سلیم صافی، دیوبندی مدارس اور جھوٹی غیر جانبداری ۔۔ از نور درویش
اوریا مقبول اور جاوید چوہدری کے بعد تکفیری دیوبندیوں کے مشہور وکیل سلیم صافی، جو کہ خود بھی کبھی ایک مجاھد رہ چکے ھیں، نے مدارس کی مانیٹرنگ کے بارے میں اپنی رائے دینے کا فیصلہ کیا ھے۔ ویسے تو کافی بچ بچا کے ایک متوازن رائے دینے کی کوشش کی ھے لیکن کامیاب نہیں ھو سکے ۔
کالم کے آغاز میں وہ فرماتے ھیں
موجودہ حکومت اگر مدارس کے نظام میں واقعی بہتری لانا چاہتی ہے تو اس کا پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ وہ تمام مدارس کے نصاب میں بنیادی تبدیلی لاکر اس میں قرآن کو وہ اہمیت دلا دے جو دین میں اسے حاصل ہے ۔ اگر ایسا کیا گیا تو دینی مدارس سے انتہاپسندوں اور فرقہ پرستوں کے بجائے دین کے عالم پیدا ہوں گے لیکن جب تک ایسا نہیں کیا جاتا تب تک خواہ دینی مدارس کے ہر طالبعلم کو انگریزی اور سائنسی علوم، تمام کے تمام ازبر بھی کئے جائیں توبھی یہاں سے نکل کر وہ اپنے آپ کو مسلمان کی بجائے بریلوی ، دیوبندی،اوراہل حدیث کہلوانا پسند کریں گے ۔
جس پہلے قدم کا ذکر سلیم صافی صاحب نے کیا ھےاس کی مزید تشریح کی اشد ضرورت ھے کیونکہ اس سے واضح ھی نہیں ھو رھا کہ قران کو مدارس میں بنیادی اھمیت دلانے سے ان کی کیا مراد ھے؟ گویا وہ اقرار کر رھے ھیں کہ مدارس میں قران کو اھمیت حاصل نہیں ھے۔ یا اگر ان کا مطلب وھی پرانی کتابی باتیں کرنا ھے کہ ھم سب کا قران ایک ھے، ھم سب ایک کتاب ایک نبی ﷺ کے ماننے والے ھی، اور ھم سب کو قران پر اکٹھا ھونا ھوگا وغیرہ وغیرہ تو جان لیجے کہ جن مسلکی اور نظریاتی اختلافات کے ساتھ ھم ۱۴۰۰ سالوں سے رہ رھے ھیں، ان کو ختم کرنا کسی حکومت کے بس کی بات نہیں ھے۔ اور ویسے بھی ھر مسلک قران سے متمسک ھونے اور اس سے رھنمائی لینے کا دعویدار ھے۔ حتی کہ تکفیری گروہ بھی خود کش بمبار تیار کرنے کیلئے قرانی آیات اور واقعات کی غلط تشریح کر کے، انہیں سیاق و سباق سے ھٹ کر استعمال کرتے ھیں۔ لہذا یہ قران یا کتاب کافی ھے ٹائپ کی اصتلاح ان کا مفہوم کچھ واضح نہیں کر پارھی۔ ویسے اپنے مشورے پر سب سے پہلے خود عمل کرتے ھوئے کیوں نہ سلیم صافی خود کسی مدرسے کے مہتم سے رجوع کریں اور ان سے کہیں کہ قبلہ کیا آپ اپنے مدرسے میں قران کو وہ اھمیت دے سکتے ھیں جو دین میں اسے حاصل ھے؟ اور جو جواب انہیں ملے وہ ھم سے بھی شئیر کر لیں۔ مولوی سمیع الحق جو طالبان کے روحانی باپ ھیں، آپ یہ سوال ان سے بھی پوچھ سکتے ھیں ان کے مدرسہ حقانیہ کے بارے میں۔
ھم البتہ صافی صاحب کو یقین سے بتا سکتے ھیں کہ دنیا بھر کی طرح جب ھمارے ملک میں تمام مکتب فکر کے مدارس اپنی فقہ، اصول، فکر اور نکتہ نظر کی بنیاد پر قائم ھیں تو آپ کی اس بات کا کوئی مطلب سمجھ نہیں آتا کہ مدارس میں جدید علوم پڑھنے کے باوجود اگر قران کو بنیادی اھمیت نہ دی گئی تو وھاں سے صرف دیوبندی بریلوی اور احلحدیث ھی نکلیں گے۔ جب ایک مدرسہ ھے ھی مکتب فکر دیوبند یا اھلحدیث کا تو وھاں صرف اسی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے طالب علم جایئں گے۔ جس بات پر اصل میں کام کرنے کی ضرورت ھے وہ صافی صاحب کرنا ھی نہیں چاہتے۔ مسلمانوں کے تمام مسالک ایک حقیقت ھیں، چاھے وہ کوئی بھی ملک ھو۔ سب میں علمی اور نظریاتی اختلافات بھی ھیں بلکہ بہت شدید قسم کے اختلافات ھیں۔ البتہ شددت پسندی کی ترویج کرنا مخصوص مکتب فکر کے مدارس کا شیوہ رھا ھے اور یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ھے۔ لہذا بجائے اس کے کے بات کو گھما پھرا کا عجیب و غریب اور نا قابل عمل و فہم منطق پیش کرنے سے بہتر ھے کے ان تمام مدارس کی مانیٹرنگ کی جائے جن میں شدت پسندی اور فرقہ واریت پر مبنی تعلیمات دی جاتی ھیں۔ دوسرے مسلمانوں کی تکفیر کے رجحان کو روکا جائے اور اختلافات کے باوجود مل جل کر رھنے اور برداشت کی تعلیمات کو عام کیا جائے، یہ ھے قران کا اصل پیغاپ جس پر کسی مسلک کو اعتراض نہیں ھونا چاہئے۔
جب نیت اور دل صاف ھو تو غیر ضروری توجیحات میں پڑنے کی ضروت نہیں پڑتی۔ بالکل اسی طرح جیسے بریلوی مکتب فکر کے جید عالم اور لاھور کی معروف دینی درسگاہ جامعہ نعیمیہ کے مہتم نے بریلوی مکتب فکر سے منسلک تمام مدارس کی بلا روک ٹوک مانیٹرنگ اور چیکنگ کے حوالے سے کی، یہ ھی بات ڈاکٹر طاھر القادری کے نمائندے رحیق عبای سے کی اور ایسی ھی پیش کش اھل تشیع کی جانب سے بھی کی گئی۔ البتہ دیوبندی اور سلفی جماعتیں بالکل اسی طرح اگر مگر لیکن چونکہ چنانچہ میں الجھی نظر آئیں جیسے وہ طالبان اور تکفیریت کی مذمت کرتے ھوئے نظر آتی ھیں۔ لہذا بات کافی واضح ھے۔
مولانا فضل الرحمن کی طرح صافی صاحب نے بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ایمن الظواھری سے لیکر دیگر بڑے دہشت گردوں تک، کوئی بھی مدرسے کا طالب علم نہیں لہذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مدرسے سے شدت پسند نکلتے ھیں۔ اس بات کا جواب ٹی وی اینکر شاہزیب خانزادہ ان لا تعداد دہشت گردوں کا نام لیکر بتا چکے ھیں جو مدارس (دیوبندی مدارس) کے طالب علم تھے اور دہشت گردی میں ملوث تھے۔ ھم صرف ایک بات کا اضافہ کرنا چاہیں گے۔
دیوبندی تکفریوں کے وکیل ھر بات میں کنفیوژن پیدا کرنے میں مہارت رکھتے ھیں۔ مدارس سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کا دفاع کرنے کیلیئے یہ فورا ان دہشت گردوں کے نام گنوانا شروع کر دیتے ھیں جو مدارس کے طالب علم نہیں۔ جس سے یہ بات قطعا اس بات کی دلیل نہیں کہ آپ ان لا تعداد دہشت گردوں کو فراموش کر دیں جو دیوبندی مدارس کے طالب علم ھیں۔ کوئی بھی رائے مجموعی نتائج کو سامنے رکھ کر بنائی جاتی ھے۔ اگر ایچیسن کالج، کینگ ایڈورڈ کالج، کراچی یونیورسٹی یا بہاالدین ذکریا یونیورسٹی یا کسی بریلوی یا شیعہ سے تواتر کے ساتھ دہشت گرد برآمد ھوِں، وھاں فرقہ واریت اور شدت پسندی کی تعلیم دینے کے شواہد ملیں اور ان کی انتظامیہ ھٹ دھرمی کا مظاھرہ کرتے ھوئے ان اداروں کی مانیٹرنگ پر اعتراض کرے تو ان اداروں کو بھی اسی نظر سے دیکھا جائے گا جس سے دیوبندی اور سلفی مدارس کو دیکھا جا رھا ھے۔ حقیقت تو یہ ھے کہ جب کبھی بھی کراچی یونیورسٹی یا پنجاب یونیورسٹی کے ھاسٹل سے کوئی دہشت گرد پکڑا گیا تو تعلق جماعت اسلامی سے نکلا، جو آج کل تکفیریوں کی وکالت میں پیش پیش ھے۔ بی نظیر کے قتل میں ملوث دہشت گردوں کو ھدایات دینے والوں میں ایمن الظواھری اور مصطفی ابو یزید کا نام لیا جاتا ھے جبکہ یہ دہشت گرد مولوی سمیع الحق کے مدرسہ حقانیہ کے طالب علم تھے اور ساری منصوبہ بندی اسی مدرسہ مییں کی گئی۔ معروف صحافی سھیل وڑایچ نے یہ تمام تفصیلات اپنی کتاب میں اور ایک ٹی وی پروگرام میں بیان کی ھیں۔
Some 20 per cent of Pakistan’s Sunni Muslims would consider themselves Deobandi [12] and according to Heritage Online, nearly 65% of the total seminaries (Madrasah) in Pakistan are run by Deobandis, 25% by Barelvis, 6% by Ahle Hadith and 3% by various Shia organizations.
http://en.wikipedia.org/wiki/Deobandi
کیا یہ بات غور طلب نہیں ھے کہ پاکستان کی مسلم آبادی میں دیوبندی مکتب فکر کے حامل افراد کی تعداد محض بیس فیصد ھے جبکہ ان کے زیر انتظام چلنے والے مدارس کی تعداد پینسٹھ فیصد ھے، یعنی سب سے زیادہ۔ کیا یہ بات حیران کن نہیں؟؟؟؟ بریلوی مسلک پاکستان کا کثریتی مسلک ھےلیکن ان کے زیر انتظام مدارس کی تعداد پچیس فیصد ھے۔سلیم صافی صاحب اگر یہ تجزیہ کبھی پڑھیں تو اپنی رائے سے ھمیں ضرور نوازئے گا۔
کسی مدرسے کی بغل میں ایک عدد سکول کھول لینا مسئلے کا حل نہیں، مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ھوگا جب تک مدارس کے اندر نفرت انگیز تعلیمات اور شدت پسندی کی ترویج ختم نہیں ھوتی۔ جو کہ دیوبندی مدارس کا خاصہ ھے۔
ھم سلیم صافی سمیت دیوبندی مدارس کے تمام وکلاء کو صرف یہ مشورہ دینا چاہیں گے کہ اگر آپ کو واقعی کوئی خوف نہیں ھے تو بریلوی اور شیعہ مدارس کے طرح آپ بھی ان مدارس کی مانیٹرنگ میں تعاون کریں؟ غیر ضروری اور بے منطق توجیحات سے اور کچھ نہیں ھوگا، نلکہ آپ سب اور بے نقاب ھونگے۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=270627
There is only one solution for Pakistan’s problems.Follow the true ISLAM. What is TRUE ISLAM? AHMADIYYAT is TRUE ISLAM. This is the only solution.We call them NON MUSLIMS. They are the only one who are following true ISLAM. So far they have not produced any terrorist or killed anybody in the name of ISLAM. May ALLAH guide you to right path. AMEN
BHERH K ROOP MAIN BHERHEAY HAIN SARY MIRZAE, yeh begherat aman kaim krengy kufr ke tarveej k sath!!!!!!!!
mujhy herat ha is colum k likhny waly pr jo kehta ha k 20% deobandi 65% madaris chala rhy hain jb k chandy or nazrany k leay hr gali chorahy py dabba tumhara rakha hota ha, tum log islam k 72 departments main sy kisi aik bhe shohba main kam kr rhy ho to batao, jis deobandi firka k khilaaf bakwas kr rhy ho woh islam k hr shoba main khidmaat dy rha ha, chahy woh tablegh ho, dars e nizami ho, jihad ho, namoos e risalat ho, ya namoos e sahaba.
tum bht barhy aman pasand ho jo mery NABI S.A.W.W ke gustakhi krny waly, amma aisha siddiqa py tano tashni krny waly ko apna bhai keh kr aman kaim krny chaly ho. LANAT HA ESY AMAN PY K JISY KAIM KRNY K LEAY MAIN APNY AQA S.A.W.W OR UN KE UMMAHAAT OR SAHABA E KARAM R.A KE GUSTAKHI PY KHAMOSH RAHON. SHAME ON YOU. HALWY MAIN DOOB MARO.