تبلیغی اجتماع – عمار کاظمی

Tableeghi

 

تقریبا گزشتہ ایک ہفتہ سے لاہور شہر میں مختلف سڑکیں بند ہیں۔ چند روز پہلے لبرٹی جانے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ لبرٹی گول چکر سے حسین چوک تک ایک سائیڈ بند کر دی گءی ہے۔ وجہ پوچھی تو پتا چلا کہ یہاں تبلیغی اکٹھے ہو کر اجتماع میں جانے والے ہیں۔ آج بھاءی کے گھر جانا تھا تو شوکت خانم چوک پر خیابان جناح سے رائیونڈ روڈ پر جانے کا راستہ بند تھا۔ سڑک پر بیریئر لگا تھا اور ساتھ کچھ پولیس والے کھڑے تھے۔ اتر کر پچھو کہ کیا رائیونڈ روڈ پر جانے کے لیے کوءی دوسرا راستہ ہے؟ تو جواب ملا کہ راءیونڈ روڈ شام پانچ بجے تک مکمل طور پر بند ہے اور اس کے علاوہ لاہور ملتان روڈ بھی بند ہے۔ دیوبند حضرات کے لاکھوں لوگوں کے اس انتہائی پر امن اور امن پسند اجتماع کے باوجود پاکستان کے ننانوے فیصد دہشت گردوں کا تعلق دیوبند مکتب فکر سے ثابت ہوتا ہے۔ اور اس تعداد میں روز بہ بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں بہت سے سوال ہیں۔ مثال کے طور پر جیسے جیسے اجتماع کے شرکاء کی تعداد مین اضافہ ہورہا ہے ویسے ویسے پاکستان کے دیوبند مکتب فکر میں انتہا پسندوں کی تعداد میں اضافہ کیوں ہوتا چلا جا رہا ہے؟ آخر اس عظیم ، پر امن اور بظاہر امن پسند اجتماع کے مقاصد کیا ہیں؟ ان کی تبلیغ سے حاصل کیا ہو رہا ہے؟ آج تک مولانا طارق جمیل صاحب جن کے مداح شاید کسی بھی دوسری مذہبی شخصیت سے زیادہ ہیں۔ انھوں نے اپنے مسلک سے یہ انتہا پسند رویے ختم کرنے میں کیا کردار ادا کیا ہے؟

تبصرہ از عبدل نیشاپوری

پاکستانی معاشرے میں گزشتہ چند دہائیوں میں دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والی تبلیغی جماعت نے لاکھوں سنی مسلمانوں میں دیوبندی مسلک کو فروغ دیا ہے یہ اپنے مسلک کی تبلیغ کا کام نہایت پر امن اور منظم طریقے سے کرتے ہیں لیکن جیسے جیسے ان کی جماعت زور پکڑ رہی ہے ویسے ہی معاشرے میں تکفیری سوچ، فرقہ واریت اور تشدد بھی پروان چڑھ رہا ہے – کچھ ایسے بھی واقعات ہوۓ ہیں جن میں تبلیغی جماعت کی صفوں میں کالعدم تکفیری خارجی دہشت گردوں کی موجودگی کا ثبوت ملا – عام لوگوں کی کیا سوچ ہے اس کی ایک مثال عامر حسینی اپنے ایک دوست رضوان عطا کے توسط سے پیش کرتے ہیں، ملاحظہ کریں

ماہ محرم میں میرے بچوں نے چند سوالات کرنا شروع کردیے۔ امام حسین کو شیعوں نے مارا تھا اس لیے ماتم کرتے ہیں؟ کیا شیعوں کے گھر سے آنے والا کھانا کھانا چاہیے! کیا وہ کھانے میں تھوک ملاتے ہیں؟ کیا وہ مسلمان ہیں؟ اور ایسے ہی کچھ اور سوالات۔ اب صاف ظاہر ہے یہ سوالات زیادہ تر اپنے ہم عمروں سے ہونے والی باتوں سے ان کے معصوم ذہنوں میں اٹھے یا کبھی بڑوں کی باتیں انہوں نے سنیں۔ اور اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ معاشرے میں اہلِ تشیع کے خلاف تعصب کس حد تک پہنچا ہوا ہے۔ لاہور میں شیعہ اپنا تشخص نہیں چھپاتے البتہ وہ کسی مسلکی بحث سے گریز کرتے ہیں، چاہے وہ دوست ہی کیوں نہ ہوں۔ میں نے لاہور کے انڈر پاس میں ایک مٹا ہوا نعرہ بھی دیکھا ہے وہی “کافر کافر۔۔۔۔”۔ یہاں داعش کی حمایت میں چند مقامات پر پوسٹر بھی لگے ہیں۔ اب تعصب اور انسانوں کو باٹنے کے خلاف لڑائی اسی زمین پر ہے ۔ اس کے تجزیے میں مقامی، ملکی پہلؤوں کو پہلے اہمیت دینے اور پھر بیرونی کو دینے کی ضرورت ہے، گرچہ ان کا آپس میں رشتہ ہے۔ اسے ایران سعودی عرب لڑائی قرار دے کر دھندلانا نہیں چاہیے۔ بیرونی ہاتھوں ہی کی تلاش میں رہنا عموماً اس مسئلے سے گریز کرنے کا ایک راستہ بن جاتا ہے۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. dr muhammad shoaib
    -
  2. dr muhammad shoaib
    -