تبلیغی جماعت، دہشت گردی اور خاموشی – عمار کاظمی

B5nLiBQCYAABWk4

اگر دو مختلف نظریات و مسالک کے لوگ ساتھ ساتھ کھڑے امن کی تبلیغ کر رہے ہوں اور ان میں سے ایک کو اس کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کے ہمراہ متواتر قتل کیا جاتا رہے اور دوسرا اشتہاری دہشت گردوں کے ساتھ بھی امن کی تبلیغ محفوظ طریقے سے کرتا رہے تو یقینی طور پر عام لوگوں کی اکثریت اسی کے پاس جانا پسند کرے گی کہ وہاں کم از کم زندگی تو محفوظ ہوتی ہے۔ بس آپ اسے حسن اتفاق سمجھ لیں یا طریقہ ء واردات مگر تبلیغی جماعت کی کامیابی کا راز انہی چند سطور میں پوشیدہ ہے۔

یہ سب لکھنے مقصد کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں تھا۔ امن پسند کہلانے یا سمجھے جانے کا سیدھا اور سادہ فلسفہ بیان کیا ہے۔ اگر تبلیغی لوگ امن اور خود اپنے مسلک کی عزت و حرمت کے لیے مخلص ہوتے تو وہ اس وقت احمدی،شیعہ، کرسچن اور سنی بریلوی کے ساتھ کھڑے ہو کر فرقہ واریت کے خلاف جہاد کا اعلان کر چکے ہوتے اور اپنی صفوں کو دہشت گردوں سے پاک کر چکے ہوتے۔ مگر شاید انھیں یہی سوٹ کرتا ہے کہ وہ اس معاملے میں خاموش رہیں، امن شانتی کی باتیں کرتے رہیں، ان کے مخالف نظریات و مسالک کے لوگ مرتے رہیں اور وہ بلا خوف و خطر دنیا کے طول و عرض میں اپنی تبلیغ جاری رکھیں۔ انھیں اس بات سے کوی تعلق نہ ہو کہ ان کے اپنے اجتماع میں کتنے اشتہاری قاتل شامل ہوتے ہوں۔ ان کے ہمساے اور مکتب فکر میں کتنے گلے کاٹنے والے شامل ہوں۔ بس انھیں خود کو پیاری پیاری باتیں کر کے امن پسند اور پڑھے لکھے اور بدت و شرک فری اسلام کا داعی ثابت کرنا ہے۔ معذرت کے ساتھ یہ محض ایک سیاسی فکر و حکمت عملی ہی کہلا سکتی ہے روحانیت، انسانیت یا دین کی خدمت نہیں۔

سبھی مسالک کے پاس ہتھیار ہو سکتے ہیں مگر کسی کے پاس اتنا بارود نہیں ہو سکتا کہ وہ خود کش جیکٹس اور بم تیار کر سکے۔ ستر ہزار کے قتل کا کھرا ایک ہی جگہ جاتا ہے تو اگر کوئی اب اپنی حفاظت کے لیے ہتھیار رکھتا ہے تو وہ بہتر ہی کرتا ہے کہ خود کشی سے بہتر ہے انسان لڑ کے مر جاے۔ انصاف کا تقازا ہے کہ اس سب کی بنیاد میں جا کر دیکھا جا ئے کہ کس نے یہ قتل غارت شروع کی؟ کون سب سے زیادہ قتل کر رہا ہے؟ کس کے لوگ سب سے زیادہ مارے گئے یا مارے جا رہے ہیں؟ ابتدا سے انتہا تک پہنچتے پہنچتے کتنے گریباں چاک ہوئےاور کتنے آنگن ویران ہوئے کھلی انکھوں سے یہ سب دیکھنا بھی ضروری ہے۔

تبصرہ از ماہ جبیں

تبلیغی جماعت دہشتگردوں کی پناہ گاہ ہے، تبلیغی جماعت کے سامان میں بارود منتقل کیا جاتا ہے، پشاورتبلیغی مرکز کا سانحہ اسی بارود کے چلنے کا ایک ثبوت تھا ہمیں دہشتگردی کے خلاف استقامت اور بہادری سے ڈٹے رہنے والوں کا ساتھ دینا چاہئیے، چاہے ہم فکری طور پر ان سے متفق نہ ہوں، موجودہ حالات میں یہی ہماری قومی حکمت عملی ہونی چاہئیے_
اس مرتبہ ہم سب عید میلاد منائیں گے
دیوبندی ہمیں دہشت زدہ نہیں کر پائیں گے
عید میلاد کا جشن دہشتگردی کے مقابلے میں بہادری کا استعارہ بن جانا چاہئیے_

یوبندی، جماعت اسلامی اور دیگر اپنے سب اختلافات کے باوجود عوام کو ڈرانے اور دہشت زدہ کرنے کی حکمت عملی پر متفق ہیں، اس دہشتگردی کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو بھی عملی میدان میں متحد ہونا ہو گا

 

Comments

comments

Latest Comments
  1. Akmal
    -