کمٹمنٹ – از عامر حسینی
وہ بیس سال بعد اس شہر میں آیا تھا اور میرے پاس فیصل کا فون آیا کہنے لگا یار کل تم جو ادبی نشست رکھنے جارہے ہو ، اس کا مہمان احمد کو بنالو ، وہ بہت سالوں بعد آیا ہے میں نے کہا ، ٹھیک ہے ایسا ہی کرلیتے ہیں میں نے ناجد کو کہا کہ پروگرام بدل گیا ہے ، اب کل کی نشست کا مہمان احمد ہوگا ، تم اسی کے مطابق پروگرام ترتیب دے لو ،ناجد نے کہا کہ ایسا ہی ہوگا احمد کا میں نے نام تو سن رکھا تھا ،لیکن کبھی اسے ملا نہیں تھا کتنی عجیب بات تھی کہ وہ دو عشروں تک لاہور رہا اور میں نے بھی ایک عشرہ لاہور گزارا لیکن کبھی ملاقات نہیں ہوسکی ،ہاں کئی بار وہاں دوست اس کا تذکرہ کرتے ، میں سنتا اور چپ کرجاتا اور آج وہ خود چل کر اس شہر میں آگیا تھا تقریب ہوگئی ،اس نے اپنے شعر بھی سنا ڈالے ، تقریب سے فارغ ہوکرمیں نے اس کو کھانے کی پیشکش کی تو کہنے لگا کہ چلیں باؤ محمد علی کے زمیندارہ ہوٹل چلتے ہیں ،
وہاں کے چنے کھائیں گے اور پرانی یاد تازہ کریں گے اور ساتھ ہی رحمان سويٹس پو جاکر دیسی گھی میں بنی گلاب جامن کھائیں گے اور ساتھ رحمان صاحب کی باتوں سے بھی لطف اٹھائیں گے ، احسان کی چائے پئیں گے اور چھانو کے ہوٹل پر سیاسی کارکنوں کی بحث بھی سنیں گے وہ ایک ہی سانس میں یہ سب باتیں کرگیا میں زرا شاک میں آیا اور تھوڑی دیر تک کچھ نہ کہہ سکا کیا واقعی اس نے ان بیس سالوں میں اس شہر کی کوئی خبر نہ رکھی تھی خاموش کیوں ہوگئے ؟ کیا باؤ جی سے کوئی ناراضگی ہے ؟
احمد بولا نہیں باؤ جی سے کوئی ناراض ہوسکتا تھا ؟ وہ تو ایسے آدمی ہی نہیں تھے میں نے فوری طور پر کہا “تھے” کیا مطلب باؤ محمد علی تو کب کے ” تھے ” ہوگئے اور ان کے ساتھ “زمیندار ہوٹل ” اور اس کے “چنے ” بھی تھے ہوگئے ، میں نے کہا اوہ ۔احمد نے کہا اور وہ رحمان سویٹس ، احسان اور چھانو کے چائے کے ہوٹل ، وہاں جمتی سیاسی محفلیں جب رحمان ، احسان اور چھانو ہی نہ رہے تو ان کے ٹھکانے کیسے رہتے ، اور تم تو جانتے ہی ہو کہ ضیاءالحق کے بچوں نے جوان ہوکر سیاست ہی نہ رہنے دی تو سیاسی کارکن کہاں سے باقی رہتے ،
اب کسے سیاسی کارکنوں کی ضرورت ہے ، ہاں کہتے ہو تو شہر خموشاں چلتے ہیں وہاں یہ سب ہوں گے ، ان سے مل لیں گے میں نے احمد ، فیصل کو ساتھ لیا اور ایک ہوٹل میں جاکر کھانا کھایا کھانا کھانے کے بعد ہم جب ہوٹل سے نکلے تو اچانک دھند پڑنے لگی آپ کہاں بیٹھتے ہیں ؟ احمد بولا ایک کیفے ہے جسے لطیف ٹی سٹال کہتے ہیں ، حالانکہ اچھی خاصی دکان ہے مڈووالے چوک میں وہاں بیٹھتا ہوں ، پرسکون ہے ، شور زرا بھی نہیں ، میں نے کہا چلو وہیں چلتے اور زرا بیچ شہر سے چلو میں شہر کی گلیوں اور سڑکوں کو دیکھنا چاہتا ہوں احمد بولا مجھے پتہ لگ رہا تھا کہ بیس سال کے بعد اس کی واپسی بے سبب نہیں ہے ،
وہ کسی چیز کو تلاش کرنے واپس آیا ہے اور اسے لگتا ہے کہ یہیں کہیں اب بھی بیس سال بعد اسے اچانک وہ مل جائے گی میں فیصل اور وہ آہستہ آہستہ ، چھوٹے ،چھوٹے قدموں کے ساتھ ایوب روڈ سے ہوتے ہوئے ، گوردوارہ روڈ سے جب چوک سنگلہ والے پہنچے تو بے اختیار ہماری نظریں اس جانب اٹھیں جہاں کبھی زمیندارہ ہوٹل ہوتا تھا مگر وہاں اب کچھ بھی ویسا نہیں تھا ، جنت روڈ سنسان پڑا تھا ،چھانو کا ہوٹل جو نہیں رہا تھا اور رحمان سویٹس والی دکانیں بھی بند پڑی تھیں اور گلی بھی سنسان تھی ، یار وہ شیخ پیرو ، عالم شیرازی ، عطا عاصی کوئی بھی تو نہیں نظر آرہا ہاں شیخ پیرو تو وہیں گئے جہاں باؤ جی اور رحمان و چھانو گئے ، جبکہ عطا عاصی ک اس شہر میں ہونا نہ ہونا برابر ہے ، شیر عالم شیرازی لاہور ہجرت کرگئے اور پھر نہیں پلٹے ہم چلتے چلتے جب گپّی والے چوک پہنچے تو وہآن چوک تو کشادہ ہوگیا تھ
ا لیکن نہ بوہڑ کا درخت تھا اور نہ اس کے نیچے گپی کا پھٹا اور نہ اس کے اردگرد بچھی کرسیوں پر بیٹھے شعیب الرحمان ، اکرام القادری ، قدیر طاہر ، شمس القمر تھے یار ! یہ چوک کی کشادگی مجھے نجانے کیوں اچھی نہیں لگ رہی احمد دھیرے سے بولا ہم یہ سنکر چپ رہے ، کیونکہ کہنے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں چلتے ، چلتے ہم لطیف ٹی سٹال پہنچ ہی گئے
اور وہاں بیٹھے میں نے بیٹھتے ہی سگریٹ سلگانی چاہی تو دیکھا احمد فرید کھانس رہا تھا لگتا ہے آپ کو سگریٹ سے پرابلم ہوگی ، میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ارے نہیں ، میں تو خود چین سموکر ہوں ، آج بس طبیعت نہیں کررہی کجھ دیر کے لیے ہم سب خاموش ہوگئے ہاں تو شہر کیوں چھوڑا تھا ، اجآنک میں نے اس سے سوال کیا کمٹمنٹ کے لیے ، اس کے منہ سے بے اختیار نکلا کمٹمنٹ ۔ ہاں یار ، میں ” کالا بابا ” تانگے والے کا بیٹا ” کمٹمنٹ ” کے لیے یہ شہر چھوڑ گیا تھا کالونی میں جہاں ہم رہتے تھے ساتھ ہی شفقت بھائی کا گھر تھا جو اس وقت نیشنل سٹودنٹس فیڈریشن پنجاب کے صدر تھے ، ان کے گھر ہمارا بہت آنا جانا تھا بلکہ ان کی اماں ہم سب کی اماں بھی تھی ،
ان کی بیٹھک میں ایک سالخوردہ الماری کتابوں سے بھری تھی ، میں پانچویں کاس میں تھا جب میں نے ساحر ، منٹو ، فیض ، علی سردار جعفری ، امرتا پریتم ، عصمت چغتائی ، سبط حسن ، بنّے میآں سب کے کام کو چکھ چکا تھا ، اور تک بندی تک کرنے لگا تھا ارے اس وقت تو میں عمروعیار ، ٹارزن کی کہانیاں پڑھ رہا تھا اور ان گنت دیو تھے جن سے ہر وقت ڈرتا رہتا تھا ، چڑیلیں ، بھوت پریت تھے جن کے خوف سے دل کی دھڑکن تیز ہوجایا کرتی تھی اور پریوں کے دیس کوہ قاف کے خواب دیکھا کرتا تھا ، میں نے کہا نہیں ایسا بچپن تو مرے قریب بھی نہیں پھٹکا ۔
احمد نے کہا اوہ تو آپ ” انوکھے لاڈلے تھے ۔” زرا بڑا ہوا تو شفقت بھائی کے گھر میں نے معراج محمد خان ، فتح یاب علی خان ، افراسیاب خٹک جیسے کمیونسٹوں اور ترقی پسندوں کو آتے جاتے دیکھا افراسیاب۔ہا ہاہا ۔میں نے قہقہہ لگایا ہنسے کیوں۔ احمد نے پوچھا افراسیاب کو کمیونسٹ اور ترقی پسند کہنے پر ہنسی آئی ہاں نا ،ایسے تو کئی لوگوں کو سابقین کہنا پڑے گا ، احمد بولا سابق نہيں بلکہ مرحوم کیمونسٹ ، ترقی پسند کہو ، مغفور مت کہنا اس کا مجھے یقین نہیں ہے ،میں نے کہا شفقت بھائی ہمارے گرو تھے ، اسٹڈی سرکل لیتے تھے اور ایسے ہی ایک تربیتی سیشن میں انھوں نے مجھے کہا احمد ! اس دنیا میں اگر کوئی شئے سب سے قابل قدر اور مقصود ہے تو وہ کمٹمنٹ ہے ، اپنے ںظریات کے ساتھ میں نے ان کی بات کو پلّے باندھ لیا شفقت بھائی مرے آئیڈیل تھے ، وہ بھی ایک غریب گھر سے تعلق رکھتے تھے ،
صحافت کا شوق تھا تو اسے بطور پیشہ بھی اختیار کرلیا اور “روزنامہ امروز ملتان ” میں ملازم ہوگئے ، دن رات طالب علموں کو کمٹمنٹ کا درس دیتے تھے اور اکثر فیض کی نظم ” بول کہ لب آزاد ہیں تیرے ” گنگناتے رہتے اور میں نے بھی لب آزاد کر ليے ، اپنی زبان کو اپنا سمجھ لیا ، قفل کھولے ، زنجیر کا دامن پھیلا لیا اور کمٹمنٹ سے بندھ گیا ایک دن شفقت بھائی نے کہا کہ انقلاب کی جدوجہد کا مثالی مرکز ” صنعتی شہر ” ہوا کرتا ہے اور وہاں کمٹیڈ دانشوروں کی ضرورت ہمہ وقت رہتی ہے تو میں نے بھی انقلاب کے مرکز میں جانے کا فیصلہ کرلیا اور لاہور چلا آیا اس کے بعد اپنی کمٹمنٹ سے جڑا میں چھوٹے ،بڑے اداروں میں قلم کی مزدوریاں کرتا رہا اور سماج بدلنے کے خواب دیکھتا رہا یہ وہ زمانہ تھا جب سوویت یونیں روبہ زوال تھا ، سماجی تبدیلی کا خواب انقلاب کے راستے دیکھنے والے مغرب سے آنے والی این جی اوز آندھیوں اور جھکڑ میں گم ہوتے جاتے تھے ،
کوئی انسانی حقوق کا علمبردار ، تو کوئی بانڈڈ لیبر کا محافظ تو کوئی روشن خیالی کا پروجیکٹ چلارہا تھا اور تبدیلی کے دھارے کی کایا کلپ سول سوسائٹی کے نام سے ہوگئی تھی اور مرے بہت سے سنگی ساتھی این جی اوز کو پیارے ہوگئے تھے این ایس ایف ، قومی محاز آزادی ، کمیونسٹ پارٹی ، کسان کمیٹی ، ٹریڈ یونین سب قصہ رفتہ ہوئیں اور ان کی جگہ ایچ آر سی پی ، سیپ ، عورت فاؤنڈیشن ، شرکت گاہ نے لے لی اور اب سب پروجیکٹ تھا ، میں کمٹمنٹ کے ساتھ چمٹا ہوا تھا پھر ایک دن مجھے شفقت بھائی کا خط ملا ، خط پر ان کا پتہ فیض آباد اسلام آباد کی ایک سٹریٹ کے مکان کا لکھا تھا یہاں تک بیان کرکے احمد نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک کاغذ نکالا جو خاصا پرانا ہوچکا تھا اور اسے ضایع ہونے سے بچانے کے لیے اس کی لیمینشن کرالی گئی تھی احمد نے وہ کاغذ مری جانب بڑھا دیا
میں نے وہ کاغذ جو تہہ کیا ہوا تھا کھولا تو وہ ایک خط تھا جو احمد کے نام تھا پیارے احمد سلام ! امید ہے خیریت سے ہوں گے ، کل مجھے چھوٹا بھائی مہتاب ملا ، اس سے میں نے تمہارے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ تم ” جنگ ” ميں سب ایڈیٹر کی نوکری کرتے ہو اور ابتک کوئی ٹھکانہ لاہور میں نہیں بناسکے ، جنگ کے دفتر میں نيچے پریس کے گودام ميں نیوز پرنٹ کے بنڈلوں پر سوتے ہو ، اور اس نے بتایا کہ ابتک تم ” سماج بدلنے ” کا خواب دیکھتے ہو اور بار بار ” کمٹمنٹ ” کا حوالہ دیتے ہو مجھے یہ سب سنکر بہت تعجب ہوا کہ اتنے برس لاہور شہر میں گزارنے کے باوجود اور اس شہر کے کاسمو پولٹن کلچر سے آشنائی کے باوجود بھی تم نے اپنے ماہ و سال بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور تم اب تک ” شراب احمر قدیم ” کی محبت میں گرفتار ہو میں تمہیں کہتا ہوں کہ اس سراب سے باہر نکلو ، حقیقت پسندی سے کام لو ، اور ایک بات دھیان سے سن لو ” دنیا میں ” کمٹمنٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہے ، اس سے ” چو۔یا اور کوئی چیز نہیں ہے ،
یہاں مرے پاس چلے آؤ ، مرے پاس تمہارے لیے اپنی این جی او میں شاندار پروجکیٹ موجود ہے ، بہت جلد تمہارے پاس سب کچھ ہوگآ ، مہتاب کو دیکھا ہے نا تم نے کیسی زندگی گزار رہا ہے اور یہاں آغاز میں بھی تمہیں رہائش ، گاڑی کی فکر نہیں ہوگی ، مری کوٹھی میں رہنا احمد ! وہ سب بکواس تھی جو اس کالونی کے اس ادھ کچے پکّے گھر میں اس بیٹھک میں ، میں تم سے کیا کرتا تھا ، زرا اپنے بھائی کو دیکھو کم از کم اس نے مکان پکا کرلیا ہے ، اور سارا گھر چلا رہا ہے ، تم دیکھو نا اس کمٹمنٹ کی گردان نے تمہیں کیا دیا اس لیے یہ خط ملتے ہی بوریا بستر باندھو اور مرے پاس اسلام آباد چلے آؤ فقط والسلام تمہارا بھائی شفقت۔
Source:
http://aamirfiction.blogspot.com/2015/01/blog-post_25.html
Salek Ustad
عامر جی ، معامله کچھ زیادہ پیچیدہ ہے ، ملتان کے بابا ٹی ہاؤس جہاں اب آئس کریم بکتی ہے کے اوپر ایک دفتر ہوتا تھا جہاں غیاث الدین جو اپنا گھر بار چھوڑ کر ملتان آیا تھا نوجوانوں کو انلقلاب کا درس دیا کرتا تھا . اس کا تعلق کراچی کے عزیز الدین کی پارٹی سے تھا . خانیوال کے شفقت کا سلسلہ کہیں نہ کہیں اس دفتر کے ساتھ جا کر ملتا ہے . غیاث کا ملتان میں سرپرست محمود نواز بابر تھک کر اپنے طبقے میں چلا گیا ، غیاث الدین کہاں گیا بھوک سے مرا یا بیماری سے کوئی نہیں جانتا ، عزیز الدین کی کیا قربانیاں تھیں پاکستان میں اب کون جانتا ہے ؟. لیکن اسی دفتر سے تعلق رکھنے والے کمالیہ کے غریب جولاہوں کے بیٹے حبیب اللہ شاکر نے دوسرا راستہ چنا . جس کرایے کے گھر میں وہ رہتا تھا اس پر انقلابیوں کی مدد سے قبضہ کرنے کے بعد وہ ترقی کے زینے چڑھتا چلا گیا . ایک وقت آیا جب اس کی بیٹی کی شادی ہوئی تو سٹیج پر یوسف رضا گیلانی اور لیاقت بلوچ بیٹھے تہے . خانیوال کے شفقت کا المیہ یہ ہے کہ اس کی نظرئیے کے ساتھ وابستگی اس وقت شروع ہوی جب بابا ٹی ہاؤس اجڑ رہا تھا ، غیاث الدین جیسے لوگ غائب ہو رہے تہے اور حبیب اللہ شاکر جیسے لوگ ترقی کی طرف گامزن تہے . خانیوال کے شفقت نے وہی کیا جو دیکھا ، اچھی بات یہ ہے کہ اس نے آپ کی کہانی کے ہیرو کو نوکری کی پیشکش تو کردی .
Aamir Hussaini
کہانی میں فنتاسی ہے اور حقیقی شفقت کہانی کے کردار سے کہیں زیادہ زاتی کردار کے اعتبار سے بہتر آدمی ہے ، وہ اپنے دوستوں کی ڈوبتی معاشی ناو کو بچاتا ہے اور ان کے بے دھڑک کام آتا ہے اور بہت دیالو آدمی ہے ، حبیب اللہ شاکر Habib Ullah Shakir کی بیٹی کی شادی میں حبیب اللہ کسی بھی دوست کو بھولے نہیں خانیوال ، ملتان ، ساھیوال ، لاہور ، کراچی سمیت جہاں جہاں اسے دوستوں کا پتہ تھا سب کو دعوت نامی دیا گیا تھا ، حبیب اللہ زاتی زندگی میں لوگوں کے کام آنے والے آدمی ہیں اور یہی کردار اقبال حیدر کا بھی تھا ، سید علمدار کا بھی ہے ، امیر حید کاظمی کا بھی تھا ، درجنوں نام یاد آرہے ہیں جنھوں نے خوشحالی کا منہ دیکھا تو کئی ایک دوستوں کو oblige بھی کیا لیکن میں نے کمٹمنٹ کی جو بات زھن میں رکھکر یہ افسانہ لکھا وہ ان سب کے ہاں سے غائب ہوگئی ، انقلاب ، سماجی تبدیلی کے لئے سرخ راستہ کی بجائے یہ سب لے سب سرمایہ داری پر ایمان لائے بلکہ انہوں نے پاکستان کی گھٹیا سیاست اور نام نہاد سول سوسائٹی کا نمایاں چہرہ بننا بھی قبول کیا ، یہ ایک نظریاتی بلنڈر اور غداری تھی جو ان سب نے کی اور اسی وجہ سے پاکستان کے اندر لیفٹ سیاست کا چہرہ گدلا اور دھندلا ہوگیا اور اسے سرمایہ داری کی حامی لبرل ازم اور پرو امریکن ازم اور این جی او نائزیشن سے الگ کرکے دیکھنا مشکل ہوگیا ، محمود نواز بابر سے لیکر قمر زمان بٹ تک اور اس سے آگے حبیب اللہ شاکر تک سب کے سب اور لایور کے پروفیسر گروپ تک سب کے ہاں یو ٹرن ہی یو ٹرن ہیں اور کمٹمنٹ سے فرار …… زاتی طور پر یہ لوگ اپنے ساتھیوں کے کہیں نہ کہیں کام آتے رہتے ہیں