جاوید چودھری اور دیگر کی جانب سے میلادالنبی اور عاشور کے جلوسوں پر پابندی سیکولر مطالبہ نہیں بلکہ دیوبندی وہابی فاشزم ہے

Daily Express

ادارتی نوٹ : ادارہ تعمیر پاکستان روزنامہ ایکسپریس کے کالم نگار اور ایکسپریس نیوز چینل کے اینکر پرسن جاوید چودھری کی جانب سے پاکستان میں مذھبی اجتماعات اور جلوسوں کو چاردیواری تک محدود کرنے کے مطالبے کو غلط خیال کرتا ہے – عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب آتے ہی اس موقعہ پر اس قسم کی تجویز دینا پاکستان میں دیوبندی وہابی تکفیری فسطائیت کے ایجنڈے کو بالواسطہ طور پر تقویت دینا ہے – جاوید چودھری مذھب کو انفرادی حثیت تک محدود کرنے کی جو تشریح فرمارہے ہیں وہ ایسی تشریح اور تعبیر ہے جو سیکولر ازم کے داعی ملکوں میں بھی کہیں نافذ العمل نہیں ہے ، جبکہ پاکستان کے اندر خاص طور پر دیوبندی تکفیری تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان جوکہ اہلسنت والجماعت کے نام سے کام کررہی ہے کی جانب سے مسلسل عاشورہ محرم ، عید میلاد النبی کے جلوسوں ، محافل نعت کے کھلی جگہوں پر انعقاد ، عرس و میلوں کے انعقاد ، مجالس و جلوس ہائے عزاداری پر پابندی لگانے اور ان کو چاردیواری تک محدود کردینے کے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں بلکہ دیوبندی تکفیری فاشزم کے علمبرداروں نے تو ریاست کو بلیک میل کرکے اور ریاستی اداروں میں بیٹھی تکفیری لابی کی مدد سے صوفی ازم اور صوفی سنّی و شیعہ مسلمانوں کے ثقافتی شعائر کو چاردیواری کے اندر محدود کرنے کی اپنی سی بھرپور کوشش بھی کردیکھی ہے اور اس عمل کو دھشت گردی کے زریعے سے بھی روکنے کی کوشش کی گئی ہے
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوس اور عاشورہ محرم کے جلوس ، مجالس عزا صوفی سنّی اور شیعہ مسلمانوں کے مسالک کے امتیازی شعائر ہیں اور ان کو چاردیواری تک محدود کرنے کا مطالبہ ان کی مذھبی آزادی پر قدغن لگانے کے مترادف ہے اور اسے ” مذھب کو انفرادی حثیت میں لانے ” یا سیکولر ازم ” کی مسخ تعریف بیان کرکے لاگو کرنے کی کوشش کرنا کھلی بددیانتی اور دیوبندی وہابی ازم کی طرف داری کرنا ہے
دیوبندی اور اہل حدیث ، جماعت اسلامی والے اگر ولادت پیغمبر علیہ الصلوات و التسلیم کے دن کو بطور عید نہیں منانا چاہتے ، نہ منائیں ، وہ اگر شہادت امام حسین و دیگر آئمہ اہل بیت اطہار کی یاد میں اور غم میں جلوس اور مجالس عزا نہیں منعقد کرنا چاہتے نہ کریں ، ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسے بدعت خیال کریں ، غیر اسلامی مانیں ، شرک مانیں اور ان سب سے دور رہیں لیکن ان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ صوفی سںّیوں اور اہل تشیع کو ان کے عقیدے کے مطابق جشن عید میلاد النبی اور عاشورہ محرم کا غم اپنے طریقے سے منانے سے نہیں روک سکتے اور اس طرح سے جبری روک تھام کرنا اور ریاست کو اس پر پابندی لگآنے کے لیے کہنا صوفی سنّی اور شیعہ کی مذھبی آزادی میں روکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے
جاوید چودھری سے پہلے یہ مطالبہ جیو کے اینکر ، صحافی حامد میر نے بھی اپنے ایک کالم میں عاشورہ محرم میں کیا تھا اور کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان جو اب اہل سنت والجماعت کے نام سے کام کررہی ہے کہ جملہ تکفیری دیوبندی رہنماء محمد احمد لدھیانوی ، قاری خادم ڈھلوں ، اورنگ زیب فاروقی ، ملک اسحاق بھی کرتے رہے ہیں بلکہ ان کی تنظیم کے بنیادی مقاصد میں سے یہ ایک اہم مقصد ہے
کس قدر عجیب بات ہے کہ ایک دھشت گرد ، انتہاہ پسند تنظیم اور پاکستانی میڈیا کے اندر بیٹھے ہوئے چند نام نہاد اعتدال پسند ، معتدل اور حامد میر کے بقول لبرل مسلمانیت کے حامل اینکرز ، صحافی اور کالم نگار دونوں کے ںزدیک پاکستان کے اندر ” امن کا قیام ” اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ” جشن عید میلاد النبی ” اور محرم الحرام ” کے جلوسوں پر پابندی لگادی جائے ، گویا صوفی سنّیوں اور شیعہ کی مذذبی آزادی اور مذھبی حقوق پاکستان کے اندر امن اور اعتدال پسندی کی راہ میں روکاوٹ بنے ہوئے ہیں
اعتدال پسندی اور امن کا فارمولہ بھی اس ملک کی دیوبندی ملائيت نے اگر طے کرنا ہے تو پھر یہاں بسنے والے شیعہ ، صوفی سنّی ، احمدی ، ہندؤ اور عیسائيوں کو چلے جانا چاہئيے
عاشورہ محرم اور عید میلادالنبی کے جلوسوں پر پابندی صرف اور صرف سعودیہ عرب اور چند ایک عرب وہابی ریاستوں میں ہے جبکہ پوری دنیا میں ایسی کوئی پابندی نہيں ہے اور دنیا کا کوئی مذھب ، کوئی فرقہ ماسوائے دیوبندی وہابی تکفیریوں اور ان کے حامیوں کے ان کو اپنی مذھبی آزادی اور اپنے مذھبی حقوق اور مذھبی اظہار کی راہ میں روکاوٹ خیال نہیں کرتا اور نہ ہی اس پر پابندی لگآنے یا خود کش بم حملوں کے زریعے سے ان کو بند کرانے کی کوشش نہیں کرتا
یہ شیخ ابن تیمیہ ، محمدبن عبدالوہاب ، اسماعیل دھلوی ، سید احمد بریلوی ، مفتی رشید احمد گنگوہی ، ، خلیل احمد انبھٹوی ۔ غلام اللہ خان چکڑالوی ،سید مودودی ،حق نواز جھنگوی ، ضیاء الرحمان فاروقی کے خیالات پر استوار ہونے والی تکفیری ،انتہا پسندانہ وہابی فکر ہے جس کو یہ جلوس امن و امان اور اعتدال پسندی کی راہ میں روکاوٹ نظر آتے ہیں یا پھر ان کے بھائی بند جو غیر فرقہ پرست ، لبرل ، سیکولر ہونے کے دعوے دار ہیں مگر اندر سے وہ ان سے ملے ہوئے ہیں اسے انتہا پسندی کے فروغ میں اہم کردار کا مالک سمجھتے ہیں
ہم یہ سوال ان نام نہاد غیرجانبدار صحافیوں اور کالم نگاروں سے کرنا چاہتے ہیں کہ انھوں نے جب بھی ” مذھب کی انفرادی حثیت ” کا ڈھونڈرا پیٹا وہ محرم کے آغاز یا ربیع الاول کے شروع ہونے پر پیٹا لیکن یہی کالم نگار اور اینکر آجتک نام نہاد ” جہادی اجتماعات ” “جہادی کانفرنسوں ” پر نہیں بولے اور ان کے انعقاد پر تو یہ ماضی میں داد و تحسین کے ڈونگرے تک برساتے نظر آئے
جاوید چودھری اور حامد میر جیسے صحافی تو اس لیے اور زیادہ مشکوک ٹھہرتے ہیں کہ یہ وہابی دیوبندی عسکریت پسندی کی تعلیم و ترغیت دینے والے رسالوں اور جریدوں میں قلمی ناموں ( یاسر خان (ضرب مومن میں جاوید چودھری کا قلمی نام ) اور ابو معاز غزوہ میں حامد میر کا قلمی نام )سے لکھتے رہے اور دیوبندی وہابی عسکریت پسند تنظیموں کا ” جہادی صحافتی کورس ” بھی کرواتے رہے ، اس معاملے میں مجیب الرحمان شامی ، مرحوم مجید نظامی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے
صحافت کی دنیا میں یہ قومی سطح کے کالم نگآر ، اینکر پرسن اور صحافی ہرگز غیر فرقہ پرست نہیں ہیں اور ان کے اندر دیوبندی وہابی تعصبات پوری طرح سے رچے بسے ہيں جن کا اظہار یہ ملفوف انداز میں کرتے رہتے ہيں اور ان کا کام ہی دیوبندی وہابی تکفیری ازم کو سیکولر یا لبرل اصطلاحوں ميں پروان چڑھانا ہے

Comments

comments

Latest Comments
  1. veraad
    -