راجہ گدھ کے بچے -از عمار کاظمی

index

ايک عرصہ سے بول ٹی وی کی دھوم مارکیٹ میں سنای دے رہی ہے۔ تاہم اس کے پيچھے کون ہے يا اس کے مالکان کون ہیں؟ یہ بات ابھی تک ايک معمہ ہی ہے۔ ايک سينير صحافی، اور قابل احترام دوست نے اس کے بارے میں کافی عرصہ پہلے مجھ سے کچھ معلومات شیر کی تھیں۔ شروع میں میں نے ان کی بات پر کچھ خاص توجہ نہیں دی کہ ان کا تعلق بھی پاکستان کے بڑے میڈيا گروپ سے ہے تو ميرا خيال تھا کہ یہ ان کے گروپ کی طرف سے پراپيگنڈہ مہم بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم مختلف اينکرز کی طرف سے اپنے اچھے بھلے معروف ٹی وی چينلز چھوڑ کر جانے کی جو پيشگی اطلاع انھوں نے دی تھی وہ حرف بہ حرف درست نکلی

محترم دوست کی غير مصدقہ اطلاعات کے مطابق بول ٹی وی کے مالکان میں داود ابراہيم کا نام بھی شامل ليا جا رہا ہے۔ تاہم اسی دوست کی اطلاعات کے مطابق تنخواہیں ادا کرنے کا بیڑا ملک رياض نے سمبھال رکھا ہے۔ مالکان مين باقی کون لوگ شامل ہیں ان کانام انھوں نے نہیں بتايا۔ جيو ٹی وی نیٹورک کے اظہر عباس نے بطور صدر اور چيف ايگزيکٹو اور جيو ہی کے کامران خان نے بطور پريزیڈنٹ اور چيف ایڈیٹر بول ٹی وی سے وابستہ ہو چکے ہیں۔ غير ممصدقہ اطلاع کے مطابق دونوں حضرات بالترتيب ايک ايک کروڑ بيس لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔ يعنی کل ملا کر دو کروڑ چاليس لاکھ۔ ان کے بعد سات اينکرز بالترتيب ايک کروڑ روپے تنخواہ وصول کر رہے ہیں جن میں جيو ٹی وی کے سينير اينکر افتخار احمد [ افتخار فتنہ]، سيد ايک کروڑ يا اس سے زيادہ ماہانہ تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ بول ٹی وی کی تشہيری مہم تو باقاعدگی سے جاری و ساری ہے مگر اس کی لانچنگ بار بار تاخير کا شکا ہو رہی ہے۔ ذراءع کے مطابق ان کے پاس ابھی تک اس کا ڈکليريشن بھی موجود نہیں اور مشنيری بھی ابھی تک امپورٹ ہونا باقی ہے۔ چوٹی کے اينکرز کو بھاری تنخواہوں پر ملازمت دينے کے علاوہ متعلقہ عملہ اور ٹيکنيکل سٹاف ابھی تک نہیں رکھا گيا۔ بتايا جا رہا ہے کہ مزکورہ ٹی وی چينل کے ان تمام اينکرز کو نہ صرف بھاری معاوضہ ديا جا رہا ہے بلکہ انھیں ايک ايک ُبلٹ پروف مرسڈيز کار بھی دی جا رہی ہے۔ افتخار احمد، کامران
خان اور اظہر عباس کو یہ گاڑيا ں پہلے سے دی جا چکی ہیں۔ اس کے علاوہ ان نوں کے صاحبان کے پيکيج میں ايک ايک لکژری فلیٹ بھی شامل ہے۔ یہ بھی بتايا گيا کہ بول ٹی وی کے نچلے طبقے يعنی چپڑاسی يا خاکروب کو بھی پينتيس ہزار تنخواہ دی جا رہی ہے يا دی جاے گی۔

یہاں ايک بات واضع کرتا چلوں کہ اس تمام انفارميشن کا کوی کاغذی ثبوت موجود نہیں۔ ذراءع کے مطابق یہ بھاری تنخواہیں مزکورہ بالا حضرات کے زاتی اکاونٹس میں براہ راست ٹرانسفرکی جا رہی ہیں۔ لہذا اس کی تصديق یہ حضرات خود ہی کر سکتے ہیں۔ مگر اس کے امکانات صفر کے برابر ہیں۔ تاہم اگر اس رياست میں کوی ايف بی آری نام کا دارہ حقيقتمیں موجود ہے تو وہ ان حضرات يا ان کے عزيز و اقارب کے اکاونٹس میں حالیہ دنوں میں منتقل کی جانےوالی رقوم سے ان کی تنخواہوں کا اندازہ بخوبی کر سکتا ہے۔ اگر یہ تمام باتیں درست ہیں تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنے سارے اينکرز کی خدمات چينل آن آءير کرنے سے اتنا عرصہ پہلے حاصل کرنے کا کيا مطلب ہے؟

يعنی اتنا عرصہ پہلے کام کیے بغير انھیں گھر پر بٹھا کر کھلانے سے آخر کيا مقاصد حاصل کیے جا رہے ہیں؟ جس حساب سے بھاری معاوضے دیے جا رہے ہیں اس کے مطابق شايد صرف تنخواہوں کو بوجھ کروڑوں يا عربوں روپے میں چلا جاءے گا۔ تو سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اس چينل کو لگانے سے عوام کو کيا ٹی وی میں سے ملک شيک کا گلاس پيش کيا جاءے گا جو وہ صرف اسی چينل کو لگا کر بیٹھے رہیں گے؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پہلے ہی ملک میں نيوز چينلز کی بھرمار ہے تو اتنا خرچہ کرنے کے بعد کيا انھیں ان کے اخراجات کے مطابق وصولی بھی ہو سکے گی کہ نہیں؟ اس چھوٹی سی مارکیٹ میں جہاں پہلے ہی نيوز چينلز کا کہرام برپا ہے وہاں یہ کتنا بزنس حاصل کر لیں گے جو اس پر اتنا خرچ کيا جا رہا ہے؟ ظاہری سی بات ہے کہ ہر طرح کے اشتہارات وصول کرنے کے باوجود اتنا پيسہ کمانا مشکل ہوگا۔ تو پھر آخر ان کے مقاصد کيا ہیں؟ نيک مقاصد میں چند لوگوں کو تو نہیں نوازا جاتا۔ پھر یہ نو فرشتہ صفت اينکرز؟ ملک میں سرمایہ داروں کی کھينچا تانی میں عوام کو پيادوں کی طرح آپس میں لڑوايا جا رہا ہے اور میڈيا اور اينکر پرسنز ٹوليوں میں بٹے طرفين سے پيسہ وصول کر رہے ہیں۔

کہیں مياں برادران، مياں منشاء، آصف زرداری اور مير شکيل الرحمن کی لاءن سيدھی ہے تو کہیں یہ حضرات ميدان میں کود رہے ہیں۔عمران خان دن رات سرمایہ داروں کی کرپشن کا رونا روتے ہیں ليکن چند ايک کو چھوڑ کر باقی تمام چوٹی کےسرمایہ داروں سے انھیں بھی کوءی اختلاف نہیں ہوتا۔ جبکہ جہانگير ترين اور خورشيد قصوری تو ان کی پارٹی کے اہم عديدار بھی ہیں۔ جس غريب، معاشی و سماجی طور پر پسماندہ رياست میں ڈاکٹر سے لے کر انجنير، ڈيزاءنرز اور ديگر شعبوں کے اعلی تعليم يافتہ اور تربيت يافتہ لوگ سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہیں وہاں پاکستانی سرمایہ دار کی بدنيتی يا معاشرے میں پھيلی مکمل بدعنوانی کا اندازہ لگانے کے لیے اس سے بہتر اور کيا پيمانہ ہو سکتا کہ اينکر پرسنز کو پہلے لاکھوں [ جو کہ ثابت شدہ حقيقت ہے ] اور اب کروڑ سے اوپر تنخواہ ادا کی جا رہی ہے؟ روايتی میڈيا مالکان نے اپنی بليک ميلنگ سے لوگوں کو کچھ ايسا راستہ تو اب میں حاصل کردہ معلومات پر محتاط انداز میں لکھنے پر مجبور ہوں۔

تلعت حسين، وسيم بادامی، جيسمين منظور، عاصمہ شيرازی اور دکھا ديا ہے کہ ايک ايک کر کے تمام سرمایہ دار اپنے زاتی نيوز چينلز کھولنے مين دلچسپی لے رہے ہیں۔ ايسا لگتا ہے کہ یہ رياست ايک مردہ جانورہے اور یہ سرمایہ دار، اينکر پرسنز، سرکاری ملازمين، سول ملٹری بيورو کريسی، جج صاحبان، سياستدان سب کے سب چھوٹے بڑے گدھ ہیں جو اس کو ہر طرف سے نوچ نوچ کر کھا رہےہیں۔ ايسٹ انڈيا کمپنی کا راجہ گدھ سينتاليس مين کو بھنبوڑنے کے لیے یہیں چھوڑ گيا۔

نوٹ: واضع رہے کہ بول ٹی وی کے حوالے سے تمام معلومات کے لیے “غير مصدقہ” کا لفظ احتياطا استعمال کيا گيا ہے۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. Hali Zaidi
    -