار ہیں۔ تاہم وزیر اعلی پنجاب کی منتخب کردہ بہترین پولیس، وفاقی و صوباءی حکومتوں کی ایجنسیوں اور فوج کے ریٹاءڑد کرنل اور میجر کی نگرانی میں تعینات سکیورٹی کے باوجود دو دن پہلے بھاءی کے گھر پر ڈیکیتی کی واردات ہو گءی۔ اہل علاقہ نے بتایا کہ سوساءٹی میں اس سے پہلے بھی ایک گھر میں ڈکیتی جبکہ ایک میں چوری ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ تین چار ٹرانسفارمر بھی چوری ہو چکے ہیں۔ بھاءی کے گھر پر ہونے والی ڈکیتی کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ صبح چار بجے پاچ لوگوں نے لوہے کا صدر دروازہ پھلانگنے کے بعد گھر کا اندرونی دروازہ توڑا اور اندر گھس آءے۔ پہلے بندے کو جب بھاءی نے دھکہ دیا تو پیچھے آنے والوں نے گن کے بلٹ کھینچ کر بندوقوں کا رُخ اس کی طرف کر دیا۔ بھاءی اور اہل خانہ سے نقدی، زیورات اور بچے کا لیپ ٹاپ چھننے کے بعد ڈاکو خاندان کو ایک کمرہ بند کر کے وہاں سے چلتے بنے۔ جاتے ہوءے وہ ایک موباءل فون توڑ گءے اور خبردار کیا کہ اگر پولیس کو اطلاع دی یا کسی کو بتایا تو واپس آ کر گولی مار دیں گے۔ خوف کے مارے، اپنے ہی گھر کے کمرے میں قید اہل خانہ نے ڈاکوءوں کی نظر سے بچ جانے والے موباءل فون سے صبح سات بجے کے قریب 15، عزیز، رشتہ داروں اور دوستوں کو اطلاع دی اور کہا کہ آ کر کمرے کا لاک توڑ کر اُنھیں باہر نکالیں۔ سوساءٹی کے سکیورٹی والے اطلاع ملنے پر تربیت یافتہ کُتے لے آءے۔ کُتے سونگھتے سونگھتے سوساءٹی سے باہر پاس والے گاءوں کے دو گھروں کے سامنے جا کر بیٹھ گءے
تاہم جب پولیس آءی تو وہ کتوں کی بجاءے بارہ سال کے بھتیجے سے اپنے ریکارڈ کے مطابق مشکوک لوگوں کی شناخت کروانے لگی۔ بھتیجہ جو انتہاءی کم عمر ہے اس نے ایک بندے کو دیکھ کر کہہ دیا کہ انکل ان میں سے ایک شخص اس طرح کا دکھتا تھا۔ لہذا پولیس نے اسے دھر لیا۔ لیکن پولیس نے یہ نہیں سوچا کہ ایسا کرنے سے وہ اس کی جان کو بھی وہ خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ جن گھروں کے سامنے کُتے جا کر بیٹھے وہاں انھوں نے نہ کوءی ریڈ نہیں کی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ وہاں دو نامی گرامی مجرم رہتے ہیں۔ وہ ابھی اس علاقے میں نظر نہیں آءیں گے لہذا ابھی وہاں ریڈ کا کوءی فاءدہ نہیں۔ تاہم انھوں نے ان دو نامی گرامی مجرمان کو ایف آءی آر میں نامزد کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔
دوسری طرف سوساءٹی کے میجر صاحب اپنے کرنل صاحب سے نالاں دکھاءی دیے کہ کرنل نواز نے انور خان نامی شخص کے چھ سات غیر رجسٹرڈ پٹھان سکیورٹی کے لیے بھرتی کر رکھے ہیں جو نا اہل ہیں، نفری بھی کم ہے، شروع میں پلاٹ بیچنے کی خاطر جو واکی ٹاکی اور دیگر سکیورٹی آلات دیے تھے وہ ایک عرصہ سے خراب پڑے ہیں۔ بار بار کہنے کے باوجود نہ نفری بڑھاءی جا تی ہے اور نہ آلات کی مرمت کرواءی جا تی ہے۔ یعنی یہ سب داستان سنا کر وہ بھی متاثرہ فریق بن گءے۔ لیکن جن کی ساری عمر کی جمع پونجی ان دو نمبریوں کی وجہ سے لُٹ گءی ان کا کیا؟ والد، بھاءی، بہنوءی اور فیملی کے بیشتر لوگ آرمی سے منسلک ہونے کے باوجود افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ زندگی میں کبھی کوءی گزارے لاءق عقل والا فوجی افسر بھی نہیں دیکھا۔ میجر صاحب نے واردات کے ایک دن بعد گھر کے دروازے پر سکیورٹی گارڈ بٹھا دیا ہے۔ بغیر کسی چھت کے رات سردی سے کانپتے گارڈ نے بتایا کہ اس کے پاس صرف تین چار نمبر کے پرندے مارنے والے کارتوس ہیں جن میں سے ایک رات نو بجے اور دوسرا رات ایک بجے ڈکیتوں کو ڈرانے کے لیے چلا دیتا ہے۔ اس پر صوبیدار صاحب انتہاءی ناگواری کا اظہار کرتے ہیں کہ بے وجہ کارتوس کیوں ضاءع کرتے ہو۔ وہ یہ کارتوس ضاءع نہ بھی کرے تو پرندے مارنے والے تین کارتوسوں سے اکیلا گارڈ ڈاکءوں کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے؟
خیر یہ تو تھا جاتی عمرہ کی بغل میں پیش آنے والا ڈکیتی کا واقعہ جو میرے حقیقی بھائی کے ساتھ پیش آیا۔ اس کے علاوہ میری ماموں زاد بہن کی بیٹی میری بھانجی گزشتہ ماہ اپنی گاڑی لاہور ڈیفینس کے ایک بینک کے سامنے کھڑی کر کے اے ٹی ایم تک گءیں کہ گاڑی چوری ہوگءی جو ابھی تک لاپتہ ہے۔ ماموں زاد بہن لاہور ڈیفینس میں سگنل پر رکیں تو موٹر ساءیکل سواروں نے اسلحہ کے زور پر زیور اور نقدی چھین لی۔ ایک اور ماموں زاد بہن اچھرہ میں اپنی والدہ یعنی میری ممانی کے لیے کچھ سامان خریدنے گءیں تو بھرے بازار میں دن دیہاڑے ان سے ڈاکوءوں نے دو لاکھ روپے چھین لیے۔ ایک ہفتہ پہلے میری خالہ زاد بہن کی فوتگی کے موقعہ پر میری دو ماموں زاد بہنیں تعزیت کر کے جب اندرونی دروازے سے باہر گیراج میں پہنچیں تو ایک لڑکا پستول لیے کھڑا نظر آیا۔ فوتگی کی وجہ سے مین گیٹ کھلا تھا۔ بہنوں نے اسے پوچھا کہ گھر میں بچے ہیں وہ اس طرح پستول ہاتھ میں لیے کیا کر رہا ہے؟ تو جواب ملا سونے کی بالیاں، چین اور پرس حوالے کر دو۔ گھر کی دوسری منظل پڑے کھڑے میرے خالہ زاد بھاءی نے آواز سن کر لڑکے کو للکارا کون ہو تم؟ اس پر لڑکے نے پستول کا رُخ اس کی طرف کر دیا۔ جتنی دیر مین وہ نیچے پہنچا لڑکا گیٹ کے باہر کھڑے موٹر ساءیکل والے ساتھی کے ساتھ بیٹھ کر فرار ہو گیا۔ یہ واقعہ ریونیو سوساءٹی جوہر ٹاءون کا ہے۔ یہ ایک کنال کا تین منزلہ گھر ہے اور اس کے گیراج والے پورشن میں پنجاب پولیس کے ایس پی صاحب رہاءش پزیر ہیں۔ گزشتہ برس میری بیگم کریانہ سے گھر کا کچھ سامان لینے اتریں۔ گاڑی سامنے چند قدم پر کھڑی تھی۔ دو موٹر ساءیکل سوار تیزی سے آءے اور گاڑی سے پرس نکال کر لے گءے۔ ان کے پرس کے ساتھ دس ہزار روپے، سونے کے جھمکے اور میرا شناختی کارڈ اور کریڈٹ بھی چلے گءے۔ تاہم چند ماہ بعد جب میں اپنا نیا کارڈ بنوا چکا تو مجھے بذریعہ پوسٹ پرانا کارڈ بھی موصول ہوگیا۔ ایف آءی آر درج کروانے پر پتا چلا کہ وزیر اعلی پنجاب کی خصوصی ہدایات پر کارکردگی بہتر بنانے کے لیے آپ کی 15 کی کال وزیر اعلی ہاءس کے ساتھ تین جگہ ریکارڈ کی جاتی ہے۔ چند دن تک وزیر اعلی کے خصوصی سیل کی جانب سے فون آتے رہے پھر چوری ڈکتی کی فاءل کی طرح فون بھی بند ہوگءے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وزیر اعلی پنجاب نے 15 کی ریکارڈنگ کا سلسلہ صرف حساب لینے کے لیے رکھا ہوا ہے۔ میاں صاحب کبھی اپنے اس خصوصی سیل کا غیر جانبدارانہ آڈٹ تو کروا کر دیکھو کہ ان وارداتوں میں کتنے فیصد مجرمان پکڑے گءے؟ ان تمام حالات میں سرکاری اور نجی میڈیا کا رُخ کراچی اور پُشت لاہور کی طرف ہے۔ ساری کوریج کراچی اور وزیرستان آپریشن کو دی جا رہی ہے۔ مگر لاہور میں جو اندھی پڑی ہوءی ہے اس پر زرد اینکرز کی کوءی توجہ نہیں ہے۔
بہر حال یہ چند واقعات میرے گھر کے ہیں باقی ایک کروڑ سے اوپر آبادی کے شہر کے حالات کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ ان تمام واقعات کے پیچھے قبائلی علاقوں سے بھاگے تکفیری جہادی ہیں یا ملک میں جہادیوں کے ساتھ چوروں ڈکیتوں کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے اس کا سراغ لگانا ایجنسیوں کا اور تحفظ فراہم کرنا قانون نافظ کرنے والے اداروں کا کام ہے۔ اور محسوس یہی ہوتا ہے کہ دونوں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ ان حالات میں اسلحہ لائسنس کے اجراء پر پابندی کا مطلب عوام کو سیلف ڈیفنس سے بھی محروم کرنا ہے۔ نادرا کی سکروٹنی سے حکومت پیسہ تو کافی اکٹھا کر لے گی مگر اس کے لیے نءے اسلحہ لائسنس پر پابندی کی کوءی ضرورت نہیں تھی۔ ویسے بھی آج تک دہشت گردی، چوری ڈکیتی کے کتنے واقعات میں لاءسنس والا اسلحہ استعمال ہوا ہے جو اس کے اجرا پر پابندی لگائی گئی ہے؟ اس جنگل نما معاشرے میں ہر شہری کے پاس اسلحہ ہونا چاہیے اور حکومت کو اسلحہ لاءسنس پر پابندی لگانے کی بجاءے اسکے حصول کو آسان بنانا چاہیے۔ اسلحہ لاءسنس کے نادرا اور بینکوں کے ذریعے اجرا سے اسلحہ برانچ کی دو نمبری اور بد عنوانی بھی خود بخود ختم ہو جاءے گی۔ باقی میاں صاحبان اور ریاستی اداروں سے تو فقط اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ہم بھیڑ بکریوں پر کچھ رحم کریں۔
عمار کاظمی
پچھلے پانچ سالوں میں ہم کئی چوریاں کروا چکے ہیں ان پانچ سالوں میں میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان لوگوں کی پشت پناہی وڈیرے سیاست دان پولیس وکیل اور جج صاحبان خود کرتے ہیں آپ سوچیں اگر یہ سب ان سماج دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کریں تو ان کا کاروبار بند ہو جائے
انہوں نے تو ہر چوک پر اپنے دلال بٹھائے ہوئے ہیں.